چمن میں دیدہ ور

دنیا کی درجنوں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مل کر ہمارے اہم اثاثوں کو نشانہ بنایا۔ ہم باہمی جھگڑوں سے باز نہ آئے۔

www.facebook.com/syedtalathussain.official

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

حضرت علامہ اقبال نے یہ شعر تاریخ ساز شخصیات کے لیے لکھا تھا۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ 2013ء کے ٹھٹھرتے ہوئے دنوں میں ہمیں اپنے درمیان ایسی قابل ہستی کی موجودگی کا علم ہوا۔ ملت کا شیرازہ بکھرا ہوا تھا، نظریاتی وحدت منقسم تھی۔ چھوٹے چھوٹے سیاسی و ذاتی مفاد اتحاد کے رستے میں حائل تھے۔ سیاسی قیادت کو یکجا کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی تھیں۔ مغرب میں تیار شدہ اور مشرق میں اپنایا ہوا نظام جمہوریت تمام تر قربانیوں کے باوجود مختلف جانوں کو ایک قالب میں نہیں ڈھال سکا۔ 2013ء کے انتخابی نتائج چیخ چیخ کر گواہی دے رہے تھے کہ ہم گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ نفاق ہماری رگوں میں سرایت کر چکا ہے۔ کوئی میاں نواز شریف کا دلدادہ ہے، کوئی عمران خان پر فریفتہ ہے۔ آصف علی زرداری کے باوجود لوگ پی پی سے محبت رکھتے ہیں۔ الطاف حسین کا ڈنکا بھی بجتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی اپنے حلقوں میں چند ناکامیوں کے باوجود مقبول ہیں۔ یعنی ہر کوئی ہر جگہ اپنی ذات میں مگن مگر قوم کی ترستی ہوئی آنکھوں اور بلبلاتی ہوئی روح کی اس فریاد کو پورا کرنے سے قاصر کہ کوئی تو ہو جو ان بکھرے ہوئے موتیوں کو ایک خوبصورت مالا میں تبدیل کر دے۔ مگر چند روز پہلے تک ایسی شخصیت کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آ تا تھا۔

حکومت سازی کے عمل نے ناچاقیوں اور عدواتوں کو مزید فروغ دیا تھا۔ مرکز سندھ اور خیبر پختونخواہ کی حکومتوں کی نظر میں کھٹکتا تھا اور یہ دونوں صوبے اسلام آباد کی حکومت کے لیے درد سر بنے ہوئے تھے۔ بلوچستان میں کابینہ بنتے ہوئے مہینے لگ گئے۔ ملک بھر میں کسی نے غم نہیں کیا۔ پنجاب میں ہونے والے ہر کام پر تنقید کا سلسلہ جوں کا توں برقرار تھا۔ ہماری سرزمین کے اس فساد اور تقسیم نے اس وقت بھی ہماری جان نہ چھوڑی جب سر حد پار سے ہمارے ازلی دشمن نے اپنی خون برستی میلی آنکھوں کو ہم پر مرکوز کیا۔ لائن آف کنٹرول اور سرحدوں پر گولہ باری ہوئی، ہمارے جوان شہید ہوئے، گائوں والوں کی زندگیاں برباد ہوئیں۔ مگر ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ چھوڑے رکھا۔ وہاں کے وزیر اعظم نے ہمارے عسکری اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسی پر فقرے کسے، الزام تراشے، بدنامی کے ڈھول پیٹے مگر ہمارے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔


افغانستان کی طرف سے جتھے ہم پر حملہ آور ہوئے۔ دنیا کی درجنوں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مل کر ہمارے اہم اثاثوں کو نشانہ بنایا۔ ہم باہمی جھگڑوں سے باز نہ آئے۔ دنیا ہمارے خلاف ارد گرد سازشوں کا جال بنتی رہی اور ہم خود پرستی اور انا کے غلام بنے رہے۔ لیڈران اور جماعتیں اسمبلی کے اجلاسوں کے علاوہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو تیار نہ ہوئیں۔ تڑپتے ہوئے عوام، لوڈ شیڈنگ کے جھٹکے، ہر سال لاکھوں بچوں کی صحت کی سہولیات کے فقدان کے باعث اموات، گٹر کے پانی پر پلتی ہوئی غریبوں کی اکثریت اور آدھی سے زیادہ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی قوم بھی ہمیں اکٹھا نہ کر پائی۔ خداوند تعالی نے اپنی قدرت سے ہمیں جھنجھوڑنے کی کوشش کی مگر ہم انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ منتشر رہنے پر پُر عزم رہے۔ بلوچستان کے زلزلے نے گائوں کے گائوں اجاڑ دیے ہیں۔ بے کس اور مجبور خلق خدا کو بدترین حالات سے دوچار کر دیا۔ ہم نے چند ہفتے قومی حمیت اور غیرت کا مظاہرہ کیا۔ کچھ نے بذریعہ ہیلی کاپٹر حالات کا جائزہ لیا۔ کچھ نے چند ایک ٹرک روانہ کر دیے۔ تصویریں بنیں، خبریں چلیں۔ ہر کسی کی انفرادی واہ واہ ہوئی مگر اس کے بعد وہی آپا دھاپی اور گتھم گتھا سیاست کا آغاز ہوگیا۔

