معیشت ِ پاکستان کے نشیب و فراز
2019ء میں معاشی سرگرمیوں کے دوران جنم لینے والی کامیابیوں اور ناکامیوں کا معلومات افروز احوال
موریہائی اوشیبا (متوفی 1969ء) جاپان میں مارشل آرٹس کا مشہور استاد گزرا ہے۔ مارشل آرٹس کی ایک قسم، اکیدو کا بانی ہے۔ موریہائی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ سیاست، معیشت اور عمرانیات کے مختلف النوع شعبوں پر بھی دسترس رکھتا تھا۔
اس کا منفرد قول ہے ''ہر انسانی معاشرے کی بنیاد معیشت ہے۔معیشت مضبوط و مستحکم ہو، تو معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ آئیڈیل معیشت وہ ہے جس میں دین اور دنیا، دونوں کا ملاپ ہو اور صنعت و تجارت کرنے کے بہترین ہتھیار دیانت داری اور محبت بن جائیں۔'' یہ سبق آموز قول انسانی معاشرے میں معیشت کی اہمیت بخوبی اجاگر کرتا ہے۔
پاکستان میں عوام خواص کو حکمران طبقے سے سب سے بڑی شکایت یہی رہی ہے کہ وہ تقریباً ربع صدی گذر جانے کے باوجود بھی قومی معیشت مضبوط و مستحکم نہیں بناسکا۔ جو بھی حکومت آئے وہ معیشت سدھارنے کے بلند و بالا دعویٰ ضرور کرتی ہے مگر عملی طور پر کروڑوں پاکستانیوں کو غربت و مفلسی کی دلدل سے نہیں نکال پاتی۔ نتیجتاً آج بھی کم از کم سات تا آٹھ کروڑ پاکستانی زندگی کی بنیادی ضروریات مثلاً صاف پانی، اچھی غذا، عمدہ طبی علاج اور معیاری تعلیم سے محروم ہیں۔ حتیٰ کہ اکثر پاکستانیوں کو پیٹ بھرنے کی خاطر روزانہ بہت تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ ایسے میں خصوصاً کھانے پینے کی اشیا اور دیگر عام ضروریات مہنگی ہوجائیں، تو زندگی مزید تلخ ہوجاتی ہے۔
مہنگائی کی یلغار
2019ء میں اناج، سبزی، پھلوں اور دیگر اشیائے ضرورت کی بڑھتی قیمتوں نے نچلے و متوسط طبقوں کو پریشان کیے رکھا ۔ سچ یہ ہے کہ اس سال مہنگائی کا جن عوام پر سوار رہا اور تقریباً ہر شے کے دام بڑھ گئے۔ مہنگائی نے خصوصاً نچلے طبقے کو ازحد متاثر کیا جس کی آمدن کا بیشتر حصہ کھانے پینے کے اخراجات پر صرف ہوتا ہے۔
ظاہر ہے،جب آٹا، دال اور گھی مہنگا ہو تو محدود آمدنی والے گھرانے میں سارا بجٹ متاثر ہوجاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے ، پاکستانی روپے کی قدر میں کمی، ٹیکسوں کی شرح اور بجلی و تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کے باعث پی ٹی آئی دور حکومت میں مہنگائی نے جنم لیا ۔ایک وقت میں تو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت 35 فیصد تک گر گئی تھی۔جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ بھارت سے غذائیں اور منڈیوں میں تازہ پیداوار نہ آنے سے غذاؤں کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ انہی بڑھتی قیمتوں نے مہنگائی بھی بڑھا دی جس کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔
فی الوقت پاکستان میں مہنگائی کی شرح (افراط زر) 13 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ بھارت میں یہ شرح 6 فیصد جبکہ بنگلہ دیش میں5 فیصد ہے۔ پاکستانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ منڈیوں میں نئی فصلیں آنے سے غذاؤں کی قیمتیں کم ہوجائیں گی۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی غذائیں بیرون ملک بھجوانے اور ان کی اسمگلنگ سے بھی پاکستان میں سبزی و پھل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ ان کے نزدیک 2020ء میں بھی مہنگائی میں اضافہ جاری رہے گا۔
بہتری کے حکومتی دعوی
حکومت کی معاشی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ 2019ء میں معیشت پاکستان بہتر ہوئی۔ مشیر وزارت خزانہ، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، وزیر مملکت برائے معاشی امور حماد اظہر، گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر اور چیئرمین ایف بی آر، شبر زیدی اس حکومتی معاشی ٹیم کے نمایاں ارکان ہیں۔ ان ارکان کا دعویٰ ہے کہ 2019ء میں درآمدات گھٹنے سے تجارتی خسارہ (کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ) کم ہوا،حکومتی آمدن بڑھ گئی، غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا، ملکی سرمایہ کاروں نے بھی پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی جس سے انڈکس اوپر چلا گیا۔
اکتوبر تا دسمبر کے آخری تین ماہ میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج دنیا کی بہترین سٹاک مارکیٹ قرار پایا۔ مزید براں 2019ء کے آخری مہینوں میں حکومت کی آمدن بھی بڑھ گئی جو معاشی ترقی کی دلیل ہے۔
حکومتی ٹیم کے مطابق ایک سال کے دوران تجارتی خسارے میں 36 فیصد کمی آئی ۔ پچھلے سے پچھلے مالی سال (2108-19ء )وہ 19 ارب ڈالر تھا جو اس برس 12.75 ارب ڈالر رہ گیا۔2019ء میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی پچھلے سال کی نسبت زیادہ غیرملکی زر مبادلہ اپنے وطن منتقل کیا۔اس عمل سے بھی تجارتی خسارہ کم ہونے میں مدد ملی۔ اسی دوران برآمدات میں 4 فیصد اضافہ ہوا جو عمدہ معاشی تبدیلی ہے۔اسی طرح حالیہ مالی سال (جولائی 2019ء تا جون 2020ء) کے پہلے پانچ ماہ حکومت کی آمدن میں پچھلے مالی سال کی نسبت 17 فیصد اضافہ ہوا جو خوش آئند امر ہے۔
گویا حکومت کی آمدن زیادہ ہوگئی اور اخراجات کم۔مشیر خزانہ نے کچھ عرصہ قبل ایک پریس کانفرنس میں قوم کو مطلع کیا کہ عالمی بینک کے صدر نے پاکستانی معاشی ٹیم کی کارکردگی کو سراہا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی پاکستان کے لیے مختص قرضے کی رقم میں 3 ارب ڈالر کا اضافہ کردیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان پر اعتماد کرنے لگے ہیں۔یہ واضح رہے مسلم لیگ ن کے آخری مالی سال (2017-18ء) میں پاکستان کی برآمدات 19 ارب ڈالر مالیت رکھتی تھیں۔ جبکہ پاکستان57 ارب ڈالر کا سامان بیرون ممالک سے منگوا رہا تھا۔ گویا ہمارا تجارتی خسارہ 38 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ اگر بیرون پاکستان سے پاکستانیوں کے بھیجے گئے 19 ارب ڈالر شامل کئے جائیں تب بھی تجارتی خسارہ 19ارب ڈالر بنتا ہے۔ یہ تب تاریخ پاکستان میں سب سے بڑا تجارتی خسارہ تھا۔
آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کی معاشی صورتحال پر اظہار اطمینان کیا۔ اسی دوران سرمایہ کاری کے لحاظ سے ممالک کی درجہ بندی کرنے والی عالمی ایجنسی، موڈیز نے بھی پاکستان کی ریٹنگ ''بی 3 منفی'' سے ''بی 3۔ مستحکم'' کردی۔ حکومتی ٹیم کا دعویٰ ہے، اس سے بیرونی سرمایہ کاروں کو یہ پیغام ملا کہ پاکستان سرمایہ لگانے کے لیے محفوظ مملکت ہے۔حکومتی ٹیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت جاری مالی سال میں غیر ٹیکس ذرائع آمدن سے 1200 ارب روپے جمع کرنے کا ٹارگٹ پانے میں کامیاب ہوجائے گی۔
البتہ درآمدات کم ہونے سے ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی حکومتی آمدن میں کمی واقع ہوگئی۔ تاہم مشیر خزانہ ایف بی آر کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ نامساعد حالات کے باوجود اپنی آمدن 17 فیصد بڑھانے میں کامیاب رہا۔یوں بجٹ خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی۔حکومت سے باہر موجود ماہرین معاشیات مگر تصویر کا دوسرا رخ سامنے لاتے ہیں جو پی ٹی آئی حکومت کے لیے خوشگوار اور امید افزا نہیں۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمدات میں کمی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعد شرح سود میں مسلسل اضافے کے سبب پاکستان میں صنعتی و کاروباری سرگرمیاں بہت کم رہ گئی ہیں۔
ماہ نومبر میں یہ شرح 13.25 فیصد تک پہنچ گئی جو پاکستان کی تاریخ میں بلند ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان کے صنعتی ،تجارتی و کاروباری ادارے اب مصنوعات کی مانگ میں کمی اور سرمایہ کم ہونے کی بنا پر بیرون ممالک سے بہت کم مال منگوا رہے ہیں۔ صنعتی و کاروباری سرگرمیوں کی بندش کے باعث ہی پاکستان میں پچھلے ڈیڑھ برس کے دوران تقریباً دس لاکھ افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ٹیکسوں اور بجلی و تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ بھی کاروباری سرگرمیاں ماند کرگیا۔
ٹیکس چوری کے خلاف مہم
حکومتی ٹیم کا کہنا ہے کہ جب حکومت نے قومی معیشت کو دستاویزی بنانے اور امرا کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی مہم کا آغاز کیا، تو صنعتی و کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے معاشی سرگرمیوں سے اپنا سرمایہ نکال لیا۔ معاشی سرگرمیاں سست پڑنے کی بنیادی وجہ یہ ہے۔ گویا بہت سے صنعتکار، کاروباری اور تاجر ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتے۔ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کی معیشت کا بڑا حصہ پہلے کی طرح غیر دستاویزی ہی رہے اور ان سے ذرائع آمدن کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ مگر پی ٹی آئی حکومت قومی معیشت کو زیادہ سے زیادہ دستاویزی بنانا چاہتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدن میں اضافہ ہوسکے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں حکومتیں ٹیکسوں سے حاصل شدہ آمدن کے ذریعے ہی مملکت کا انتظام چلاتی ہیں۔ یا پھر بعض ممالک جیسے سعودی عرب قدرتی وسائل (تیل) بیچ کر کمائی کرتے ہیں۔ سعودی عرب میں بھی عوام پر مختلف اقسام کے ٹیکس لگے ہیں اور عام لوگوں کووہ دینے پڑتے ہیں۔ولی عہد شہزادہ سلمان نے حکومت سنبھالتے ہی ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی تھی۔نیز سعودیوں کو جو مختلف سبسڈیاں دی جاتی تھیں،وہ بھی کم یا ختم کر دیں۔
سعودی عوام نے اس تبدیلی پر ناک بھوں چڑھائی، سوشل میڈیا پر احتجاج کیا مگر ہر شہری کو تمام متعلقہ ٹیکس دینے پڑتے ہیں۔ پاکستان میں مگر بہت کم لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔وجہ یہ کہ یہاں یہ نظریہ جڑ پکڑ چکا ، ٹیکسوں کی رقم کا بیشتر حصہ حکمران طبقہ (خصوصاً سیاست داں اور بیورو کریسی) کھا جاتا ہے۔ لہٰذا ٹیکس ادا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس سے بہتر ہے ٹیکسوں کی رقم کسی سماجی تنظیم کو دے دی جائے۔ اسی لیے پاکستانی دنیا میں مخیر ترین قوم سمجھے جاتے ہیں۔
جب آمدن نہیں بڑھی جبکہ سرکاری اخراجات بڑھتے رہے تو پاکستانی حکمران طبقے نے اخراجات پورے کرنے کی خاطر عالمی و قومی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے کا نسخہ دریافت کرلیا۔ اس نسخے کا صحیح معنوں میں چلن جنرل ضیاء الحق کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں کے دور سے شروع ہوا۔یہ جمہوری حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ترقیاتی منصوبے بنانے کے نام پر امیر ممالک سے لے کر عالمی مالیاتی اداروں تک، سب سے بھاری قرضے لینے لگیں۔ جب 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے حکومت سنبھالی، تو قرضے لینے کا چلن جڑ پکڑ چکا تھا۔ لہٰذا مشرف حکومت بھی اگلے نو سال تک قرضے لے کر کاروبار مملکت چلانے میں ان سے مدد لیتی رہی۔
قرضوں کا بڑھتا بوجھ
1999ء سے 2008ء تک پاکستان پر چڑھے مجموعی یا قومی قرضے (Public Debt)میں دو گنا اضافہ ہوا اور وہ عدد آٹھ ہزار ارب ڈالر تک جاپہنچا۔ جنرل مشرف رخصت ہوئے تو قرضے لینے کا باقاعدہ دھندا شروع کرنے والے جمہوری لیڈر پھر اقتدار میں آپہنچے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ ن اگلے دس سال تک حکومت کرتی رہیں۔
ان سیاسی جماعتوں کے دور میں پاکستان پر مجموعی قرضے کی رقم آٹھ ہزار ارب روپے سے بڑھ کر تقریباً تیس ہزا ارب تک جاپہنچی۔ گویا عوامی نمائندوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قرضے لینے کا نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ ماہرین کا مگر دعویٰ ہے کہ ان کھربوں روپے سے صرف حکمران طبقے اور ان سے وابستہ حواریوں ہی نے مالی فائدہ اٹھایا، کروڑوں پاکستانی بدستور غربت کے جال میں پھنسے رہے۔ قرضوں کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہوگیا اور وہ پاکستان کی قومی معیشت مستحکم نہیں کرسکے۔
