حضرت عمر فاروق ؓ کا مثالی دورِ حکومت

عوام میں اس وقت تک خرابی پیدا نہیں ہوتی جب تک ان کے رہنما ان سے سیدھے رہتے ہیں جب تک راعی اﷲ کی راہ میں چلتا رہتاہے۔

حضرت عمرکا دور حکومت نظام حکمرانی کے لحاظ سے کام یاب ترین دور تھا۔ فوٹو: فائل

خلفائے راشدین میں حضرت عمرؓ بن خطاب کا تعلق قریش کی شاخ بنی عدی سے تھا۔

آپؓ واقعہ فیل کے تیرہ سال بعد پیدا ہوئے۔ آپؓ کاشمار معززین قریش میں ہوتا تھا۔ قبل از اسلام آپؓ کے سپرد سفارت کا کام تھا۔ قریش میں جب کسی قبیلے سے اختلاف ہوتا یا آپس میں جنگ چھڑجاتی تو قریش حضرت عمرؓ کو دوسرے قبیلوں کی طرف سفیر بناکر بھیجتے تھے۔ آپؓ کا دور حکومت نظام حکمرانی کے لحاظ سے کام یاب ترین دور تھا۔ مدینہ اس وفاق کا دارالسلطنت تھا۔ کیوں کہ یہی وہ شہر تھا جس نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو پناہ دی تھی۔مدینہ میں ہی قرآن کی زیادہ سورتیں نازل ہوئیں اور یہیں وہ مہاجرین و انصار جمع تھے، جو رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات کو ماننے اور سنت کو جاننے والے تھے۔

مدینہ وحی کا مقام نزول، اسلامی قانون سازی کا سرچشمہ اور دین کی طرف سب سے پہلے سبقت کرنے والوں کا مستقر تھا۔ عہد فاروقیؓ میں مدینہ کا نظام حکومت اسی بنیاد پر قائم تھا جو عہد رسالتؐ اور عہد صدیقی میں اس کے لیے مقرر کی گئی تھیں اور یہ بنیاد شورائی نظام تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ سے مشورہ فرماتے تھے۔ جس میں حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ سب سے مقدم تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان دونوں سے فرمایا کرتے تھے ''خدا کی قسم اگر تم دونوں کسی مسئلے پر متفق ہوجاتے ہو تو میں تمہارے مشورے سے کبھی نہیں ہٹتا۔

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے تھے، میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرتے نہیں دیکھا'' عہد صدیقی میں بھی حضرت ابو بکرؓ نے شوریٰ کو اپنی حکومت کی بنیاد قرار دیا۔ یہی طریق کار حضرت عمرؓ نے اختیار کیا۔ ان کے مجلس شوریٰ میں حضرت عباس بن عبدالمطلب، حضرت عبداﷲ بن عباس، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت عثمان بن عفان، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم اجمٰعین تھے۔ آپؓ اکثر وبیشتر مجلس شوریٰ منعقد کرتے تھے۔

لوگوں کو مسجد میں جمع ہونے کا حکم دیتے یا مدینے سے باہر ہوتے تو انہیں نماز کے لیے جمع ہونے کا حکم دیتے اور مشورہ طلب بات ان کے سامنے رکھتے۔ اس مجلس میں ہر ایک کو اپنی اپنی رائے پیش کرنے کا حق ہوتا تھا۔ اس کے بعد بھی اگر مسئلہ حل نہ ہوتا تو نوجوانوں کو بلاکر ان کی رائے دریافت فرماتے۔

جب تمام مجلس شوریٰ میں اس کا کوئی حل نکل آتا تو اسے نافذ فرمادیتے۔ ان کے نزدیک شوریٰ کی حیثیت ایک بنیادی نظام کی تھی۔ جس پر مملکت کے تمام گوشوں میں عمل ہونا ضروری تھا۔ آپؓ ہمیشہ امرائے لشکر اور والیوں کو بھی حکم دیتے کہ وہ آپس میں مشورہ کریں۔ آپ ہدایت کرتے ''رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی بات سننا اور انہیں اپنے معاملے میں شریک رکھنا، فیصلہ کرنے میں عجلت نہ کرنا، کیوںکہ جنگ میں وہی شخص کام یاب ہوتاہے جس کے مزاج میں تحمل ہو اور جو موقع سے فائدہ اٹھانا جانتاہو''

