’’آیاصوفیہ اور ایوارڈ تقریب‘‘

تاریخی اعتبار سے مسجد کی شکل میں یہ تقریباً ساڑھے چار سو برس قائم رہی

Amjadislam@gmail.com

آیا صوفیہ کے بارے میں پہلی بار غالباً اسکول کی کسی کتاب میں پڑھا تھا اس کے بعد مختلف حوالوں سے اس کے بارے میں مزید معلومات بھی حاصل ہوتی رہیں مگر وہ جو کہتے ہیں کہ ''شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ'' یعنی سننے اور دیکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے تو میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

یہ عمارت بنیادی طور پر تین حوالوں سے جانی اور پہچانی جاتی ہے، اپنی تعمیر کے بعد کم و بیش ایک ہزار سال تک یہ ایک گرجا تھا، مجھے پیرس کے ناٹرے ڈیم گرجے سمیت بہت سے گرجے دیکھنے کا موقع ملا ہے لیکن ا پنی قدامت کے اعتبار سے آیا صوفیہ اُن منتخب گرجا گھروں میں شمار ہوتا ہے جن کا حسن آج بھی برقرار ہے اور جو فنِ تعمیر کا ایک ایسا نادر نمونہ ہے کہ ا س کی بلند و بالا چھتیں اور دیواروں پر کیے گئے کام کو دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ واقعی پانچویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئی تھی، 1453ء میں سلطان محمد فاتح کی حکومت کے آغاز اور باز نطینی حکومت کے خاتمے کے بعد اسے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا، قرآنی آیات کی شاندار خطاطی، رنگوں کے استعمال اور خدا اور رسول کریمؐ کے ساتھ خلفائے راشدین کے اسمائے گرامی اندرونی ہال کے چاروں طرف دیواروں پر کندہ ہیں ۔

تاریخی اعتبار سے مسجد کی شکل میں یہ تقریباً ساڑھے چار سو برس قائم رہی جس کے بعد 1935 میں کمال اَتاترک پاشا نے اسے ایک ایسے میوزیم کی شکل دے دی جس میں اس کے دونوں سابقہ رُوپ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ محفوظ ہو گئے، اس میں داخلے کی فیس بہتر ترکی لیرے یعنی ہمارے تقریباً دو ہزار روپے بنتی ہے جو بظاہر بہت زیادہ لگتی ہے لیکن اس کے باوجود یہاں داخلے کے لیے سیاحوں کی لمبی لمبی لائنیں لگی رہتی ہیں، مقامی ترک گائیڈ عزیزی رفیق نے عقل مندی کی کہ ہمارے لیے ٹکٹوں کی آن لائن بکنگ کرا لی ورنہ اچھا خاصا وقت ان لائنوں میں ہی نکل جاتا۔ معلوم ہوا کہ ترکی حکومت کا سب سے بڑا ذریعہ آمدنی یہی سیاحت ہے جب کہ مقبولیت کے اعتبار سے آیا صوفیہ کا شمار پہلی صف میں ہوتاہے ۔

ایوارڈ کی تقریب کا وقت اگرچہ سات بجے شام تھا لیکن ایوارڈ یافتگان اور جیوری کے ممبران کے لیے پانچ بجے ایک خصوصی دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا یہاں شریک میزبان یعنی ''اسٹار'' نامی روزنامے کے چیف ایڈیٹر نوح اور وزارت ثقافت و اطلاعات کی نمایندہ مس سیلن سے بھی ملاقات ہوئی جو گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے مسلسل رابطے میں تھی، میں اور میری بیگم فردوس تقریباً چھ بجے یعنی ایک گھنٹہ لیٹ پہنچے مگر اس تاخیر کی وجہ بھی خود منتظمین ہی تھے کہ صد ر رجب طیب اردوان کی سیکیورٹی اور اُسی نواح میں ہونے والی کسی وزیر کی بیٹی کی شادی کی تقریب کی وجہ سے موقع واردات کی طرف جانے والی ٹریفک کا رش انتہائی زیادہ اور اُس کی رفتار اس قدر کم تھی کہ اسے رفتار کہنا بھی ایک طرح کی زیادتی تھی ۔