اگست 2018ء سے پی ٹی آئی نے پاک وطن کی باگ ڈور سنبھال لی۔ وزیراعظم عمران خان انتخابی جلسوں میں قوم سے سے کہتے رہے تھے کہ وہ برسراقتدار آکر قرضے نہیں لیں گے۔ لیکن جب وہ حکومتی ایوانوں میں پہنچے، تو انہیں اس تلخ سچائی کا علم ہوا کہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی، قرضے لیے بغیر کاروبار مملکت چل ہی نہیں سکتا۔ سرکاری آمدن تھوڑی تھی لہٰذا اخراجات پورے کرنے کے واسطے قرضے لینا ناگزیر تھا۔اسی لیے پی ٹی آئی حکومت بھی عالمی و مالیاتی اداروں سے قرضے لینے لگی۔
سرکاری خزانہ بالکل خالی تھا۔یہ خطرہ جنم لے چکا تھا کہ پاکستان دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم نے پھر دوست مملکتوں کے پے در پے دورے کیے تاکہ قرضے لے کر اپنے دیس کو دیوالیہ ہونے سے بچاسکیں۔ ان کی کوششیں کامیاب تو ثابت ہوئیں اور پاکستانی حکومت کو اربوں ڈالر مل گئے۔مگر سّکے کا منفی رخ یہ ہے کہ پاکستان پر مزید قرضہ چڑھ گیا جسے باہمی محبت کترنے والی قینچی کہا جاتا ہے۔
اسٹیٹ بینک پاکستان کی تازہ رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2019ء تک پاکستان پر چڑھا مجموعی قرضہ'' 32 ہزار ایک سو ستانوے ارب روپے ''تک پہنچ چکا۔ اس میں سے 21 ہزار پانچ سو سینتیس ارب روپے تو مقامی قرضہ ہے جبکہ 10 ہزار چھ سو انسٹھ ارب روپے غیر ملکی قرضہ۔ گویا پی ٹی آئی حکومت کے سولہ ماہی دور میں وطن پر چڑھے مجموعی قرضے کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد بڑھ گئی۔ اس کا مطلب یہ کہ نئی حکومت بھی ماضی کے حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قرضوں کی رقم ہی سے اپنے اخراجات پورے کررہی ہے۔ یقیناً یہ پسندیدہ روش نہیں کیونکہ قرضوں کا بوجھ کسی بھی ملک کو سیاسی و معاشی طور پر قرضے دینے والوں کا غلام بناسکتا ہے۔ قرضے دینے والے ملک و ادارے پھر حکمران طبقے سے من چاہی شرائط منواسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر پچھلے سال پی ٹی آئی حکومت کو آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر قرض لینا پڑا۔ تب اس عالمی مالیاتی ادارے کی خواہش پر ہی پاکستانی روپے کی قدر گھٹائی گئی۔ نیز ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہی بجلی، تیل اور گیس کی قیمتیں بھی حکومت بڑھانے پر مجبور ہے۔ لیکن اس سارے عمل نے پاکستان میں مہنگائی بڑھادی جس سے نچلے و متوسط طبقوں کے کروڑوں پاکستانی ہی پریشان ہوئے۔ان کی آمدن تو منجمند رہی جبکہ اخراجات پہلے سے زیادہ بڑھ گئے۔اس تبدیلی نے کروڑوں پاکستانیوں کو پریشان کر ڈالا۔
حکومت کی تین ماہی رپورٹ
قرضوں کے بوجھ کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ حکومت کو جس مد میں بھی آمدن ہو، اس کا بڑا حصہ قرضے اور ان کا سود اتارنے پر خرچ ہوجاتا ہے۔چناں چہ عوام کی ترقی اور فلاح کے منصوبے شروع کرنے کے لیے رقم ہی نہیں بچتی۔کچھ عرصہ قبل وفاقی وزارت خزانہ نے جاری مالی سال کے پہلے تین ماہ (جولائی تا ستمبر) کی آمدن و خرچ پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے جو چشم کشا حقائق وا کرتی ہے۔رپورٹ کے مطابق حکومت کو تین ماہ کے دوران ''ایک ہزار چار سو اناسی ارب روپے'' کی آمدن ہوئی۔ اس میں سے ''ایک ہزار ایک سو بیالیس ارب روپے'' ٹیکسوں کے ذریعے اور ''تین سو چھیالیس ارب روپے ''غیر ٹیکس ذرائع سے حاصل ہوئے۔ جبکہ وفاقی حکومت کا خرچ ''ایک ہزار سات سو پچھتر ارب روپے'' رہا۔ گویا حکومت کا بجٹ ''دو سو چھیاسی ارب روپے'' خسارے میں رہا۔ یہ خسارہ بیرونی اور مقامی مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر ہی پورا کیا گیا۔
اس رپورٹ کی نمایاں ترین بات یہ ہے کہ حکومتی آمدن کا سب سے بڑا حصہ یعنی ''پانچ سو اکتہر ارب اڑسٹھ کروڑ روپے'' قرضے اتارنے اور سود دینے پر خرچ ہوئے۔ دوسرا بڑا خرچہ دفاعی اخراجات کا تھا جس پر ''دو سو بیالیس ارب تریسٹھ کروڑ روپے'' خرچ ہوئے۔ ان تین ماہ میں ترقیاتی منصوبوں پر صرف ''ایک سو سینتالیس ارب سترہ روپے'' خرچ ہوئے۔ اس رقم کا بھی بیشتر حصہ منصوبوں سے منسلک ملازمین اور مشیروں کی بھاری تنخواہیں دینے پر اٹھ جاتا ہے۔ چناں چہ ترقیاتی منصوبوں پر حقیقی رقم بہت کم خرچ ہوتی ہے۔پاکستان میں ہر پورے مالی سال کے دوران حکومت کے آمدن و خرچ کی کم وبیش درج بالا صورت حال ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
عوام پر لگانے کو رقم نہیں
درج بالا سچائی سے احساس ہوتا ہے کہ جب سڑکوں پر گڑھے پڑ جائیں تو ان کی مرمت کیوں نہیں ہوتی؟ ہسپتال اور اسکول ٹوٹ پھوٹ جائیں، تو برسوں گزر جاتے ہیں اور ان کی مرمت نہیں ہوپاتی۔ اس عرصے میں بعض سرکاری عمارتیں تو کھنڈر بن جاتی ہیں۔ وجہ یہی کہ عوام کی فلاح و بہود کے کاموں اور تعلیم و صحت کے شعبوں پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں، دونوں بہت کم رقم خرچ کرتی ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں اور عوامی شعبوں کے لیے جو رقم مختص ہو، اس کا بیشتر حصہ تنخواہیں دینے پر لگ جاتا ہے۔
باقی رقم میں سے کچھ حصہ کرپشن کی نذر ہوتا ہے۔ یوں آٹے میں نمک برابر حصہ ہی عوام تک پہنچ جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس افسوسناک صورتحال میں عوام سرکاری سہولیات سے کسی طور فائدہ نہیں اٹھاسکتے بلکہ ہرجگہ خوار ہی ہوتے ہیں چاہے وہ ہسپتال ہو یا کوئی سرکاری محکمہ۔
قرضے اتارنے، دفاعی اخراجات پورے کرنے اور ترقیاتی اخراجات کے بعد وفاقی حکومت کے پاس تقریباً 620 ارب روپے بچ گئے۔ یہ رقم ان گنت سرکاری محکمے اور ادارے چلانے پر صرف ہوئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سرکاری اداروں میں سے بیشتر خسارے میں جارہے ہیں۔ ہر ماہ انہیں چلانے کی خاطر اربوں روپے خرچ کردیئے جاتے ہیں مگر انہیں بند نہیں کیا جارہا اور نہ ہی ان کی نجکاری ہوتی ہے۔ وہ حکومت کے لیے سفید ہاتھی بن چکے مگر ان سے چھٹکارا پانے کی کوئی سبیل فی الوقت دکھائی نہیں دیتی۔
قرضوں کا پہاڑ جیسا بوجھ تبھی کم ہوگا جب حکومت کی آمدن بڑھ جائے۔ اس کے بعد ہی حکومت عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ ترقیاتی منصوبے بھی شروع کرسکے گی۔ تعلیم و صحت کے اہم شعبوں کی خاطر زیادہ رقم میسر آئے گی۔ملک میں شرح خواندگی میں اضافہ ہو گا۔
غریبوں کو سستے علاج کی سہولت میّسر آئے گی۔ حکومت کی آمدن صرف دو صورتوں میں بڑھ سکتی ہے... اول یہ کہ پاکستان میں اتنا زیادہ تیل یا کوئی اور قدرتی وسیلہ دریافت ہوجائے کہ حکومت اسے مقامی و عالمی منڈیوں میں بیچ کر پیسہ کماسکے۔ دوم یہ کہ پاکستانی ایمانداری سے اپنے حصہ کے ٹیکس ادا کرنے لگیں۔حالات مدنظر رکھتے ہوئے آخری تجویز ہی قابل عمل لگتی ہے۔ مگر اس پر عمل درآمد کون کرے گا؟پاکستان میں تو تاجروں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ لین دین کے دوران ان سے شناختی کارڈ دکھانے کو کیوں کہا جا رہاہے؟یہ بتانا تو دور کی بات ہے کہ سال بھر میں انھیں کتنی آمدن ہوتی ہے اور وہ کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
ہم سب خرابی کے ذمے دار
ایف بی آر کے ڈیٹا کی رو سے پاکستان میں تقریباً پینتیس لاکھ تاجر موجود ہیں۔ ان میں سے صرف تین لاکھ بارہ ہزار ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں ۔جبکہ لاکھوں ایسے تاجر ہیں جو ہر سال ایک بار ضرور عمرہ ادا کرتے ہیں مگر ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی زحمت نہیں فرماتے۔ پچھلے مالی سال کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی اور فیصل آباد کی بڑی مارکیٹوں کے صرف ایک لاکھ چار ہزار تاجروں نے انکم ٹیکس ادا کیا۔یہ رقم صرف پینتیس ارب روپے پر مشتمل تھی۔ اب ایک اور تلخ حقیقت ملاحظہ فرمائیے۔ ملک میں پینتیس لاکھ تاجر سرگرم ہیں مگر صرف تین لاکھ بانوے ہزار نے ٹیکس دینے کے سلسلے میں خود کو رجسٹر کروا رکھا ہے۔
تجار کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششیں پچھلے چالیس برس سے جاری ہیں مگر کسی حکومت کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ایک وجہ یہ ہے کہ تجار نہ صرف سیاسی طور پر اثر و رسوخ رکھتے بلکہ مطالبات نہ ماننے پر احتجاجی مظاہرے کرنے لگتے ہیں۔ مثلاً پی ٹی آئی حکومت نے پارلیمنٹ سے یہ بل منظور کرایا کہ جو تاجر سالانہ بجلی کا بل چھ لاکھ روپے دیتا ہے۔
اسے درجہ اول (کلاس ون) کا تاجر سمجھا جائے گا۔ لہٰذا اسے 17 فیصد سیلز ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ مگر حکومتی ٹیم نے تاجروں کے ساتھ 30 اکتوبر 2019ء کو جو گیارہ نکاتی معاہدہ کیا، اس میں درج بالا بجلی کے بل کی حد بارہ لاکھ روپے کردی گئی۔ گو یا حکومت نے پارلیمنٹ میں اپنے ہی منظور کردہ قانون کا گلا گھونٹ دیا۔ حکومت و تجار کے معاہدے میں تاجروں کو مزید سہولتیں بھی دی گئیں۔ مثلاً شناختی کارڈ دکھانے کی شرط 31 جنوری 2020ء تک موخر ہوگئی۔
بعض نوجوان پاکستانی ماہرین معاشیات کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے 99 فیصد باشندے ایمانداری سے ٹیکس نہیں دیتے۔ وہ کہیں نہ کہیں ضرور ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب پاکستانی دیانت داری سے ٹیکس ہی ادا نہیں کرتے، تو کیا وہ حکومت کو ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور سرکاری ہسپتالوں اور سکولوں کیحالت زار کا ذمے دار ٹھہراسکتے ہیں؟ اس بات سے تو عیاں ہے کہ پاکستان کی معاشی بدحالی اور پستی کے ذمے دار حکومت اور یہاں کے عوام و خواص، دونوں ہیں۔
جب تک حکومت اور پاکستانی باشندے دیانت داری و سچائی نہیں اپناتے،اپنے فرائض ایمان داری سے ادا نہیں کرتے تب تک قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پاکستان ترقی پذیر، قرضوں میں جکڑا اور معاشی مسائل میں پھنسا ملک ہی رہے گا۔
وقت کم ہے اور مقابلہ سخت
اقتدار سنبھالنے سے قبل تحریک انصاف کے اکثر لیڈر بشمول عمران خان ٹیکس چوری پر کھل کر گفتگو کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس چور سیاست دانوں، جاگیرداروں، صنعت کاروں اور تاجروں کے اربوں روپے بیرون ممالک میں پڑے ہیں۔ یہ لوگ پی پی پی اور مسلم لیگ کی آشیرباد سے ٹیکس چوری کرتے ہیں۔
بدلے میں ان سیاسی جماعتوں کو الیکشن جیتنے میں مالی مدد کرتے ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں حکومت میں آکر نت نئے قوانین اور ایمنٹسی اسکیموں کے ذریعے امیر ٹیکس چوروں کو مراعات دیتی اور یہ موقع بھی فراہم کرتی ہیں کہ وہ اپنے اربوں کھربوں روپے کے کالے دھن کو معمولی جرمانہ ادا کرکے سفید بنالیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اقتدار سنبھال کر پی ٹی آئی حکومت نے بھی ایمنسٹی سکیم متعارف کرادی تاکہ پاکستان اور بیرون ملک بیٹھے دولت مند معمولی جرمانے دے کر اپنے کالے کرتوتوں کو سفید بنالیں۔ اس سے تو عیاں ہے کہ پی ٹی آئی بھی سابقہ حکومتوں کے نقش قدم پر چل پڑی۔
پاکستان کی نئی نسل کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پچاس ساٹھ سال قبل ایشیا میں ہماری قومی معیشت اور معاشی ٹیم کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ جنوبی کوریا، ملائشیا، تھائی لینڈ وغیرہ کے ماہرین پاکستان آکر یہ دیکھتے اور سیکھتے تھے کہ پاکستانی معاشی ٹیم نے کیونکر اپنے ملک کی معیشت بہتر کر ڈالی۔ لیکن پھر زوال شروع ہوگیا۔ آج تمام بڑے ایشیائی ممالک میں پاکستان کی سالانہ شرح ترقی (3.3 فیصد) سب سے کم ہے۔ کل کے غریب ملک معاشی ترقی کرکے امیر ہوگئے جبکہ پاکستان حکمرانوں اور عوام و خواص کی خودغرضی، لالچ اور بے ایمانی کے سبب غریب ہوتا چلا گیا۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ سارا حکومتی نظام قرضے لے لے کر چلایا جارہا ہے۔
یہ بہرحال حقیقت ہے کہ عام پاکستانی اپنے ملک کی معاشی بدحالی کا زیادہ ذمے دار نہیں۔ وہ بالعموم تمام ان ڈائریکٹ (بالواسطہ) ٹیکس ادا کرتا ہے جن کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔اس کی سالانہ آمدن اتنی ہے نہیں کہ وہ لاکھوں روپے کا انکم ٹیکس ادا کرسکے۔ اس کی بس یہی تمنا ہے کہ پیٹ بھرنے کو اچھی غذا، تن ڈھاپنے کو عمدہ لباس اور سر چھپانے کے لیے اچھا ٹھکانہ مل جائے۔
