نااہلی کا شاخسانہ
بدقسمتی سے ہم ایک ایسے عہد میں داخل ہوگئے ہیں جس میں پروپیگنڈے نے دلیل کو زیر کر دیا ہے
خوشحال ، مہذب معاشروں کی ترقی کا راز تعلیم ، اعتدال پسندی اور قانون کی بالادستی قرار دی گئی ہے۔ افسوس صد افسوس کہ وطن عزیز کبھی کسی دور میں پر امن ، مہذب اور خوشحال معاشروں کی فہرست میں شامل نہیں رہا۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان اس وقت ان گنت چیلنجز میں گھرا ہوا ہے اور اپنی بقا اور سلامتی کی جنگ لڑ رہا ہے، مگر ایسا لگ رہا ہے کہ اختیارات کے سنگھاسن پر براجمان لوگ زمینی حقائق سے آنکھیں بند کیے رکھنے اور عوام کے جذبات سے یکسر نابلد ہونے کے باعث ایسے فیصلوں پر اصرار کر رہے ہیں جو ملکی وحدت اور انسانی عظمت کو ضعف پہنچا رہے ہیں۔
کتنے رنج اور کتنے الم کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں اب اچھائی اور برائی کا فرق مٹ گیا ہے یہاں جس کی کوئی اپروچ یا سفارش نہ ہو اس کی حیثیت زمین پر رینگتی چیونٹیوں کی طرح ہوتی ہے جو ہر قدم رکھتے استحصالی جوتوں کے نیچے آکر کچلے جاتے رہتے ہیں۔ ہمارے نظام انصاف کا یہ ایک بڑا نقص ہے کہ بے شمار ملزمان برسوں قید وبند کی صعوبتیں بھگتنے کے بعد اعلیٰ عدالتوں سے باعزت بری قرار پاتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جرم بے گناہی کی جو سزا وہ اور ان کے متعلقین بھگتتے ہیں اسے کس کھاتے میں شمار کیا جائے؟ عدالتی نظام میں اصلاحات کا جو عمل جاری ہے اس کے تحت اس نقص کا ازالہ بھی ہونا چاہیے کیونکہ یہ عدل نہیں کھلا ظلم ہے۔
یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کروڑوں روپے بے نامی اکاؤنٹوں سے نکلنے والے '' ذرایع '' سے حکومتی ارکان بخوبی واقف ہیں لیکن کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ بے نامی اکاؤنٹوں والوں کو صرف ایک کروڑ روپے کی ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ اسی طرح پاناما لیکس سے سارے کرتوت لیک ہوگئے لیکن وہ بھی بیماری کا کہہ کر باہر چلے گئے اور باقی جو بچے وہ بھی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
آخر کب تک مجرموں کو ملزم اور ان کی سورج کی طرح چمکتی عیاں کرپشن یا بد عنوانیوں کو ''مبینہ'' کہا اور لکھا جاتا رہے گا؟ قانون ، قانون سازی اور قانون ساز بڑے بڑے سپریم اداروں کی موجودگی میں قانون کے ساتھ یہ کھلواڑ آخرکب تک وطن عزیز میں کیا جاتا رہے گا نہیں معلوم؟
قانون سے صرف نظرکرنے والے ہمارے ارباب اختیارکو اس ابدی سچائی پر کان ضرور دھرنے چاہئیں کہ جو ریاست مجرموں پر رحم کرتی ہے وہاں بے گناہ بڑی بے رحمی سے مرتے ہیں اور ہمارے اور آپ کے اطراف کے قبرستان ایسی بے گناہ ذاتوں سے اٹے پڑے ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بدنیتی سے سازش جنم لیتی ہے لیکن نااہلی سے بحران جنم لیتا ہے۔ حال ہی میں بعض معاملات پر ایک بہت بڑا آئینی بحران جس طرح پیدا کرکے سامنے آیا یا لایا گیا اس کی وجہ صرف اور صرف '' نااہلی'' ہی تھی اور اس بحران نے صرف موجودہ حکومت کو ہی نہیں بلکہ ریاست پاکستان کو پوری دنیا میں ایک تماشا بنا دیا۔ تحریک پاکستان کی حکومت نے ایک کروڑ نئی نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس حکومت نے پاکستان کی سب سے مضبوط اور پکی نوکری کو بھی ایک سرکس بنا دیا۔ اس سرکس یا اس تماشے سے صرف تحریک انصاف کی ساکھ مجروح نہیں ہوئی بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا مذاق اڑایا گیا۔
