شیر شاہ سوری کے پانچ سالحصہ اول

قیام جونپور 1501ء تا 1511ء کے دوران فرید خان نے وہاں کے علمی حلقوں میں شہرت حاصل کی

شیر شاہ سوری جس کا اصلی نام فرید خان تھا ماضی کے جھروکوں سے یادوں کو تازہ کرتا چلوں میری بات سب ہی سمجھ سکیں گے بلکہ تاریخ برصغیر کے طلبا تفصیل سے بخوبی واقف ہیں علاوہ ازیں میری گفتار خواص کے لیے نہیں عوام کے لیے ہے جو ذہین و صالح ہیں۔

ہمایوں کی جلا وطنی اور تخت کی بازیابی کے درمیانی عرصے میں برصغیر میں افغان حکومت دوبارہ قائم ہوئی۔ افغان اقتدار کا یہ احیا شیر شاہ سوری کی شہرہ آفاق شخصیت کا مرہون منت تھا۔ اعلیٰ نظام حکومت قائم کرکے آنے والے حکمرانوں کی رہبری کی اور برصغیر کی سیاست، ثقافت اور معاشرے میں وہ نقوش دوام چھوڑے جوکہ وقت کی چیرہ دستی، مغلوں کی مخالفت سے بھی مٹ نہ سکے۔ شیرشاہ کا اصلی نام فرید خان تھا اس کا قبیلہ ''سور'' غوری سلاطین کی ایک شاخ تھی۔ حسن خان کے آٹھ لڑکے تھے جن میں فرید خان سب سے بڑا تھا حسن خان فرید خان اور اس کی افغان والدہ سے بے توجہی برتتا تھا بلکہ سوتیلی ماں کی بدسلوکی سے تنگ آکر فرید خان نے جونپورکا رخ کیا۔

قیام جونپور 1501ء تا 1511ء کے دوران فرید خان نے وہاں کے علمی حلقوں میں شہرت حاصل کی۔ یہاں تک کہ جمال خان گورنر جونپور نے باپ بیٹے میں مصالحت کرائی اور حسن خان کو اور بیٹے کی قدرکرنے کی ہدایت کی۔ چنانچہ اس نے سہسرام اور خواص، پورٹانڈا کا انتظام بیٹے کے سپرد کردیا۔ فرید خان نے کم و بیش سات آٹھ سال تک 1511ء تا 1519ء ان جاگیروں کا انتظام محنت و جانفشانی سے کیا۔ فرید خان نے خاص طور سے چوری اور ڈاکہ زنی کو بڑی سختی سے کچل دیا۔ اس کی مالی حکمت عملی اور قیام امن سے کاشتکار بڑے خوشحال تھے۔ ناظم کی حیثیت سے یہ فرید خان کی ابتدائی تربیت تھی اس تجربے نے اسے آیندہ زندگی میں بڑا کام دیا۔

فرید خان کی کامیابی اور مقبولیت اس کی سوتیلی ماں سے دیکھی نہ گئی اور اس نے حسن خان کو مجبور کردیا کہ فرید خان کو جاگیر سے الگ کردے۔ اب فرید خان دہلی پہنچا جہاں ابراہیم لودھی کے درباری امیر دولت خان نے اس کی پشت پناہی کی اور جب خان فوت ہوا تو سلطان سے سفارش کرکے جاگیر فرید خان کو دلوائی۔

شاہی فرمان لے کر فرید خان اپنی جاگیر کا قبضہ لینے آیا تو اس کے سوتیلے بھائی سلیمان نے سوری قبیلے کے ایک سردار محمد خان سوری کے ہاں پناہ لی۔ انھی دنوں سلطنت دہلی کی بساط الٹ گئی اور بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی و آگرہ پر قبضہ کرلیا جس پر بہار کے گورنر بہار خان نے سلطان محمد کا لقب اختیار کرکے خود مختاری کا اعلان کردیا۔ فرید خان نے سلطان محمد کی ملازمت اختیار کرلی۔ یہیں ایک دفعہ اس نے شکار میں تلوار کے وار سے شیر کو مار گرایا جس پر فرید خان کو '' شیر خان'' کا خطاب عطا ہوا۔ اسے سلطان محمد کے کم سن لڑکے جلال خان کا اتالیق بھی مقرر کیا گیا۔