وہ اپنے بچوں کا مستقبل بھی خوشگوار اور پر آسائش دیکھنا چاہتا ہے۔ پچھلے سال اسی عام پاکستانی نے تبدیلی لانے اور نظام حکومت بدلنے کی داعی پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تاکہ وہ اس کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرسکے۔ نئی حکومت گزشتہ برس اکثر معاشی شعبوں میں تبدیلی لائی مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ حکومت کے پاس وقت کم ہے جبکہ اسے سخت مقابلہ درپیش ہے۔ ''نیا پاکستان'' بنانے کی راہ کٹھن اور خاردار ہے۔
سسٹم کے خلاف جنگ
عام پاکستانی کو یہ سچائی مدنظر رکھنا ہوگی کہ اگر خصوصاً عمران خان اور ان کی ٹیم نے نامراد و فرسودہ حکومتی و معاشی نظام بدلنے کی کوششیں کی، تو وہ قوتیں انہیں ناکام بنانے کی سرتوڑ سعی کریں گی جو اس نظام سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اس نظام کی بدولت ہی انہیں دولت و طاقت حاصل ہوئی۔ ظاہر ہے، اگر اس غیر قانونی نظام کی بساط لپیٹ دی جائے تو انہیں ہی سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔ لہٰذا ان کی تو پوری کوشش ہوگی کہ یہ عوام دشمن مگر ان کے مفادات کو عملی شکل دینے والایہ کرپٹ نظام برقرار رہے۔
پی ٹی آئی حکومت اگر عام پاکستانیوں سے کیے گئے اپنے انتخابی وعدے پورا کرنا چاہتی ہے، تو اسے فرسودہ نظام سے وابستہ مختلف مافیاؤں کا ہمت و استقلال سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ پچھلے تین عشروں سے پاکستان میں ہر سال جنم لینے والی دولت کا بیشتر حصہ انہی مافیاؤں کے ہاتھوں اور تجوریوں میں جارہا ہے۔
اسی انوکھے عمل نے معاشی طور پر کئی خرابیاں پیدا کر ڈالیں۔ مثلاً چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز، کاروبار و صنعت و تجارت کے بجائے گولڈ یا زمینوں میں زیادہ سرمایہ کاری، دولت کی نامنصفانہ تقسیم اور غربت میں اضافہ۔ 2005ء سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا کیونکہ پاکستانی کاروبار و صنعت و تجارت میں بہت کم سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ دولت مندوں کا محبوب مشغلہ نئی نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں پلاٹ یا کوٹھیاں خرید لینا ہے۔
پاکستان میں چونکہ آبادی بڑھ رہی ہے لہٰذا زمین اور مکان کی مانگ میں بھی اضافہ جاری ہے۔ یہ قدرتی عمل پلاٹوں اور گھروں کی قیمتیں بھی بڑھا رہا ہے۔ مگر قیمتیں بڑھانے کے اس عمل میں مالکان زمین یا سرمایہ کاروں کا کوئی دخل نہیں۔ اسی طرح رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، البتہ رقم لگانے والے کو طویل المعیاد پر مالی فائدہ ہوجاتا ہے۔ ماہرین معاشیات اس عمل کو ملک کے لیے مفید بنانے کی خاطر حکومت کو تجویز دیتے ہیں کہ وہ زمینوں پر لینڈ ٹیکس لگادے۔ دنیا کے اکثر ملکوں میں یہ ٹیکس رائج ہے۔
اس کے ذریعے زمینوں میں اپنا سرمایہ منجمند کردینے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور وہ اپنی رقم حقیقی کاروبار اور صنعت و تجارت کے شعبوں میں لگائیں گے۔ دور جدید میں کسی بھی قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے یہی شعبے بنیاد بن چکے۔
ہمارے شعبہ زراعت میں بھی خاصی خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً گنا ہماری اہم پیداوار ہے جس سے چینی بنتی ہے۔ مگر گنا اگانے میں بہت پانی استعمال ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں ہر سال پانی کی کمی واقع ہورہی ہے۔ اسی صورتحال میں بیس پچیس لاکھ ایکڑ رقبے پر گنا اگانے کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔
ہمیں چینی کی طلب و مانگ مدنظر رکھ کر یہ فصل اگانی چاہیے تاکہ بقیہ زمین پر دیگر مفید اور کم پانی پینے والی فصلیں اگائی جاسکیں۔ مزید براں حکومت بڑے جاگیرداروں و زمیں داروں کو جو سبسڈی دیتی ہے، اسے ختم ہونا چاہیے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک مقروض حکومت کیونکر امرا کو سبسڈیاں دے رہی ہے؟ شعبہ برآمدات اور مختلف صنعتی شعبوں مثلاً آٹو سیکٹر کو بھی سبسڈیاں دی جاتی ہیں۔ مگر اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ،الٹا حکومت مزید مقروض ہوجاتی ہے۔
دراصل جدید ماہرین معاشیات کی نظر میں دو اہم وجوہ کے باعث پاکستانی معیشت بحران کا شکار ہے۔ اول یہ کہ اس کی برآمدات منجمند ہیں۔ دوم حکومت کو اتنی آمدن نہیں ہوتی کہ وہ عام پاکستانیوں کی ترقی و فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کرسکے۔ جب عمران خان نے حکومت سنبھالی تو انہیں یہ دونوں اہم معاشی مسائل ورثے میں ملے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے معاشی بحران کی ذمے دار پی ٹی آئی کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا، اسے تو حکومت سنبھالے بقول شخصے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ جب وہ برسراقتدار آئی تو نہ صرف سرکاری خزانہ خالی تھا بلکہ تجارتی خسارہ بھی آسمان پر پہنچ چکا تھا۔ آمدن اور اخراجات میں بارہ ارب ڈالر کا فرق پیدا ہوگیا تھا۔ سرکاری خزانہ خالی ہونے پر ہی حکومت کو دوست ممالک اور آئی ایم ایف سے قرضے لینے پڑے تاکہ قومی معیشت مستحکم ہوسکے۔
اخراجات کم کرنا بہترین پالیسی
قرضوں کی بنیاد پر قومی معیشت کومستحکم کرنا مگر درست پالیسی نہیں۔ بہترین طریقہ کار یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت سب سے پہلے حکومتی اخراجات کم کرے جو مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ مثلاًخرچ گھٹانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ خسارے میں جانے والے سرکاری ادارے اور کمپنیاں بند کر دی جائیں۔ انہیں نجی شعبے کے بھی سپرد کیا جا سکتا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کی رو سے 197سرکاری ادارے خسارے میں جا رہے ہیں۔ حکومت روزانہ انہیں چلانے کی خاطر کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔یہ خسارہ زدہ سرکاری ادارے تقریباً دو ہزار ارب روپے کے مقروض ہو چکے۔
ایک طرف آمدن کم ہے' تو دوسری جانب حکومت نے درمیانے اور چھوٹے معاشی شعبوں کی ترقی کے لیے انہیں ٹیکسوں سے چھوٹ دے رکھی ہے۔ یہ شعبے یقیناً قومی معیشت کو ترقی دیتے اور مستحکم کرتے ہیں مگر حکومت کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ٹیکسوں میں چھوٹ سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے؟ ایسا تو نہیں کہ سارے مالی فوائد مٹھی بھر مالکان سمیٹ رہے ہوں جبکہ کارکنوں تک اس سرکاری مدد کے ثمرات نہیں پہنچ پاتے۔
ماہ اکتوبر2019ء میں سینٹ پاکستان کی فنانس و ریونیو کمیٹی نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ درمیانے اور چھوٹے معاشی شعبوں (کاٹیج انڈسٹری اور سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائیزز) کو دی جانے والی ٹیکس چھوٹوں میں اضافہ کیا جائے۔ تب ایف بی آر کے بورڈ ممبر ،حامد عتیق سرور نے کمیٹی میں پیش ہو کر انکشاف کیا کہ جاری مالی سال میں حکومت درمیانے اور چھوٹے معاشی شعبہ جات کو 1800 ارب روپے مالیت کی ٹیکس چھوٹ دے گی۔ یہ پچھلے مالی سال کی نسبت تقریباً دگنی چھوٹ ہے۔
حامد عتیق سرور نے اپنی تقریر میں انکشاف کیا کہ ایک طرف حکومت عوام پر خرچ کرنے کے لیے 50 ارب روپے کا بندوبست نہیں کر پاتی۔ مگر دوسری سمت وہ چھوٹے اور درمیانے معاشی شعبوں کو اربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ دے رہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ شعبے ترقی کر سکیں۔ مگر حکومت یہ جائزہ نہیں لیتی کہ ٹیکس چھوٹوں سے مطلوبہ مقصد حاصل ہو رہا ہے یانہیں؟ انہوںنے مزید کہا کہ قرضے ' سود اور پنشن دینے اور دفاع پر خرچنے کے بعد حکومت کے پاس عوامی ترقیاتی منصوبوں کی خاطر بہت کم رقم بچتی ہے۔
ایف بی آر بورڈ کے رکن کی چشم کشا باتوں سے عیاں ہے کہ پاکستان کا ٹیکس نظام خامیوں سے پُر ہے۔ ایک طرف ٹیکس دینے والوں پر نت نئے ٹیکس لگا کر یا ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر کے ان پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا۔ دوسری سمت بعض مخصوص معاشی شعبوں کو ایک ہزار آٹھ سو ارب روپے کی ٹیکس چھوٹیں دی جا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بتیس ہزار ارب روپے کی مقروض حکومت کیا ہر سال اٹھارہ سو ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دینے کی متحمل ہو سکتی ہے؟ یہ مخیر پن ایسی حکومت کو ہی زیب دیتا ہے جو ہر ماہ کھربوں روپے کمائے۔ پاکستان میں تو ایف بی آر مالی سال 2018-19ء میں 3828ارب روپے ہی اکٹھے کر سکا حالانکہ اس کا ٹارگٹ 4435ارب روپے تھا۔
پچھلے تیس برس میں حکومتی مشینری بہت پھیل گئی ہے یا افسر شاہی نے اسے پھیلا دیا ۔سرکاری اخراجات کم کرنے کے سلسلے میں یہ امر بھی بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک سمت سینکڑوں حکومتی ادارے خسارے میں چل رہے ہیں تو دوسری سمت حاضر و ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے اخراجات ہر سال بڑھ جاتے ہیں۔
اعلیٰ افسروں کی تنخواہوں اور مراعات کا ماہانہ خرچ اربوں روپے ہے۔ اسی طرح ریٹائرڈ ملازمین کی پنشنوں اور مراعات کا ماہانہ خرچ بھی اربوں روپے تک پہنچ چکا۔ عوام سے حاصل کردہ ٹیکسوں کی رقم ہی سے اس وسیع و عریض حکومتی مشینری کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ مرے پر سو درے کے مصداق ان ٹیکسوں میں سے بیشتر ان ڈائرکٹ ہیں۔ یعنی وہ امیر و غریب کے مابین تمیز نہیں کرتے۔ اگر امیر سو روپے پر دس روپے موبائل ٹیکس دیتا ہے تو غریب بھی اتنے ہی دے گا۔ ایسا غیر منصفانہ ٹیکس نظام یقیناً غریب و عوام دشمنی ہے۔
ماہرین معاشیات نے پی ٹی آئی حکومت کو تجویز دے رکھی ہے کہ خسارہ زدہ سرکاری ادارے نجی شعبے کے حوالے کر دیئے جائیں۔ اسی طرح نہ صرف حکومت کو ان کے مالی بوجھ سے نجات ملے گی بلکہ ادارے منافع بخش بھی بن سکتے ہیں۔ اسد عمر نے وزیر خزانہ بن کر ''سرمایہ پاکستان کمپنی'' تشکیل دی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی تعمیر نو ہو سکے۔ لیکن جیسے ہی وہ وزارت خزانہ سے رخصت ہوئے ان کی بنائی کمپنی بھی ختم ہو گئی۔ اس کمپنی کے تحت سرکاری اداروں کو ملائشیا یا سنگا پور ماڈل کے مطابق چلانا مقصود تھا۔
۔۔۔
زیورات کی جگہ ٹماٹر
کچھ عرصہ قبل کراچی میں جب ٹماٹروں کی قیمت ساڑھے تین سو روپے فی کلو سے بھی زیادہ بڑھی تو شہر قائد کی ایک نٹ کھٹ دلہن نے اس تاریخی واقعے کو عجب انداز میں یاد گار بنا دیا۔ اس نے اپنی شادی کے موقع پر ٹماٹروں سے بنا ہار' گہنے' جھمکے اور مانگ ٹیکا پہن کر سبھی کو حیران کر ڈالا۔ بڑھتی مہنگائی پر ایک پاکستانی دلہن کی پُرلطف چوٹ پہ مبنی ویڈیو پوری دنیا میں دلچسپی سے دیکھی گئی۔وڈیو میں دلہن بتاتی ہے کہ سونا بہت مہنگا ہو چکا۔ ٹماٹر اور چلغوزوں کی قیمت بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔
اسی لیے میں نے طلائی زیور کی جگہ ٹماٹر اور چلغوزے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ دلہن کو چلغوزے اپنے بھائی اور دیگر رشتے داروں سے بطور ''سلامی'' موصول ہوئے۔ یوں ایک دلہن اور اس کے گھر والوں کی دلچسپ شرارت نے بظاہر جان عذاب میں ڈال دینے والی مہنگائی کا بھی مزاحیہ روپ اہل پاکستان کو دکھا دیا۔
وطن عزیز میں ٹماٹر مرغ زریّں بنے تو اُدھر ہمارے پڑوسی،بھارت میں ایک اور عام استعمال کی سبزی ،پیاز ققنس بن بیٹھی۔کروڑوں بھارتی باشندے اس ققنس کی تلاش میں مارے مارے پھرنے لگے مگر وہ بعض علاقوں میں 160روپے(350پاکستانی روپے)فی کلو ادا کرنے کے بعد ہی بمشکل ہاتھ آتا۔پیاز اگانے والے علاقوں میں بھی اس کی قیمت راتوں رات 115روپے (پاکستانی 251روپے)تک جا پہنچی۔
اس صورت حال میں بنارس شہر کے باسی،کمال پٹیل کی شادی آ گئی۔ تقریب پُرمسرت کے موقع پر پٹیل بھائی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی دلہنیا کے ساتھ پیاز،لہسن اور ادرک سے سجے ہار وگجرے زیب تن کریں گے۔یہی نہیں،بیاہ میں شریک سبھی مہانوں نے بھی انھیں سبزیوں سے بنے ہار پہنائے۔یوں بھارتی جوڑے نے بھی اس عمل سے ہم وطنوں کو پیغام دیا کہ بھائیو!ہوشیار ہو جاؤ، اب تو بڑھتی مہنگائی میںسبزیاں و پھل بھی گولڈ کی طرح بیش قیمت بن رہے ہیں۔گویا مستقبل کی شادیوں میں سونا نہیں سبزی وپھل بطور زیورات اور سلامیاں برتے جائیں گے۔جدید دور میں آپ کا سواگت!
