2019ء ٹیسٹ کرکٹ پاکستان کی کارکردگی مایوس کن رہی
مجموعی طور پر 6 مقابلوں کی واحد فتح کراچی میں ملی جب کہ آسٹریلیا اور جنوبی افریقا کے دوروں میں کلین سوئپ کا سامنا رہا
پاکستان ٹیسٹ کرکٹ ٹیم نے2019 میں شائقین کوخاصا مایوس کیا، سری لنکا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں کامیابی نے گرین کیپس کی کسی حد تک لاج رکھی، عابد علی ٹیسٹ کرکٹ میں ہیرو بن کر سامنے آئے، سال بھرکے دوران پاکستانی ٹیم نے مجموعی طور پر6میچزمیں حصہ لیا، گرین کیپس کو4 مقابلوں میں ناکامی کا سامنا رہا، ایک میں کامیابی حاصل کی جبکہ بارش کی وجہ سے ایک میچ کا فیصلہ نہ ہوسکا، سرفرازاحمدکوطویل طرز کی کرکٹ سے بھی ہٹا کر اظہر علی کو ٹیم قیادت کی ذمہ داری دی گئی۔
اوپنرکی کپتانی میں بھی گرین کیپس کوآسٹریلیا کے ہاتھوں شرمناک شکستوں کاسامنا کرنا پڑا، بابر اعظم ٹیسٹ کرکٹ میں بھی ٹاپ پر رہے، انھوں نے 6میچوںمیں 3 سنچری اور3 نصف سنچریوں کی مدد سے 616 رنز بنائے، بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی17 وکٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہے۔تفصیلات کے مطابق رواں برس پاکستانی ٹیم ٹیسٹ بڑی کامیابی حاصل نہ کر سکی،سری لنکا کے خلاف کراچی میں شیڈول ٹیسٹ میں کامیابی نے اظہرعلی الیون کو اکلوتی فتح دلائی۔
پاکستان نے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے خلاف 2، 2میچز کھیلے، سب میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا،سری لنکا کے خلاف پاکستان نے 2 میچز کھیل کر ایک میں کامیابی حاصل کی، گرین کیپس نے سال کا آغاز جنوبی افریقہ کے خلاف دورے سے کیا، 3 جنوری کو کیپ ٹاؤن میں جنوبی افریقہ کے خلاف شیڈول میچ میں پاکستانی ٹیم کو9 وکٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، دوسرا ٹیسٹ 11جنوری کو جوہانسبرگ میں کھیلا گیا، اس میچ میں بھی جنوبی افریقہ نے107 رنز سے کامیابی حاصل کی۔
ان ناکامیوں کے بعد سرفراز احمد کو ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سے بھی ہٹا کر اظہر علی کو قومی ٹیم کا نیا کپتان بنایا گیا، وہ بھی پاکستانی ٹیم کو فتوحات کے ٹریک پر نہ لا سکے اورگرین کیپس آسٹریلیا کے خلاف دونوں میچوں میں شکست سے دو چار ہو گئی،21 نومبر کو برسبین میں شروع ہونے والے پہلے ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم کو اننگز اور 5رنز سے شکست کا سامنا رہا، دوسرا میچ ایڈیلیڈ میں 29 تا 2 دسمبر تک کھیلا گیا، اس میچ میں بھی پاکستانی ٹیم کو اننگز اور48 رنز سے ناکامی کا سامنا رہا، سری لنکا کی کرکٹ ٹیم 10 سال کے طویل عرصہ کے دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے لیے پاکستان آئی، راولپنڈی میں شیڈول پہلا میچ بارش کی نذرہوگیا ہے تاہم کراچی میں شیڈول سیریز کے دوسرے میچ میں کامیابی کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کو اکلوتی فتح نصیب ہوئی۔
اسی میچ میں پاکستان کے ابتدائی چار بیٹسمینوں نے سنچریاں اسکور کر کے منفرد ریکارڈ قائم کیا۔ سال کے دوران نسیم شاہ، موسی ،عثمان شنواری اور عابد علی کو ٹیسٹ کیپ دی گئی، عابد علی ٹیسٹ کرکٹ میں ہیرو بن کر سامنے آئے ، سالہا سال سے نظرانداز فواد عالم کو سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ اسکواڈ کا حصہ تو بنایا گیا ہے لیکن انھیں پنڈی اور کراچی ٹیسٹ میں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ بابر اعظم طویل طرز کی کرکٹ میں بھی ایک بار پھر ٹاپ پر رہے۔
