شیخ ایاز سندھ دھرتی کی پہچان
ادب کے شعبے میں بھی سندھ دھرتی کے باکمال و بے مثل ادبا کے بے شمار نام نمایاں ترین ہیں
سندھ دھرتی جسے صوفیائے کرام کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے ہرایک زاویے سے بے مثال دھرتی ہے۔ یہ وہ دھرتی ہے جہاں ایک جانب اگر روحانی بزرگان دین ابدی نیند سو رہے ہیں جب کہ دوسری جانب اگر نظر ڈالیں تو اس دھرتی کے باسیوں کی امن پسندی کا یہ عالم ہے کہ سندھ دھرتی کے سپوتوں نے کبھی کسی دوسرے علاقے پر جارحیت نہیں کی ۔
ان سندھ دھرتی کے سپوتوں کی امن پسندی کی کوئی اور مثال پیش کی جائے تو وہ یہ ہے کہ موئن جودڑو جس کے کھنڈرات کی اب تک دس فیصد کھدائی ہوئی ہے ان کھنڈرات میں سے اس دورکے جدید ترین نوادرات برآمد ہوئے ہیں۔ ان نوادرات میں ایک بھی جنگی ہتھیار برآمد نہیں ہوا۔ ذکر اگر سیاست کا ہو تو بھی ایک سے بڑھ کر ایک نامور ترین نام ہمارے سامنے آتا ہے۔
ادب کے شعبے میں بھی سندھ دھرتی کے باکمال و بے مثل ادبا کے بے شمار نام نمایاں ترین ہیں۔ ان عظیم ادبا میں ایک نام ہے شیخ ایاز کا۔ ان کے ادبی مقام کا تعین کرنا اگر مقصود ہو تو پھر نامور ادیب و شاعر فیض احمد فیض کے یہ الفاظ جن میں وہ فرماتے ہیں کہ شیخ ایاز کو کسی تعارف کی ضرورت نہیں یہ ایک حقیقت ہے سندھ میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بعد شیخ ایاز ہی ایسا شاعر ہے جسے عوام و خواص دونوں ہی میں یکساں مقبولیت حاصل ہے۔ ان کی شاعری دھڑکتے ہوئے دل کی آواز ہے اسی لیے اس کو عوامی زندگی سے الگ کرکے پرکھا نہیں جاسکتا۔
اپنے ان الفاظ میں فیض احمد فیض نے یہ تسلیم کیا ہے کہ شاہ سائیں کے بعد جو سب سے بڑا شاعر سندھ دھرتی پر پیدا ہوا ہے وہ شیخ ایاز ہے بلکہ شیخ ایاز کو عالمگیر شخصیت کا حامل شاعر بھی اگر قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ انھوں نے اپنے سماج کے لوگوں کے مسائل کو دنیا میں بسنے والے تمام باسیوں کے مسائل سے الگ کرکے نہیں دیکھا۔
شیخ ایاز کا حقیقی نام شیخ مبارک علی تھا ، انھوں نے 2 مارچ 1923 کو سندھ کے قدیم شہر شکار پور میں جنم لیا، ان کے والد کا نام شیخ غلام حسین تھا۔ شیخ ایاز نے 31 مارچ 1941 کو گورنمنٹ ہائی اسکول شکارپور سے میٹرک کی سند حاصل کی، جب کہ سی این ایس کالج بمبئی سے انٹر کیا اور 1945 میں ڈی جے کالج کراچی سے B.A کا امتحان پاس کیا۔ اس وقت شیخ ایاز کی عمر 22 برس تھی۔
قیام پاکستان کے اگلے برس یعنی 1948 میں انھوں نے وکالت میں بھی ڈگری حاصل کرلی اور ابتدائی طور پر کراچی میں اور بعد ازاں سکھر میں پیشہ ورانہ سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ادبی حوالے سے اگر بات کریں تو وہ کہتے ہیں ناکہ پوت کے پاؤں پالنے ہی میں نظر آجاتے ہیں۔