بدقسمتی سے ہم ایک ایسے عہد میں داخل ہوگئے ہیں جس میں پروپیگنڈے نے دلیل کو زیر کر دیا ہے۔ قوم کب تک حکمرانوں کی غلطیوں کو نظرانداز کرکے اپنی اور اپنی نسلوں کی تباہی و بربادی کا شکار ہوتی رہے گی۔ باز آئی قوم ایسی تبدیلیوں سے جس سے ادارے تباہ ہو رہے ہیں، معیشت تباہی کے دہانے کی طرف تیزی سے گامزن ہے اور سیاست ون مین شو (وزیر اعظم) تک رہ گئی ہے اور چاروں طرف حاشیہ برداروں اور خوشامدیوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
جس ملک کی سیاست خوشامد پر چلنے لگے، جہاں متنوع رنگوں اور متضاد صفحوں کے بجائے سب ایک صفحے پر چلے جائیں، جس ریاست سے اختلاف رائے غائب ہو جائے یا کر دیا جائے، اظہار رائے کی آزادی چھن جائے وہ کامیاب نہیں بلکہ نا کام ترین ریاست کہلاتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ تکبر اور انا، طاقت و اختیار کی دو ناجائز اولادیں ہیں جن سے اکثر حکمران چھٹکارا نہیں پاسکتے اور یہی دونوں ان کے اقتدار سے بے آبرو ہوکر نکلنے کی وجہ بن جاتی ہیں۔ اقتدار میں آکر جو حکمران ان پر قابو پاجاتا ہے وہ امر ہو جاتا ہے مگر تاریخ میں بھی اس آپشن پر عملدرآمد کرنے والے حکمران کم ہی پائے جاتے ہیں۔ ہمارے موجودہ ارباب اختیار مصلحت اور مصالحت سے قابل قبول تو ہوسکتے ہیں مگر کبھی بھی مقبول نہیں ہوسکیں گے۔ کیونکہ اقتدار تو دوسری جماعتوں کو بھی ملا تھا مگر وہ لوگوں کے دلوں میں جگہ نہ پاسکیں اور کبھی پاپولر جماعت نہ بن سکیں۔
اٹل سچائی یہی ہے کہ بے ساکھیوں یا ریموٹ کنٹرول کے ذریعے سے ملنے والا اقتدار نہ دیرپا ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی کارکردگی دکھائی جاسکتی ہے۔ یہ درست کہ اقتدار مقتدرکے بغیر نہیں ملتا مگر مصلحت اور مصالحت سے ملنے والا اقتدار کٹھ پتلی جیسا ہوتا ہے، ویسے بھی چمچوں یا حاشیہ برداروں کو خود مختار کوئی نہیں بناتا۔ مقام شکر ہے کہ ہماری حکومتی قیادت کو تیزی سے یہ احساس ہو رہا ہے کہ وہ بھی سابق حکومتی قیادت کی طرح ایک قیادت ہیں۔ تاہم انھیں اب اپنا راستہ خود چن لینا چاہیے۔ کیونکہ ایک راستہ تاریخ میں کالے حروف سے رقم کیا جاتا ہے اور دوسرا راستہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جاتا ہے۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ لیڈر اگر اپنے موقف پر ڈٹ نہ سکیں ، حرص اقتدار یا انتقام کے خوف سے آواز بلند نہ کرسکیں تو انھیں علم ہونا چاہیے کہ ایسی خاموشی موت ہے۔ اگر کوئی لیڈر حالات کے جبر میں مصلحت کی چادر اوڑھتا ہے تو وہ سیاسی خودکشی کی طرف گامزن ہے۔
