بنگلہ دیش کرکٹ میں سیاست کو لے آیا

پاکستان میں سیریز کی امیدیں حسرت میں بدلنے لگیں

پاکستان میں سیریز کی امیدیں حسرت میں بدلنے لگیں

پاکستان اور بنگلہ دیش کے کرکٹ روابط کی ایک طویل تاریخ ہے، وقت کے ساتھ ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا، تاہم اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان نے قدم قدم پر بنگلہ دیش کا ساتھ دیتے ہوئے اس کو انٹرنیشنل اور ٹیسٹ اسٹیٹس دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس دوران پیش آنے والی مشکلات اور پاکستان کی فراخدلی جاننے کے لیے ماضی کے اوراق پلٹنا ہوں گے، 1980ء میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم طویل دورہ بھارت کے لیے پہنچی تو بنگلہ دیش کی درخواست پر سیریز کے درمیان ہی دو میچز کھیلنے کی حامی بھر لی،اس وقت بنگال ٹائیگرز کو انٹرنیشنل اسٹیٹس حاصل نہیں تھا، پاکستان ٹیم آصف اقبال کی قیادت میں چٹاگانگ پہنچی، 2 روزہ میچ کے آغاز پر پاکستان نے 5 وکٹوں کے نقصان پر 179 رنز بنا کراننگز ڈکلیئر کردی۔

بنگلہ دیش نے جواب میں صرف 114 رنز بنائے، مہمان ٹیم نے دوسرے روز 3 وکٹوں کے نقصان پر 138 رنز بنا کر اپنی دوسری اننگز بھی ڈکلیئر کر دی، جواب میں چائے کے وقفے تک بنگلہ دیش نے 3 وکٹیں گنواکر 65 رنز بنائے تھے کہ تماشائیوں نے پاکستانی کرکٹرز پر ہلہ بول دیا، ان کا موقف تھا کہ مہمان پلیئرز نے نسلی تعصب پر مبنی جملے بنگلہ دیشیوں کے بارے میں کہے ہیں، میچ وہیں پر ختم کردیا گیا، انتہائی ناخوشگوار ماحول بن جانے پر پاکستان ٹیم نے ڈھاکا میں شیڈول دوسرا 3 روزہ میچ کھیلنے سے گریز کرتے ہوئے بھارت واپسی کے لیے رخت سفر باندھا اور وہاں سیریز کے باقی میچز کھیلے۔

اس واقعہ کے بعد حالات میں اتنے تلخی آئی کہ اگلے ہی ماہ بنگلہ دیشی ٹیم کا دورہ پاکستان بھی منسوخ ہوگیا، 4سال تک یہ تعطل برقرار رہا اور کوئی ٹیم تو کیا کسی کرکٹر نے بھی ایک دوسرے کے ملک کا دورہ نہیں کیا، جمود کی فضا بالآخر فروری 1984 ء میں ختم ہوئی جب مشتاق احمد کی قیادت میں پی آئی اے کی ٹیم نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا، فروری 1986ء میں عمران خان کی قیادت میں عمرقریشی الیون کی آمد سے تعلقات میں مزید بہتری آئی۔

اسی سال مارچ میں غازی اشرف کی قیادت میں بنگلہ دیشی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا، دونوں ملکوں کے مابین پہلا ون ڈے انٹرنیشنل میچ اسی سال31 مارچ کو ایشیا کپ میں کھیلا گیا، موراتووا میں ہونے والا یہ میچ مہمان ٹیم نے آسانی سے جیتا،آئی سی سی میں پاکستان کی حمایت سے بنگلہ دیش کو ٹیسٹ سٹیٹس حاصل ہوا تو پڑوسی ملک کی ٹیم اگست 2001 ء میں ملتان ٹیسٹ کھیلنے کیلیے آئی۔

جنوری 2002 ء میں پاکستان نے ڈھاکا اور چٹاگانگ میں دو طویل فارمیٹ کے میچز کھیلے، اگلے سال بنگلہ دیشی ٹیم نے کراچی پشاور اور ملتان میں 3 ٹیسٹ کھیلے، مارچ 2009ء میں سری لنکن ٹیم پر حملہ کے بعد پاکستان میں کھیلوں کے میدان ویران ہوئے تو اعتماد کی بحالی کے سفر میں پی سی بی نے سب سے پہلے بنگلہ دیش کی طرف ہی دیکھا، دسمبر 2011 ء میں پاکستان ٹیم نے چٹاگانگ اور ڈھاکا میں ٹیسٹ میچ کھیلے، بی سی پی کی جانب سے جوابی دورے کی طفل تسلیاں جاری رہیں لیکن کوئی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا۔

