قائد اعظم کی پیدائش کے موقع پر آخری حصہ
قائد اعظم نے اس واقعے کے حوالے سے تمام مسلمانوں کو پرامن رہنے کی اپیل کی
شاہدہ لطیف نے علم و ادب، شعر وسخن، تحقیق و تنقید کے حوالے سے اردو ادب کی خدمات انجام دی ہیں ان کا نام اورکام معتبر قلم کاروں کی صف میں شامل ہے۔ میرے سامنے ایک کتاب '' قائد اعظم محمد علی جناح ایک سوانح۔۔۔ ایک تاریخ '' رکھی ہے، اس کی مصنفہ شاہدہ لطیف ہیں۔
496 صفحات ، خوبصورت ٹائٹل، علم و آگہی سے مرصع تحریروں پر یہ کتاب مبنی ہے۔ شاہدہ لطیف نے ایک محقق کی حیثیت سے مضامین لکھے ہیں ان کی کاوش اس بات کی غماز ہے کہ انھوں نے کتاب کی تکمیل اور قائد اعظم کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لیے بہت محنت کی ہے تب گوہر مراد ہاتھ آیا ہے اور کامیابی کے در کھلے ہیں۔
ان کی تحقیقی سرگرمیاں قابل تحسین ہیں کہ ہزاروں ذمے داریوں کے باوجود انھوں نے ہمت مرداں، مدد خدا کے تحت اپنی منزل کو پالیا۔ یقینا یہ بڑی کامیابی ہے محققین وناقدین نے انھیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ خواجہ رضی حیدر نے ان کے علم و لیاقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''محترمہ شاہدہ لطیف کی علم و ادب سے سنجیدہ وابستگی کا ثبوت فراہم کرتی ہیں، ان کو قائد اعظم محمد علی جناح راہ نمایان تحریک پاکستان اور پاکستان اور پاکستان کی سالمیت و استحکام سے خصوصی تعلق ہے۔
تقویمی اعتبار سے 1918 میں قائد اعظم پر عظیم شاعرہ، بلبل ہند اور کانگریسی راہ نما سروجنی نائیڈو کی پہلی کتاب شایع ہوئی تھی اور سال گزشتہ یعنی 2018 میں قائد اعظم پر کتب کی اشاعت کے 100 سال مکمل ہوگئے۔ یہ بات اہم بھی ہے اور خوشی کی بھی کہ قائد اعظم پر کتابوں کی اشاعت کی پہلی صدی کا آغاز بھی ایک خاتون کی کتاب سے ہوا تھا اور 2019 میں دوسری صدی کا آغاز بھی محترمہ شاہدہ لطیف کی کتاب سے ہو رہا ہے۔ یہ ایک یادگار اور عظیم اتفاق ہے۔ شاہدہ لطیف نے اپنی کتاب کا آغاز اسی طرح کیا ہے جس طرح قائد اعظم کی پیدائش اور حالات زندگی کے ابواب حکم خداوندی سے مرتب ہوئے۔
اسی تسلسل کو برقرار رکھا گیا ہے، تحریر مدلل اور جامع ہے، حوالہ جات مستند کتابوں سے اخذ کیے گئے ہیں، یہ ان کی فہم و فراست ہے انھوں نے تاریخ کو تاریخ کے سانچے میں ہی ڈھالا ہے اس طرح کتاب ''قائد اعظم محمد علی جناح'' کی افادیت اور وقار بلند ہوا ہے، ان کا انداز بیاں دلکش، سادہ اور سلیس ہے اور یہ بات قاری کے لیے اطمینان بخش ہوگی۔ میدان سیاست میں قائد اعظم نے اس طرح قدم رکھا کہ شروع میں بحیثیت پرائیویٹ سیکریٹری دادا بھائی نورو جی کے ساتھ کام کیا پھر سیاسی اقدام کا تسلسل جاری رہا۔ 1905 میں کلکتہ کانگریس میں شرکت کی۔
1909 میں سپریم امپریل کونسل میں بلامقابلہ رکن منتخب ہوئے، یہ دور برعظیم کی سیاست میں علی برادران کی اٹھان کا دور کہلاتا ہے، اس دوران قائد اعظم نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے جو کوششیں کیں ان سے متاثر ہوکر مسز سروجنی نائیڈو نے آپ کو سفیر اتحاد کا خطاب دیا اور اسی عنوان Ambassador of Unity کے تحت انگریزی میں ان پر کتاب لکھی گئی۔ قائد اعظم نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے کے لیے جو عملی جدوجہد کی اسی کے نتیجے میں 1916 میں میثاق لکھنو عمل میں آیا تھا۔