پاکستانی حکومت کا انقلابی منصوبہ
حال ہی میں حکومت پاکستان نے ایک انقلابی پروگرام ''پی ایس ڈی پی(پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام )پلس ڈویلپمنٹ پلان''کی تشکیل کا اعلان کیا۔جوش وجذبے سے جاری کیے اس منصوبے کے تحت 2020ء تا 2023ء یعنی چار برس کے دوران ''میگا پروجیکٹ'' مکمل کیے جائیں گے۔
ان پروجیکٹس پر تقریباً پانچ ہزار دو سو ارب روپے لاگت آئے گی۔یہ عظیم الشان پروجیکٹ حکومت اور نجی شعبے کے تعاون سے انجام کو پہنچیں گے۔وزیراعظم عمران خان اس منفرد پلان کی منظوری دے چکے۔واضح رہے، یہ حکومت کے جاری روایتی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام سے الگ اور مختلف مہا منصوبہ ہے۔دراصل پاکستان میں ہر سال تیرہ لاکھ نوجوان جاب مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔ان سب کو ملازمتیں درکار ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی اور مستقبل سنوار سکیں۔مگر ان سب کو نوکریاں اسی وقت ملیں گی جب پاکستان کی معیشت سالانہ 6.6فیصد کے لحاظ سے ترقی کرے۔
لیکن فی الوقت اس کی شرح صرف 3.3فیصد ہے۔حقیقت میں اس سے بھی کم ہو سکتی ہے۔وطن عزیز میں نئی ملازمتیں جنم دینے کی خاطر ہی پی ٹی آئی حکومت نے ''پی ایس ڈی پی(پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام )پلس ڈویلپمنٹ پلان''ترتیب دیا ہے۔اسے امید ہے کہ اس کے میگا پروجیکٹ پاکستان میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کریں گے۔ماہرین معاشیات کے نزدیک پاکستانی حکومت نے ترکی کا ماڈل مدنظر رکھتے ہوئے درج بالا پلان تیار کیا ہے۔ترکی کی اردغان حکومت نے 2013ء تا 2018ء کے دوران روایتی سرکاری اخراجات کے علاوہ اہم و کلیدی شعبوں پر 136ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی تھی۔
مدعا یہ تھا کہ معاشی ترقی کی شرح کو چھ فیصد سے بلند رکھا جائے۔یہ ماڈل اپنا لینے سے ترک حکومت کو زبردست کامیابی ملی۔اب پاکستان بھی اسی ماڈل پر عمل کر کے اپنی معاشی ترقی میں اضافہ چاہتا ہے۔ماہرین کی روسے نجی شعبے نے حکومتی پلان میں دلچسپی لی تو اس کی کامیابی کا امکان روشن ہے۔پاکستان ساڑھے بائیس کروڑ انسانوں کی ایک بڑی منڈی ہے۔لہذا نجی شعبہ اگر اپنی بھرپور صلاحیتیوںسے کام لے تو وہ یہاں بہت ترقی کر سکتا ہے۔اس کی ترقی ملک وقوم کو بھی خوشحال بنا دے گی۔
انسانی ترقی اشاریہ میں قومی زوال
یہ 1990ء کی بات ہے، ممتاز پاکستانی ماہر معاشیات، ڈاکٹر محبوب الحق نے دنیا کے تمام ممالک میں انسانی ترقی کا جائزہ لینے کی خاطر ایک سائنسی طریق کار ایجاد کیا جو اب ''انسانی ترقی اشاریہ'' ( Human Development Index ) کہلاتا ہے۔
اس طریق کار میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک ملک میں افراد کی اوسط عمر کتنی ہے، شرح خواندگی کم ہے یا زیادہ اور لوگوں کا معیار زندگی کیسا ہے۔ دنیا کے جس ملک میں اوسط عمر اور شرح خواندگی زیادہ ہو اور شہری بلند معیار زندگی رکھتے ہوں، تو اس کا انسانی ترقی اشاریہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔انسانی ترقی اشاریہ میں دنیا کے تمام ممالک چار درجوں میں منقسم ہیں... بہت زیادہ انسانی ترقی(Very high human development)، زیادہ انسانی ترقی(High human development)، وسطی انسانی ترقی(Medium human development) اور کم انسانی ترقی(Low human development)۔ اقوام متحدہ کا ادارہ، یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام ہر سال ایک '' ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ'' جاری کرتا ہے۔ اس میں دنیا کے سبھی ممالک کی انسانی ترقی اشاریہ کے لحاظ سے درجہ بندی کی جاتی ہے۔ دسمبر 2019ء میں ادارے کی تازہ رپورٹ جاری ہوئی۔
اس رپورٹ کے مطابق انسانی ترقی اشاریہ میں پہلے دس ممالک ناروے، سوئٹزر لینڈ، آئرلینڈ، جرمنی، ہانگ کانگ، آسٹریلیا، آس لینڈ، سویڈن، سنگاپور اور ہالینڈ آتے ہیں۔ جبکہ اشاریہ میں نائیجیر، جمہوریہ وسطی افریقہ، چاڈ، جنوبی سوڈان،برونڈی،مالی ،اریٹیریا،برکینا فاسو، سیری لیون اور موزمبیق آخری دس نمبر پر آئے۔ یہ سبھی افریقی ممالک ہیں۔
پاکستان شروع سے درجہ ''وسطی انسانی ترقی'' میں شامل ہے۔ افسوسناک بات یہ کہ ماضی میں اس کا نمبر زیادہ تھا۔ لیکن تازہ رپورٹ میں وہ اپنے درجے میں تقریباً سب سے نیچے یعنی 152 نمبر پر آیا ہے۔ اس کے بعد بس سولومن جزائر کا نمبر ہے۔ ہمارے پڑوسی ممالک کے نمبر یہ رہے: ایران(65)، سری لنکا (71)) ،چین (85)، بھارت (129)، بھوٹان (134)، بنگلہ دیش (135) اور افغانستان (170)۔ اعدادو شمار سے عیاں ہے کہ جنگ سے تباہ حال افغانستان کو چھوڑ کر پاکستان انسانی ترقی کے معاملے میں اپنے تمام پڑوسیوں سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس خرابی کے ذمے دار ہمارے حکمران ہیں جنہوں نے پاکستانی قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے۔
وہ بس مخصوص ایلیٹ طبقے کے مفادات پورے کرنے میں اپنی توانائیاں اور حکومتی خزانہ صرف کرتے رہے۔ کیا پی ٹی آئی حکومت اس روش میں تبدیلی لاسکے گی؟ کیا وہ عام پاکستانیوں کو صحت کی عمدہ سہولیات دے گی تاکہ ان کی اوسط عمر بڑھ سکے جو فی الوقت صرف 66 سال ہے۔ کیا انہیں تعلیم کی معیاری سہولیات دے گی تاکہ وہ پڑھ سکیں؟ کیا انہیں روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرے گی تاکہ عام پاکستانی کا معیار زندگی بلند ہوسکے؟ پاکستانی عوام یہ تبدیلیاں دیکھنے کے مشتاق و آرزو مند ہیں۔
عالمی معیشت... 2019ء میں
گذشتہ برس بھی عالمی معیشت دو بڑی معاشی طاقتوں، چین اور امریکا کی تجارتی جنگ کے باعث مختلف مصائب اور مشکلات کا شکار رہی۔چین دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر اور اور امریکا سب سے بڑا امپورٹر، لہذا دو سال قبل ان کی تجارتی جنگ چھڑی تو اس کے اثرات نے دنیا بھر کی معیشتوں کو متاثر کیا اور وہ زوال پذیر ہو گئیں۔اس انوکھی جنگ کا آغاز جنوری 2018ء سے ہوا تھا جب ٹرمپ حکومت نے چین سے آنے والے سامان پر نئے ٹیکس لگا دئیے۔تلملا کر چینی حکومت نے بھی امریکی مال پہ ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی۔
اب دونوں معاشی قوتوں کے مابین تجارتی جنگ شروع ہو گئی۔ایک معاصر کے سامان پہ نئے ٹیکس لگاتا یا ٹیکسوں کی شرح بڑھا دیتا تو دوسرا بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا۔ٹرمپ نے بعد ازاں یورپی ممالک اور بھارت کے خلاف بھی تجارتی جنگ چھیڑ دی۔اس لڑائی نے دنیا کے ہر ملک میں اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھا دیں۔صنعت ، تجارت اورکاروبار سے وابستہ افراد کے لیے پیداواری لاگت بڑھ گئی۔اگرچہ چین اور امریکا جب دیگر ممالک سے بھی سامان منگوانے لگے تو انھیں مالی فائدہ پہنچا۔تجارتی جنگ نے دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں کو بھی صدمہ پہنچایا کہ سرمایہ کار حصص میں رقم لگانے سے گریز کرنے لگے۔غرض دونوں معاشی سپرپاورز کی لڑائی نے عالمی معیشت پر زوال سا طاری کر دیا۔آخر اکتوبر 2019ء میں جنگ کا درجہ حرارت کم ہوا اور امریکا و چین نے کسی حد تک مفاہمت کر لی۔
انھوں نے ایک دوسرے کے سامان پہ نئے ٹیکس لگانے یا ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کا سلسلہ روک دیا۔انوکھی لڑائی تھم جانے سے دنیا بھر کے معاشی و مالیاتی شعبوں سے وابستہ مردوزن نے سکون کا سانس لیا۔اب عالمی معیشت پر نظر رکھنے والے مالیاتی ادارے پیش گوئی کر رہے ہیں کہ 2020ء میں وہ ترقی کرے گی اور خوشحالی آنے کے آثار ہویدا ہیں۔دنیا کی ایک اور بڑی معاشی قوت،یورپی یونین میں بریگزٹ معاملے کی وجہ سے معیشت پہ سیاہ بادل چھائے رہے۔
2019ء کے بیشتر عرصے برطانیہ میں حکمران جماعت اور اپوزیشن پارٹیاں بریگزٹ معاملے پر الجھتی رہیں۔اس لیے برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں میں معاشی حالات اونچ نیچ کا نشانہ بنے رہے۔واضح رہے،برطانوی پونڈ بین القوامی کرنسی بن چکا۔سیاسی ہنگاموں کی وجہ سے پونڈ کی قیمت میں اتار چڑھاؤ عالمی معیشت کو دھچکے دیتا رہا۔اب برطانیہ میں کنزرویٹیو پارٹی کی جیت سے بریگزٹ معاملہ حل ہونے کے قریب ہے۔اس تبدیلی سے بھی2020ء میں عالمی معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔ماہرین معاشیات کا کہنا ہے،آج دنیا میں ''پچاس فیصد''سے زائد آبادی متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔
گویا انسانی تاریخ میں پہلی بار کرہ ارض پہ غریبوں کی تعداد کم ہو چکی اور ان کی جگہ متوسط طبقہ لے چکا۔فی الوقت زمین پر بستے ساڑھے سات ارب انسانوں میں سے پونے چار ارب متوسط طبقے کے رکن بن چکے اور ان کی تعداد میں اضافہ جاری ہے۔یہی انسان آنے والے برسوں میں نہ صرف عالمی معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھیں گے بلکہ اس کی بڑھوتری اور ترقی کا بھی سبب بن جائیں گے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ پونے چار ارب افراد میں سے ''80 فیصد''ایشائی ہیں۔یعنی عالمی معیشت میں براعظم ایشیا ایک بار پھر سرتاج بننے کی راہ پہ گامزن ہے۔انیسویں صدی سے قبل بھی چین اور جنوبی ایشیا (بھارت،پاکستان،بنگال)ہی عالمی معیشت کی بڑی قوت تھے۔آج عالمی متوسط طبقے میں بیشتر لوگ انہی دو خطوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
عالمی معیشت اگرچہ تیزی سے اپنا رنگ روپ بدل کر نئے چولے میں آ رہی ہے۔اب ڈیجیٹل معیشت کا دور شروع ہے جو مصنوعی ذہانت اور مشینی طاقت پر استوار ہو گا۔یہ دونوں نئی ایجادات ان انسانی صلاحیتوں اور مہارتوں میں بھی بنیادی تبدیلیاں لا رہی ہیں جنھوں نے جدید انسانی معاشروں کے قیام میں مرکزی کردار ادا کیا۔مستقبل میں جو ممالک ڈیجیٹل معیشت کی خصوصات اپنا لیں گے،وہی عالمی معیشت کی بھی نمایاں قوتیں بن سکیں گے۔یہ حقیقت پاکستان کے حکمران طبقے کو بھی مدنظر رکھنی چاہئے ۔
اس کا منفرد قول ہے ''ہر انسانی معاشرے کی بنیاد معیشت ہے۔معیشت مضبوط و مستحکم ہو، تو معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ آئیڈیل معیشت وہ ہے جس میں دین اور دنیا، دونوں کا ملاپ ہو اور صنعت و تجارت کرنے کے بہترین ہتھیار دیانت داری اور محبت بن جائیں۔'' یہ سبق آموز قول انسانی معاشرے میں معیشت کی اہمیت بخوبی اجاگر کرتا ہے۔
پاکستان میں عوام خواص کو حکمران طبقے سے سب سے بڑی شکایت یہی رہی ہے کہ وہ تقریباً ربع صدی گذر جانے کے باوجود بھی قومی معیشت مضبوط و مستحکم نہیں بناسکا۔ جو بھی حکومت آئے وہ معیشت سدھارنے کے بلند و بالا دعویٰ ضرور کرتی ہے مگر عملی طور پر کروڑوں پاکستانیوں کو غربت و مفلسی کی دلدل سے نہیں نکال پاتی۔ نتیجتاً آج بھی کم از کم سات تا آٹھ کروڑ پاکستانی زندگی کی بنیادی ضروریات مثلاً صاف پانی، اچھی غذا، عمدہ طبی علاج اور معیاری تعلیم سے محروم ہیں۔ حتیٰ کہ اکثر پاکستانیوں کو پیٹ بھرنے کی خاطر روزانہ بہت تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ ایسے میں خصوصاً کھانے پینے کی اشیا اور دیگر عام ضروریات مہنگی ہوجائیں، تو زندگی مزید تلخ ہوجاتی ہے۔
مہنگائی کی یلغار
2019ء میں اناج، سبزی، پھلوں اور دیگر اشیائے ضرورت کی بڑھتی قیمتوں نے نچلے و متوسط طبقوں کو پریشان کیے رکھا ۔ سچ یہ ہے کہ اس سال مہنگائی کا جن عوام پر سوار رہا اور تقریباً ہر شے کے دام بڑھ گئے۔ مہنگائی نے خصوصاً نچلے طبقے کو ازحد متاثر کیا جس کی آمدن کا بیشتر حصہ کھانے پینے کے اخراجات پر صرف ہوتا ہے۔
