حکمران دور اندیشانہ فیصلے کریں

ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد کے معاملے پر قومی اسمبلی کا ایوان واضح طور پر منقسم نظر آیا اور ۔۔۔

ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد کے معاملے پر قومی اسمبلی کا ایوان واضح طور پر منقسم نظر آیا. فوٹو: اے ایف پی/ فائل

ISLAMABAD:
ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد کے معاملے پر قومی اسمبلی کا ایوان واضح طور پر منقسم نظر آیا اور حزب اختلاف کے بعض ارکان نے شدت پسندوں کو ہیرو بنا کر پیش کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جب کہ نیٹو سپلائی بند کرنے کے ایشو پر بھی اپوزیشن جماعتیں متفق نہ ہو سکیں۔

ادھر اطلاع یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے امریکی ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو دوبارہ اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں پھر ایک کل جماعتی کانفرنس بلانے کا عندیہ دیا ہے لیکن دوسری طرف سیاسی افراط و تفریط ، سیاسی عدم اتفاق ، تزویراتی و معروضی بے سمتی، باہمی رنجشوں اور بیان بازیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل رہا ہے۔ قوم کی جمہوری اور سیاسی کشتی حالات کے داخلی و خارجی چیلنجز کے طوفان میں پھنسی ہے اور سیاسی ناخدا نیٹو سپلائی روکنے کے معاملے پر منقسم ہیں۔

اس لفظ ''منقسم'' میں سیاسی تضادات، ذاتی چپقلش، گروہی مفادات، اور پوائنٹ اسکورنگ کے شائبہ کا ایک جہان معانی موجود ہے تاہم ملک کی خود مختاری اور بقا کو درپیش ایک بڑے چیلنج کے مقابلے میں قومی اسمبلی میں ایک متفقہ قرارداد کی منظوری پر تحفظات، خدشات، اور خطرات پر مبنی اپوزیشن کے تقسیم ہونے کی اگر قوم کو نوید ملے تو اس سے زیادہ بدبختی اس قوم کی اور کیا ہوسکتی ہے۔ کاش سیاست دان کم از کم اس واشگاف حقیقت اور تپتی ہوئی زمینی صورتحال کا ادراک کرتے کہ ایک سپرپاور سمیت پوری عالمی برادری کے ہم مرکز نگاہ ہیں۔ ملکی قیادت کا فرض ہے کہ وہ قوم کو مغالطے میں نہ رکھے، ہمیں اپنے گھر کی حالت درست رکھنی چاہیے، سیاسی، عسکری، مذہبی اور پوری سول سوسائٹی کو اس نازک لمحہ موجود میں اتحاد و اتفاق کا پرچم بلند رکھنا چاہیے، فکری یکجہتی اور قومی سوچ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

طالبان سے مذاکرات کے حساس مسئلے پر حکمراں جماعت مسلم لیگ ن پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے جب کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی صورتحال کی نزاکت کا خاص طور پر خیال رکھنا ہو گا، ڈرون حملوں کی وجہ سے ملکی سالمیت، قومی یک جہتی، ریاستی خود مختاری کو لاحق سنگین خطرات کا عدم ادراک سیاسی دیوالیہ پن کا طعنہ بن سکتا ہے۔ دنیا ہماری سیاسی بلوغت، قومی انداز نظر اور نظام اقدار کے حوالہ سے شک میں پڑ سکتی ہے۔


اصولاً پارلیمانی بحث کا قومی اسپرٹ کے ساتھ نتیجہ خیز ہونا ناگزیر تھا جس میں حصہ لیتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر فاروق ستار نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات غیر مشروط ہونے چاہئیں، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا اختیار دیا ہے۔ اْنہوں نے کہا کہ ابھی تک حکومت کی طرف سے اس معاملے پر اْس طرح سنجیدگی کا اظہار نہیں کیا جا رہا۔

حیرت ناک امر ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنے ایک متنازعہ جواب کا دفاع کرنے پر مجبور ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے بعض مخصوص سینیٹروں نے30 اکتوبر کو سینیٹ کے اجلاس میں کن وجوہات کی بناء پر واک آؤٹ کرنے کا پروگرام بنایا، بعض مخصوص سینیٹروں نے سیاسی مقاصد کے تحت مجھے متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ چیئرمین سینیٹ مذکورہ تاریخ کو ہونے والے سینیٹ کے سیشن کی ویڈیو ریکارڈنگ منگوائیں اور اسے عام کرنے کا حکم دیں تا کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ کس نے ہاؤس کو یرغمال بنایا یا غیر پارلیمانی رویہ اختیار کیا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ان کی کسی سے محاذ آرائی نہیں۔ مگر سچ کے دفاع میں اپنی آخری سانس تک لڑتا رہوں گا۔

یہ صورتحال اور معزز ایوانوں میں روایتی تند و تیز بحث اور پھر بائیکاٹ سمیت کسی ایک ایجنڈہ پر سیاسی قوتوں کا عدم اتفاق سیاسی نظام میں مضمر ایک بڑی خرابی کی نشاندہی کرتا ہے اس سے حکمران نیٹو سپلائی بند کرنے یا نہ کرنے کے معاملہ پر سیاسی بریک تھرو کی طرف نہیں جا رہے بلکہ عدم اتفاق سے صورتحال مزید گمبھیر ہو سکتی ہے جس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش ان ہی فورمز پر کی جائے جو ڈرون حملوں کی بندش اور تحریک طالبان پاکستان سے بات چیت اور تصفیہ کی قومی بحث کے لیے سب سے موزوں پلیٹ فارم ہیں۔

ادھر اپوزیشن جماعتوں کے سینیٹرز کا کہنا ہے کہ نیٹو سپلائی روکنے سے ڈرون حملے بند نہیں ہو سکتے، بیانات کی ایک ہلکی جھلک سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے کہا ہے کہ نیٹو سپلائی روکنے سے ڈرون حملے بند نہیں ہو سکتے ڈرون حملوں پر حکومت اور امریکا کے درمیان خفیہ معاہدہ سامنے لایا جائے ۔ جے یو آئی ف کے سینیٹر طلحہ محمود نے کہا ہے کہ نیٹو سپلائی روکنا وفاق کا کام ہے پختونخوا حکومت قرارداد کے ذریعے صرف وفاق پر دباؤ ڈال سکتی ہے اگر امریکا پاکستان کی خود مختاری پر حملہ کرتا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ امریکا کی ساری نقل و حمل روک دے۔

مزید براں خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شاہ فرمان نے دعویٰ کیا کہ ہمیں حکومت کی کوئی پرواہ نہیں اس لیے 20 نومبر کے بعد نیٹو سپلائی کی بندش ہر صورت کی جائے گی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمان نے حالیہ ڈرون حملوں کو بدنیتی پر مبنی امریکی سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں اس پر اپنے الگ موقف کے ذریعے اپنی سیاست کی عمارت کھڑی کر کے قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب سیاست پیدا شدہ صورتحال پر تدبر و حکمت اور دور اندیشی کے ساتھ آگے بڑھیں، تلاطم خیز زمینی حقائق پر نظر ڈالتے ہوئے ڈرون حملوں اور طالبان سے مذاکرات کے اہم نکات پر قومی اتفاق رائے پیدا کریں۔ عوام منتظر ہیں کہ سیاست دان وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ایسے دور رس فیصلے کریں جس سے خطے میں عدم استحکام کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے ۔
Load Next Story