پوچھ نہ کیا لاہور میں دیکھا
8 اکتوبر کی صبح سوا آٹھ بجے لاہور ریلوے اسٹیشن پر ریل گاڑی پہنچ گئی تھی۔ یہ ایکسپریس ٹرین اپنے مقررہ وقت صبح ساڑھے ...
8 اکتوبر کی صبح سوا آٹھ بجے لاہور ریلوے اسٹیشن پر ریل گاڑی پہنچ گئی تھی۔ یہ ایکسپریس ٹرین اپنے مقررہ وقت صبح ساڑھے دس بجے سے سوا دو گھنٹے پہلے لاہور پہنچی تھی۔ خواجہ سعد رفیق مرکزی وزیر ریلوے کے لیے دل سے دعائیں نکلیں۔ لاہور آمد کا مقصد ایک شادی میں شرکت تھا، عین ان ہی تاریخوں میں ایکسپریس کی عالمی اردو کانفرنس بھی تھی، یوں لاہور آنے کا مزہ دوبالا ہو گیا۔ 12 اور 13 اکتوبر کے دن آواری ہوٹل میں اردو کانفرنس کے مختلف موضوعاتی ادوار میں گزرے۔ چائے، پرتکلف دوپہر کا کھانا اور پھر شام کی چائے۔ کراچی سے بھی دوست احباب آئے ہوئے تھے۔
لاہور میں شادی ہال اور لان رات دس بجے بند ہو جاتے ہیں۔ یہ مظاہرہ میں نے خود 12 اور 13 اکتوبر بارات اور ولیمے کے اجتماعات میں دیکھا۔ شادی ہال کی تمام بتیاں پونے دس بجے رات لمحہ بھر کو بند کی جاتی ہیں یہ اشارہ ہوتا ہے کہ پندرہ منٹ بعد ہال خالی کرنا ہو گا اور ٹھیک دس بجے ہال کی تمام بتیاں بجھا دی جاتی ہیں۔ خادم اعلیٰ شہباز شریف کی ہدایات پر سختی سے عمل ہوتا دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ بارات اور ولیمے سے نمٹ کر دونوں دن ہم رات کو پھر آواری ہوٹل پہنچ جاتے تھے۔ جہاں پہلی رات استاد رئیس خان صاحب کی ستار نوازی سے لطف اندوز ہوئے اور دوسری رات ساڑھے دس بجے سے رات تین بجے تک مشاعرہ سنتے رہے۔ ایکسپریس کی اس دو روزہ عالمی اردو کانفرنس کی رپورٹ بھائی امجد اسلام امجد اپنے کالموں میں بیان کر چکے ہیں۔ بس میں اتنا ہی کہوں گا کہ یہ کانفرنس بہت کامیاب رہی اور اس کے تمام منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں۔
لاہور میں 9 اکتوبر صبح ساڑھے گیارہ بجے پرانی انارکلی میں ہونے والے بم دھماکے کی ہولناک آواز کو میں نے محض بیس فٹ کے فاصلے پر سنا۔ گلی میں ہونے کی وجہ سے بم سے نکلنے والے بال بیرنگ اور دیگر مہلک اشیا سے میں محفوظ رہا۔ بم دھماکے کے بارے میں گزشتہ کالم میں ذکر کر چکا ہوں۔
کراچی سے جب لاہور کے لیے روانہ ہوا تھا تو درویش شاعر ساغر صدیقی بہت یاد آ رہے تھے۔ لاہور جاتے ہوئے خیال آ رہا تھا کہ اس بے مثال شاعر کا کوئی دوست، ساتھی مل جائے اور وہ ساغر صاحب کی باتیں سنائے، ان کا ذکر چھیڑے۔ میری یہ خواہش گیارہ اکتوبر 2013 بروز جمعہ پوری ہو گئی۔ طارق چغتائی شاعر ہیں اور ادب نواز بھی، ملتان روڈ پر کاروبار کرتے ہیں، ان کے ہاں ماہانہ شعری نشست بھی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر طارق عزیز (معروف ڈرامہ نگار) چغتائی صاحب کے زمانہ طالب علمی کے دوست ہیں اور بزم چغتائی سے آج بھی منسلک ہیں۔ احباب بزم نے دوپہر کے کھانے پر مجھے بلایا۔ وہاں آغا ارشد، رانا عبدالمجید، حکیم راحت نسیم سوہدروی بھی مدعو تھے۔ آغا ارشد صاحب کو لاہور کے احباب نے طویل اور پابند ادبی سامع کے ایوارڈ سے نوازا ہے۔ میں خود بھی آغا ارشد کی اس خصوصیت کا گواہ ہوں۔ کراچی کی ادبی تقریبات میں بھی آغا ارشد شریک ہوتے رہے ہیں۔ رانا عبدالمجید ''اڑتے پتوں کے پیچھے'' کے نام سے دلچسپ سفر نامہ بھارت بھارت لکھ چکے ہیں اب ان کا دوسرا سفرنامہ ''پھر اڑتے پتوں کے پیچھے'' کے نام سے شایع ہوا ہے۔
انھوں نے تازہ کتاب مجھے دی۔ حکیم راحت نسیم بھی لاہور کے ادبی حلقوں میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ اور اب سنیے وہ بات جس کی خواہش لے کر میں کراچی سے چلا تھا کہ ساغر صدیقی صاحب کے کسی جاننے والے سے ملاقات ہو جائے۔ میں نے اپنی خواہش کا اظہار جناب طارق چغتائی صاحب سے کیا۔ انھوں نے میری بات سن کر ایک صاحب کو فون کیا اور ان سے کہا کہ ''اگر آپ ابھی آ سکیں تو ہمارے کراچی سے آئے ایک دوست آپ سے ملنے کے انتہائی متمنی ہیں اور میرے پاس ہی بیٹھے ہیں''۔ فون بند ہوا تو میں نے پوچھا کون صاحب آرہے ہیں؟ طارق چغتائی صاحب بولے ساغر صدیقی صاحب کے چچا زاد بھائی عبدالرحیم صاحب آ رہے ہیں جن کے والد حبیب صاحب نے باپ کے انتقال کے بعد ساغر صدیقی صاحب کی پرورش کی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد عبدالرحیم صاحب آ گئے۔
چہرے پر سفید داڑھی، ستر کے لگ بھگ عمر، مگر تندرست و توانا۔ میں اٹھ کر ان سے بغل گیر ہوا۔ ساغر کی باتیں ہونے لگیں۔ رحیم صاحب کہہ رہے تھے ''امرتسر میں ہمارا لکڑی کی کنگیاں بنانے کا خاندانی کام تھا، ساغر بھی یہی کام کرتے تھے، پھر ایک واقعے نے اچھے بھلے ساغر کو نشے کی لت میں مبتلا کر دیا۔ والد صاحب نے ابتداً ساغر کو برداشت کیا مگر جب اس نے مارفیا کے انجکشن لگوانا شروع کر دیے تو والد صاحب نے اسے گھر سے نکال دیا'' اس واقعے کا بھی ذکر ہوا جس نے ساغر کو دن رات کی بے خودی کے سپرد کر دیا تھا۔میں نے عبدالرحیم صاحب نے کہا کہ ساغر صدیقی آپ کے خاندان کا فخر ہیں۔ رحیم صاحب نے پلٹ کر جواب دیا ''مگر مجھے اپنے باپ پر فخر ہے'' میں نے ساغر کے بارے میں بہت سے سوالات کیے۔ مگر رحیم صاحب کچھ نہ بتا سکے۔ سچ ہے اللہ کے خاص بندے خاندان کے نہیں زمانے کے ہوتے ہیں، اسی لیے زمانہ ساغر کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔
طارق چغتائی کے ہاں بیٹھک جاری تھی کہ ایک دبلے پتلے دراز قد بزرگ تشریف لے آئے ان سے تعارف حاصل ہوا تو میں انھیں دیر تک دیکھتا رہا۔ یہ بزرگ ہماری مرحوم فلم انڈسٹری کے مشہور ہنرمند ایڈیٹر یا تدوین کار زیڈ اے زلفی تھے۔ جس کا نام سینما اسکرین پر دیکھ دیکھ کر میرا بچپنا گزرا، جوانی گزری، پاکستان فلم انڈسٹری کی سیکڑوں فلموں کو زیڈ اے زلفی نے ایڈٹ کیا تھا، مگر اب وہ عرصہ ہوا یہ کام چھوڑ چکے ہیں اور اب جماعت اسلامی سے منسلک ہیں اور فلاحی کام کرتے ہیں۔ اگلے روز حکیم راحت نسیم کے گھر ناشتے پر مدعو تھا۔ وہاں بھی خوب گفتگو رہی۔ آتے ہوئے دوستوں نے اپنی کتابیں مجھے دیں اور تو اور کراچی کے شاعر دوست صابر ظفر نے بھی اپنی شاعری کی تازہ واردات ''میں رانجھا تخت ہزارے کا'' یہ کہتے ہوئے مجھے دی کہ ''ٹرین میں پڑھتے جائیے گا''۔
