ناراض رہنما متحرک سیاسی تبدیلی کی افواہیں گردش کرنے لگیں

جب سے صوبے میں جام کمال حکومت قائم ہوئی ہے اسے شروع سے ہی سیاسی طور پر ٹف ٹائم ملا ہے۔

جب سے صوبے میں جام کمال حکومت قائم ہوئی ہے اسے شروع سے ہی سیاسی طور پر ٹف ٹائم ملا ہے۔

بلوچستان کی سیاست میں ایک مرتبہ پھر ہلچل سی مچ گئی ہے۔

صوبے میں سیاسی تبدیلی کی باتیں گردش کرنے لگی ہیں۔ اس سیاسی تبدیلی کی باتوں میں کتنا ''دم خم'' ہے یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا؟۔ سیاسی تبدیلی کی باتیں صوبے میں مختلف محفلوں میں زیر بحث ہیں اور ان باتوں کو تقویت اُس وقت ملی جب صوبے کی برسر اقتار پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی کے اہم سینئر رہنما اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو نے گورنر ہاؤس میں قائم مقام گورنر کی حیثیت سے قدم رکھتے ہی اپنی ہی جماعت کے صدر اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بیان داغ دیا۔

جس میں اُن کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ جام کمال ایک اچھے انسان ہیں لیکن اچھے وزیراعلیٰ ثابت نہیں ہو سکے، وہ ڈیڑھ سال خاموش رہے لیکن جام حکومت میں کوئی بہتری نہیں آئی یہاں تک کہ اُن کی جماعت بی اے پی سے صوبے کے عوام کو جو توقعات وابستہ تھیں وہ ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہی، یہ جماعت عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے بنائی گئی تھی لیکن وزیراعلیٰ جام کمال نے صوبے کے عوام کی بہتری کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے بلکہ عوام سے اُن کا روزگار بھی چھینا جا رہا ہے جس سے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے ہم اس جماعت کو صرف ایک شخص کی وجہ سے خراب نہیں ہونے دینگے۔

اُن کا یہ بھی کہنا تھاکہ اُنہیں عہدے اور اقتدار کی کبھی خواہش نہیں رہی عوام نے اُنہیں عہدے اور پروٹوکول کیلئے منتخب کرکے نہیں بھیجا بلکہ اپنے مسائل کے حل کیلئے بھیجا ہے۔ اس سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی کے سینئر رہنما اور جام کمال کابینہ کے اہم رکن صوبائی وزیر بلدیات سردار صالح بھوتانی کے حوالے سے یہ باتیں گردش کرتی رہی ہیں کہ وہ وزیراعلیٰ جام کمال سے ناراض ہیں اور جام حکومت کے خلاف سرگرم ہیں کچھ عرصہ قبل سردار صالح بھوتانی نے مخلوط حکومت میں شامل اتحادی و اپوزیشن جماعتوں ،بی اے پی کے وزراء و ارکان اسمبلی اور پارٹی کے رہنماؤں کے اعزاز میں ایک عشائیہ بھی دیا تھا۔

اُن کے اس عشائیے کو بھی بعض سیاسی حلقوں میں سیاسی رنگ دیا گیا جبکہ اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے نیک نیتی سے اپنے تمام ساتھیوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کھانے کیلئے وہ کافی عرصے سے پلان کر رہے تھے کہ ہم سب ساتھی مل بیٹھ کر کھانا کھائیں لیکن کوئی ایسی ترتیب نہیں بن پا رہی تھی کبھی کوئی مصروف تھا تو کبھی ہہم مصروف رہے ۔ تاہم سیاسی حلقوں میں صوبائی وزیر بلدیات سردار صالح بھوتانی کے اس عشائیے کا کافی چرچا ہے۔

دوسری جانب اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کے اس بیان کے بعد وزیراعلیٰ جام کمال کی کابینہ کے ارکان جن میں صوبائی وزراء میر ظہور بلیدی، سردار عبدالرحمان کھیتران، سلیم کھوسہ اور ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی نے ایک میڈیا ٹاک کے دوران اس بات کا اظہار کیا کہ جام حکومت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں اور یہ تاثر بھی غلط ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی میں اندرونی اختلافات ہیں۔

اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ میر عبدالقدوس بزنجو اسپیکر بلوچستان اسمبلی ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے سینئر رہنما بھی ہیں انہیں اگر کوئی شکایت ہے تو وہ براہ راست وزیراعلیٰ کو بتاسکتے ہیں۔ بلوچستان کی مخلوط حکومت وزیراعلیٰ جام کمال کی سربراہی میں مضبوط اور متحرک ہے اور اتحادیوں کے ساتھ ملکر صوبے کے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کر رہی ہے، سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں ہمیشہ سے مخلوط حکومتیں تشکیل پاتی رہی ہیں اور اس وقت ایک مخلوط حکومت قائم ہے اتحادیوں میں اونچ نیچ رہتی ہے اور سیاسی نوک جھونک بھی معمول کا حصہ ہے۔