یہ مثل ان پر صادق آتی ہے کیونکہ ان کی عمر ابھی فقط 15 برس ہی تھی کہ جب ان کی اولین نظم ماہنامہ سدرشن کے سال نامے جنوری ، فروری 1938 کے شمارے میں شایع ہوئی ان کی اولین نظم کا عنوان تھا مردِ خدا جب کہ یہ نظم شیخ مبارک کے تخلص کے نام سے شایع ہوئی۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ اس کے شایع ہونے کے بعد ان کا کلام معتبر اخبارات و جرائد کی زینت بننے لگا۔ البتہ شیخ ایاز کی شاعری کا مجموعہ جوکہ اولین تھا 1954 میں بوئے گل، نالہ دل کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس مجموعہ کلام میں ان کی اردو نظمیں ہیں کچھ غزلیں ہیں اور وہ نظمیں بھی شامل ہیں جوکہ ان کے اپنے سندھی کلام کا ترجمہ ہیں۔ یہ ترجمہ بھی انھوں نے خود ہی کیا تھا البتہ اس مجموعہ کلام کی ترتیب نامور ادیب آفاق صدیقی نے کی تھی جب کہ دوسرا مجموعہ کلام کف گل فروش کے نام سے شایع ہوا۔
سب سے اہم ادبی خدمت جو شیخ ایاز نے انجام دیا ، وہ ہے سندھ دھرتی کے عظیم صوفی بزرگ حضرت شاہ عبداللطیفؒ کے کلام شاہ جو رسالو جو سندھی زبان میں ہے۔ شیخ ایاز نے اس کلام کو اردو زبان کے قالب میں ڈھال کر گویا ایک کارنامہ انجام دیا ہے۔
انھوں نے شاہ سائیں کے کلام کا اردو میں منظوم ترجمہ کرکے ان کا کلام دنیا بھر کے اہل اردو تک پہنچا دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس قسم کی شاعری کا ترجمہ ہی ناممکن عمل ہے کیونکہ جب اس قسم کے کلام کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ ہوتا ہے تو اس ترجمے میں اس زبان کی حقیقی چاشنی کا فقدان ہوتا ہے بالخصوص صوفیانہ کلام کا ترجمہ حقیقی انداز میں پیش کرنا مشکل ترین امر ہے مگر شیخ ایاز نے یہ ثابت کردیا کہ اگر لگن سچی ہو تو کوئی کام مشکل یا ناممکن نہیں ہے کیونکہ شیخ ایاز کے اردو ترجمے میں بھی ہمیں شاہ سائیں کے کلام کی حقیقی عکاسی محسوس ہوتی ہے یہ اردو ترجمہ 1963 میں سندھ یونیورسٹی کی جانب سے شایع کیا گیا جب کہ شیخ ایاز کے کلام کا مجموعہ نیل کٹھ اور نیم کے پتے 1988 میں مکتبہ دانیال کراچی نے شایع کیا۔ شیخ ایاز کا یہ کلام 211 صفحات پر مشتمل ہے۔
شیخ ایازکا کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے سندھی و اردو دونوں زبانوں میں شاعری کی اور دونوں زبانوں کے ساتھ انصاف کیا اور اپنے کلام میں کسی زبان کو دوسری زبان پر ترجیح نہیں دی۔ ایک حقیقی ادیب کا یہی کمال ہوتا ہے۔ شیخ ایاز انجمن ترقی پسند مصنفین سندھ کے بانیان میں سے تھے کیونکہ جب انجمن ترقی پسند مصنفین کا سندھ میں قیام عمل میں آیا تو شیخ ایازکو سندھ شاخ کا نائب صدر چن لیا گیا۔