اپریل، مئی 2015ء میں پاکستان نے کھلنا اور ڈھاکہ میں طویل فارمیٹ کے دو میچ کھیلے، اس عرصہ میں ون ڈے مقابلوں کا سلسلہ بھی جاری رہا، جوابی دورے کے معاملے میں مالی مفادات کے لیے بھارتی بورڈ کے زیر اثر رہنے والے بی سی بی نے ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا، پاکستان نے بالآخر دیگر ملکوں کی جانب دیکھنا شروع کر دیا۔

انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی میں زمبابوے کی ٹیم بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی، مئی 2015ء میں قذافی اسٹیڈیم ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز کا میزبان بنا، پی ایس ایل میچز، ورلڈ الیون کے ساتھ سیریز نے اعتماد کی فضا مزید بحال کی۔


سری لنکن ٹیم کی واحد ٹی ٹوئنٹی میچ کے لیے پاکستان آمد نے ویسٹ انڈیز کا بھی حوصلہ جوان کیا، کیریبیئنز نے کراچی میں 3 ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے، ٹیسٹ سیریز کے معاملے میں تھوڑا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے والے آئی لینڈرز پہلے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز کیلئے کراچی اور لاہور آنے پر رضامند ہوئے۔

یہاں بہترین سکیورٹی فراہم کیے جانے کے بعد رواں ماہ ہونے والی ٹیسٹ سیریز میں شرکت کے لیے وہ سری لنکن کرکٹرز بھی پاکستان آئے جنہوں نے قبل ازیں انکارکردیاتھا، ڈیموتھ کرونارتنے، نیروشن ڈکویلا اور اینجیلو میتھیوز سمیت اسٹار کھلاڑیوں کی آمد ایک سند تھی کہ اگر کسی کو خدشات تھے بھی تو وہ دور ہو گئے ہیں، وطن واپسی پر بھی ان کھلاڑیوں نے پاکستان میں سیکورٹی اور پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے حوالے سے جس طرح کے بیانات اپنے میڈیا میں دیے وہ ثابت کرنے کے لیے کافی تھے کہ پاکستان اب کرکٹ کے لیے ہر لحاظ سے محفوظ ملک ہے۔

راقم الحروف کو خود بھی راولپنڈی میں پاکستان اور سری لنکا کے مابین ٹیسٹ میچ کوور کرنے کا موقع ملا،گرچہ بارش کی وجہ سے 3 روز کا کھیل بری طرح متاثر ہوا، پہلے اور آخری دن ہی شائقین کرکٹ سے لطف اندوز ہوسکے، راولپنڈی میں بارش ہونے سے کھیل ممکن نہ ہوتا تب بھی سیکورٹی اہلکار اپنی ڈیوٹی میں کسی غفلت کا مظاہرہ نہ کرتے، میچ میں تعطل کے باوجود ان کے ارادوں میں کوئی نظر نہیں آتی، کراچی میں بھی سیکورٹی اداروں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے فرض شناسی کے ساتھ فرائض سرانجام دیے۔

راولپنڈی کے بعد کراچی کے عوام نے بھی سکیورٹی کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات کا خندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کیا، سری لنکا کیخلاف سیریز کے دوران ہی سنگاکارا کی قیادت میں ایم سی سی کی ٹیم کے دورہ لاہور کا اعلان بھی ہوا، انتہائی مثبت پیش رفت کے بعد ہر کوئی توقع کر رہا تھا کہ بنگلہ دیش کے پاس اب پاکستان آنے سے انکار کا کوئی جواز نہیں بچا لیکن بی سی بی نے جنوری، فروری میں ہونے والے اس ٹور کوہی کھٹائی میں ڈال دیا، اس حوالے سے بی سی بی کے صدر ناظم الحسن نے معنی خیز اور مایوس کن بیان دیتے ہوئے کہا کہ تقریبا پورا غیرملکی کوچنگ اسٹاف اور بیشتر کرکٹرز ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے پاکستان میں طویل قیام کو تیار نہیں، کئی کھلاڑی تو ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے بھی وہاں نہیں جانا چاہتے۔

