وفاقی اداروں کی غفلت کراچی میں بد امنی کی بڑی وجہ
وفاقی حکومت کے ادارے کراچی میں اسلحہ اور منشیات کی اسمگلنگ روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں، عدالت
پچھلے 30 سال سے کراچی میں امن وامان کی خراب صورت حال کا ذمہ دار ہمیشہ سندھ حکومت کو ٹھہرایا جاتا رہا ہے ، چاہے حکومت پیپلز پارٹی کی ہو یا کسی اور سیاسی جماعت کی ہو ۔
پہلی مرتبہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ وفاقی حکومت کے اداروں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے کراچی کے حالات قابو سے باہر ہو گئے ہیں ۔ یہ بات گزشتہ ہفتے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران سامنے آئی ہے ۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے جن اداروں کی کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہارکیا ، ان میں اینٹی نارکوٹکس فورس ، کسٹم ، ایف بی آر ، کوسٹ گارڈز اور میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی شامل ہیں ۔ یہ ادارے زمینی ، سمندری اور فضائی راستوں سے آنے والے غیر قانونی اسلحہ ، منشیات اور دیگر سامان کی پاکستان میں ترسیل روکنے کے ذمہ دار ہیں ۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں یہ کہا کہ وفاقی حکومت کے یہ ادارے اسلحہ اور منشیات کی اسمگلنگ روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں ، جس کی وجہ سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک میں غیر قانونی اسلحہ پھیل گیا ہے اور آج ہم اسلحہ کے بارود پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ عدالت میں حیرت انگیز حقائق بھی منظر عام پر آئے ، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی کے حالات کس قدر خراب ہیں اور انہیں ٹھیک کرنے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت اب بھی سندھ حکومت پر تنقید کرتی ہے کہ وہ امن و امان کو کنٹرول کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے لیکن سپریم کورٹ نے سندھ پولیس اور رینجرز کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان اداروں نے اپنا کام شروع کردیا ہے ۔ سندھ حکومت پر مزید دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا ۔
یہ حقائق پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور وفاقی حکومت کے ذمہ داروں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں ۔ کراچی میں قیام امن کے لیے سندھ پولیس نے بڑی قربانیاں دی ہیں ۔ سندھ پولیس کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنوں نے بھی کراچی میں قیام امن کے لیے بڑی قیمت چکائی ہے ۔ لہٰذا پیپلز پارٹی اور سندھ پولیس پر تنقید کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو اب وفاقی حکومت کے مذکورہ بالا اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی توجہ دینا ہو گی ۔
کراچی کو بدامنی سے نجات دلانے کے لیے سپریم کورٹ نے تمام وفاقی اور صوبائی اداروں کو مل کر کام کرنے کے احکامات صادر کیے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے کراچی پورٹ سے غائب ہونے والے نیٹو کے کنٹینرز کے معاملے کی از سر نو تحقیقات اور کراچی میں گزشتہ تین سال کے دوران بیرون ملک سے منگوائے گئے اسلحہ کی تفصیلات فراہم کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔
سپریم کورٹ نے کراچی میں غیر قانونی اسلحہ بھی بازیاب کرنے کا حکم دیا ہے ۔ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت نے غیر قانونی اسلحہ کی بازیابی کے لیے اپنی حکمت عملی سے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا ہے اور آئندہ کچھ دنوں میں کراچی میں کرفیو لگا کر گھر گھر تلاشی لی جائے گی اور غیر قانونی اسلحہ بازیاب کیا جائے گا ۔ یہ مرحلہ وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں کے لیے اہم ہو گا ۔ اس مرحلے کی ناکامی کی صورت میں نہ صرف کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا بلکہ آئندہ بھی غیر قانونی اسلحہ کی بازیابی کے امکانات ختم ہو جائیں گے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مہم کو کامیابی سے ہمکنار کیا جائے اور سندھ میں کوئی ایسی سیاست نہ کی جائے ، جس سے اس مہم میں رکاوٹیں پیدا ہوں ۔
سندھ اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن عرفان اللہ خان مروت اور تحریک انصاف کے رکن سید حفیظ الدین نے ڈرون حملوں کے خلاف باری سے ہٹ کر قرار دادیں پیش کرنے کی کوشش کی ۔ اسپیکر سراج احمد درانی نے ان سے کہا کہ وہ قوائد کے مطابق قرار دادیں پیش کریں لیکن مذکورہ دونوں ارکان نے سخت احتجاج کیا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ سندھ انتہائی حساس صوبہ ہے اور اس کے دارالحکومت کراچی میں بدامنی پیدا کرنے کے لیے مخصوص مفادات رکھنے والی کئی ملکی اور بین الاقوامی قوتیں اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہی ہیں ۔