میں نے چند لاکھ آبادی والا لاہور دیکھا ہے، پرانے شہر کے باہر شہر سنت نگر، کرشن نگر، ساندہ خورد و کلاں، راج گڑھ، چوبرجی اور پھر سمن آباد، وحدت کالونی، ماڈل ٹاؤن، اب اس شہر میں چند لاکھ والے لاہور کی باتیں، روایتیں کہیں نہیں ملتیں، نہ وہ لوگ رہے اور نہ وہ ماحول۔ اردو کانفرنس میں احمد ندیم قاسمی صاحب کی بیٹی ملیں۔ بھائی انور شعور نے ملوایا، مجھے بڑا اچھا لگا۔ قاسمی صاحب سے ملاقاتیں اور باتیں یاد آئیں۔ ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا، کشور ناہید، اصغر ندیم سید، امجد اسلام امجد، فرخ سبیل گویندی، افتخار مجاز نے یہ بتا کر میرا مان بڑھایا کہ یہ سب میرا کالم پڑھتے ہیں اور میرے کالم سے آگاہ ہیں۔ میری دعائیں ان سب کے لیے کہ یہی وہ لوگ جنہوں نے فیضؔ، جالبؔ، شورشؔ، ندیمؔ قاسمی، قتیلؔ، ناصرؔ کاظمی، منیرؔ نیازی، احمد راہیؔ، اے حمید، ریاض شاہد، نور جہاں، ساغرؔ صدیقی، عبداللہ ملک، تنویرؔ نقوی، ن۔م راشدؔ، میراجیؔ، حفیظؔؔ جالندھری، طفیلؔؔ ہوشیار پوری و دیگر کو دیکھا اور ان کی محفلوں میں بیٹھے انھیں سنا۔ آج لاہور میں جدید فلائی اوور، بائی پاس اور لنک روڈ پر رواں دواں میٹرو بس ہے، 13 اکتوبر کو اردو کانفرنس ختم ہوئی اگلے روز سہ پہر ساڑھے تین بجے لاہور کے تاریخی ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہو کر لاہور کی تازہ ترین یادیں لیے پندرہ اکتوبر کو صبح سوا گیارہ بجے میں کینٹ اسٹیشن کراچی پہنچ گیا تھا۔ اگلے روز بقر عید تھی۔
لاہور میں شادی ہال اور لان رات دس بجے بند ہو جاتے ہیں۔ یہ مظاہرہ میں نے خود 12 اور 13 اکتوبر بارات اور ولیمے کے اجتماعات میں دیکھا۔ شادی ہال کی تمام بتیاں پونے دس بجے رات لمحہ بھر کو بند کی جاتی ہیں یہ اشارہ ہوتا ہے کہ پندرہ منٹ بعد ہال خالی کرنا ہو گا اور ٹھیک دس بجے ہال کی تمام بتیاں بجھا دی جاتی ہیں۔ خادم اعلیٰ شہباز شریف کی ہدایات پر سختی سے عمل ہوتا دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ بارات اور ولیمے سے نمٹ کر دونوں دن ہم رات کو پھر آواری ہوٹل پہنچ جاتے تھے۔ جہاں پہلی رات استاد رئیس خان صاحب کی ستار نوازی سے لطف اندوز ہوئے اور دوسری رات ساڑھے دس بجے سے رات تین بجے تک مشاعرہ سنتے رہے۔ ایکسپریس کی اس دو روزہ عالمی اردو کانفرنس کی رپورٹ بھائی امجد اسلام امجد اپنے کالموں میں بیان کر چکے ہیں۔ بس میں اتنا ہی کہوں گا کہ یہ کانفرنس بہت کامیاب رہی اور اس کے تمام منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں۔