ظاہر ہے،جب آٹا، دال اور گھی مہنگا ہو تو محدود آمدنی والے گھرانے میں سارا بجٹ متاثر ہوجاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے ، پاکستانی روپے کی قدر میں کمی، ٹیکسوں کی شرح اور بجلی و تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کے باعث پی ٹی آئی دور حکومت میں مہنگائی نے جنم لیا ۔ایک وقت میں تو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت 35 فیصد تک گر گئی تھی۔جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ بھارت سے غذائیں اور منڈیوں میں تازہ پیداوار نہ آنے سے غذاؤں کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ انہی بڑھتی قیمتوں نے مہنگائی بھی بڑھا دی جس کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔
فی الوقت پاکستان میں مہنگائی کی شرح (افراط زر) 13 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ بھارت میں یہ شرح 6 فیصد جبکہ بنگلہ دیش میں5 فیصد ہے۔ پاکستانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ منڈیوں میں نئی فصلیں آنے سے غذاؤں کی قیمتیں کم ہوجائیں گی۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی غذائیں بیرون ملک بھجوانے اور ان کی اسمگلنگ سے بھی پاکستان میں سبزی و پھل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ ان کے نزدیک 2020ء میں بھی مہنگائی میں اضافہ جاری رہے گا۔
بہتری کے حکومتی دعوی
حکومت کی معاشی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ 2019ء میں معیشت پاکستان بہتر ہوئی۔ مشیر وزارت خزانہ، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، وزیر مملکت برائے معاشی امور حماد اظہر، گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر اور چیئرمین ایف بی آر، شبر زیدی اس حکومتی معاشی ٹیم کے نمایاں ارکان ہیں۔ ان ارکان کا دعویٰ ہے کہ 2019ء میں درآمدات گھٹنے سے تجارتی خسارہ (کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ) کم ہوا،حکومتی آمدن بڑھ گئی، غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا، ملکی سرمایہ کاروں نے بھی پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی جس سے انڈکس اوپر چلا گیا۔
اکتوبر تا دسمبر کے آخری تین ماہ میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج دنیا کی بہترین سٹاک مارکیٹ قرار پایا۔ مزید براں 2019ء کے آخری مہینوں میں حکومت کی آمدن بھی بڑھ گئی جو معاشی ترقی کی دلیل ہے۔
حکومتی ٹیم کے مطابق ایک سال کے دوران تجارتی خسارے میں 36 فیصد کمی آئی ۔ پچھلے سے پچھلے مالی سال (2108-19ء )وہ 19 ارب ڈالر تھا جو اس برس 12.75 ارب ڈالر رہ گیا۔2019ء میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی پچھلے سال کی نسبت زیادہ غیرملکی زر مبادلہ اپنے وطن منتقل کیا۔اس عمل سے بھی تجارتی خسارہ کم ہونے میں مدد ملی۔ اسی دوران برآمدات میں 4 فیصد اضافہ ہوا جو عمدہ معاشی تبدیلی ہے۔اسی طرح حالیہ مالی سال (جولائی 2019ء تا جون 2020ء) کے پہلے پانچ ماہ حکومت کی آمدن میں پچھلے مالی سال کی نسبت 17 فیصد اضافہ ہوا جو خوش آئند امر ہے۔
گویا حکومت کی آمدن زیادہ ہوگئی اور اخراجات کم۔مشیر خزانہ نے کچھ عرصہ قبل ایک پریس کانفرنس میں قوم کو مطلع کیا کہ عالمی بینک کے صدر نے پاکستانی معاشی ٹیم کی کارکردگی کو سراہا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی پاکستان کے لیے مختص قرضے کی رقم میں 3 ارب ڈالر کا اضافہ کردیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان پر اعتماد کرنے لگے ہیں۔یہ واضح رہے مسلم لیگ ن کے آخری مالی سال (2017-18ء) میں پاکستان کی برآمدات 19 ارب ڈالر مالیت رکھتی تھیں۔ جبکہ پاکستان57 ارب ڈالر کا سامان بیرون ممالک سے منگوا رہا تھا۔ گویا ہمارا تجارتی خسارہ 38 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ اگر بیرون پاکستان سے پاکستانیوں کے بھیجے گئے 19 ارب ڈالر شامل کئے جائیں تب بھی تجارتی خسارہ 19ارب ڈالر بنتا ہے۔ یہ تب تاریخ پاکستان میں سب سے بڑا تجارتی خسارہ تھا۔
آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کی معاشی صورتحال پر اظہار اطمینان کیا۔ اسی دوران سرمایہ کاری کے لحاظ سے ممالک کی درجہ بندی کرنے والی عالمی ایجنسی، موڈیز نے بھی پاکستان کی ریٹنگ ''بی 3 منفی'' سے ''بی 3۔ مستحکم'' کردی۔ حکومتی ٹیم کا دعویٰ ہے، اس سے بیرونی سرمایہ کاروں کو یہ پیغام ملا کہ پاکستان سرمایہ لگانے کے لیے محفوظ مملکت ہے۔حکومتی ٹیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت جاری مالی سال میں غیر ٹیکس ذرائع آمدن سے 1200 ارب روپے جمع کرنے کا ٹارگٹ پانے میں کامیاب ہوجائے گی۔
البتہ درآمدات کم ہونے سے ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی حکومتی آمدن میں کمی واقع ہوگئی۔ تاہم مشیر خزانہ ایف بی آر کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ نامساعد حالات کے باوجود اپنی آمدن 17 فیصد بڑھانے میں کامیاب رہا۔یوں بجٹ خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی۔حکومت سے باہر موجود ماہرین معاشیات مگر تصویر کا دوسرا رخ سامنے لاتے ہیں جو پی ٹی آئی حکومت کے لیے خوشگوار اور امید افزا نہیں۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمدات میں کمی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعد شرح سود میں مسلسل اضافے کے سبب پاکستان میں صنعتی و کاروباری سرگرمیاں بہت کم رہ گئی ہیں۔
ماہ نومبر میں یہ شرح 13.25 فیصد تک پہنچ گئی جو پاکستان کی تاریخ میں بلند ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان کے صنعتی ،تجارتی و کاروباری ادارے اب مصنوعات کی مانگ میں کمی اور سرمایہ کم ہونے کی بنا پر بیرون ممالک سے بہت کم مال منگوا رہے ہیں۔ صنعتی و کاروباری سرگرمیوں کی بندش کے باعث ہی پاکستان میں پچھلے ڈیڑھ برس کے دوران تقریباً دس لاکھ افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ٹیکسوں اور بجلی و تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ بھی کاروباری سرگرمیاں ماند کرگیا۔
ٹیکس چوری کے خلاف مہم
حکومتی ٹیم کا کہنا ہے کہ جب حکومت نے قومی معیشت کو دستاویزی بنانے اور امرا کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی مہم کا آغاز کیا، تو صنعتی و کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے معاشی سرگرمیوں سے اپنا سرمایہ نکال لیا۔ معاشی سرگرمیاں سست پڑنے کی بنیادی وجہ یہ ہے۔ گویا بہت سے صنعتکار، کاروباری اور تاجر ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتے۔ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کی معیشت کا بڑا حصہ پہلے کی طرح غیر دستاویزی ہی رہے اور ان سے ذرائع آمدن کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ مگر پی ٹی آئی حکومت قومی معیشت کو زیادہ سے زیادہ دستاویزی بنانا چاہتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدن میں اضافہ ہوسکے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں حکومتیں ٹیکسوں سے حاصل شدہ آمدن کے ذریعے ہی مملکت کا انتظام چلاتی ہیں۔ یا پھر بعض ممالک جیسے سعودی عرب قدرتی وسائل (تیل) بیچ کر کمائی کرتے ہیں۔ سعودی عرب میں بھی عوام پر مختلف اقسام کے ٹیکس لگے ہیں اور عام لوگوں کووہ دینے پڑتے ہیں۔ولی عہد شہزادہ سلمان نے حکومت سنبھالتے ہی ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی تھی۔نیز سعودیوں کو جو مختلف سبسڈیاں دی جاتی تھیں،وہ بھی کم یا ختم کر دیں۔
سعودی عوام نے اس تبدیلی پر ناک بھوں چڑھائی، سوشل میڈیا پر احتجاج کیا مگر ہر شہری کو تمام متعلقہ ٹیکس دینے پڑتے ہیں۔ پاکستان میں مگر بہت کم لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔وجہ یہ کہ یہاں یہ نظریہ جڑ پکڑ چکا ، ٹیکسوں کی رقم کا بیشتر حصہ حکمران طبقہ (خصوصاً سیاست داں اور بیورو کریسی) کھا جاتا ہے۔ لہٰذا ٹیکس ادا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس سے بہتر ہے ٹیکسوں کی رقم کسی سماجی تنظیم کو دے دی جائے۔ اسی لیے پاکستانی دنیا میں مخیر ترین قوم سمجھے جاتے ہیں۔
جب آمدن نہیں بڑھی جبکہ سرکاری اخراجات بڑھتے رہے تو پاکستانی حکمران طبقے نے اخراجات پورے کرنے کی خاطر عالمی و قومی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے کا نسخہ دریافت کرلیا۔ اس نسخے کا صحیح معنوں میں چلن جنرل ضیاء الحق کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں کے دور سے شروع ہوا۔یہ جمہوری حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ترقیاتی منصوبے بنانے کے نام پر امیر ممالک سے لے کر عالمی مالیاتی اداروں تک، سب سے بھاری قرضے لینے لگیں۔ جب 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے حکومت سنبھالی، تو قرضے لینے کا چلن جڑ پکڑ چکا تھا۔ لہٰذا مشرف حکومت بھی اگلے نو سال تک قرضے لے کر کاروبار مملکت چلانے میں ان سے مدد لیتی رہی۔
قرضوں کا بڑھتا بوجھ
1999ء سے 2008ء تک پاکستان پر چڑھے مجموعی یا قومی قرضے (Public Debt)میں دو گنا اضافہ ہوا اور وہ عدد آٹھ ہزار ارب ڈالر تک جاپہنچا۔ جنرل مشرف رخصت ہوئے تو قرضے لینے کا باقاعدہ دھندا شروع کرنے والے جمہوری لیڈر پھر اقتدار میں آپہنچے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ ن اگلے دس سال تک حکومت کرتی رہیں۔
ان سیاسی جماعتوں کے دور میں پاکستان پر مجموعی قرضے کی رقم آٹھ ہزار ارب روپے سے بڑھ کر تقریباً تیس ہزا ارب تک جاپہنچی۔ گویا عوامی نمائندوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قرضے لینے کا نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ ماہرین کا مگر دعویٰ ہے کہ ان کھربوں روپے سے صرف حکمران طبقے اور ان سے وابستہ حواریوں ہی نے مالی فائدہ اٹھایا، کروڑوں پاکستانی بدستور غربت کے جال میں پھنسے رہے۔ قرضوں کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہوگیا اور وہ پاکستان کی قومی معیشت مستحکم نہیں کرسکے۔
اگست 2018ء سے پی ٹی آئی نے پاک وطن کی باگ ڈور سنبھال لی۔ وزیراعظم عمران خان انتخابی جلسوں میں قوم سے سے کہتے رہے تھے کہ وہ برسراقتدار آکر قرضے نہیں لیں گے۔ لیکن جب وہ حکومتی ایوانوں میں پہنچے، تو انہیں اس تلخ سچائی کا علم ہوا کہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی، قرضے لیے بغیر کاروبار مملکت چل ہی نہیں سکتا۔ سرکاری آمدن تھوڑی تھی لہٰذا اخراجات پورے کرنے کے واسطے قرضے لینا ناگزیر تھا۔اسی لیے پی ٹی آئی حکومت بھی عالمی و مالیاتی اداروں سے قرضے لینے لگی۔
سرکاری خزانہ بالکل خالی تھا۔یہ خطرہ جنم لے چکا تھا کہ پاکستان دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم نے پھر دوست مملکتوں کے پے در پے دورے کیے تاکہ قرضے لے کر اپنے دیس کو دیوالیہ ہونے سے بچاسکیں۔ ان کی کوششیں کامیاب تو ثابت ہوئیں اور پاکستانی حکومت کو اربوں ڈالر مل گئے۔مگر سّکے کا منفی رخ یہ ہے کہ پاکستان پر مزید قرضہ چڑھ گیا جسے باہمی محبت کترنے والی قینچی کہا جاتا ہے۔