ہمارے سابقہ چیف جسٹس نے ایک اہم حقیقت کی نشاندہی ان الفاظ میں کی ہے کہ '' تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں جو خطرہ مول لینے کو تیار ہوتے ہیں'' قومی زندگی کے تمام شعبوں میں بہتری کے لیے جلد ازجلد مثبت تبدیلی وقت کی اولین ضرورت ہے۔ کیا ہی اچھا ہوکہ قومی اتفاق رائے سے اس سمت میں فوری پیش رفت شروع کی جائے کیونکہ مہذب اور ترقی یافتہ جمہوری معاشرہ بننے کے خواب کی تکمیل اس کے بغیر ممکن نہیں۔
کتنے رنج اور کتنے الم کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں اب اچھائی اور برائی کا فرق مٹ گیا ہے یہاں جس کی کوئی اپروچ یا سفارش نہ ہو اس کی حیثیت زمین پر رینگتی چیونٹیوں کی طرح ہوتی ہے جو ہر قدم رکھتے استحصالی جوتوں کے نیچے آکر کچلے جاتے رہتے ہیں۔ ہمارے نظام انصاف کا یہ ایک بڑا نقص ہے کہ بے شمار ملزمان برسوں قید وبند کی صعوبتیں بھگتنے کے بعد اعلیٰ عدالتوں سے باعزت بری قرار پاتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جرم بے گناہی کی جو سزا وہ اور ان کے متعلقین بھگتتے ہیں اسے کس کھاتے میں شمار کیا جائے؟ عدالتی نظام میں اصلاحات کا جو عمل جاری ہے اس کے تحت اس نقص کا ازالہ بھی ہونا چاہیے کیونکہ یہ عدل نہیں کھلا ظلم ہے۔
یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کروڑوں روپے بے نامی اکاؤنٹوں سے نکلنے والے '' ذرایع '' سے حکومتی ارکان بخوبی واقف ہیں لیکن کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ بے نامی اکاؤنٹوں والوں کو صرف ایک کروڑ روپے کی ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ اسی طرح پاناما لیکس سے سارے کرتوت لیک ہوگئے لیکن وہ بھی بیماری کا کہہ کر باہر چلے گئے اور باقی جو بچے وہ بھی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
آخر کب تک مجرموں کو ملزم اور ان کی سورج کی طرح چمکتی عیاں کرپشن یا بد عنوانیوں کو ''مبینہ'' کہا اور لکھا جاتا رہے گا؟ قانون ، قانون سازی اور قانون ساز بڑے بڑے سپریم اداروں کی موجودگی میں قانون کے ساتھ یہ کھلواڑ آخرکب تک وطن عزیز میں کیا جاتا رہے گا نہیں معلوم؟
قانون سے صرف نظرکرنے والے ہمارے ارباب اختیارکو اس ابدی سچائی پر کان ضرور دھرنے چاہئیں کہ جو ریاست مجرموں پر رحم کرتی ہے وہاں بے گناہ بڑی بے رحمی سے مرتے ہیں اور ہمارے اور آپ کے اطراف کے قبرستان ایسی بے گناہ ذاتوں سے اٹے پڑے ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بدنیتی سے سازش جنم لیتی ہے لیکن نااہلی سے بحران جنم لیتا ہے۔ حال ہی میں بعض معاملات پر ایک بہت بڑا آئینی بحران جس طرح پیدا کرکے سامنے آیا یا لایا گیا اس کی وجہ صرف اور صرف '' نااہلی'' ہی تھی اور اس بحران نے صرف موجودہ حکومت کو ہی نہیں بلکہ ریاست پاکستان کو پوری دنیا میں ایک تماشا بنا دیا۔ تحریک پاکستان کی حکومت نے ایک کروڑ نئی نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس حکومت نے پاکستان کی سب سے مضبوط اور پکی نوکری کو بھی ایک سرکس بنا دیا۔ اس سرکس یا اس تماشے سے صرف تحریک انصاف کی ساکھ مجروح نہیں ہوئی بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا مذاق اڑایا گیا۔
