عبدالرشید غازی قتل کیس میں پرویز مشرف کی رہائی کے احکامات جاری
پرویز مشرف کے خلاف ایسے ثبوت سامنے نہیں لائے جاسکے جس سے یہ ثابت ہوکہ وہ مجرم ہیں، عدالت
عبدالرشید غازی قتل کیس میں پرویز مشرف کی ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد عدالت نےسابق صدر کی رہائی کے تحریری احکامات جاری کردیئے۔
اسلام کے سیشن کورٹ کے جج واجد علی نے 4 نومبر کو سابق صدر پرویز مشرف کی عبدالرشید غازی قتل کیس میں ایک ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی، تاہم آج مچلکے جمع کرانے کے بعد عدالت نے پرویز مشرف کی رہائی کے تحریری احکامات جاری کردیئے۔ عدالت کی جانب سے پرویز مشرف کی رہائی کے احکامات سب جیل کی انتظامیہ کو ملنے کے بعد سابق صدر کی چک شہزاد کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دینے والا نوٹیفکیشن معطل اور جیل کا عملہ وہاں سے روانہ ہوجائے گا۔
عدالت کی جانب سے پرویز مشرف کی رہائی کے تحریری حکم نامے میں لکھا گیا ہے کہ فریقین کی جانب سے پرویز مشرف کے خلاف ایسے کوئی ثبوت سامنے نہیں لائے جاسکے جس سے یہ ثابت ہوکہ وہ مجرم ہیں۔ عدالتی حکم کہا گیا کہ گواہوں کے بیانات قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں ان کی قانونی حیثیت نہیں تحریری حکم کے مطابق مقدمے کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ پرویز مشرف پر فوجی آپریشن کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کوئی بھی گواہ از خود تفتیشی افسر کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ گواہوں کے ایسے بیانات بطور قانونی شہادت تسلیم نہیں ہو سکتے۔ حکم نامے کے مطابق پولیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں پرویز مشرف کو بے گناہ قرار دیا گیا ہے۔
دوسری جانب پرویز مشرف کے وکیل نے ججز نظربندی کیس میں بھی 5، 5 لاکھ روپے ضمانتی مچلکے جمع کرادیے، جس کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کی بے نظیر قتل کیس اور اکبر بگٹی قتل سمیت چاروں کیسز میں ضمانت منظور ہوگئی تاہم ان کا نام اب بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے جس کے باعث وہ بیرون ملک نہیں جاسکتے۔
اسلام کے سیشن کورٹ کے جج واجد علی نے 4 نومبر کو سابق صدر پرویز مشرف کی عبدالرشید غازی قتل کیس میں ایک ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی، تاہم آج مچلکے جمع کرانے کے بعد عدالت نے پرویز مشرف کی رہائی کے تحریری احکامات جاری کردیئے۔ عدالت کی جانب سے پرویز مشرف کی رہائی کے احکامات سب جیل کی انتظامیہ کو ملنے کے بعد سابق صدر کی چک شہزاد کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دینے والا نوٹیفکیشن معطل اور جیل کا عملہ وہاں سے روانہ ہوجائے گا۔
عدالت کی جانب سے پرویز مشرف کی رہائی کے تحریری حکم نامے میں لکھا گیا ہے کہ فریقین کی جانب سے پرویز مشرف کے خلاف ایسے کوئی ثبوت سامنے نہیں لائے جاسکے جس سے یہ ثابت ہوکہ وہ مجرم ہیں۔ عدالتی حکم کہا گیا کہ گواہوں کے بیانات قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں ان کی قانونی حیثیت نہیں تحریری حکم کے مطابق مقدمے کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ پرویز مشرف پر فوجی آپریشن کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کوئی بھی گواہ از خود تفتیشی افسر کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ گواہوں کے ایسے بیانات بطور قانونی شہادت تسلیم نہیں ہو سکتے۔ حکم نامے کے مطابق پولیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں پرویز مشرف کو بے گناہ قرار دیا گیا ہے۔
دوسری جانب پرویز مشرف کے وکیل نے ججز نظربندی کیس میں بھی 5، 5 لاکھ روپے ضمانتی مچلکے جمع کرادیے، جس کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کی بے نظیر قتل کیس اور اکبر بگٹی قتل سمیت چاروں کیسز میں ضمانت منظور ہوگئی تاہم ان کا نام اب بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے جس کے باعث وہ بیرون ملک نہیں جاسکتے۔