خدا خدا کرکے ہم پارکنگ ایریا تک تو پہنچ گئے جس میں ہر طرف گاڑیاں ہی گاڑیا ں تھیں جہاں سے آگے صرف پیدل جانے کی گنجائش تھی، بہت تیز اورٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، چند قدم کے فاصلے پر دائیں ہاتھ سمندر بھی ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا تھا جب کہ بائیں طرف شاندار اور خوب صورت عمارتوں کا ایک سلسلہ تھا جن کے سامنے نجیب فاضل کی تصاویر اور ایوارڈ کی تفصیلات والے پوسٹر تقریب کے مقام کی طرف رہنمائی کر رہے تھے، سیکیورٹی انتہائی سخت تھی معلوم ہوا کہ میرے کہنے پر سیلن بی بی نے عاطف بٹ کے کچھ ساتھیوں کے نام تو لسٹ میں ڈلو ا دیے تھے مگر اُن میں سے دو کے پاس پاسپورٹ نہیں تھے۔

جس کی وجہ سے انھیں داخلے کی اجازت نہ مل سکی جب کہ میری سفارش کے باوجود دو تین دوست بھی باہر ہی رہ گئے جو ہنگامی طور پر شامل ہو گئے تھے کہ سیکیورٹی کے چیف انچارج نے اضافی سیٹوں کی کمی کے باعث آنکھیں ماتھے سے بھی کچھ اُوپر رکھ لیں تھیں۔ سیلن نے بتایا کہ مجھے ایوارڈ یافتگان کے لیے مخصوص پہلی صف میں اپنے نام والی نشست پر بیٹھنا ہو گا جب کہ بیگم صاحبہ کو وی آئی پی انکلوژر میں قدرے فاصلے پر بیٹھنا ہو گا ۔ ہال اور گیلری میں کُل ملا کر تقریباً پانچ سو لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی جو پونے سات بجے تک سب کی سب بھر چکی تھیں۔

منتظمین اور ان کے والنٹیئرز کے نظم و ضبط اور حاضرین کی مثالی تمیزداری کو دیکھ کر دھیان اپنے یہاں کی تقریبات کی طرف گیا تو ''دل کو کئی کہانیاں یا دآ کے رہ گئیں''۔ ٹھیک سات بجے ہمارے دائیں طرف کے دروازے سے طیب اردوان اپنے وزراء ساتھیوں اور سفیر پاکستان سائرس سجاد قاضی کے ساتھ ہال میں داخل ہوئے اور ایوارڈ یافتگان سے ہاتھ ملانا شروع کیا، میرا نمبر چوتھا تھا اور میں اس صف میں واحد غیر ترک تھا۔ میں نے مصافحے کے دوران بتایا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے، یہ سنتے ہی نہ صرف اُن کی گرفت میرے ہاتھ پر مضبوط ہو گئی بلکہ انھوں نے دوسرا ہاتھ میرے بازو پر رکھا اور اگلے چند مصافحوں کے دوران اس کی پوزیشن بھی نہیں بدلی، یہ گویا ایک طرح سے پاکستان سے اُن کی دلی محبت کا اظہار تھا جس سے میرے دل میں اُن کی قدر اور زیادہ بڑھ گئی۔

ایوارڈ کی تقریب میری تقریر اور اسٹیج پر لی جانے و الی گروپ فوٹو کے دوران بھی اُن کی محبت کا یہ انداز تالیوں ، مسکراہٹوں اور سینے پر ہاتھ رکھ کر جھکنے کی شکل میں جاری رہا۔ اپنی تقریرکے دوران تمام باقی ایوارڈ یافتگان کی طرح انھوں نے میرے بارے میں بھی کچھ تعریفی کلمات کہے مگر کچھ دیر کے بعد پھر پاکستان اور پاک ترک دوستی کے بارے میں بہت محبت آمیز اور اچھی اچھی باتیں کیں جو میرے لیے اس ایوارڈ سے کم قیمتی اور مستحسن نہیں تھیں جس کے لیے میں وہاں حاضر ہوا تھا کہ وطن کی عزت میں اضافہ کے لیے حوالہ بننا اپنی جگہ پر ایک مسرور کن تصور ہے۔

جس پُر وقار انداز میں اس تقریب کا اہتمام کیا گیا اور جس طرح سے ایک پاکستانی ہونے کے ناتے ترک دوستوں نے میری پذیرائی کی، اُس کی خوبصورت یاد اور احساس میرے لیے کسی بہت قیمتی سرمائے سے کم نہیں کہ تمام ایوارڈ یافتگان نے علیحدہ علیحدہ فرمائش کر کے میرے ساتھ تصویریں بنوائیں اور اپنی فیملیوں سے ملوایا ۔ فردوس کی خوشی بھی دیدنی تھی کہ بہت سی خواتین نے خاص طور پر اُس کے پاس آ کر اُسے مبارکباد دی اور سفیرِ پاکستان کا یہ جملہ کہ آپ کی وجہ سے ہمارا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے، ایسا پُر اثر تھا کہ دل جُھوم جُھوم اور آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔
Load Next Story