2010ء کی دہائی سندھ کی بیشتر ترقیاتی اسکیمیں سست روی کا شکار
اورنج اور گرین لائن منصوبے فنڈز کی کمی کے باعث آج تک مکمل نہ ہوسکے
QUETTA:
2010 کی دہائی کے دوران ترقیاتی کاموں کے حوالے سے صوبہ سندھ میں ملا جلا رجحان دیکھنے میں رہا، یعنی گزشتہ دس برسوں کے دوران سندھ میں کئی ترقیاتی اسکیموں کا اعلان کیا گیا۔
تاہم ان میں کچھ ہی ایسی تھیں جو پائیہ تکمیل تک پہنچ سکیں جبکہ باقی منصوبوں کی رفتار سست روی کا شکار رہی اور ایک عام آدمی انتظامی رکاوٹوں کیباعث ان اسکیموں کی تکمیل سے مستفید نہیں ہوسکا۔انہی ترقیاتی اسکیموں میں سے کوئلے سے چلنے والا بجلی کا پلانٹ کا منصوبہ اور تھر میں کوئلے نکالنے کا منصوبہ شامل تھا جبکہ صوبے بھر میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت پر بھی بھرپور توجہ دی گئی۔
جس کی وجہ سے سفر اور تجارت میں بڑی آسانیاں پیدا ہوئیں۔تاہم دوسری جانب شعبہ صحت، تعلیم اور آب رسانی کے منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ان شعبوں میں بہتری کے آثار نظر نہیں آئے اور ایک عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔مالی سال 2014-2015 سے لے کر 2018-2019 کے دوران حکومت سندھ نے اپنے سالانہ ترقیاتی پروگراموں کے لیے 952 ارب روپے مختص کیے تاہم ان پانچ مالی برسوں کے دوران صرف 683 ارب روپے ہی خرچ کیے جاسکے۔ سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سندھ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے بجٹ میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔
تاہم مالی سال 2018-2019 میں اس میں کمی کرنا شروع کردی اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ وفاق کی جانب سے اسے مکمل فنڈنگ فراہم نہیں کی جارہی۔ 2014-2015 میں سندھ کا سالانہ ترقیاتی بجٹ 143 ارب روپے تھا جبکہ 2017-2018 میں 244 ارب تک جاپہنچا تھا لیکن اگلے ہی سال اسے 223 ارب روپے کی سطح پر لے آیا گیا تھا جبکہ رواں مالی سال کے دوران بھی اس کا حجم 228 ارب روپے رکھا گیا ہے۔رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران حکومت نے تقریباً 79 ارب روپے ترقیاتی بجٹ کی مد میں جاری کیے ہیں یعنی اب تک مختص کیے گئے بجٹ کا 51 فیصد خرچ کیا جاچکا ہے لیکن جیسا کہ سندھ حکومت نے کچھ عرصے سے یہ موقف اپنایا ہوا ہے کہ وفاق کی جانب سے اسے مکمل رقم فراہم نہیں جارہی ہے۔
جس کے باعث بہت سے صوبائی محکمے جن میں توانائی، ماحولیات، انسانی حقوق اور بورڈ آف ریونیو شامل ہیں انھوں نے اب تک کسی بھی ترقیاتی اسکیم پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا۔ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت میں سندھ کے وزیر اطلاعات سعید غنی نے اس سارے معاملے کا ذمے دار وفاق کو قرار دے ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاق کی جانب سے مکمل فنڈز فراہم نہیں جارہے اور جو رقم دی بھی جارہی ہے تو اس میں تاخیر ہورہی ہے جس کے باعث ترقیاتی اسکیموں میں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ حال ہی میں وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا تھا کہ قومی مالیاتی کمیشن کے تحت وفاق کے ذمہ سندھ کو 116 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ سعید غنی کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے بیوروکریسی کے خلاف اقدامات کے باعث بھی معدد اسکیمیں تاخیر کا شکر ہیں۔
تاہم ان کا دعوی تھا کہ مجموعی طور پر سندھ میں ترقیاتی اسکیمیں تیزی سیتکمیل کی جانب گامزن ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے تھر میں گزشتہ دس برسوں کے دوران ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے ہیں اور اضلاع کے درمیان سڑکوں کا نظام بہتر کیا ہے۔ اس کے علاوہ صوبے میں اسپتالوں کی تعداد بڑھی ہے جبکہ امراض قلب کے اسپتالوں کے نیٹ ورک میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
سندھ کی بہت سی ترقیاتی اسکیمیں جنہیں اب تک مکمل ہوجانا چاہیے تھا تاہم انتظامی نا اہلی اور مالی مسایل کے باعث اب تک ادھوری ہیں ان میں گرین لائن اور اورنج لائن بس کے منصوبے بھی شامل ہیں جنہیں آج سے تین سال قبل مکمل ہوجانا چاہئے تھا ان میں گرین لائن وفاق کا منصوبہ ہے جس پر 24 ارب روہے لاگت آئے گی جبکہ اورنج لائن منصوبے پر ایک ارب 19 کروڑ روپے لاگت کا تخمینہ ہے جو سندھ حکومت فراہم کرے گی۔