لاہور میں 9 اکتوبر صبح ساڑھے گیارہ بجے پرانی انارکلی میں ہونے والے بم دھماکے کی ہولناک آواز کو میں نے محض بیس فٹ کے فاصلے پر سنا۔ گلی میں ہونے کی وجہ سے بم سے نکلنے والے بال بیرنگ اور دیگر مہلک اشیا سے میں محفوظ رہا۔ بم دھماکے کے بارے میں گزشتہ کالم میں ذکر کر چکا ہوں۔
کراچی سے جب لاہور کے لیے روانہ ہوا تھا تو درویش شاعر ساغر صدیقی بہت یاد آ رہے تھے۔ لاہور جاتے ہوئے خیال آ رہا تھا کہ اس بے مثال شاعر کا کوئی دوست، ساتھی مل جائے اور وہ ساغر صاحب کی باتیں سنائے، ان کا ذکر چھیڑے۔ میری یہ خواہش گیارہ اکتوبر 2013 بروز جمعہ پوری ہو گئی۔ طارق چغتائی شاعر ہیں اور ادب نواز بھی، ملتان روڈ پر کاروبار کرتے ہیں، ان کے ہاں ماہانہ شعری نشست بھی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر طارق عزیز (معروف ڈرامہ نگار) چغتائی صاحب کے زمانہ طالب علمی کے دوست ہیں اور بزم چغتائی سے آج بھی منسلک ہیں۔ احباب بزم نے دوپہر کے کھانے پر مجھے بلایا۔ وہاں آغا ارشد، رانا عبدالمجید، حکیم راحت نسیم سوہدروی بھی مدعو تھے۔ آغا ارشد صاحب کو لاہور کے احباب نے طویل اور پابند ادبی سامع کے ایوارڈ سے نوازا ہے۔ میں خود بھی آغا ارشد کی اس خصوصیت کا گواہ ہوں۔ کراچی کی ادبی تقریبات میں بھی آغا ارشد شریک ہوتے رہے ہیں۔ رانا عبدالمجید ''اڑتے پتوں کے پیچھے'' کے نام سے دلچسپ سفر نامہ بھارت بھارت لکھ چکے ہیں اب ان کا دوسرا سفرنامہ ''پھر اڑتے پتوں کے پیچھے'' کے نام سے شایع ہوا ہے۔
انھوں نے تازہ کتاب مجھے دی۔ حکیم راحت نسیم بھی لاہور کے ادبی حلقوں میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ اور اب سنیے وہ بات جس کی خواہش لے کر میں کراچی سے چلا تھا کہ ساغر صدیقی صاحب کے کسی جاننے والے سے ملاقات ہو جائے۔ میں نے اپنی خواہش کا اظہار جناب طارق چغتائی صاحب سے کیا۔ انھوں نے میری بات سن کر ایک صاحب کو فون کیا اور ان سے کہا کہ ''اگر آپ ابھی آ سکیں تو ہمارے کراچی سے آئے ایک دوست آپ سے ملنے کے انتہائی متمنی ہیں اور میرے پاس ہی بیٹھے ہیں''۔ فون بند ہوا تو میں نے پوچھا کون صاحب آرہے ہیں؟ طارق چغتائی صاحب بولے ساغر صدیقی صاحب کے چچا زاد بھائی عبدالرحیم صاحب آ رہے ہیں جن کے والد حبیب صاحب نے باپ کے انتقال کے بعد ساغر صدیقی صاحب کی پرورش کی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد عبدالرحیم صاحب آ گئے۔
چہرے پر سفید داڑھی، ستر کے لگ بھگ عمر، مگر تندرست و توانا۔ میں اٹھ کر ان سے بغل گیر ہوا۔ ساغر کی باتیں ہونے لگیں۔ رحیم صاحب کہہ رہے تھے ''امرتسر میں ہمارا لکڑی کی کنگیاں بنانے کا خاندانی کام تھا، ساغر بھی یہی کام کرتے تھے، پھر ایک واقعے نے اچھے بھلے ساغر کو نشے کی لت میں مبتلا کر دیا۔ والد صاحب نے ابتداً ساغر کو برداشت کیا مگر جب اس نے مارفیا کے انجکشن لگوانا شروع کر دیے تو والد صاحب نے اسے گھر سے نکال دیا'' اس واقعے کا بھی ذکر ہوا جس نے ساغر کو دن رات کی بے خودی کے سپرد کر دیا تھا۔