اسٹیٹ بینک پاکستان کی تازہ رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2019ء تک پاکستان پر چڑھا مجموعی قرضہ'' 32 ہزار ایک سو ستانوے ارب روپے ''تک پہنچ چکا۔ اس میں سے 21 ہزار پانچ سو سینتیس ارب روپے تو مقامی قرضہ ہے جبکہ 10 ہزار چھ سو انسٹھ ارب روپے غیر ملکی قرضہ۔ گویا پی ٹی آئی حکومت کے سولہ ماہی دور میں وطن پر چڑھے مجموعی قرضے کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد بڑھ گئی۔ اس کا مطلب یہ کہ نئی حکومت بھی ماضی کے حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قرضوں کی رقم ہی سے اپنے اخراجات پورے کررہی ہے۔ یقیناً یہ پسندیدہ روش نہیں کیونکہ قرضوں کا بوجھ کسی بھی ملک کو سیاسی و معاشی طور پر قرضے دینے والوں کا غلام بناسکتا ہے۔ قرضے دینے والے ملک و ادارے پھر حکمران طبقے سے من چاہی شرائط منواسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر پچھلے سال پی ٹی آئی حکومت کو آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر قرض لینا پڑا۔ تب اس عالمی مالیاتی ادارے کی خواہش پر ہی پاکستانی روپے کی قدر گھٹائی گئی۔ نیز ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہی بجلی، تیل اور گیس کی قیمتیں بھی حکومت بڑھانے پر مجبور ہے۔ لیکن اس سارے عمل نے پاکستان میں مہنگائی بڑھادی جس سے نچلے و متوسط طبقوں کے کروڑوں پاکستانی ہی پریشان ہوئے۔ان کی آمدن تو منجمند رہی جبکہ اخراجات پہلے سے زیادہ بڑھ گئے۔اس تبدیلی نے کروڑوں پاکستانیوں کو پریشان کر ڈالا۔
حکومت کی تین ماہی رپورٹ
قرضوں کے بوجھ کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ حکومت کو جس مد میں بھی آمدن ہو، اس کا بڑا حصہ قرضے اور ان کا سود اتارنے پر خرچ ہوجاتا ہے۔چناں چہ عوام کی ترقی اور فلاح کے منصوبے شروع کرنے کے لیے رقم ہی نہیں بچتی۔کچھ عرصہ قبل وفاقی وزارت خزانہ نے جاری مالی سال کے پہلے تین ماہ (جولائی تا ستمبر) کی آمدن و خرچ پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے جو چشم کشا حقائق وا کرتی ہے۔رپورٹ کے مطابق حکومت کو تین ماہ کے دوران ''ایک ہزار چار سو اناسی ارب روپے'' کی آمدن ہوئی۔ اس میں سے ''ایک ہزار ایک سو بیالیس ارب روپے'' ٹیکسوں کے ذریعے اور ''تین سو چھیالیس ارب روپے ''غیر ٹیکس ذرائع سے حاصل ہوئے۔ جبکہ وفاقی حکومت کا خرچ ''ایک ہزار سات سو پچھتر ارب روپے'' رہا۔ گویا حکومت کا بجٹ ''دو سو چھیاسی ارب روپے'' خسارے میں رہا۔ یہ خسارہ بیرونی اور مقامی مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر ہی پورا کیا گیا۔
اس رپورٹ کی نمایاں ترین بات یہ ہے کہ حکومتی آمدن کا سب سے بڑا حصہ یعنی ''پانچ سو اکتہر ارب اڑسٹھ کروڑ روپے'' قرضے اتارنے اور سود دینے پر خرچ ہوئے۔ دوسرا بڑا خرچہ دفاعی اخراجات کا تھا جس پر ''دو سو بیالیس ارب تریسٹھ کروڑ روپے'' خرچ ہوئے۔ ان تین ماہ میں ترقیاتی منصوبوں پر صرف ''ایک سو سینتالیس ارب سترہ روپے'' خرچ ہوئے۔ اس رقم کا بھی بیشتر حصہ منصوبوں سے منسلک ملازمین اور مشیروں کی بھاری تنخواہیں دینے پر اٹھ جاتا ہے۔ چناں چہ ترقیاتی منصوبوں پر حقیقی رقم بہت کم خرچ ہوتی ہے۔پاکستان میں ہر پورے مالی سال کے دوران حکومت کے آمدن و خرچ کی کم وبیش درج بالا صورت حال ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
عوام پر لگانے کو رقم نہیں
درج بالا سچائی سے احساس ہوتا ہے کہ جب سڑکوں پر گڑھے پڑ جائیں تو ان کی مرمت کیوں نہیں ہوتی؟ ہسپتال اور اسکول ٹوٹ پھوٹ جائیں، تو برسوں گزر جاتے ہیں اور ان کی مرمت نہیں ہوپاتی۔ اس عرصے میں بعض سرکاری عمارتیں تو کھنڈر بن جاتی ہیں۔ وجہ یہی کہ عوام کی فلاح و بہود کے کاموں اور تعلیم و صحت کے شعبوں پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں، دونوں بہت کم رقم خرچ کرتی ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں اور عوامی شعبوں کے لیے جو رقم مختص ہو، اس کا بیشتر حصہ تنخواہیں دینے پر لگ جاتا ہے۔
باقی رقم میں سے کچھ حصہ کرپشن کی نذر ہوتا ہے۔ یوں آٹے میں نمک برابر حصہ ہی عوام تک پہنچ جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس افسوسناک صورتحال میں عوام سرکاری سہولیات سے کسی طور فائدہ نہیں اٹھاسکتے بلکہ ہرجگہ خوار ہی ہوتے ہیں چاہے وہ ہسپتال ہو یا کوئی سرکاری محکمہ۔
قرضے اتارنے، دفاعی اخراجات پورے کرنے اور ترقیاتی اخراجات کے بعد وفاقی حکومت کے پاس تقریباً 620 ارب روپے بچ گئے۔ یہ رقم ان گنت سرکاری محکمے اور ادارے چلانے پر صرف ہوئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سرکاری اداروں میں سے بیشتر خسارے میں جارہے ہیں۔ ہر ماہ انہیں چلانے کی خاطر اربوں روپے خرچ کردیئے جاتے ہیں مگر انہیں بند نہیں کیا جارہا اور نہ ہی ان کی نجکاری ہوتی ہے۔ وہ حکومت کے لیے سفید ہاتھی بن چکے مگر ان سے چھٹکارا پانے کی کوئی سبیل فی الوقت دکھائی نہیں دیتی۔
قرضوں کا پہاڑ جیسا بوجھ تبھی کم ہوگا جب حکومت کی آمدن بڑھ جائے۔ اس کے بعد ہی حکومت عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ ترقیاتی منصوبے بھی شروع کرسکے گی۔ تعلیم و صحت کے اہم شعبوں کی خاطر زیادہ رقم میسر آئے گی۔ملک میں شرح خواندگی میں اضافہ ہو گا۔
غریبوں کو سستے علاج کی سہولت میّسر آئے گی۔ حکومت کی آمدن صرف دو صورتوں میں بڑھ سکتی ہے... اول یہ کہ پاکستان میں اتنا زیادہ تیل یا کوئی اور قدرتی وسیلہ دریافت ہوجائے کہ حکومت اسے مقامی و عالمی منڈیوں میں بیچ کر پیسہ کماسکے۔ دوم یہ کہ پاکستانی ایمانداری سے اپنے حصہ کے ٹیکس ادا کرنے لگیں۔حالات مدنظر رکھتے ہوئے آخری تجویز ہی قابل عمل لگتی ہے۔ مگر اس پر عمل درآمد کون کرے گا؟پاکستان میں تو تاجروں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ لین دین کے دوران ان سے شناختی کارڈ دکھانے کو کیوں کہا جا رہاہے؟یہ بتانا تو دور کی بات ہے کہ سال بھر میں انھیں کتنی آمدن ہوتی ہے اور وہ کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
ہم سب خرابی کے ذمے دار
ایف بی آر کے ڈیٹا کی رو سے پاکستان میں تقریباً پینتیس لاکھ تاجر موجود ہیں۔ ان میں سے صرف تین لاکھ بارہ ہزار ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں ۔جبکہ لاکھوں ایسے تاجر ہیں جو ہر سال ایک بار ضرور عمرہ ادا کرتے ہیں مگر ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی زحمت نہیں فرماتے۔ پچھلے مالی سال کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی اور فیصل آباد کی بڑی مارکیٹوں کے صرف ایک لاکھ چار ہزار تاجروں نے انکم ٹیکس ادا کیا۔یہ رقم صرف پینتیس ارب روپے پر مشتمل تھی۔ اب ایک اور تلخ حقیقت ملاحظہ فرمائیے۔ ملک میں پینتیس لاکھ تاجر سرگرم ہیں مگر صرف تین لاکھ بانوے ہزار نے ٹیکس دینے کے سلسلے میں خود کو رجسٹر کروا رکھا ہے۔
تجار کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششیں پچھلے چالیس برس سے جاری ہیں مگر کسی حکومت کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ایک وجہ یہ ہے کہ تجار نہ صرف سیاسی طور پر اثر و رسوخ رکھتے بلکہ مطالبات نہ ماننے پر احتجاجی مظاہرے کرنے لگتے ہیں۔ مثلاً پی ٹی آئی حکومت نے پارلیمنٹ سے یہ بل منظور کرایا کہ جو تاجر سالانہ بجلی کا بل چھ لاکھ روپے دیتا ہے۔
اسے درجہ اول (کلاس ون) کا تاجر سمجھا جائے گا۔ لہٰذا اسے 17 فیصد سیلز ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ مگر حکومتی ٹیم نے تاجروں کے ساتھ 30 اکتوبر 2019ء کو جو گیارہ نکاتی معاہدہ کیا، اس میں درج بالا بجلی کے بل کی حد بارہ لاکھ روپے کردی گئی۔ گو یا حکومت نے پارلیمنٹ میں اپنے ہی منظور کردہ قانون کا گلا گھونٹ دیا۔ حکومت و تجار کے معاہدے میں تاجروں کو مزید سہولتیں بھی دی گئیں۔ مثلاً شناختی کارڈ دکھانے کی شرط 31 جنوری 2020ء تک موخر ہوگئی۔
بعض نوجوان پاکستانی ماہرین معاشیات کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے 99 فیصد باشندے ایمانداری سے ٹیکس نہیں دیتے۔ وہ کہیں نہ کہیں ضرور ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب پاکستانی دیانت داری سے ٹیکس ہی ادا نہیں کرتے، تو کیا وہ حکومت کو ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور سرکاری ہسپتالوں اور سکولوں کیحالت زار کا ذمے دار ٹھہراسکتے ہیں؟ اس بات سے تو عیاں ہے کہ پاکستان کی معاشی بدحالی اور پستی کے ذمے دار حکومت اور یہاں کے عوام و خواص، دونوں ہیں۔
جب تک حکومت اور پاکستانی باشندے دیانت داری و سچائی نہیں اپناتے،اپنے فرائض ایمان داری سے ادا نہیں کرتے تب تک قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پاکستان ترقی پذیر، قرضوں میں جکڑا اور معاشی مسائل میں پھنسا ملک ہی رہے گا۔
وقت کم ہے اور مقابلہ سخت
اقتدار سنبھالنے سے قبل تحریک انصاف کے اکثر لیڈر بشمول عمران خان ٹیکس چوری پر کھل کر گفتگو کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس چور سیاست دانوں، جاگیرداروں، صنعت کاروں اور تاجروں کے اربوں روپے بیرون ممالک میں پڑے ہیں۔ یہ لوگ پی پی پی اور مسلم لیگ کی آشیرباد سے ٹیکس چوری کرتے ہیں۔
بدلے میں ان سیاسی جماعتوں کو الیکشن جیتنے میں مالی مدد کرتے ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں حکومت میں آکر نت نئے قوانین اور ایمنٹسی اسکیموں کے ذریعے امیر ٹیکس چوروں کو مراعات دیتی اور یہ موقع بھی فراہم کرتی ہیں کہ وہ اپنے اربوں کھربوں روپے کے کالے دھن کو معمولی جرمانہ ادا کرکے سفید بنالیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اقتدار سنبھال کر پی ٹی آئی حکومت نے بھی ایمنسٹی سکیم متعارف کرادی تاکہ پاکستان اور بیرون ملک بیٹھے دولت مند معمولی جرمانے دے کر اپنے کالے کرتوتوں کو سفید بنالیں۔ اس سے تو عیاں ہے کہ پی ٹی آئی بھی سابقہ حکومتوں کے نقش قدم پر چل پڑی۔
پاکستان کی نئی نسل کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پچاس ساٹھ سال قبل ایشیا میں ہماری قومی معیشت اور معاشی ٹیم کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ جنوبی کوریا، ملائشیا، تھائی لینڈ وغیرہ کے ماہرین پاکستان آکر یہ دیکھتے اور سیکھتے تھے کہ پاکستانی معاشی ٹیم نے کیونکر اپنے ملک کی معیشت بہتر کر ڈالی۔ لیکن پھر زوال شروع ہوگیا۔ آج تمام بڑے ایشیائی ممالک میں پاکستان کی سالانہ شرح ترقی (3.3 فیصد) سب سے کم ہے۔ کل کے غریب ملک معاشی ترقی کرکے امیر ہوگئے جبکہ پاکستان حکمرانوں اور عوام و خواص کی خودغرضی، لالچ اور بے ایمانی کے سبب غریب ہوتا چلا گیا۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ سارا حکومتی نظام قرضے لے لے کر چلایا جارہا ہے۔
یہ بہرحال حقیقت ہے کہ عام پاکستانی اپنے ملک کی معاشی بدحالی کا زیادہ ذمے دار نہیں۔ وہ بالعموم تمام ان ڈائریکٹ (بالواسطہ) ٹیکس ادا کرتا ہے جن کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔اس کی سالانہ آمدن اتنی ہے نہیں کہ وہ لاکھوں روپے کا انکم ٹیکس ادا کرسکے۔ اس کی بس یہی تمنا ہے کہ پیٹ بھرنے کو اچھی غذا، تن ڈھاپنے کو عمدہ لباس اور سر چھپانے کے لیے اچھا ٹھکانہ مل جائے۔
وہ اپنے بچوں کا مستقبل بھی خوشگوار اور پر آسائش دیکھنا چاہتا ہے۔ پچھلے سال اسی عام پاکستانی نے تبدیلی لانے اور نظام حکومت بدلنے کی داعی پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تاکہ وہ اس کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرسکے۔ نئی حکومت گزشتہ برس اکثر معاشی شعبوں میں تبدیلی لائی مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ حکومت کے پاس وقت کم ہے جبکہ اسے سخت مقابلہ درپیش ہے۔ ''نیا پاکستان'' بنانے کی راہ کٹھن اور خاردار ہے۔
سسٹم کے خلاف جنگ