2010 کی دہائی کے دوران ترقیاتی کاموں کے حوالے سے صوبہ سندھ میں ملا جلا رجحان دیکھنے میں رہا، یعنی گزشتہ دس برسوں کے دوران سندھ میں کئی ترقیاتی اسکیموں کا اعلان کیا گیا۔
تاہم ان میں کچھ ہی ایسی تھیں جو پائیہ تکمیل تک پہنچ سکیں جبکہ باقی منصوبوں کی رفتار سست روی کا شکار رہی اور ایک عام آدمی انتظامی رکاوٹوں کیباعث ان اسکیموں کی تکمیل سے مستفید نہیں ہوسکا۔انہی ترقیاتی اسکیموں میں سے کوئلے سے چلنے والا بجلی کا پلانٹ کا منصوبہ اور تھر میں کوئلے نکالنے کا منصوبہ شامل تھا جبکہ صوبے بھر میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت پر بھی بھرپور توجہ دی گئی۔
جس کی وجہ سے سفر اور تجارت میں بڑی آسانیاں پیدا ہوئیں۔تاہم دوسری جانب شعبہ صحت، تعلیم اور آب رسانی کے منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ان شعبوں میں بہتری کے آثار نظر نہیں آئے اور ایک عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔مالی سال 2014-2015 سے لے کر 2018-2019 کے دوران حکومت سندھ نے اپنے سالانہ ترقیاتی پروگراموں کے لیے 952 ارب روپے مختص کیے تاہم ان پانچ مالی برسوں کے دوران صرف 683 ارب روپے ہی خرچ کیے جاسکے۔ سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سندھ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے بجٹ میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔
تاہم مالی سال 2018-2019 میں اس میں کمی کرنا شروع کردی اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ وفاق کی جانب سے اسے مکمل فنڈنگ فراہم نہیں کی جارہی۔ 2014-2015 میں سندھ کا سالانہ ترقیاتی بجٹ 143 ارب روپے تھا جبکہ 2017-2018 میں 244 ارب تک جاپہنچا تھا لیکن اگلے ہی سال اسے 223 ارب روپے کی سطح پر لے آیا گیا تھا جبکہ رواں مالی سال کے دوران بھی اس کا حجم 228 ارب روپے رکھا گیا ہے۔رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران حکومت نے تقریباً 79 ارب روپے ترقیاتی بجٹ کی مد میں جاری کیے ہیں یعنی اب تک مختص کیے گئے بجٹ کا 51 فیصد خرچ کیا جاچکا ہے لیکن جیسا کہ سندھ حکومت نے کچھ عرصے سے یہ موقف اپنایا ہوا ہے کہ وفاق کی جانب سے اسے مکمل رقم فراہم نہیں جارہی ہے۔
جس کے باعث بہت سے صوبائی محکمے جن میں توانائی، ماحولیات، انسانی حقوق اور بورڈ آف ریونیو شامل ہیں انھوں نے اب تک کسی بھی ترقیاتی اسکیم پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا۔ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت میں سندھ کے وزیر اطلاعات سعید غنی نے اس سارے معاملے کا ذمے دار وفاق کو قرار دے ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاق کی جانب سے مکمل فنڈز فراہم نہیں جارہے اور جو رقم دی بھی جارہی ہے تو اس میں تاخیر ہورہی ہے جس کے باعث ترقیاتی اسکیموں میں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ حال ہی میں وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا تھا کہ قومی مالیاتی کمیشن کے تحت وفاق کے ذمہ سندھ کو 116 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ سعید غنی کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے بیوروکریسی کے خلاف اقدامات کے باعث بھی معدد اسکیمیں تاخیر کا شکر ہیں۔
تاہم ان کا دعوی تھا کہ مجموعی طور پر سندھ میں ترقیاتی اسکیمیں تیزی سیتکمیل کی جانب گامزن ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے تھر میں گزشتہ دس برسوں کے دوران ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے ہیں اور اضلاع کے درمیان سڑکوں کا نظام بہتر کیا ہے۔ اس کے علاوہ صوبے میں اسپتالوں کی تعداد بڑھی ہے جبکہ امراض قلب کے اسپتالوں کے نیٹ ورک میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
سندھ کی بہت سی ترقیاتی اسکیمیں جنہیں اب تک مکمل ہوجانا چاہیے تھا تاہم انتظامی نا اہلی اور مالی مسایل کے باعث اب تک ادھوری ہیں ان میں گرین لائن اور اورنج لائن بس کے منصوبے بھی شامل ہیں جنہیں آج سے تین سال قبل مکمل ہوجانا چاہئے تھا ان میں گرین لائن وفاق کا منصوبہ ہے جس پر 24 ارب روہے لاگت آئے گی جبکہ اورنج لائن منصوبے پر ایک ارب 19 کروڑ روپے لاگت کا تخمینہ ہے جو سندھ حکومت فراہم کرے گی۔