انھوں نے 6میچزمیں تین سنچریوں اور 3 نصف سنچریوں کی مدد سے616 رنز بنائے، شان مسعود440 رنزکے ساتھ دوسرے اور اسد شفیق 378رنز کے ہمراہ تیسرے نمبر پر رہے۔ عابد علی 321 رنز کے ساتھ چوتھے نمبر پررہے،اظہر علی 239 رنز کے ساتھ پانچویں جبکہ سرفراز احمد112 رنز کے ساتھ آٹھویں نمبر پر رہے۔بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی 17وکٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہے، محمد عباس نے 11 وکٹوں کے ساتھ دوسری پوزیشن حاصل کی، محمد عامر اور نسیم شاہ کی 8، 8 وکٹیں رہیں لیکن بہتر اوسط کی بنا پر عامر تیسرے اور نسیم شاہ چوتھے نمبر پر رہے۔
اوپنرکی کپتانی میں بھی گرین کیپس کوآسٹریلیا کے ہاتھوں شرمناک شکستوں کاسامنا کرنا پڑا، بابر اعظم ٹیسٹ کرکٹ میں بھی ٹاپ پر رہے، انھوں نے 6میچوںمیں 3 سنچری اور3 نصف سنچریوں کی مدد سے 616 رنز بنائے، بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی17 وکٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہے۔تفصیلات کے مطابق رواں برس پاکستانی ٹیم ٹیسٹ بڑی کامیابی حاصل نہ کر سکی،سری لنکا کے خلاف کراچی میں شیڈول ٹیسٹ میں کامیابی نے اظہرعلی الیون کو اکلوتی فتح دلائی۔
پاکستان نے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے خلاف 2، 2میچز کھیلے، سب میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا،سری لنکا کے خلاف پاکستان نے 2 میچز کھیل کر ایک میں کامیابی حاصل کی، گرین کیپس نے سال کا آغاز جنوبی افریقہ کے خلاف دورے سے کیا، 3 جنوری کو کیپ ٹاؤن میں جنوبی افریقہ کے خلاف شیڈول میچ میں پاکستانی ٹیم کو9 وکٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، دوسرا ٹیسٹ 11جنوری کو جوہانسبرگ میں کھیلا گیا، اس میچ میں بھی جنوبی افریقہ نے107 رنز سے کامیابی حاصل کی۔
ان ناکامیوں کے بعد سرفراز احمد کو ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سے بھی ہٹا کر اظہر علی کو قومی ٹیم کا نیا کپتان بنایا گیا، وہ بھی پاکستانی ٹیم کو فتوحات کے ٹریک پر نہ لا سکے اورگرین کیپس آسٹریلیا کے خلاف دونوں میچوں میں شکست سے دو چار ہو گئی،21 نومبر کو برسبین میں شروع ہونے والے پہلے ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم کو اننگز اور 5رنز سے شکست کا سامنا رہا، دوسرا میچ ایڈیلیڈ میں 29 تا 2 دسمبر تک کھیلا گیا، اس میچ میں بھی پاکستانی ٹیم کو اننگز اور48 رنز سے ناکامی کا سامنا رہا، سری لنکا کی کرکٹ ٹیم 10 سال کے طویل عرصہ کے دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے لیے پاکستان آئی، راولپنڈی میں شیڈول پہلا میچ بارش کی نذرہوگیا ہے تاہم کراچی میں شیڈول سیریز کے دوسرے میچ میں کامیابی کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کو اکلوتی فتح نصیب ہوئی۔
اسی میچ میں پاکستان کے ابتدائی چار بیٹسمینوں نے سنچریاں اسکور کر کے منفرد ریکارڈ قائم کیا۔ سال کے دوران نسیم شاہ، موسی ،عثمان شنواری اور عابد علی کو ٹیسٹ کیپ دی گئی، عابد علی ٹیسٹ کرکٹ میں ہیرو بن کر سامنے آئے ، سالہا سال سے نظرانداز فواد عالم کو سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ اسکواڈ کا حصہ تو بنایا گیا ہے لیکن انھیں پنڈی اور کراچی ٹیسٹ میں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ بابر اعظم طویل طرز کی کرکٹ میں بھی ایک بار پھر ٹاپ پر رہے۔
انھوں نے 6میچزمیں تین سنچریوں اور 3 نصف سنچریوں کی مدد سے616 رنز بنائے، شان مسعود440 رنزکے ساتھ دوسرے اور اسد شفیق 378رنز کے ہمراہ تیسرے نمبر پر رہے۔ عابد علی 321 رنز کے ساتھ چوتھے نمبر پررہے،اظہر علی 239 رنز کے ساتھ پانچویں جبکہ سرفراز احمد112 رنز کے ساتھ آٹھویں نمبر پر رہے۔بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی 17وکٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہے، محمد عباس نے 11 وکٹوں کے ساتھ دوسری پوزیشن حاصل کی، محمد عامر اور نسیم شاہ کی 8، 8 وکٹیں رہیں لیکن بہتر اوسط کی بنا پر عامر تیسرے اور نسیم شاہ چوتھے نمبر پر رہے۔