عام پاکستانی کو یہ سچائی مدنظر رکھنا ہوگی کہ اگر خصوصاً عمران خان اور ان کی ٹیم نے نامراد و فرسودہ حکومتی و معاشی نظام بدلنے کی کوششیں کی، تو وہ قوتیں انہیں ناکام بنانے کی سرتوڑ سعی کریں گی جو اس نظام سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اس نظام کی بدولت ہی انہیں دولت و طاقت حاصل ہوئی۔ ظاہر ہے، اگر اس غیر قانونی نظام کی بساط لپیٹ دی جائے تو انہیں ہی سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔ لہٰذا ان کی تو پوری کوشش ہوگی کہ یہ عوام دشمن مگر ان کے مفادات کو عملی شکل دینے والایہ کرپٹ نظام برقرار رہے۔
پی ٹی آئی حکومت اگر عام پاکستانیوں سے کیے گئے اپنے انتخابی وعدے پورا کرنا چاہتی ہے، تو اسے فرسودہ نظام سے وابستہ مختلف مافیاؤں کا ہمت و استقلال سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ پچھلے تین عشروں سے پاکستان میں ہر سال جنم لینے والی دولت کا بیشتر حصہ انہی مافیاؤں کے ہاتھوں اور تجوریوں میں جارہا ہے۔
اسی انوکھے عمل نے معاشی طور پر کئی خرابیاں پیدا کر ڈالیں۔ مثلاً چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز، کاروبار و صنعت و تجارت کے بجائے گولڈ یا زمینوں میں زیادہ سرمایہ کاری، دولت کی نامنصفانہ تقسیم اور غربت میں اضافہ۔ 2005ء سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا کیونکہ پاکستانی کاروبار و صنعت و تجارت میں بہت کم سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ دولت مندوں کا محبوب مشغلہ نئی نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں پلاٹ یا کوٹھیاں خرید لینا ہے۔
پاکستان میں چونکہ آبادی بڑھ رہی ہے لہٰذا زمین اور مکان کی مانگ میں بھی اضافہ جاری ہے۔ یہ قدرتی عمل پلاٹوں اور گھروں کی قیمتیں بھی بڑھا رہا ہے۔ مگر قیمتیں بڑھانے کے اس عمل میں مالکان زمین یا سرمایہ کاروں کا کوئی دخل نہیں۔ اسی طرح رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، البتہ رقم لگانے والے کو طویل المعیاد پر مالی فائدہ ہوجاتا ہے۔ ماہرین معاشیات اس عمل کو ملک کے لیے مفید بنانے کی خاطر حکومت کو تجویز دیتے ہیں کہ وہ زمینوں پر لینڈ ٹیکس لگادے۔ دنیا کے اکثر ملکوں میں یہ ٹیکس رائج ہے۔
اس کے ذریعے زمینوں میں اپنا سرمایہ منجمند کردینے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور وہ اپنی رقم حقیقی کاروبار اور صنعت و تجارت کے شعبوں میں لگائیں گے۔ دور جدید میں کسی بھی قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے یہی شعبے بنیاد بن چکے۔
ہمارے شعبہ زراعت میں بھی خاصی خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً گنا ہماری اہم پیداوار ہے جس سے چینی بنتی ہے۔ مگر گنا اگانے میں بہت پانی استعمال ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں ہر سال پانی کی کمی واقع ہورہی ہے۔ اسی صورتحال میں بیس پچیس لاکھ ایکڑ رقبے پر گنا اگانے کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔
ہمیں چینی کی طلب و مانگ مدنظر رکھ کر یہ فصل اگانی چاہیے تاکہ بقیہ زمین پر دیگر مفید اور کم پانی پینے والی فصلیں اگائی جاسکیں۔ مزید براں حکومت بڑے جاگیرداروں و زمیں داروں کو جو سبسڈی دیتی ہے، اسے ختم ہونا چاہیے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک مقروض حکومت کیونکر امرا کو سبسڈیاں دے رہی ہے؟ شعبہ برآمدات اور مختلف صنعتی شعبوں مثلاً آٹو سیکٹر کو بھی سبسڈیاں دی جاتی ہیں۔ مگر اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ،الٹا حکومت مزید مقروض ہوجاتی ہے۔
دراصل جدید ماہرین معاشیات کی نظر میں دو اہم وجوہ کے باعث پاکستانی معیشت بحران کا شکار ہے۔ اول یہ کہ اس کی برآمدات منجمند ہیں۔ دوم حکومت کو اتنی آمدن نہیں ہوتی کہ وہ عام پاکستانیوں کی ترقی و فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کرسکے۔ جب عمران خان نے حکومت سنبھالی تو انہیں یہ دونوں اہم معاشی مسائل ورثے میں ملے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے معاشی بحران کی ذمے دار پی ٹی آئی کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا، اسے تو حکومت سنبھالے بقول شخصے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ جب وہ برسراقتدار آئی تو نہ صرف سرکاری خزانہ خالی تھا بلکہ تجارتی خسارہ بھی آسمان پر پہنچ چکا تھا۔ آمدن اور اخراجات میں بارہ ارب ڈالر کا فرق پیدا ہوگیا تھا۔ سرکاری خزانہ خالی ہونے پر ہی حکومت کو دوست ممالک اور آئی ایم ایف سے قرضے لینے پڑے تاکہ قومی معیشت مستحکم ہوسکے۔
اخراجات کم کرنا بہترین پالیسی
قرضوں کی بنیاد پر قومی معیشت کومستحکم کرنا مگر درست پالیسی نہیں۔ بہترین طریقہ کار یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت سب سے پہلے حکومتی اخراجات کم کرے جو مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ مثلاًخرچ گھٹانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ خسارے میں جانے والے سرکاری ادارے اور کمپنیاں بند کر دی جائیں۔ انہیں نجی شعبے کے بھی سپرد کیا جا سکتا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کی رو سے 197سرکاری ادارے خسارے میں جا رہے ہیں۔ حکومت روزانہ انہیں چلانے کی خاطر کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔یہ خسارہ زدہ سرکاری ادارے تقریباً دو ہزار ارب روپے کے مقروض ہو چکے۔
ایک طرف آمدن کم ہے' تو دوسری جانب حکومت نے درمیانے اور چھوٹے معاشی شعبوں کی ترقی کے لیے انہیں ٹیکسوں سے چھوٹ دے رکھی ہے۔ یہ شعبے یقیناً قومی معیشت کو ترقی دیتے اور مستحکم کرتے ہیں مگر حکومت کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ٹیکسوں میں چھوٹ سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے؟ ایسا تو نہیں کہ سارے مالی فوائد مٹھی بھر مالکان سمیٹ رہے ہوں جبکہ کارکنوں تک اس سرکاری مدد کے ثمرات نہیں پہنچ پاتے۔
ماہ اکتوبر2019ء میں سینٹ پاکستان کی فنانس و ریونیو کمیٹی نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ درمیانے اور چھوٹے معاشی شعبوں (کاٹیج انڈسٹری اور سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائیزز) کو دی جانے والی ٹیکس چھوٹوں میں اضافہ کیا جائے۔ تب ایف بی آر کے بورڈ ممبر ،حامد عتیق سرور نے کمیٹی میں پیش ہو کر انکشاف کیا کہ جاری مالی سال میں حکومت درمیانے اور چھوٹے معاشی شعبہ جات کو 1800 ارب روپے مالیت کی ٹیکس چھوٹ دے گی۔ یہ پچھلے مالی سال کی نسبت تقریباً دگنی چھوٹ ہے۔
حامد عتیق سرور نے اپنی تقریر میں انکشاف کیا کہ ایک طرف حکومت عوام پر خرچ کرنے کے لیے 50 ارب روپے کا بندوبست نہیں کر پاتی۔ مگر دوسری سمت وہ چھوٹے اور درمیانے معاشی شعبوں کو اربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ دے رہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ شعبے ترقی کر سکیں۔ مگر حکومت یہ جائزہ نہیں لیتی کہ ٹیکس چھوٹوں سے مطلوبہ مقصد حاصل ہو رہا ہے یانہیں؟ انہوںنے مزید کہا کہ قرضے ' سود اور پنشن دینے اور دفاع پر خرچنے کے بعد حکومت کے پاس عوامی ترقیاتی منصوبوں کی خاطر بہت کم رقم بچتی ہے۔
ایف بی آر بورڈ کے رکن کی چشم کشا باتوں سے عیاں ہے کہ پاکستان کا ٹیکس نظام خامیوں سے پُر ہے۔ ایک طرف ٹیکس دینے والوں پر نت نئے ٹیکس لگا کر یا ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر کے ان پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا۔ دوسری سمت بعض مخصوص معاشی شعبوں کو ایک ہزار آٹھ سو ارب روپے کی ٹیکس چھوٹیں دی جا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بتیس ہزار ارب روپے کی مقروض حکومت کیا ہر سال اٹھارہ سو ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دینے کی متحمل ہو سکتی ہے؟ یہ مخیر پن ایسی حکومت کو ہی زیب دیتا ہے جو ہر ماہ کھربوں روپے کمائے۔ پاکستان میں تو ایف بی آر مالی سال 2018-19ء میں 3828ارب روپے ہی اکٹھے کر سکا حالانکہ اس کا ٹارگٹ 4435ارب روپے تھا۔
پچھلے تیس برس میں حکومتی مشینری بہت پھیل گئی ہے یا افسر شاہی نے اسے پھیلا دیا ۔سرکاری اخراجات کم کرنے کے سلسلے میں یہ امر بھی بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک سمت سینکڑوں حکومتی ادارے خسارے میں چل رہے ہیں تو دوسری سمت حاضر و ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے اخراجات ہر سال بڑھ جاتے ہیں۔
اعلیٰ افسروں کی تنخواہوں اور مراعات کا ماہانہ خرچ اربوں روپے ہے۔ اسی طرح ریٹائرڈ ملازمین کی پنشنوں اور مراعات کا ماہانہ خرچ بھی اربوں روپے تک پہنچ چکا۔ عوام سے حاصل کردہ ٹیکسوں کی رقم ہی سے اس وسیع و عریض حکومتی مشینری کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ مرے پر سو درے کے مصداق ان ٹیکسوں میں سے بیشتر ان ڈائرکٹ ہیں۔ یعنی وہ امیر و غریب کے مابین تمیز نہیں کرتے۔ اگر امیر سو روپے پر دس روپے موبائل ٹیکس دیتا ہے تو غریب بھی اتنے ہی دے گا۔ ایسا غیر منصفانہ ٹیکس نظام یقیناً غریب و عوام دشمنی ہے۔
ماہرین معاشیات نے پی ٹی آئی حکومت کو تجویز دے رکھی ہے کہ خسارہ زدہ سرکاری ادارے نجی شعبے کے حوالے کر دیئے جائیں۔ اسی طرح نہ صرف حکومت کو ان کے مالی بوجھ سے نجات ملے گی بلکہ ادارے منافع بخش بھی بن سکتے ہیں۔ اسد عمر نے وزیر خزانہ بن کر ''سرمایہ پاکستان کمپنی'' تشکیل دی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی تعمیر نو ہو سکے۔ لیکن جیسے ہی وہ وزارت خزانہ سے رخصت ہوئے ان کی بنائی کمپنی بھی ختم ہو گئی۔ اس کمپنی کے تحت سرکاری اداروں کو ملائشیا یا سنگا پور ماڈل کے مطابق چلانا مقصود تھا۔
۔۔۔
زیورات کی جگہ ٹماٹر
کچھ عرصہ قبل کراچی میں جب ٹماٹروں کی قیمت ساڑھے تین سو روپے فی کلو سے بھی زیادہ بڑھی تو شہر قائد کی ایک نٹ کھٹ دلہن نے اس تاریخی واقعے کو عجب انداز میں یاد گار بنا دیا۔ اس نے اپنی شادی کے موقع پر ٹماٹروں سے بنا ہار' گہنے' جھمکے اور مانگ ٹیکا پہن کر سبھی کو حیران کر ڈالا۔ بڑھتی مہنگائی پر ایک پاکستانی دلہن کی پُرلطف چوٹ پہ مبنی ویڈیو پوری دنیا میں دلچسپی سے دیکھی گئی۔وڈیو میں دلہن بتاتی ہے کہ سونا بہت مہنگا ہو چکا۔ ٹماٹر اور چلغوزوں کی قیمت بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔
اسی لیے میں نے طلائی زیور کی جگہ ٹماٹر اور چلغوزے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ دلہن کو چلغوزے اپنے بھائی اور دیگر رشتے داروں سے بطور ''سلامی'' موصول ہوئے۔ یوں ایک دلہن اور اس کے گھر والوں کی دلچسپ شرارت نے بظاہر جان عذاب میں ڈال دینے والی مہنگائی کا بھی مزاحیہ روپ اہل پاکستان کو دکھا دیا۔
وطن عزیز میں ٹماٹر مرغ زریّں بنے تو اُدھر ہمارے پڑوسی،بھارت میں ایک اور عام استعمال کی سبزی ،پیاز ققنس بن بیٹھی۔کروڑوں بھارتی باشندے اس ققنس کی تلاش میں مارے مارے پھرنے لگے مگر وہ بعض علاقوں میں 160روپے(350پاکستانی روپے)فی کلو ادا کرنے کے بعد ہی بمشکل ہاتھ آتا۔پیاز اگانے والے علاقوں میں بھی اس کی قیمت راتوں رات 115روپے (پاکستانی 251روپے)تک جا پہنچی۔
اس صورت حال میں بنارس شہر کے باسی،کمال پٹیل کی شادی آ گئی۔ تقریب پُرمسرت کے موقع پر پٹیل بھائی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی دلہنیا کے ساتھ پیاز،لہسن اور ادرک سے سجے ہار وگجرے زیب تن کریں گے۔یہی نہیں،بیاہ میں شریک سبھی مہانوں نے بھی انھیں سبزیوں سے بنے ہار پہنائے۔یوں بھارتی جوڑے نے بھی اس عمل سے ہم وطنوں کو پیغام دیا کہ بھائیو!ہوشیار ہو جاؤ، اب تو بڑھتی مہنگائی میںسبزیاں و پھل بھی گولڈ کی طرح بیش قیمت بن رہے ہیں۔گویا مستقبل کی شادیوں میں سونا نہیں سبزی وپھل بطور زیورات اور سلامیاں برتے جائیں گے۔جدید دور میں آپ کا سواگت!