شیخ ایاز نے 28 دسمبر 1997 کو 74 برس اور 8 ماہ کی عمر میں وصال فرمایا بلکہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ البتہ اپنی شاعری کی زبان میں وہ سدا ہم سے ہم کلام ہوتے رہیں گے۔ شیخ ایاز کی شاعری سماج دشمن قوتوں کے خلاف فقط احتجاج نہیں بلکہ ایک حقیقی محاذ ہے۔ ہم نے شیخ ایاز کو ان کی 22 ویں برسی پر جوکہ 28 دسمبر 2019 کو منائی گئی ہے حقیقی انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔
ان سندھ دھرتی کے سپوتوں کی امن پسندی کی کوئی اور مثال پیش کی جائے تو وہ یہ ہے کہ موئن جودڑو جس کے کھنڈرات کی اب تک دس فیصد کھدائی ہوئی ہے ان کھنڈرات میں سے اس دورکے جدید ترین نوادرات برآمد ہوئے ہیں۔ ان نوادرات میں ایک بھی جنگی ہتھیار برآمد نہیں ہوا۔ ذکر اگر سیاست کا ہو تو بھی ایک سے بڑھ کر ایک نامور ترین نام ہمارے سامنے آتا ہے۔
ادب کے شعبے میں بھی سندھ دھرتی کے باکمال و بے مثل ادبا کے بے شمار نام نمایاں ترین ہیں۔ ان عظیم ادبا میں ایک نام ہے شیخ ایاز کا۔ ان کے ادبی مقام کا تعین کرنا اگر مقصود ہو تو پھر نامور ادیب و شاعر فیض احمد فیض کے یہ الفاظ جن میں وہ فرماتے ہیں کہ شیخ ایاز کو کسی تعارف کی ضرورت نہیں یہ ایک حقیقت ہے سندھ میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بعد شیخ ایاز ہی ایسا شاعر ہے جسے عوام و خواص دونوں ہی میں یکساں مقبولیت حاصل ہے۔ ان کی شاعری دھڑکتے ہوئے دل کی آواز ہے اسی لیے اس کو عوامی زندگی سے الگ کرکے پرکھا نہیں جاسکتا۔
اپنے ان الفاظ میں فیض احمد فیض نے یہ تسلیم کیا ہے کہ شاہ سائیں کے بعد جو سب سے بڑا شاعر سندھ دھرتی پر پیدا ہوا ہے وہ شیخ ایاز ہے بلکہ شیخ ایاز کو عالمگیر شخصیت کا حامل شاعر بھی اگر قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ انھوں نے اپنے سماج کے لوگوں کے مسائل کو دنیا میں بسنے والے تمام باسیوں کے مسائل سے الگ کرکے نہیں دیکھا۔
شیخ ایاز کا حقیقی نام شیخ مبارک علی تھا ، انھوں نے 2 مارچ 1923 کو سندھ کے قدیم شہر شکار پور میں جنم لیا، ان کے والد کا نام شیخ غلام حسین تھا۔ شیخ ایاز نے 31 مارچ 1941 کو گورنمنٹ ہائی اسکول شکارپور سے میٹرک کی سند حاصل کی، جب کہ سی این ایس کالج بمبئی سے انٹر کیا اور 1945 میں ڈی جے کالج کراچی سے B.A کا امتحان پاس کیا۔ اس وقت شیخ ایاز کی عمر 22 برس تھی۔
قیام پاکستان کے اگلے برس یعنی 1948 میں انھوں نے وکالت میں بھی ڈگری حاصل کرلی اور ابتدائی طور پر کراچی میں اور بعد ازاں سکھر میں پیشہ ورانہ سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ادبی حوالے سے اگر بات کریں تو وہ کہتے ہیں ناکہ پوت کے پاؤں پالنے ہی میں نظر آجاتے ہیں۔