اس سے پہلے بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔ تین سال کے سیلاب نے ہمیں کچھ نہیں سکھایا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ہمارے تیور ایک دوسرے کے بارے میں ہمیشہ بگڑے ہی رہیں گے۔ ہم کبھی اکٹھا نہیں ہوں گے۔ مگر پھر قدرت کو ہم پر رحم آ گیا۔ یکم نومبر بروز جمعہ 26 ذوالحج 1434ء کو آسمان پر ایک ڈرون نمودار ہوا۔ دشمن نے اپنی طرف سے ہمیں مزید زخمی کرنے کی تدبیر کی۔ ہماری طالبان بھائیوں سے بات چیت کو سازش کے ذریعے تباہ کرنے کی یہ گھنائونی سازش بظاہر کامیاب بھی ہو گئی۔ جناب حکیم اللہ محسود امیر تحریک طالبان پاکستان اور ان کے قریبی ساتھی اس حملے میں اللہ کو پیارے ہو گئے (جماعت اسلامی کی طرف سے ان کو شہید کا درجہ مل چکا ہے)۔ بزدل امریکیوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ چھپ کر وار کرنے کی جو عادت انھوں نے پچھلے کئی سالوں میں سیکڑوں مرتبہ نشانہ لگا کر پکی کر لی تھی، اس ملک میں وہ تبدیلی لے آئے گی جس کا خواب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔ ہم جو کرچیوں کی طرح بکھرے ہوئے تھے اور خراش سے پاک آئینہ بننے کا تصور بھی پیش نہیں کرتے تھے ایک دم ایک قوم میں تبدیل ہوگئے۔

حکیم اللہ محسود نے اپنی جان دیکر ہمیں وہ اتحاد نصیب کر دیا جو حضرت قائد کے تین زریں اصولوں میں اول درجہ رکھتا ہے۔ بات چیت کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنے پر اتفاق رائے نے ایمان کی طاقت سے بھی نوازا اور اب جب ہم نیٹو رسد کے رستے بند کریں گے تو یقیناً تنظیم بھی آ ہی جائے گی۔ آل ابراہیم کے بکھرے ہوئے قبائل نے خود کو یکجا کرنے کے لیے جس طرح کا غیر متزلزل نصب العین اپنایا کچھ ویسا ہی ہمیں بھی حاصل ہو چکا ہے۔ اب ہم نے امریکا کو افغانستان سے کسی اور رستے سے باہر نکالنا ہے۔ ان کی طرف سے بھیجے گئے ڈرون کو ہر صورت میں گرانا ہے۔ اگر کسی کو ہماری صلاحیت کے بارے میں شک تھا تو کل بہاولپور میں عسکری اور سویلین قیادت کی موجودگی میں ہونے والی ان مشقوں سے دور ہو جانا چاہیے جس میں ہم نے ڈرونز کو مارنے کا مظاہرہ کیا۔ اس صلاحیت کو اجاگر کرنے میں اتنے سال کیوں لگے۔ 400 کے لگ بھگ ڈرون حملوں کو ہم نے کیسے برداشت کیا۔ اور دنیا یہ کیوں کہتی ہے کہ ہم نے خود خاموشی سے ان ڈرون حملوں کی اجازت دے رکھی ہے۔ یہ تمام سوال فضول اور فروعی ہیں۔

قابل ذکر اور تحسین معاملہ یہ ہے کہ اب ہم اپنی فضائی سرحدوں کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ یہ تمام حالات و واقعات حکیم اللہ محسود کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ شاید ہی کسی اور شخص نے پاکستان کی تاریخ میں اتنا بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہو جو محسود قبیلے کے اس ہونہار سپوت نے اپنی جان کی بازی ہار کر ہمارے لیے کیا۔ جبھی تو ہماری اندرونی مضبوطی اور اتحاد کی زندہ مثال عمران خان کے منہ سے چوہدری نثار علی خان کی تعریف تھی۔ وہ تعریف جو قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر کی گئی ۔ یاد رہے یہ وہ ایوان ہے جہاں وہ اپنی گونا گوں مصروفیت کی وجہ سے کم و بیش نظر آتے ہیں۔ نواز لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان یہ نئی کشش حکیم اللہ محسود کی قربانی کے صدقے پیدا ہوئی۔

عسکری ادارے بھی اس کشش کے گھیرے میں ہیں۔ اس دنیا سے جانے والے نے افغانستان سے کیسا رابطہ رکھا تھا، غیر ملکی ایجنسیوں کے ساتھ ان کے تنظیمی رابطے کیسے تھے اور پاکستان میں ان کے ہاتھوں کتنے ہزار افراد اس دنیا سے رخصت ہوئے یہ حقائق حکیم اللہ محسود کے مداحوں کے اس دربار میں بیان نہیں کیے جا سکتے۔ ان ڈھیروں قومی خدمات کے پیش نظر حکیم اللہ محسود کو اکیس توپوں کی سلامی میں پہلوئے قائد میں تحریک طالبان پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر (کیوں کہ وہ پاکستان کے پرچم کو نہیں مانتے تھے) عزت و تکریم کے ساتھ دفن کرنا چاہیے۔ کتبے پر ہزاروں سال اپنی بے نوری پہ رونے والی نرگس والا شعر تحریر کرنا چاہیے۔ منجانب کے سامنے پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی کے نام بالخصوص اور ان جماعتوں کے نام بالعموم تحریر ہونے چاہئیں جو ہر روز اس تاریخ ساز شخصیت کو خاموش سلام پیش کر رہی ہیں ۔
Load Next Story