ٹوٹتے بکھرتے خواب
گزشتہ دنوں ایک کتاب Voice of Reason کی تقریب اجرا ہوئی۔ یہ کتاب ہم سب کے انتہائی پیارے۔۔۔
گزشتہ دنوں ایک کتاب Voice of Reason کی تقریب اجرا ہوئی۔ یہ کتاب ہم سب کے انتہائی پیارے دوست اور حقوق انسانی کے علمبردار اقبال حیدر مرحوم کے منتخب مضامین کے علاوہ ان پر تحریر کیے گئے اظہاریوں پر مبنی ہے۔ اقبال حیدر کو ہم سے بچھڑے ایک سال بیت گیا۔ اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا، مگر جن معاملات اور مسائل پر وہ زندگی بھر کڑھتا، سلگتا اور الجھتا رہا، وہ آج بھی ویسے ہی ہیں، بلکہ مزید ابتر ہوچکے ہیں۔ اقبال اس ملک میں کوئی بڑا انقلاب بپا کرنا نہیں چاہتا تھا، بلکہ جمہوری اقدار کو پھلتا پھولتا دیکھنے کا خواہشمند تھا۔
وہ ایک ایسے معاشرے کے قیام کا خواب دیکھتے دیکھتے اس دنیا سے چلا گیا، جہاں فکری کثرتیت کے لیے گنجائش ہو، جہاں اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر ہر شہری کو بلاامتیاز مذہبی، نسلی، لسانی اور صنفی امتیاز آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا حق ہو۔ وہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا تھا۔ اسی لیے آئین کی ان شقوں میں ترمیم کا خواہشمند تھا، جو ایک دوسرے سے متصادم اور جمہوری عمل کے تسلسل میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ لیکن یہ عمل وہ ماورائے آئین نہیں، بلکہ منتخب پارلیمان کے ذریعے چاہتا تھا۔ یہ اس کی فکر کی پختگی اور جمہوری اقدار پر غیر متزلزل یقین تھاکہ اس نے کبھی کسی منفی ردعمل اور نقصان کی پرواہ نہیں کی اور ہمیشہ عقیدے، فرقہ اور قومیت کی بنیاد پر انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کے قتل کی ببانگ دہل مذمت کی۔
اقبال حیدر کی تحریریں اور سینیٹ سے عوامی فورموں تک ہر جگہ کہا گیا ایک ایک لفظ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ''اس گھر کو آگ لگ رہی ہے، گھر کے چراغوں سے'' مگر کوئی سننے اور کان دھرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ کیونکہ حکمران اشرافیہ کی آنکھوں پر چھائی مصلحتوں کی دبیز تہیں اور کانوں میں ٹھسی موقع پرستی کی روئی نے انھیں دیکھنے، سننے اور محسوس کرنے کی صلاحیت سے محروم کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ چیختا، چلاتا اور خطرات سے آگاہ کرتا ہوا اس دنیا سے رخصت ہوگیا، مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اقبال حیدر گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک کے مستقبل کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کرتا رہا تھا اب وہ زیادہ نمایاں ہوکر بھیانک شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود حکمران طبقات یا تو ان معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا پھر ان کے مخصوص فکری رجحانات انھیں راست اقدامات سے روک رہے ہیں، جس کی حالیہ مثال ڈرون حملے میں حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت پرایک وزیر صاحب کی پریس کانفرنس کے نام پر 50 منٹ تک نوحہ خوانی تھی۔ ان کی گفتگو اور شدت جذبات سے ایسا محسوس ہورہا تھا، جیسے وہ اس سفاک قاتل کی ہلاکت کو قومی نقصان قرار دیتے ہوئے یوم سوگ کا اعلان کرنے والے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی قیادت نے حکیم اﷲ کی موت پر ماتمی بیانات جاری کرتے وقت ان گنت بم دھماکوں اور ان میں ہزاروں بے گناہ افراد کی شہادت، فوجی تنصیبات پر حملوں اور فوجیوں افسروں اور سپاہیوں کے بے دردی سے قتل سمیت دہشت گردی کے دیگر تمام واقعات کو فراموش کردیا، جس سے ان کی دروغ گوئی پر مبنی سیاست پر مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے۔ حالانکہ خود پاکستان کی وزارت دفاع نے اپنی اس رپورٹ میں جو اس نے سینیٹ کو بھیجی ہے، یہ اعتراف کیا ہے کہ ڈرون حملوں میں اس وقت تک 2,160 شدت پسند اور صرف 67 عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔ اس رپورٹ سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ حکومت پاکستان کو مطلوب تقریباً سبھی اہم اور سنگین ملزمان ڈرون حملوں ہی میں ہلاک ہوئے ہیں۔ بعض عناصر نے اس رپورٹ کو متنازع قرار دیا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے مختلف اداروں اور شعبہ جات میں روابط کی کمی اور باہمی نقطہ نظر کا فرق بھی ایک اہم شخصیت کے اس بیان سے ظاہر ہوجاتا ہے، جس میں انھوں نے اس ڈرون کو جس میں حکیم اﷲ مارا گیا، امریکا کا پاکستان پر احسان قرار دیا۔