کچھ عرصے کے لیے شیر خان (فرید خان) اپنی جاگیر کے انتظام کے لیے آیا تو دربار بہار سے اس کی عدم موجودگی میں محمد خان سور نے سلطان محمد خان کے کان بھرے اور والیٔ بہار کی طرف سے خود ثالث بن کر یہ فیصلہ دیا کہ حسن خان سور کی جاگیر سب بھائیوں میں تقسیم ہونی چاہیے۔

اس پر شیر خان (فرید خان) نے کٹرہ کے مغل گورنر جنید برلاس کی حمایت حاصل کر لی اور اسکی مدد سے محمد خان سور کو شکست دی۔ بعد میں وہ آگرہ پہنچا اور جنید کی وساطت سے بابر کی ملازمت میں آگیا۔ بادشاہ کے ساتھ اس نے چندیری کی مہم میں شرکت کی۔شیر خان کل پندرہ ماہ اپریل 1527ء تا جون 1528ء تک دربار بابری میں رہا۔ اس عرصے میں اس کی باریک بین نگاہوں نے مغلوں کی عادات و اطوار اور جنگی تنظیم کا بغور مطالعہ کیا اور یہ رائے قائم کی کہ ان کی حکومت کو اکھاڑ دینا کچھ دشوار نہیں۔


شیر خان نے دوبارہ سلطان محمد کی ملازمت اختیار کرلی یہاں اس کی بڑی قدر ہوئی اور اسے دوبارہ نو عمر جلال خان کا اتالیق بنا دیا گیا۔ اس کے بعد جلد ہی سلطان محمد نے وفات پائی، چونکہ شہزادہ جلال خان ابھی نابالغ تھا اس لیے شیر خان شہزادہ کے سرپرست کی حیثیت سے بہار کا حاکم بن گیا۔ اگلے برس یعنی 1530ء میں اس نے ایک قدم آگے بڑھا دیا۔ اس نے قلعہ چنار کے سابق حاکم تاج خان کی بیوہ لاڈ ملکہ سے شادی کرلی اس طرح بغیر جنگ کے نہ صرف یہ اہم قلعہ اس کے قبضے میں آگیا بلکہ اسے بے شمار زر و جواہرات بھی حاصل ہوئے جن سے اسے اپنی قوت بڑھانے میں بڑی مدد ملی۔

جب محمود لودھی کی قیادت میں قدیم افغان سرداروں کو دوراہ کے مقام پر ہمایوں کے ہاتھوں شکست ہوئی تو شیر خان کی حیثیت نمایاں ہوگئی۔ وہ اس جنگ میں غیر جانبدار رہا تھا اور اس طرح اب افغانوں کی قیادت اس کے ہاتھ میں آگئی۔ دوراہ کی فتح کے بعد ہمایوں نے چنارکا محاصرہ کیا جوکہ چار ماہ جاری رہا۔ لیکن آخر کار شیر شاہ سے اطاعت کا وعدہ لے کر مغل بادشاہ گجرات کی مہم کی طرف متوجہ ہوگیا اور چنار پر شیرشاہ خان کا قبضہ بدستور رہا۔

گجرات میں ہمایوں کی مصروفیات کے دوران شیر خان کو مشرق میں اپنا اقتدار قائم کرنے کا موقعہ ملا۔ بہادر شاہ والیٔ گجرات کی شکست پر بہت سے افغان سپاہی اس کے پاس آگئے اور اس کی طاقت میں اضافہ ہونے لگا۔