ان حالات میں اگر مضبوط اسکواڈ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے تو صرف مختصر فارمیٹ کے 3 میچ کھیلنے کے لیے پاکستان کا دورہ کرینگے، دوسری جانب پی سی بی نے یہی موقف دہرایا کہ قومی ٹیم اپنی کوئی ہوم سیریز اب بیرون ملک نہیں کھیلے گی، بی سی بی کو جوابی خط میں ٹیسٹ میچ کھیلنے سے انکار کی وجہ بھی پوچھی گئی ہے۔فیوچر ٹور پروگرام میں شامل باہمی سیریز کے حوالے سے ابھی تک بنگلہ دیش کے رویہ کو دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بی سی بی حکام اپنی حکومت کی بھرپور تائید و حمایت کے ساتھ پاکستان کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔

پی سی بی کے ساتھ خط و کتابت میں کوئی ٹھوس بات کرنے کی بجائے بورڈ کے مختلف عہدیداروں کا وقفے وقفے سے بیانات میں مختلف پینترے بدلنا یہ ثابت کرتا ہے کہ کرکٹ کے معاملات میں سیاست ہو رہی ہے، پی سی بی کی جانب سے مجوزہ شیڈول بھجوائے جانے سے پہلے اور بعد میں بھی ایک عہدیدار کی جانب سے سیکورٹی کلیئرنس ملنے پر پین بھجوائے جانے کا عندیہ دیا جاتا تو دوسرا کبھی ایک فارمیٹ تو کبھی دونوں کے میچ کھیلنے کی بات کرتا، ایک کی طرف سے بیان آتا کہ بہت مشکل لگ رہا ہے۔

دوسرا کہتا کہ امکانات پیدا ہوگئے ہیں، ایک کہتا کہ بنگلادیش کی ویمنز اور انڈر 16ٹیموں کو بہترین سکیورٹی فراہم کی گئی،امید ہے کہ اجازت مل جائے گی، دوسرا کہتا کہ اپنے سفارتخانے اور حکومت کی جانب سے کلیئرنس کے بغیر قومی ٹیم کو نہیں بھجوائیں گے، ابھی کچھ مراحل باقی ہیں، شاید پاکستان کے ہوم گراؤنڈ پر آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ میچز کے پوائنٹس گنوانے کا خوف بھی بنگلہ دیشی بورڈ کے اعصاب پر سوار ہو گا، درپردہ سوچ یہی ہو سکتی ہے کہ پی سی بی کے ساتھ سودے بازی کرتے ہوئے 3ٹی ٹوئنٹی میچ پاکستان میں کھیلنے کا احسان جتانے کیساتھ ٹیسٹ سیریز کسی نیوٹرل وینیو پر کھیلنے کی راہ ہموار کرلی جائے، بہرحال بنگلہ دیش کا رویہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے سفر میں ایک روڑا بن کر سامنے آیا ہے۔

اس ضمن میں پی سی بی کے کردار پر بھی سوالیہ نشان موجود ہے، جنوبی افریقہ، انگلینڈ اور آسٹریلیا کی میزبانی کے لیے راہ ہموار کرنے کا دعوی کرتے ہوئے غیر ملکی دورے کرنے والے بورڈ کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان کا اس ضمن میں کوئی کردار نظر نہیں آیا، آئی سی سی چیف کے طور پر دنیا بھر کرکٹ بورڈز کے ساتھ روابط کا تجربہ رکھنے والے چیئرمین پی سی بی احسان مانی بھی اتنا کافی سمجھ بیٹھے کہ بی سی بی کو ایک خط لکھنا اور اس کا جواب موصول کرلینا کافی ہے۔

اس طرح کے معاملات میں براہ راست بات چیت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے،بہرحال فی الحال صورتحال کافی پیچیدہ ہوچکی،ہوسکتا ہے کہ پاکستان کو کسی دوسرے آپشن پر غور کرنا پڑے، پی ایس ایل کے ملک میں تمام میچز ملک میں ہونے اور ان میں غیر ملکی سٹار کرکٹرز کی شرکت سے دنیا کو مثبت پیغام جائے گا، بنگلہ دیش آئے یا انکار کرے، پی سی بی کو اب اس میگا ایونٹ کے کامیاب انعقاد پر توجہ دینا چاہیے۔
Load Next Story