جب سے صوبے میں جام کمال حکومت قائم ہوئی ہے اسے شروع سے ہی سیاسی طور پر ٹف ٹائم ملا ہے اور یہ ٹف ٹائم انہیں اتحادیوں کی جانب سے نہیں بلکہ اپنی جماعت کے اندر سے مل رہا ہے اس کے علاوہ اُن کی جماعت کے اندر بھی انہیں تنقید کا سامنا ہے جس کا برملا اظہار حال ہی میں اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے بیان میں کیا ہے اس کے علاوہ پارٹی کارکنوں سے رابطوں اور ان کے مسائل پر خصوصی توجہ دینے کے باعث پارٹی کے اندر سردار صالح بھوتانی کی شخصیت کو بھی کافی پذیرائی مل رہی ہے۔

چونکہ سیاسی میدان میں بی اے پی ابھی نومولود ہے اور اس نئی جماعت میں مختلف نظریات اور سوچ کے حامل سیاسی لوگ اکٹھے ہوئے ہیںجس کی وجہ سے پارٹی کے اندر نا صرف گروپنگ ہے بلکہ شخصی اختلاف بھی ہے جس کی وجہ سے پارٹی اقتدار میں آنے کے باوجود ڈیلیور نہیں کر پا رہی ہے ۔ بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ نئی جماعت بی اے پی میں اس گروپنگ کے باعث صوبے میں ایک سیاسی کھیل کے آغاز کیلئے بعض کھلاڑی وارم اپ ہو رہے ہیں تاہم ان سیاسی کھلاڑیوں کا زیادہ تر تعلق جام کمال کی اپنی جماعت سے ہی ہے ۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق اس میں شک نہیں کہ بلوچستان میں جام کمال کی حکومت ابھی بھی مضبوط ہے اور انہیں اتحادی جماعتوں کی بھی مکمل حمایت و تائید حاصل ہے اور جام کمال کو ایک بیٹنگ پچ ملی ہے جس پر وہ بڑے محتاط انداز میں بیٹنگ کر رہے ہیں گو کہ ان پر بعض مخالفین کی جانب سے اکا دُکا باؤنسر بھی پھینکے جا رہے ہیں لیکن وہ ان باؤنسرز کابڑی مہارت سے سامنا کر رہے ہیں ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اپنے گھر یعنی جماعت بی اے پی کو بھی مضبوط اور فعال کرنے کیلئے عملی اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی منشور پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنائیں اور پارٹی کے ورکر جو ان سے بہت سی اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں کو بھی اعتماد میں لیں اور حکومتی اُمورکی بجا آوری کے ساتھ ساتھ پارٹی پر بھی خصوصی توجہ دیں کیونکہ وہ بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کے منصب پر اسی جماعت کی اکثریت لے کر فائز ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ صوبے میں اپنی حکومت کو مزید مضبوط بنانے کیلئے انہیں اپنے اتحادیوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا ورنہ بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن عددی اعتبار سے اُن سے کچھ ہی فاصلے پر ہے اور کسی وقت بھی ان کی حکومت کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کر سکتی ہے کیونکہ ان کے ساتھ اس سیاسی پچ پر کھیلنے والے دوسرے اینڈ پراپنے ہی سیاسی کھلاڑیوں میں سے بعض نے پہلے ہی سے میچ فکس کیا ہوا ہے ایسے سیاسی کھلاڑیوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔؟

سیاسی مبصرین کے مطابق جام حکومت کی بڑی سیاسی اتحادی جماعت تحریک انصاف بھی بعض معاملات میں وزیر اعلیٰ جام کمال سے نالاں دکھائی دے رہی ہے جس کا اظہار حال ہی میں تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کے دوران کیا جو کہ پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کی قیادت میں وزیراعظم عمران خان سے ملا تھا ۔ پارلیمانی گروپ سے ملاقات کے بعد پارلیمانی لیڈر و وزیراعظم کے معاون خصوصی سردار یار محمد رند نے الگ ون ٹو ون بھی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی ۔

وزیراعظم عمران خان سے سردار یار محمد رند کی ملاقات کو بعض سیاسی حلقے اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان جو کہ تحریک انصاف کے سربراہ بھی ہیں بلوچستان میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی کسی شخصیت کو گورنر تعینات کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جس کیلئے مختلف ناموں پر غور کیا جا رہا ہے ان سیاسی حلقوں کے مطابق تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیراعظم عمران خان بلوچستان میں جام حکومت کی مکمل حمایت بھی جاری رکھنے کا عندیہ دے چکے ہیں اور یہ عندیہ اُنہوں نے تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ سے ملاقات اور وزیراعلیٰ جام کمال سے اپنی الگ الگ ملاقاتوں میں دیا۔
Load Next Story