یہ مثل ان پر صادق آتی ہے کیونکہ ان کی عمر ابھی فقط 15 برس ہی تھی کہ جب ان کی اولین نظم ماہنامہ سدرشن کے سال نامے جنوری ، فروری 1938 کے شمارے میں شایع ہوئی ان کی اولین نظم کا عنوان تھا مردِ خدا جب کہ یہ نظم شیخ مبارک کے تخلص کے نام سے شایع ہوئی۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ اس کے شایع ہونے کے بعد ان کا کلام معتبر اخبارات و جرائد کی زینت بننے لگا۔ البتہ شیخ ایاز کی شاعری کا مجموعہ جوکہ اولین تھا 1954 میں بوئے گل، نالہ دل کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس مجموعہ کلام میں ان کی اردو نظمیں ہیں کچھ غزلیں ہیں اور وہ نظمیں بھی شامل ہیں جوکہ ان کے اپنے سندھی کلام کا ترجمہ ہیں۔ یہ ترجمہ بھی انھوں نے خود ہی کیا تھا البتہ اس مجموعہ کلام کی ترتیب نامور ادیب آفاق صدیقی نے کی تھی جب کہ دوسرا مجموعہ کلام کف گل فروش کے نام سے شایع ہوا۔
سب سے اہم ادبی خدمت جو شیخ ایاز نے انجام دیا ، وہ ہے سندھ دھرتی کے عظیم صوفی بزرگ حضرت شاہ عبداللطیفؒ کے کلام شاہ جو رسالو جو سندھی زبان میں ہے۔ شیخ ایاز نے اس کلام کو اردو زبان کے قالب میں ڈھال کر گویا ایک کارنامہ انجام دیا ہے۔
انھوں نے شاہ سائیں کے کلام کا اردو میں منظوم ترجمہ کرکے ان کا کلام دنیا بھر کے اہل اردو تک پہنچا دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس قسم کی شاعری کا ترجمہ ہی ناممکن عمل ہے کیونکہ جب اس قسم کے کلام کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ ہوتا ہے تو اس ترجمے میں اس زبان کی حقیقی چاشنی کا فقدان ہوتا ہے بالخصوص صوفیانہ کلام کا ترجمہ حقیقی انداز میں پیش کرنا مشکل ترین امر ہے مگر شیخ ایاز نے یہ ثابت کردیا کہ اگر لگن سچی ہو تو کوئی کام مشکل یا ناممکن نہیں ہے کیونکہ شیخ ایاز کے اردو ترجمے میں بھی ہمیں شاہ سائیں کے کلام کی حقیقی عکاسی محسوس ہوتی ہے یہ اردو ترجمہ 1963 میں سندھ یونیورسٹی کی جانب سے شایع کیا گیا جب کہ شیخ ایاز کے کلام کا مجموعہ نیل کٹھ اور نیم کے پتے 1988 میں مکتبہ دانیال کراچی نے شایع کیا۔ شیخ ایاز کا یہ کلام 211 صفحات پر مشتمل ہے۔
شیخ ایازکا کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے سندھی و اردو دونوں زبانوں میں شاعری کی اور دونوں زبانوں کے ساتھ انصاف کیا اور اپنے کلام میں کسی زبان کو دوسری زبان پر ترجیح نہیں دی۔ ایک حقیقی ادیب کا یہی کمال ہوتا ہے۔ شیخ ایاز انجمن ترقی پسند مصنفین سندھ کے بانیان میں سے تھے کیونکہ جب انجمن ترقی پسند مصنفین کا سندھ میں قیام عمل میں آیا تو شیخ ایازکو سندھ شاخ کا نائب صدر چن لیا گیا۔
شیخ ایاز نے 28 دسمبر 1997 کو 74 برس اور 8 ماہ کی عمر میں وصال فرمایا بلکہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ البتہ اپنی شاعری کی زبان میں وہ سدا ہم سے ہم کلام ہوتے رہیں گے۔ شیخ ایاز کی شاعری سماج دشمن قوتوں کے خلاف فقط احتجاج نہیں بلکہ ایک حقیقی محاذ ہے۔ ہم نے شیخ ایاز کو ان کی 22 ویں برسی پر جوکہ 28 دسمبر 2019 کو منائی گئی ہے حقیقی انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