ان کی خلافت اور نظام حکم رانی کی کام یابی کا راز ان کی بے نفسی اور خلوص میں مضمر تھا جو فرض کی اہمیت کا پورا پورا احساس کرتے ہوئے وہ ادائے فرض میں برتتے تھے۔ وہ رات بھر عوام کے حالات معلوم کرنے کے لیے گشت پر رہتے۔ وہ فرماتے تھے ''میں رعایا کی دیکھ بھال کیسے کرسکتاہوں ، جب تک مجھ پر وہ کچھ نہ بیتے جو رعایا پر بیتتی ہے'' غرور و نمائش سے ڈرتے تھے۔ حضرت انسؓ نے فرمایا ''میں عمرؓ کے ساتھ تھا کہ ایک احاطے میں داخل ہوگئے اور دیوار کے پیچھے سے میں نے انہیں یہ کہتے سنا ''خطاب کا بیٹا عمر اور امیر المؤمنین، سبحان اﷲ خدا کی قسم خطاب کے بیٹے خداسے ڈر ورنہ وہ تجھے ضرور سزا دے گا'' کہتے ہیں کہ ایک روز وہ اپنی پیٹھ پر پانی کا مشکیزہ لادے جارہے تھے، لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا ''میرے نفس نے مجھے مبتلائے غرور کرنا چاہا تھا میں اسے ذلیل کررہاہوں''

حضرت عمرؓ نے جو سادہ زندگی اختیار کی تھی اور ان کے ایمان نے دنیا کو ان کی نگاہوں میں جو بے اصل بنایا تھا، فتوحات کی وسعت نے اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی۔ مال غنیمت میں ان کا بھی حصہ اتنا ہی ہوتا جتنا عام مسلمان کا تھا۔ خلافت کی بناء پر وہ اپنا حق دوسروں کے حق سے زیادہ نہ سمجھتے تھے۔ ایک دن ان سے کسی نے پوچھا کہ ''اﷲ کے مال میں سے آپ کے لیے کیا جائز ہے'' حضرت عمرؓ نے جواب دیا ''میں تمہیں بتاتاہوں کہ اس میں سے کیا میرے لیے جائز ہے، کپڑوں کے دو جوڑے ایک جاڑے کا اور دوسرا گرمی کا ، حج اور عمرے کے لیے ایک احرام اور میرے اور میرے اہل وعیال کے لیے فی کس اتنا کھانا جو قریش کے ایک آدمی کی خوراک ہے نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔ اس کے بعد میں مسلمانوں کا ایک فرد ہوں جو ان کا مال سو میرا مال'' وہ فرمایا کرتے تھے ''اﷲ کا مال میرے لیے ایسا ہے جیسا کسی یتیم کا مال، ضرورت نہیں ہوتی تو اسے ہاتھ نہیں لگاتا اور حاجت مند ہو تاہوں تو بقدر ضرورت لے لیتاہوں''

بیت المال سے کچھ لینے میں حد سے زیادہ احتیاط برتتے، ایک دن انہیں کوئی شکایت ہوگئی جس کے لیے شہد تجویز کیا گیا۔ بیت المال میں شہد کا ایک کپا تھا۔ منبر پر خطبہ دینے آئے تو کہا ''اگر تم اجازت دو تو میں بیت المال سے شہد لے لوں ورنہ وہ مجھ پر حرام ہے''