میں نے عبدالرحیم صاحب نے کہا کہ ساغر صدیقی آپ کے خاندان کا فخر ہیں۔ رحیم صاحب نے پلٹ کر جواب دیا ''مگر مجھے اپنے باپ پر فخر ہے'' میں نے ساغر کے بارے میں بہت سے سوالات کیے۔ مگر رحیم صاحب کچھ نہ بتا سکے۔ سچ ہے اللہ کے خاص بندے خاندان کے نہیں زمانے کے ہوتے ہیں، اسی لیے زمانہ ساغر کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔
طارق چغتائی کے ہاں بیٹھک جاری تھی کہ ایک دبلے پتلے دراز قد بزرگ تشریف لے آئے ان سے تعارف حاصل ہوا تو میں انھیں دیر تک دیکھتا رہا۔ یہ بزرگ ہماری مرحوم فلم انڈسٹری کے مشہور ہنرمند ایڈیٹر یا تدوین کار زیڈ اے زلفی تھے۔ جس کا نام سینما اسکرین پر دیکھ دیکھ کر میرا بچپنا گزرا، جوانی گزری، پاکستان فلم انڈسٹری کی سیکڑوں فلموں کو زیڈ اے زلفی نے ایڈٹ کیا تھا، مگر اب وہ عرصہ ہوا یہ کام چھوڑ چکے ہیں اور اب جماعت اسلامی سے منسلک ہیں اور فلاحی کام کرتے ہیں۔ اگلے روز حکیم راحت نسیم کے گھر ناشتے پر مدعو تھا۔ وہاں بھی خوب گفتگو رہی۔ آتے ہوئے دوستوں نے اپنی کتابیں مجھے دیں اور تو اور کراچی کے شاعر دوست صابر ظفر نے بھی اپنی شاعری کی تازہ واردات ''میں رانجھا تخت ہزارے کا'' یہ کہتے ہوئے مجھے دی کہ ''ٹرین میں پڑھتے جائیے گا''۔
میں نے چند لاکھ آبادی والا لاہور دیکھا ہے، پرانے شہر کے باہر شہر سنت نگر، کرشن نگر، ساندہ خورد و کلاں، راج گڑھ، چوبرجی اور پھر سمن آباد، وحدت کالونی، ماڈل ٹاؤن، اب اس شہر میں چند لاکھ والے لاہور کی باتیں، روایتیں کہیں نہیں ملتیں، نہ وہ لوگ رہے اور نہ وہ ماحول۔ اردو کانفرنس میں احمد ندیم قاسمی صاحب کی بیٹی ملیں۔ بھائی انور شعور نے ملوایا، مجھے بڑا اچھا لگا۔ قاسمی صاحب سے ملاقاتیں اور باتیں یاد آئیں۔ ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا، کشور ناہید، اصغر ندیم سید، امجد اسلام امجد، فرخ سبیل گویندی، افتخار مجاز نے یہ بتا کر میرا مان بڑھایا کہ یہ سب میرا کالم پڑھتے ہیں اور میرے کالم سے آگاہ ہیں۔ میری دعائیں ان سب کے لیے کہ یہی وہ لوگ جنہوں نے فیضؔ، جالبؔ، شورشؔ، ندیمؔ قاسمی، قتیلؔ، ناصرؔ کاظمی، منیرؔ نیازی، احمد راہیؔ، اے حمید، ریاض شاہد، نور جہاں، ساغرؔ صدیقی، عبداللہ ملک، تنویرؔ نقوی، ن۔م راشدؔ، میراجیؔ، حفیظؔؔ جالندھری، طفیلؔؔ ہوشیار پوری و دیگر کو دیکھا اور ان کی محفلوں میں بیٹھے انھیں سنا۔ آج لاہور میں جدید فلائی اوور، بائی پاس اور لنک روڈ پر رواں دواں میٹرو بس ہے، 13 اکتوبر کو اردو کانفرنس ختم ہوئی اگلے روز سہ پہر ساڑھے تین بجے لاہور کے تاریخی ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہو کر لاہور کی تازہ ترین یادیں لیے پندرہ اکتوبر کو صبح سوا گیارہ بجے میں کینٹ اسٹیشن کراچی پہنچ گیا تھا۔ اگلے روز بقر عید تھی۔