پاکستان میں جب بھی کوئی بڑا سیاسی مسئلہ یا بحران پیدا ہوتا ہے تو یہ قوتیں کراچی کے حالات مزید خراب کرنے اور قیام امن کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششیں کرتی ہیں ۔ یہ قوتیں بحرانی صورت حال میں یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کرتی ہیں کہ حالات خراب کرنے میں ان کا نہیں بلکہ کچھ اور قوتوں کا ہاتھ ہے ۔ تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ کراچی کے حالات مزید خراب کیے جائیں ۔ اس حوالے سے سندھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ریڈ الرٹ کی پوزیشن میں چلے گئے ہیں ۔
یہ بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، جماعت الدعوۃ اور دفاع پاکستان کونسل نیٹو سپلائی روکنے کے لیے کراچی کے جناح برج پر اس طرح دھرنا دے سکتی ہیں ، جس طرح دو سال پہلے تحریک انصاف نے دھرنا دیا تھا ۔ سندھ اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن عرفان اللہ مروت نے جو قرار داد پیش کرنا چاہی ، اس کے متن میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ ایوان اس ڈرون حملے کی مذمت کرتا ہے ، جس کے نتیجے میں تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود اس وقت ہلاک ہوگئے ، جب امن مذاکرات شروع ہونے والے تھے اور اس حملے کے نتیجے میں حکومت اور آل پارٹیز کانفرنس میں شامل سیاسی جماعتوں کی طرف سے امن قائم کرنے کی مخلصانہ کوشش سبوتاژ ہوئی ہے ۔
قرار داد کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) بھی ان سیاسی جماعتوں کی صف میں شامل ہو رہی ہے ، جو ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں لیکن ان جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس مرحلے پر سندھ خصوصاً کراچی کو تختہ مشق نہ بنائیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس وقت آزمائش سے دو چار نہ کریں ، جب وہ کراچی میں قیام امن کے لیے ٹارگیٹڈ آپریشن میں مصروف ہیں اور اب غیر قانونی اسلحہ بازیاب کرنے کی انتہائی اہم مہم شروع کرنے والے ہیں ۔
ان سیاسی جماعتوں کی مہم جوئی سے وہ قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں ، جو کراچی میں حالات خراب کرنے میں طویل عرصے سے مصروف ہیں ۔ ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج پنجاب میں ہونا چاہیے یا خیبر پختونخوا کے ان علاقوں میں ہونا چاہیے ، جن علاقوں سے نیٹو کے کنٹینرز گذرتے ہیں ۔ پورا ملک یہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملے نہیں ہونا چاہئیں کیونکہ یہ پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کے خلاف ہیں لیکن اس معاملے پر احتجاج کے لیے کراچی کی صورت حال کی سنگینی کا ضرور احساس کیا جائے ۔
پہلی مرتبہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ وفاقی حکومت کے اداروں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے کراچی کے حالات قابو سے باہر ہو گئے ہیں ۔ یہ بات گزشتہ ہفتے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران سامنے آئی ہے ۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے جن اداروں کی کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہارکیا ، ان میں اینٹی نارکوٹکس فورس ، کسٹم ، ایف بی آر ، کوسٹ گارڈز اور میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی شامل ہیں ۔ یہ ادارے زمینی ، سمندری اور فضائی راستوں سے آنے والے غیر قانونی اسلحہ ، منشیات اور دیگر سامان کی پاکستان میں ترسیل روکنے کے ذمہ دار ہیں ۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں یہ کہا کہ وفاقی حکومت کے یہ ادارے اسلحہ اور منشیات کی اسمگلنگ روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں ، جس کی وجہ سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک میں غیر قانونی اسلحہ پھیل گیا ہے اور آج ہم اسلحہ کے بارود پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ عدالت میں حیرت انگیز حقائق بھی منظر عام پر آئے ، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی کے حالات کس قدر خراب ہیں اور انہیں ٹھیک کرنے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت اب بھی سندھ حکومت پر تنقید کرتی ہے کہ وہ امن و امان کو کنٹرول کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے لیکن سپریم کورٹ نے سندھ پولیس اور رینجرز کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان اداروں نے اپنا کام شروع کردیا ہے ۔ سندھ حکومت پر مزید دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا ۔
یہ حقائق پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور وفاقی حکومت کے ذمہ داروں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں ۔ کراچی میں قیام امن کے لیے سندھ پولیس نے بڑی قربانیاں دی ہیں ۔ سندھ پولیس کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنوں نے بھی کراچی میں قیام امن کے لیے بڑی قیمت چکائی ہے ۔ لہٰذا پیپلز پارٹی اور سندھ پولیس پر تنقید کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو اب وفاقی حکومت کے مذکورہ بالا اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی توجہ دینا ہو گی ۔