ایک دن مسلمانوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ''میں نے تم پر عمال اس لیے مقرر نہیں کیے ہیں کہ وہ تمہاری کھالیں ادھڑیں، تمہیں رسوا کریں اور تمہارا مال چھینیں بلکہ انہیں اس لیے عامل بنایا ہے کہ وہ تمہیں کتاب وسنت کی تعلیم دیں۔ پس اگر کسی پر اس کا عامل ظلم کرے گا اور اس کی شکایت مجھ تک پہنچے گی تو بدلہ لیے بغیر نہیں چھوڑوںگا'' سپہ سالاران فوج کو لکھا ''مسلمانوں کو نہ مارنا کہ وہ ذلیل ہوجائیں گے، انہیں محروم نہ کرنا کہ وہ بے دینی اختیار کرلیں گے،اور راہ سے بھٹک جائیں اور انہیں گھنے جنگل میں لے کر نہ اترنا کہ وہ ہلاکت میں پڑجائیں''

حضرت عمرؓ ہر چھوٹے بڑے معاملے کو خود طے کرتے تھے ،جس طرح فوجی معاملات کی تنظیم، عمال کا تقرر، ملکی سیاست کا تعین اور لوگوں کے درمیان منصفانہ فیصلوں جیسے اہم کام وہ خود انجام دیتے تھے۔ اس کے علاوہ جہاں تک ممکن ہوتا تھا چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی نظر انداز نہ کرتے تھے، ایک دن حضرت علیؓ ابن ابی طالب نے دیکھا کہ وہ مدینہ کے باہر دوڑے چلے جارہے ہیں، حضرت علیؓنے پوچھا ''امیر المومنین ؓکہاں جا رہے ہیں؟'' فر مایا ''صدقے کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بھاگ گیا ہے، اسے ڈھونڈنے جارہا ہوں'' حضرت علی ؓ نے کہا آپ ؓ نے اپنے جانشینوں کو تھکادیا''

ایک دفعہ فاروق اعظمؓ سے حضرت عبدالرحمنؓ نے پوچھا ''اس وقت آپ کیسے تشریف لائے'' فرمایا ''ایک قافلہ بازار کے پہلو میں آکر اتراہے مجھے ڈر ہے مدینہ کے چور اسے کوئی نقصان نہ پہنچادیں۔ آؤ اس کی حفاظت کریں''

حضرت عمرؓ کا عدل وانصاف آج تک ضرب المثل ہے۔ کیوںکہ وہ اﷲ کے بندوں میں سب سے زیادہ اﷲ اور اس کے حساب سے ڈرنے والے تھے اور لوگوں پر حکومت کرنے میں جس سوجھ بوجھ ، باریک بینی اور محاسبہ نفس کی ضرورت ہوتی ہے، اسے خوب جانتے تھے۔ عدل قائم کرنے میں وہ اپنے عزیزوں کے ساتھ کوئی نرمی نہ برتے تھے۔ آپ ؓکے صاحب زادے عبدالرحمن مصر میں تھے۔ انہوں نے ابو سروعہ کے ساتھ نبیذ پی اور ان پر نشہ طاری ہوگیا، وہ دونوںحضرت عمروؓ بن عاص کے پاس پہنچے کہ وہ ان پر حد جاری کریں۔ ابن عاصؓ کہتے ہیں کہ میں نے انہیں جھڑک کر نکال دیا۔

اس پر عبدالرحمنؓ بولے ''اگر آپ نے حد جاری نہ کی تو جب میں حضرت عمرؓ کے پاس جاؤںگا تو یہ بات ان سے کہوںگا'' میں جانتاتھا کہ اگر میں نے ان دونوں پر حد نہ لگائی تو عمر ناراض ہوں گے اور مجھے معزول کردیں گے۔ اس لیے میں انہیں گھر کے صحن میں لایا اور ان پر حد لگائی، عبدالرحمن بن عمر گھر کی کوٹھری میں گھس گئے اور اپنا سر مونڈا، خدا کی قسم اس واقعے کے بارے میں میں نے عمر کو ایک حرف بھی نہ لکھا۔ یہاں تک کہ ان کا خط مجھے ملا، جس میں انہوں نے مجھے سختی سے سرزنش کی اور حکم دیا کہ ان کے بیٹے عبدالرحمن کو ایک ادنیٰ عبا پہناکر کاٹھی پر بٹھاکر ان کے پاس بھیجو۔