دستور اساسی کے متعلق مسلمانوں کے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے 14 نکات پیش کیے جنھیں اسلامیان ہند کی تحریک آزادی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ جن میں سے چند یہ ہیں۔ (1)۔ مستقبل کا آئین وفاقی نوعیت کا ہونا چاہیے اور باقی ماندہ اختیارات صوبوں کو تفویض کیے جائیں۔ (2)۔ شمالی مغربی سرحدی صوبہ اور بلوچستان میں بھی دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات نافذ کی جائیں۔ (3)۔ مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کی نمایندگی ایک تہائی سے کم نہ ہو۔
شاہدہ نے علامہ مشرقی کے کردار پر بھی خامہ فرسائی کرکے قارئین کو آگاہی دی ہے کہ سچائی کی راہیں بڑی کٹھن اور جنت کی سمت جانے والا راستہ پرخار ہے۔ لکھتی ہیں خاکسار تحریک کے بانی علامہ مشرقی کا مطالبہ زور پکڑ گیا تھا کہ سیاسی تعطل کے حل کے لیے قائد اعظم گاندھی جی سے مل کر کوئی تدبیر اختیار کریں علامہ مشرقی نے اپنے ایک بیان کے ذریعے قائد اعظم کو 25 جولائی 1943 تک مہلت دی اور تمام ہندوستان کے خاکساروں کو حکم دیا کہ وہ 15 جون تک قائد اعظم کو خطوط لکھیں۔
خالد اختر افغانی نے اپنی کتاب ''سوانح حیات قائد اعظم'' میں لکھا ہے ان دنوں علامہ مشرقی قائد اعظم کی جگہ ہندوستان گیر لیڈر بننے کے خواہش مند تھے چنانچہ جب وہ جیل سے رہا ہوئے تو انھوں نے قائد اعظم کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ مہم کا آغاز کیا اور ہندوستان کے کونے کونے سے خاکسار قائد اعظم کے خلاف حرکت میں آگئے اور پھر 26 جولائی 1943 کو بمبئی ''رفیق احمد مزنگوی'' نامی ایک خاکسار نے قائد اعظم پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں تائید ایزدی سے قائد اعظم بال بال بچ گئے انھیں معمولی زخم آیا۔ جلد ہی ان کے سیکریٹری اور چوکی دار نے حملہ آور کو قابو میں لے کر پولیس کے حوالے کر دیا۔
قائد اعظم نے اس واقعے کے حوالے سے تمام مسلمانوں کو پرامن رہنے کی اپیل کی۔ چونکہ عام مسلمانوں میں خاکساروں کے خلاف بڑا غیض و غضب پیدا ہوگیا تھا۔ پنجاب اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا خطبہ صدارت 2 مارچ 1941، اس مضمون میں قائد اعظم کی خرد افروزیاں حکمت عملی، مصلحت پسندی اور مستقبل کا لائحہ عمل بیان کیا ہے۔
قائد اعظم نے طلبا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کروں گا کہ آپ نے مجھے ''پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس'' کی کانفرنس کی صدارت کی عزت بخشی، اسی مضمون میں سکھ بھائیوں کو بھی اس بات کا احساس دلایا ہے کہ وہ خوف و ہراس کو دور کریں وہ دیکھیں گے کہ قرارداد لاہور میں ان کی حالت اور حیثیت اس درجہ اور مقام سے بہتر ہوگی جو انھیں ایک متحدہ ہند کے اجتماعی (فیڈرل) آئین کی صورت میں حاصل ہوگا۔ پھر اپنی تقریر کے دوران ہالینڈ کی اس ضرب المثل کو اپنا مقولہ ٹھہرانے کی بات کی۔
''جب آدمی روپیہ کھو دے تو کچھ نہیں ہوتا اگر حوصلہ کھو جائے تو بہت کچھ کھو جاتا ہے، آبرو کھوئی جائے تو سب کچھ کھویا جاتا ہے اور اگر روح کھو گئی تو سب کچھ ہی کھویا گیا۔''
گاندھی کے قتل پر قائد اعظم نے کہا کہ مجھے یہ معلوم کرکے ازحد صدمہ ہوا کہ گاندھی پر بزدلانہ حملہ کیا گیا ہے جس سے ان کی موت واقع ہوگئی ہمارے درمیان کیسے بھی اختلافات کیوں نہ ہوں لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے ملک کے سب سے بڑے آدمی اور ہندوؤں کے بزرگ ترین رہنما تھے۔