کراچی کو بدامنی سے نجات دلانے کے لیے سپریم کورٹ نے تمام وفاقی اور صوبائی اداروں کو مل کر کام کرنے کے احکامات صادر کیے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے کراچی پورٹ سے غائب ہونے والے نیٹو کے کنٹینرز کے معاملے کی از سر نو تحقیقات اور کراچی میں گزشتہ تین سال کے دوران بیرون ملک سے منگوائے گئے اسلحہ کی تفصیلات فراہم کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔
سپریم کورٹ نے کراچی میں غیر قانونی اسلحہ بھی بازیاب کرنے کا حکم دیا ہے ۔ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت نے غیر قانونی اسلحہ کی بازیابی کے لیے اپنی حکمت عملی سے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا ہے اور آئندہ کچھ دنوں میں کراچی میں کرفیو لگا کر گھر گھر تلاشی لی جائے گی اور غیر قانونی اسلحہ بازیاب کیا جائے گا ۔ یہ مرحلہ وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں کے لیے اہم ہو گا ۔ اس مرحلے کی ناکامی کی صورت میں نہ صرف کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا بلکہ آئندہ بھی غیر قانونی اسلحہ کی بازیابی کے امکانات ختم ہو جائیں گے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مہم کو کامیابی سے ہمکنار کیا جائے اور سندھ میں کوئی ایسی سیاست نہ کی جائے ، جس سے اس مہم میں رکاوٹیں پیدا ہوں ۔
سندھ اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن عرفان اللہ خان مروت اور تحریک انصاف کے رکن سید حفیظ الدین نے ڈرون حملوں کے خلاف باری سے ہٹ کر قرار دادیں پیش کرنے کی کوشش کی ۔ اسپیکر سراج احمد درانی نے ان سے کہا کہ وہ قوائد کے مطابق قرار دادیں پیش کریں لیکن مذکورہ دونوں ارکان نے سخت احتجاج کیا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ سندھ انتہائی حساس صوبہ ہے اور اس کے دارالحکومت کراچی میں بدامنی پیدا کرنے کے لیے مخصوص مفادات رکھنے والی کئی ملکی اور بین الاقوامی قوتیں اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہی ہیں ۔
پاکستان میں جب بھی کوئی بڑا سیاسی مسئلہ یا بحران پیدا ہوتا ہے تو یہ قوتیں کراچی کے حالات مزید خراب کرنے اور قیام امن کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششیں کرتی ہیں ۔ یہ قوتیں بحرانی صورت حال میں یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کرتی ہیں کہ حالات خراب کرنے میں ان کا نہیں بلکہ کچھ اور قوتوں کا ہاتھ ہے ۔ تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ کراچی کے حالات مزید خراب کیے جائیں ۔ اس حوالے سے سندھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ریڈ الرٹ کی پوزیشن میں چلے گئے ہیں ۔
یہ بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، جماعت الدعوۃ اور دفاع پاکستان کونسل نیٹو سپلائی روکنے کے لیے کراچی کے جناح برج پر اس طرح دھرنا دے سکتی ہیں ، جس طرح دو سال پہلے تحریک انصاف نے دھرنا دیا تھا ۔ سندھ اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن عرفان اللہ مروت نے جو قرار داد پیش کرنا چاہی ، اس کے متن میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ ایوان اس ڈرون حملے کی مذمت کرتا ہے ، جس کے نتیجے میں تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود اس وقت ہلاک ہوگئے ، جب امن مذاکرات شروع ہونے والے تھے اور اس حملے کے نتیجے میں حکومت اور آل پارٹیز کانفرنس میں شامل سیاسی جماعتوں کی طرف سے امن قائم کرنے کی مخلصانہ کوشش سبوتاژ ہوئی ہے ۔
قرار داد کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) بھی ان سیاسی جماعتوں کی صف میں شامل ہو رہی ہے ، جو ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں لیکن ان جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس مرحلے پر سندھ خصوصاً کراچی کو تختہ مشق نہ بنائیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس وقت آزمائش سے دو چار نہ کریں ، جب وہ کراچی میں قیام امن کے لیے ٹارگیٹڈ آپریشن میں مصروف ہیں اور اب غیر قانونی اسلحہ بازیاب کرنے کی انتہائی اہم مہم شروع کرنے والے ہیں ۔
ان سیاسی جماعتوں کی مہم جوئی سے وہ قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں ، جو کراچی میں حالات خراب کرنے میں طویل عرصے سے مصروف ہیں ۔ ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج پنجاب میں ہونا چاہیے یا خیبر پختونخوا کے ان علاقوں میں ہونا چاہیے ، جن علاقوں سے نیٹو کے کنٹینرز گذرتے ہیں ۔ پورا ملک یہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملے نہیں ہونا چاہئیں کیونکہ یہ پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کے خلاف ہیں لیکن اس معاملے پر احتجاج کے لیے کراچی کی صورت حال کی سنگینی کا ضرور احساس کیا جائے ۔