عبدالرحمن اپنے والد کے پاس پہنچے تو حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا تم نے یہ حرکت کی ہے؟ عبدالرحمن بن عوف نے ان کی سفارش کی اور کہا ''امیرالمومنین ان پر حد لگائی جاچکی ہے'' لیکن حضرت عمرؓ نے ان کی بات پر دھیان نہ دیا اور عبدالرحمن بن عمر چلانے لگے۔ میں بیمار ہوں آپ مجھے قتل کررہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے ان پر دوبارہ حد لگوائی، محمد بن عمرو بن عاص نے ایک مصری کے تازیانے مارے وہ مارتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ''میں بڑوں کی اولاد ہوں'' حضرت عمرو بن عاص نے اس مصری کو قید کردیا کہ مباداوہ امیر المومنین سے ان کے بیٹے کلی شکایت نہ کردے۔

جب وہ قید سے چھوٹا تو سیدھا مدینہ پہنچا اور حضرت عمرؓ سے شکایت کی۔ حضرت عمرؓ نے اس مصری کو اپنے پاس ٹھہرایا اور ابن عاص اور ان کے بیٹے کو مصر سے بلاکر مجلس قصاص میں طلب کیا۔ جب وہ دونوں باپ بیٹے مجلس قصاص میں پیش ہوئے تو حضرت عمرؓ نے بلند آواز میں فرمایا ''مصری کہاں ہے لے یہ درہ اور بڑوں کی اولاد کو مار'' مصری نے کو درے مارنا شروع کیے یہاں تک کہ وہ بے دم ہوگئے۔ مصری انہیں مارتا جاتا تھا اور حضرت عمرؓ کہتے جاتے تھے ''بڑوں کی اولاد کو مار'' جب وہ جی بھر کر مارچکا اور درہ امیر المومنین کو واپس کرنے لگا تو حضرت عمرؓ نے اس سے فرمایا ''عمرو کی چندیاپر مار'' خدا کی قسم تجھے ہر گز نہ مارتا اگر تجھے اپنے باپ کے اقتدار کا گھمنڈ نہ ہوتا'' ابن عاص نے کہا ''امیر المومنین آپ بھرپور سزادے چکے ہیں'' اور مصری نے کہا ''امیر المومنین جس نے مجھے مارا تھا میں نے اس سے بدلہ لے لیا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ''قسم ہے خدا کی اگر تو ابن عاص کو نہ مارتا تو ہم اس تک بیچ میں نہ آتے جب تک خود ہی اپنا ہاتھ نہ روک لیتا'' پھر آپ نے عمرو بن عاص کی طرف مخاطب ہوکر غصے سے فرمایا ''عمرو تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنایا؟ ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد جنا تھا''

فاروق اعظمؓ کا مشہور قول ہے ''عوام میں اس وقت تک خرابی پیدا نہیں ہوتی جب تک ان کے رہنما ان سے سیدھے رہتے ہیں جب تک راعی اﷲ کی راہ میں چلتا رہتاہے رعایا اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہے لیکن جہاں اس نے پاؤں پھیلائے رعایا اس سے پہلے پیر پھیلالیتی ہے''


حضرت عمرؓ زہد و تقویٰ کے مرتبہ کمال پر فائز تھے۔

حضرت عمرؓ کے فرمان
فتنہ و فساد میں اس طرح رہو ، جس طرح اونٹ کا وہ بچہ جو دو سال کا ہوا ہوکہ ، نہ تو اس کی پیٹھ پر سواری کی جاسکتی ہے اور نہ اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جاسکتا ہے ۔
بخل ننگ و عار ہے اور بزدلی نقص و عیب ہے اورغربت مرد دانا کی زبان کو دلائل کی قوت سے عاجز بنا دیتی ہے ، مفلس اپنے شہر میں رہ کر بھی غریب الوطن ہوتا ہے، درماندگی مصیبت ہے، صبر شجاعت ہے، دنیا سے بے تعلقی بڑی دولت ہے اور پرہیز گاری ایک بڑی سپر ہے ۔