بے شک شاہدہ لطیف کا یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جو پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگا۔
496 صفحات ، خوبصورت ٹائٹل، علم و آگہی سے مرصع تحریروں پر یہ کتاب مبنی ہے۔ شاہدہ لطیف نے ایک محقق کی حیثیت سے مضامین لکھے ہیں ان کی کاوش اس بات کی غماز ہے کہ انھوں نے کتاب کی تکمیل اور قائد اعظم کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لیے بہت محنت کی ہے تب گوہر مراد ہاتھ آیا ہے اور کامیابی کے در کھلے ہیں۔
ان کی تحقیقی سرگرمیاں قابل تحسین ہیں کہ ہزاروں ذمے داریوں کے باوجود انھوں نے ہمت مرداں، مدد خدا کے تحت اپنی منزل کو پالیا۔ یقینا یہ بڑی کامیابی ہے محققین وناقدین نے انھیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ خواجہ رضی حیدر نے ان کے علم و لیاقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''محترمہ شاہدہ لطیف کی علم و ادب سے سنجیدہ وابستگی کا ثبوت فراہم کرتی ہیں، ان کو قائد اعظم محمد علی جناح راہ نمایان تحریک پاکستان اور پاکستان اور پاکستان کی سالمیت و استحکام سے خصوصی تعلق ہے۔
تقویمی اعتبار سے 1918 میں قائد اعظم پر عظیم شاعرہ، بلبل ہند اور کانگریسی راہ نما سروجنی نائیڈو کی پہلی کتاب شایع ہوئی تھی اور سال گزشتہ یعنی 2018 میں قائد اعظم پر کتب کی اشاعت کے 100 سال مکمل ہوگئے۔ یہ بات اہم بھی ہے اور خوشی کی بھی کہ قائد اعظم پر کتابوں کی اشاعت کی پہلی صدی کا آغاز بھی ایک خاتون کی کتاب سے ہوا تھا اور 2019 میں دوسری صدی کا آغاز بھی محترمہ شاہدہ لطیف کی کتاب سے ہو رہا ہے۔ یہ ایک یادگار اور عظیم اتفاق ہے۔ شاہدہ لطیف نے اپنی کتاب کا آغاز اسی طرح کیا ہے جس طرح قائد اعظم کی پیدائش اور حالات زندگی کے ابواب حکم خداوندی سے مرتب ہوئے۔
اسی تسلسل کو برقرار رکھا گیا ہے، تحریر مدلل اور جامع ہے، حوالہ جات مستند کتابوں سے اخذ کیے گئے ہیں، یہ ان کی فہم و فراست ہے انھوں نے تاریخ کو تاریخ کے سانچے میں ہی ڈھالا ہے اس طرح کتاب ''قائد اعظم محمد علی جناح'' کی افادیت اور وقار بلند ہوا ہے، ان کا انداز بیاں دلکش، سادہ اور سلیس ہے اور یہ بات قاری کے لیے اطمینان بخش ہوگی۔ میدان سیاست میں قائد اعظم نے اس طرح قدم رکھا کہ شروع میں بحیثیت پرائیویٹ سیکریٹری دادا بھائی نورو جی کے ساتھ کام کیا پھر سیاسی اقدام کا تسلسل جاری رہا۔ 1905 میں کلکتہ کانگریس میں شرکت کی۔
1909 میں سپریم امپریل کونسل میں بلامقابلہ رکن منتخب ہوئے، یہ دور برعظیم کی سیاست میں علی برادران کی اٹھان کا دور کہلاتا ہے، اس دوران قائد اعظم نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے جو کوششیں کیں ان سے متاثر ہوکر مسز سروجنی نائیڈو نے آپ کو سفیر اتحاد کا خطاب دیا اور اسی عنوان Ambassador of Unity کے تحت انگریزی میں ان پر کتاب لکھی گئی۔ قائد اعظم نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے کے لیے جو عملی جدوجہد کی اسی کے نتیجے میں 1916 میں میثاق لکھنو عمل میں آیا تھا۔