1535ء میں شیر خان نے محمود شاہ کے جارحانہ اختیارات کے خلاف انتقامی کارروائی کا آغاز کیا اور بنگال کی تسخیر کے لیے فوج روانہ کی۔ محمود شاہ نے 13 لاکھ طلائی سکے ادا کرکے اس مصیبت سے جان چھڑائی۔ 1537ء میں شیر خان نے اپنے لڑکے جلال خان کو فوج دے کر دوبارہ بنگال کی طرف بھیجا۔ اس نے پایہ تخت گور کا محاصرہ کرلیا، اس کے فوجی دستے سارے بنگال میں پھیل گئے۔ محمود شاہ نے مجبور ہوکر ہمایوں سے امداد طلب کی۔ شیر خان نے بلند پایہ عسکری منصوبہ بندی موقعہ شناسی اور سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا جس کے سامنے ہمایوں بالکل بے بس ہوگیا۔ ہمایوں نے شروع میں چنار کے محاصرے میں چھ ماہ ضایع کیے اس دوران میں شیر خان نے گور پر قبضہ جمالیا، وہاں کی بے پناہ دولت اس کے ہاتھ میں آگئی۔

اس نے برصغیر ہند کے ناقابل تسخیر قلعہ رہتاس پر قبضہ کرکے چنار کے نقصان کی تلافی کرلی یہ قلعہ بہار میں دریائے سون کے کنارے دشوارگزار پہاڑیوں میں واقع تھا اور آج تک کسی مسلم فرمانروا نے اسے فتح نہیں کیا تھا۔ شیر خان نے ہندو راجہ کو بے وقوف بنایا اور اسے کہا کہ میرے اہل و عیال کو پناہ گاہ کی ضرورت ہے۔ اس لیے قلعہ چار روز کے لیے میرے حوالے کیا جائے۔ ساتھ ہی دھمکی دی کہ اگر راجہ نے انکار کیا تو میں ہمایوں سے صلح کرلوں گا اور پھر راجہ کی خیر نہ ہوگی۔ راجہ کا برہمن وزیر بھی رشوت لے کر شیر خان سے مل گیا چنانچہ راجہ رضا مند ہوگیا اور اس طرح حیلہ سازی سے قلعہ شیر خان کے ہاتھ آگیا۔ 1538ء میں اس نے بنگال کی دولت یہاں محفوظ کرلی۔

چنار کی فتح کے بعد ہمایوں بغیر مزاحمت بنگال کی طرف بڑھتا گیا وہ گور میں داخل ہوکر عیش و نشاط کی بزم آرائیوں میں مصروف ہوا تو شیر خان نے آگرہ سے اس کا خط رسد منقطع کردیا۔ اور مغل علاقوں کو تاراج کرنا شروع کردیا۔ گھبرا کر ہمایوں واپس پلٹا تو اسے چوسہ کے مقام پر سخت ہزیمت اٹھانی پڑی۔ دوسرے سال قنوج کے قریب شیر شاہ نے اسے دوبارہ شکست دے کر اپنی فوقیت منوالی اور مغلوں کے لیے برصغیر میں ٹھہرنا ناممکن ہوگیا۔

چوسہ کی عظیم فتح کے بعد شیر خان نے بنگال کے مغل صوبہ دار کو مار بھگایا اور بنگال پر دوبارہ قبضہ کرکے گور کے مقام پر دسمبر 1539ء میں تاج پوشی کی تقریبات منعقد کیں۔ اس نے شیر شاہ کا لقب اختیار کرکے تخت پر قدم رکھا اور اس کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری ہوا۔

قنوج کی فتح کے بعد شیر خان نے شجاعت خان کو گوالیار کی تسخیر کے لیے روانہ کیا اور خود قنوج کے نواحی علاقوں کے فوری انتظام کے بعد آگرہ کی طرف بڑھا۔ شیر شاہ کی آمد کا سن کر ہمایوں بھاگ کر لاہور پہنچا اور شیر شاہ نے آگرہ اور دہلی پر قبضہ کرلیا۔ پھر وہ بڑھتا ہوا سرہند تک آیا تو اسے ہمایوں کی یہ تجویز موصول ہوئی کہ سرہند کو مغل اور افغان حکومتوں کے درمیان سرحدی مقام بنا دیا جائے مگر اس نے یہ تجویز مسترد کردی اور پیش قدمی جاری رکھی۔ لاہور سے تین منزل دور اسے اطلاع ملی کہ کامران کابل کی طرف روانہ ہوچکا ہے۔ (جاری ہے)
Load Next Story