عقل مند کا سینہ اس کے بھیدوں کا مخزن ہوتا ہے اور تحمل و برد باری عیبوں کا مدفن ہے ۔
جو شخص خود کو بہت پسند کرتا ہے، وہ دوسروں کے لیے ناپسند ہوجاتا ہے
جب دنیا کسی کی طرف بڑھتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اسے عاریت دے دیتی ہے ۔ اور جب اس سے رخ موڑ لیتی، تو خود اس کی خوبیاں بھی اس سے چھین لیتی ہے ۔

لوگوں سے اس طریقہ سے ملو کہ اگر مرجاؤ تو تم پر روئیں اور زند ہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں ۔
دشمن پر فتح پاؤ تو اس فتح پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو ۔
جسے قریبی چھوڑ دیں، اسے بیگانے مل جائیں گے ۔

سب معاملے تقدیر کے آگے سر نگوں ہیں یہاں تک کہ کبھی تدبیر کے نتیجہ میں موت ہوجاتی ہے ۔
جو شخص امید کی راہ میں میں بگ ٹْٹ دوڑتا ہے وہ موت سے ٹھوکر کھاتا ہے ۔
بامروت لوگو ں کی لغزشوں سے درگزر کرو،کیوں کہ ان میں سے جو بھی لغزش کھا کر گرتا ہے تو اللہ اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اسے اوپر اٹھا لیتا ہے ۔
خوف کا نتیجہ ناکامی اور شرم کا نتیجہ محرومی ہے اور فرصت کی گھڑیاں تیزرو ابر کی طرح گزر جاتی ہیں، لہٰذا بھلائی کے دست یاب موقعوں کو غنیمت جانو۔

جسے اس کے اعمال پیچھے ہٹا دیں، اسے حسب و نسب آگے نہیں بڑھا سکتا ۔
کسی مضطرب کی داد فریاد سننا ، اور مصیبت زدہ کو مصیبت سے چھٹکارا دلا نا بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
اے آدم کے بیٹے جب تو دیکھے کہ اللہ تجھے پے در پے نعمتیں دے رہا ہے، اور تو اس کی نافرمانی کررہا ہے تو اس سے ڈرتے رہنا ۔

جس کسی نے بھی کوئی بات دل میں چھپا کہ رکھنا چاہی وہ اس کی زبان سے بے ساختہ نکلے ہوئے الفاظ اور چہرہ کے آثار سے نمایاں ضرور ہو جاتی ہے ۔
مرض میں جب تک ہمت ساتھ دے چلتے پھرتے رہو ۔
ڈرو! ڈرو! اس لیے کہ بخدا اس نے اس حد تک تمہاری پردہ پوشی کی ہے،کہ گویا تمہیں بخش دیا ہے ۔

نیک کام کر نے والا خود اس کام سے بہتر اور برائی کا مرتکب ہونے والا خود اس برائی سے بدتر ہے ۔
بہتر ین دولت مند ی یہ ہے کہ تمناؤں کو ترک کردو۔
جو شخص لوگوں کے بار ے میں جھٹ سے ایسی باتیں کہہ دیتا ہے جو انہیں ناگوار گزریں ، تو پھر لوگ اس کے لیے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ جنہیں وہ جانتے نہیں ۔
جس نے طول طویل امیدیں باندھیں، اس نے اپنے اعمال بگاڑ لیے ۔

عقل مند کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے اور بیوقوف کا دل اس کی زبان کے پیچھے ہے ۔
وہ گناہ جس کا تمہیں رنج ہو ، اللہ کے نزدیک اس نیکی سے کہیں اچھا ہے جو تمہیں خود پسند بنا دے۔
انسان کی جتنی ہمت ہو اتنی ہی اس کی قدر و قیمت ہے اور جتنی مروت اور جواں مردی ہوگی اتنی ہی راست گوئی ہو گی، اور جتنی حمیت و خود داری ہو گی اتنی ہی شجاعت ہو گی اور جتنی غیرت ہوگی اتنی ہی پاک دامنی ہو گی ۔
Load Next Story