پاکستانی حکومت کا انقلابی منصوبہ
حال ہی میں حکومت پاکستان نے ایک انقلابی پروگرام ''پی ایس ڈی پی(پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام )پلس ڈویلپمنٹ پلان''کی تشکیل کا اعلان کیا۔جوش وجذبے سے جاری کیے اس منصوبے کے تحت 2020ء تا 2023ء یعنی چار برس کے دوران ''میگا پروجیکٹ'' مکمل کیے جائیں گے۔
ان پروجیکٹس پر تقریباً پانچ ہزار دو سو ارب روپے لاگت آئے گی۔یہ عظیم الشان پروجیکٹ حکومت اور نجی شعبے کے تعاون سے انجام کو پہنچیں گے۔وزیراعظم عمران خان اس منفرد پلان کی منظوری دے چکے۔واضح رہے، یہ حکومت کے جاری روایتی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام سے الگ اور مختلف مہا منصوبہ ہے۔دراصل پاکستان میں ہر سال تیرہ لاکھ نوجوان جاب مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔ان سب کو ملازمتیں درکار ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی اور مستقبل سنوار سکیں۔مگر ان سب کو نوکریاں اسی وقت ملیں گی جب پاکستان کی معیشت سالانہ 6.6فیصد کے لحاظ سے ترقی کرے۔
لیکن فی الوقت اس کی شرح صرف 3.3فیصد ہے۔حقیقت میں اس سے بھی کم ہو سکتی ہے۔وطن عزیز میں نئی ملازمتیں جنم دینے کی خاطر ہی پی ٹی آئی حکومت نے ''پی ایس ڈی پی(پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام )پلس ڈویلپمنٹ پلان''ترتیب دیا ہے۔اسے امید ہے کہ اس کے میگا پروجیکٹ پاکستان میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کریں گے۔ماہرین معاشیات کے نزدیک پاکستانی حکومت نے ترکی کا ماڈل مدنظر رکھتے ہوئے درج بالا پلان تیار کیا ہے۔ترکی کی اردغان حکومت نے 2013ء تا 2018ء کے دوران روایتی سرکاری اخراجات کے علاوہ اہم و کلیدی شعبوں پر 136ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی تھی۔
مدعا یہ تھا کہ معاشی ترقی کی شرح کو چھ فیصد سے بلند رکھا جائے۔یہ ماڈل اپنا لینے سے ترک حکومت کو زبردست کامیابی ملی۔اب پاکستان بھی اسی ماڈل پر عمل کر کے اپنی معاشی ترقی میں اضافہ چاہتا ہے۔ماہرین کی روسے نجی شعبے نے حکومتی پلان میں دلچسپی لی تو اس کی کامیابی کا امکان روشن ہے۔پاکستان ساڑھے بائیس کروڑ انسانوں کی ایک بڑی منڈی ہے۔لہذا نجی شعبہ اگر اپنی بھرپور صلاحیتیوںسے کام لے تو وہ یہاں بہت ترقی کر سکتا ہے۔اس کی ترقی ملک وقوم کو بھی خوشحال بنا دے گی۔
انسانی ترقی اشاریہ میں قومی زوال
یہ 1990ء کی بات ہے، ممتاز پاکستانی ماہر معاشیات، ڈاکٹر محبوب الحق نے دنیا کے تمام ممالک میں انسانی ترقی کا جائزہ لینے کی خاطر ایک سائنسی طریق کار ایجاد کیا جو اب ''انسانی ترقی اشاریہ'' ( Human Development Index ) کہلاتا ہے۔
اس طریق کار میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک ملک میں افراد کی اوسط عمر کتنی ہے، شرح خواندگی کم ہے یا زیادہ اور لوگوں کا معیار زندگی کیسا ہے۔ دنیا کے جس ملک میں اوسط عمر اور شرح خواندگی زیادہ ہو اور شہری بلند معیار زندگی رکھتے ہوں، تو اس کا انسانی ترقی اشاریہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔انسانی ترقی اشاریہ میں دنیا کے تمام ممالک چار درجوں میں منقسم ہیں... بہت زیادہ انسانی ترقی(Very high human development)، زیادہ انسانی ترقی(High human development)، وسطی انسانی ترقی(Medium human development) اور کم انسانی ترقی(Low human development)۔ اقوام متحدہ کا ادارہ، یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام ہر سال ایک '' ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ'' جاری کرتا ہے۔ اس میں دنیا کے سبھی ممالک کی انسانی ترقی اشاریہ کے لحاظ سے درجہ بندی کی جاتی ہے۔ دسمبر 2019ء میں ادارے کی تازہ رپورٹ جاری ہوئی۔
اس رپورٹ کے مطابق انسانی ترقی اشاریہ میں پہلے دس ممالک ناروے، سوئٹزر لینڈ، آئرلینڈ، جرمنی، ہانگ کانگ، آسٹریلیا، آس لینڈ، سویڈن، سنگاپور اور ہالینڈ آتے ہیں۔ جبکہ اشاریہ میں نائیجیر، جمہوریہ وسطی افریقہ، چاڈ، جنوبی سوڈان،برونڈی،مالی ،اریٹیریا،برکینا فاسو، سیری لیون اور موزمبیق آخری دس نمبر پر آئے۔ یہ سبھی افریقی ممالک ہیں۔
پاکستان شروع سے درجہ ''وسطی انسانی ترقی'' میں شامل ہے۔ افسوسناک بات یہ کہ ماضی میں اس کا نمبر زیادہ تھا۔ لیکن تازہ رپورٹ میں وہ اپنے درجے میں تقریباً سب سے نیچے یعنی 152 نمبر پر آیا ہے۔ اس کے بعد بس سولومن جزائر کا نمبر ہے۔ ہمارے پڑوسی ممالک کے نمبر یہ رہے: ایران(65)، سری لنکا (71)) ،چین (85)، بھارت (129)، بھوٹان (134)، بنگلہ دیش (135) اور افغانستان (170)۔ اعدادو شمار سے عیاں ہے کہ جنگ سے تباہ حال افغانستان کو چھوڑ کر پاکستان انسانی ترقی کے معاملے میں اپنے تمام پڑوسیوں سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس خرابی کے ذمے دار ہمارے حکمران ہیں جنہوں نے پاکستانی قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے۔
وہ بس مخصوص ایلیٹ طبقے کے مفادات پورے کرنے میں اپنی توانائیاں اور حکومتی خزانہ صرف کرتے رہے۔ کیا پی ٹی آئی حکومت اس روش میں تبدیلی لاسکے گی؟ کیا وہ عام پاکستانیوں کو صحت کی عمدہ سہولیات دے گی تاکہ ان کی اوسط عمر بڑھ سکے جو فی الوقت صرف 66 سال ہے۔ کیا انہیں تعلیم کی معیاری سہولیات دے گی تاکہ وہ پڑھ سکیں؟ کیا انہیں روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرے گی تاکہ عام پاکستانی کا معیار زندگی بلند ہوسکے؟ پاکستانی عوام یہ تبدیلیاں دیکھنے کے مشتاق و آرزو مند ہیں۔
عالمی معیشت... 2019ء میں
گذشتہ برس بھی عالمی معیشت دو بڑی معاشی طاقتوں، چین اور امریکا کی تجارتی جنگ کے باعث مختلف مصائب اور مشکلات کا شکار رہی۔چین دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر اور اور امریکا سب سے بڑا امپورٹر، لہذا دو سال قبل ان کی تجارتی جنگ چھڑی تو اس کے اثرات نے دنیا بھر کی معیشتوں کو متاثر کیا اور وہ زوال پذیر ہو گئیں۔اس انوکھی جنگ کا آغاز جنوری 2018ء سے ہوا تھا جب ٹرمپ حکومت نے چین سے آنے والے سامان پر نئے ٹیکس لگا دئیے۔تلملا کر چینی حکومت نے بھی امریکی مال پہ ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی۔
اب دونوں معاشی قوتوں کے مابین تجارتی جنگ شروع ہو گئی۔ایک معاصر کے سامان پہ نئے ٹیکس لگاتا یا ٹیکسوں کی شرح بڑھا دیتا تو دوسرا بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا۔ٹرمپ نے بعد ازاں یورپی ممالک اور بھارت کے خلاف بھی تجارتی جنگ چھیڑ دی۔اس لڑائی نے دنیا کے ہر ملک میں اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھا دیں۔صنعت ، تجارت اورکاروبار سے وابستہ افراد کے لیے پیداواری لاگت بڑھ گئی۔اگرچہ چین اور امریکا جب دیگر ممالک سے بھی سامان منگوانے لگے تو انھیں مالی فائدہ پہنچا۔تجارتی جنگ نے دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں کو بھی صدمہ پہنچایا کہ سرمایہ کار حصص میں رقم لگانے سے گریز کرنے لگے۔غرض دونوں معاشی سپرپاورز کی لڑائی نے عالمی معیشت پر زوال سا طاری کر دیا۔آخر اکتوبر 2019ء میں جنگ کا درجہ حرارت کم ہوا اور امریکا و چین نے کسی حد تک مفاہمت کر لی۔
انھوں نے ایک دوسرے کے سامان پہ نئے ٹیکس لگانے یا ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کا سلسلہ روک دیا۔انوکھی لڑائی تھم جانے سے دنیا بھر کے معاشی و مالیاتی شعبوں سے وابستہ مردوزن نے سکون کا سانس لیا۔اب عالمی معیشت پر نظر رکھنے والے مالیاتی ادارے پیش گوئی کر رہے ہیں کہ 2020ء میں وہ ترقی کرے گی اور خوشحالی آنے کے آثار ہویدا ہیں۔دنیا کی ایک اور بڑی معاشی قوت،یورپی یونین میں بریگزٹ معاملے کی وجہ سے معیشت پہ سیاہ بادل چھائے رہے۔
2019ء کے بیشتر عرصے برطانیہ میں حکمران جماعت اور اپوزیشن پارٹیاں بریگزٹ معاملے پر الجھتی رہیں۔اس لیے برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں میں معاشی حالات اونچ نیچ کا نشانہ بنے رہے۔واضح رہے،برطانوی پونڈ بین القوامی کرنسی بن چکا۔سیاسی ہنگاموں کی وجہ سے پونڈ کی قیمت میں اتار چڑھاؤ عالمی معیشت کو دھچکے دیتا رہا۔اب برطانیہ میں کنزرویٹیو پارٹی کی جیت سے بریگزٹ معاملہ حل ہونے کے قریب ہے۔اس تبدیلی سے بھی2020ء میں عالمی معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔ماہرین معاشیات کا کہنا ہے،آج دنیا میں ''پچاس فیصد''سے زائد آبادی متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔
گویا انسانی تاریخ میں پہلی بار کرہ ارض پہ غریبوں کی تعداد کم ہو چکی اور ان کی جگہ متوسط طبقہ لے چکا۔فی الوقت زمین پر بستے ساڑھے سات ارب انسانوں میں سے پونے چار ارب متوسط طبقے کے رکن بن چکے اور ان کی تعداد میں اضافہ جاری ہے۔یہی انسان آنے والے برسوں میں نہ صرف عالمی معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھیں گے بلکہ اس کی بڑھوتری اور ترقی کا بھی سبب بن جائیں گے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ پونے چار ارب افراد میں سے ''80 فیصد''ایشائی ہیں۔یعنی عالمی معیشت میں براعظم ایشیا ایک بار پھر سرتاج بننے کی راہ پہ گامزن ہے۔انیسویں صدی سے قبل بھی چین اور جنوبی ایشیا (بھارت،پاکستان،بنگال)ہی عالمی معیشت کی بڑی قوت تھے۔آج عالمی متوسط طبقے میں بیشتر لوگ انہی دو خطوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
عالمی معیشت اگرچہ تیزی سے اپنا رنگ روپ بدل کر نئے چولے میں آ رہی ہے۔اب ڈیجیٹل معیشت کا دور شروع ہے جو مصنوعی ذہانت اور مشینی طاقت پر استوار ہو گا۔یہ دونوں نئی ایجادات ان انسانی صلاحیتوں اور مہارتوں میں بھی بنیادی تبدیلیاں لا رہی ہیں جنھوں نے جدید انسانی معاشروں کے قیام میں مرکزی کردار ادا کیا۔مستقبل میں جو ممالک ڈیجیٹل معیشت کی خصوصات اپنا لیں گے،وہی عالمی معیشت کی بھی نمایاں قوتیں بن سکیں گے۔یہ حقیقت پاکستان کے حکمران طبقے کو بھی مدنظر رکھنی چاہئے ۔