دستور اساسی کے متعلق مسلمانوں کے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے 14 نکات پیش کیے جنھیں اسلامیان ہند کی تحریک آزادی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ جن میں سے چند یہ ہیں۔ (1)۔ مستقبل کا آئین وفاقی نوعیت کا ہونا چاہیے اور باقی ماندہ اختیارات صوبوں کو تفویض کیے جائیں۔ (2)۔ شمالی مغربی سرحدی صوبہ اور بلوچستان میں بھی دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات نافذ کی جائیں۔ (3)۔ مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کی نمایندگی ایک تہائی سے کم نہ ہو۔
شاہدہ نے علامہ مشرقی کے کردار پر بھی خامہ فرسائی کرکے قارئین کو آگاہی دی ہے کہ سچائی کی راہیں بڑی کٹھن اور جنت کی سمت جانے والا راستہ پرخار ہے۔ لکھتی ہیں خاکسار تحریک کے بانی علامہ مشرقی کا مطالبہ زور پکڑ گیا تھا کہ سیاسی تعطل کے حل کے لیے قائد اعظم گاندھی جی سے مل کر کوئی تدبیر اختیار کریں علامہ مشرقی نے اپنے ایک بیان کے ذریعے قائد اعظم کو 25 جولائی 1943 تک مہلت دی اور تمام ہندوستان کے خاکساروں کو حکم دیا کہ وہ 15 جون تک قائد اعظم کو خطوط لکھیں۔
خالد اختر افغانی نے اپنی کتاب ''سوانح حیات قائد اعظم'' میں لکھا ہے ان دنوں علامہ مشرقی قائد اعظم کی جگہ ہندوستان گیر لیڈر بننے کے خواہش مند تھے چنانچہ جب وہ جیل سے رہا ہوئے تو انھوں نے قائد اعظم کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ مہم کا آغاز کیا اور ہندوستان کے کونے کونے سے خاکسار قائد اعظم کے خلاف حرکت میں آگئے اور پھر 26 جولائی 1943 کو بمبئی ''رفیق احمد مزنگوی'' نامی ایک خاکسار نے قائد اعظم پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں تائید ایزدی سے قائد اعظم بال بال بچ گئے انھیں معمولی زخم آیا۔ جلد ہی ان کے سیکریٹری اور چوکی دار نے حملہ آور کو قابو میں لے کر پولیس کے حوالے کر دیا۔
قائد اعظم نے اس واقعے کے حوالے سے تمام مسلمانوں کو پرامن رہنے کی اپیل کی۔ چونکہ عام مسلمانوں میں خاکساروں کے خلاف بڑا غیض و غضب پیدا ہوگیا تھا۔ پنجاب اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا خطبہ صدارت 2 مارچ 1941، اس مضمون میں قائد اعظم کی خرد افروزیاں حکمت عملی، مصلحت پسندی اور مستقبل کا لائحہ عمل بیان کیا ہے۔
قائد اعظم نے طلبا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کروں گا کہ آپ نے مجھے ''پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس'' کی کانفرنس کی صدارت کی عزت بخشی، اسی مضمون میں سکھ بھائیوں کو بھی اس بات کا احساس دلایا ہے کہ وہ خوف و ہراس کو دور کریں وہ دیکھیں گے کہ قرارداد لاہور میں ان کی حالت اور حیثیت اس درجہ اور مقام سے بہتر ہوگی جو انھیں ایک متحدہ ہند کے اجتماعی (فیڈرل) آئین کی صورت میں حاصل ہوگا۔ پھر اپنی تقریر کے دوران ہالینڈ کی اس ضرب المثل کو اپنا مقولہ ٹھہرانے کی بات کی۔
''جب آدمی روپیہ کھو دے تو کچھ نہیں ہوتا اگر حوصلہ کھو جائے تو بہت کچھ کھو جاتا ہے، آبرو کھوئی جائے تو سب کچھ کھویا جاتا ہے اور اگر روح کھو گئی تو سب کچھ ہی کھویا گیا۔''
گاندھی کے قتل پر قائد اعظم نے کہا کہ مجھے یہ معلوم کرکے ازحد صدمہ ہوا کہ گاندھی پر بزدلانہ حملہ کیا گیا ہے جس سے ان کی موت واقع ہوگئی ہمارے درمیان کیسے بھی اختلافات کیوں نہ ہوں لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے ملک کے سب سے بڑے آدمی اور ہندوؤں کے بزرگ ترین رہنما تھے۔
بے شک شاہدہ لطیف کا یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جو پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگا۔