بدقسمتی سے ہم ایک ایسے عہد میں داخل ہوگئے ہیں جس میں پروپیگنڈے نے دلیل کو زیر کر دیا ہے۔ قوم کب تک حکمرانوں کی غلطیوں کو نظرانداز کرکے اپنی اور اپنی نسلوں کی تباہی و بربادی کا شکار ہوتی رہے گی۔ باز آئی قوم ایسی تبدیلیوں سے جس سے ادارے تباہ ہو رہے ہیں، معیشت تباہی کے دہانے کی طرف تیزی سے گامزن ہے اور سیاست ون مین شو (وزیر اعظم) تک رہ گئی ہے اور چاروں طرف حاشیہ برداروں اور خوشامدیوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
جس ملک کی سیاست خوشامد پر چلنے لگے، جہاں متنوع رنگوں اور متضاد صفحوں کے بجائے سب ایک صفحے پر چلے جائیں، جس ریاست سے اختلاف رائے غائب ہو جائے یا کر دیا جائے، اظہار رائے کی آزادی چھن جائے وہ کامیاب نہیں بلکہ نا کام ترین ریاست کہلاتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ تکبر اور انا، طاقت و اختیار کی دو ناجائز اولادیں ہیں جن سے اکثر حکمران چھٹکارا نہیں پاسکتے اور یہی دونوں ان کے اقتدار سے بے آبرو ہوکر نکلنے کی وجہ بن جاتی ہیں۔ اقتدار میں آکر جو حکمران ان پر قابو پاجاتا ہے وہ امر ہو جاتا ہے مگر تاریخ میں بھی اس آپشن پر عملدرآمد کرنے والے حکمران کم ہی پائے جاتے ہیں۔ ہمارے موجودہ ارباب اختیار مصلحت اور مصالحت سے قابل قبول تو ہوسکتے ہیں مگر کبھی بھی مقبول نہیں ہوسکیں گے۔ کیونکہ اقتدار تو دوسری جماعتوں کو بھی ملا تھا مگر وہ لوگوں کے دلوں میں جگہ نہ پاسکیں اور کبھی پاپولر جماعت نہ بن سکیں۔
اٹل سچائی یہی ہے کہ بے ساکھیوں یا ریموٹ کنٹرول کے ذریعے سے ملنے والا اقتدار نہ دیرپا ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی کارکردگی دکھائی جاسکتی ہے۔ یہ درست کہ اقتدار مقتدرکے بغیر نہیں ملتا مگر مصلحت اور مصالحت سے ملنے والا اقتدار کٹھ پتلی جیسا ہوتا ہے، ویسے بھی چمچوں یا حاشیہ برداروں کو خود مختار کوئی نہیں بناتا۔ مقام شکر ہے کہ ہماری حکومتی قیادت کو تیزی سے یہ احساس ہو رہا ہے کہ وہ بھی سابق حکومتی قیادت کی طرح ایک قیادت ہیں۔ تاہم انھیں اب اپنا راستہ خود چن لینا چاہیے۔ کیونکہ ایک راستہ تاریخ میں کالے حروف سے رقم کیا جاتا ہے اور دوسرا راستہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جاتا ہے۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ لیڈر اگر اپنے موقف پر ڈٹ نہ سکیں ، حرص اقتدار یا انتقام کے خوف سے آواز بلند نہ کرسکیں تو انھیں علم ہونا چاہیے کہ ایسی خاموشی موت ہے۔ اگر کوئی لیڈر حالات کے جبر میں مصلحت کی چادر اوڑھتا ہے تو وہ سیاسی خودکشی کی طرف گامزن ہے۔
ہمارے سابقہ چیف جسٹس نے ایک اہم حقیقت کی نشاندہی ان الفاظ میں کی ہے کہ '' تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں جو خطرہ مول لینے کو تیار ہوتے ہیں'' قومی زندگی کے تمام شعبوں میں بہتری کے لیے جلد ازجلد مثبت تبدیلی وقت کی اولین ضرورت ہے۔ کیا ہی اچھا ہوکہ قومی اتفاق رائے سے اس سمت میں فوری پیش رفت شروع کی جائے کیونکہ مہذب اور ترقی یافتہ جمہوری معاشرہ بننے کے خواب کی تکمیل اس کے بغیر ممکن نہیں۔