اب جہاں تک مذہبی اور نیم مذہبی سیاسی جماعتوں اور عمران کی تحریک انصاف کا تعلق ہے، تو ان سے سیاسی بلوغت پر مبنی کسی راست سوچ اور رویے کی توقع عبث ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں کی جانب سے ایک سفاک قاتل کو شہید قرار دے دینا کسی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ معاملہ صرف سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کا دہشت گردوں اور شدت پسندوںکی حمایت تک محدود نہیں ہے، بلکہ وطن عزیز میں ایسے تجزیہ نگاروں اور کالم نویسوں کی بھی کمی نہیں، جو شدت پسند عناصر کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان کی حمایت میں ہر فورم پر رطب اللسان رہتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو دہشت گرد قاتلوں کی وکالت میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انھوں نے پرویز ہود بھائی جیسے نابغہ روزگار سائنسدان اور دانشورکے ساتھ بدتمیزی بھی کرڈالی ۔
ابن صفی مرحوم نے اپنے ایک ناول میں اپنے ہیرو عمران کی زبان سے جملہ ادا کرایا تھا کہ ''دعوے ہمیشہ بزدل لوگ کیا کرتے ہیں، عمل پر یقین رکھنے والا انسان کبھی کوئی دعویٰ نہیں کرتا۔'' ویسے بھی اردو کا ایک محاورہ ہے کہ جوگرجتے ہیں، وہ برستے نہیں ہیں۔ کہاں کی غیرت، کہاں کی جرأت اورکہاں کی راست گوئی؟ کوئی پوچھے حکمران اشرافیہ اور سیاسی رہنماؤں سے کہ ان کی انا اور خودداری کہاں تھی، جب ایمل کانسی کو امریکا کے حوالے کیا جارہا تھا؟ کہاں تھی حب الوطنی جب رمزی یوسف کو امریکیوں کے کہنے پر گرفتار کررہے تھے؟ کہاں تھی قومی حمیت و غیرت جب امریکا سے ڈالروںکی جھنکار میں پورے ملک میں جہاد کے نام پر خوفناک جنگجو جتھے تیار ہورہے تھے؟ سابق امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے چند برس پہلے اپنی ایک تحریر میں پاکستانی حکمرانوں کی غیرت، جرأت اور قومی حمیت کا پول کھول دیا، جس میں اس نے لکھا کہ ہم نے پاکستان سے جو بھی کام لیا اس کے معاوضے کی پوری ادائیگی کی۔ جب کہ پاکستانی حکمرانوں نے جعلی بل دیے اور غلط واؤچروں پر بھی رقوم حاصل کیں اور ہم نے اپنے مفاد میںخاموشی اختیار کیے رکھی۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستانی ہم سے اسلحہ کے علاوہ سپاہیوںکی یونیفارموں تک کے لیے پیسے طلب کرتے ہیں۔
آج دنیا بھر میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ اسامہ بن لادن یہاں کئی برس کس طرح رہتا رہا؟ اسی طرح حکیم اﷲ محسود کی پرتعیش رہائش گاہ اہم علاقوں سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھی اور پاکستانی حکام اس سے کیونکر بے خبر رہے؟ عالمی ذرایع ابلاغ میں یہ سوال بھی گردش کررہا ہے کہ حکومت پاکستان شدت پسند عناصر سے ڈائیلاگ کے لیے کس ایجنڈے پر متفق ہوئی ہے؟ کیا وہ آئین میں ان کی مرضی کی ترامیم پر راضی ہوچکی ہے؟ کیا ان کی جانب سے شہید کیے گئے ہزاروں بے گناہ شہریوں اور سیکڑوں فوجیوں کا خون معاف کرنے پر آمادہ ہوچکی ہے؟ کیا GHQ، مہران بیس اور دیگر فوجی تنصیبات پر ان عناصر کے حملوں کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے؟ اس کے علاوہ ڈرون حملوں کی اخلاقی مذمت کے باوجود عالمی سطح پر یہ تیکنیکی سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ اگر مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں تو ان عناصر پر قابو پانے کے لیے جو فوجی آپریشن کیا جائے گا، اس میں ان علاقوں میں بمباری بھی متوقع ہے۔ کیا بمباری سے ہونے والا نقصان اور غیر متعلقہ افراد کی ہلاکتیں ڈرون کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ نہ ہوں گی؟ ایسی صورت میں پاکستانی حکومت اور سیاستدانوں کے پاس اس عمل کو Justify کرنے کا کیا جواز ہوگا؟
مگر ہمارے حکمران ان تمام سوالات سے بے خبر اپنی اپنی ڈفلیاں بجانے میں مصروف ہیں اور یہ بھول چکے ہیں کہ شترمرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے سے حقائق نہیں چھپتے۔ انھیں نہ آئین کی اہمیت کا اندازہ ہے اور نہ اس بات کی فکر ہے کہ تمام پڑوسی کسی نہ کسی سبب ناراض ہیں۔ ان حالات میں آج اپنی پہلی برسی پر اقبال حیدر بہت یاد آرہا ہے، جو منافقتوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے حقائق کو سامنے لانے کی جرأت رکھتا تھا اور بیباکی کے ساتھ سچائی کو منظر عام پر لانے کا حوصلہ رکھتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ آج وہ تمام خواب ٹوٹتے اور بکھرتے نظر آرہے ہیں، جو ایک شائستہ، باوقار اور جمہوری پاکستان کے لیے ہم سب نے آنکھوں میں سجا رکھے ہیں۔
وہ ایک ایسے معاشرے کے قیام کا خواب دیکھتے دیکھتے اس دنیا سے چلا گیا، جہاں فکری کثرتیت کے لیے گنجائش ہو، جہاں اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر ہر شہری کو بلاامتیاز مذہبی، نسلی، لسانی اور صنفی امتیاز آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا حق ہو۔ وہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا تھا۔ اسی لیے آئین کی ان شقوں میں ترمیم کا خواہشمند تھا، جو ایک دوسرے سے متصادم اور جمہوری عمل کے تسلسل میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ لیکن یہ عمل وہ ماورائے آئین نہیں، بلکہ منتخب پارلیمان کے ذریعے چاہتا تھا۔ یہ اس کی فکر کی پختگی اور جمہوری اقدار پر غیر متزلزل یقین تھاکہ اس نے کبھی کسی منفی ردعمل اور نقصان کی پرواہ نہیں کی اور ہمیشہ عقیدے، فرقہ اور قومیت کی بنیاد پر انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کے قتل کی ببانگ دہل مذمت کی۔
اقبال حیدر کی تحریریں اور سینیٹ سے عوامی فورموں تک ہر جگہ کہا گیا ایک ایک لفظ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ''اس گھر کو آگ لگ رہی ہے، گھر کے چراغوں سے'' مگر کوئی سننے اور کان دھرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ کیونکہ حکمران اشرافیہ کی آنکھوں پر چھائی مصلحتوں کی دبیز تہیں اور کانوں میں ٹھسی موقع پرستی کی روئی نے انھیں دیکھنے، سننے اور محسوس کرنے کی صلاحیت سے محروم کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ چیختا، چلاتا اور خطرات سے آگاہ کرتا ہوا اس دنیا سے رخصت ہوگیا، مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اقبال حیدر گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک کے مستقبل کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کرتا رہا تھا اب وہ زیادہ نمایاں ہوکر بھیانک شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود حکمران طبقات یا تو ان معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا پھر ان کے مخصوص فکری رجحانات انھیں راست اقدامات سے روک رہے ہیں، جس کی حالیہ مثال ڈرون حملے میں حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت پرایک وزیر صاحب کی پریس کانفرنس کے نام پر 50 منٹ تک نوحہ خوانی تھی۔ ان کی گفتگو اور شدت جذبات سے ایسا محسوس ہورہا تھا، جیسے وہ اس سفاک قاتل کی ہلاکت کو قومی نقصان قرار دیتے ہوئے یوم سوگ کا اعلان کرنے والے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی قیادت نے حکیم اﷲ کی موت پر ماتمی بیانات جاری کرتے وقت ان گنت بم دھماکوں اور ان میں ہزاروں بے گناہ افراد کی شہادت، فوجی تنصیبات پر حملوں اور فوجیوں افسروں اور سپاہیوں کے بے دردی سے قتل سمیت دہشت گردی کے دیگر تمام واقعات کو فراموش کردیا، جس سے ان کی دروغ گوئی پر مبنی سیاست پر مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے۔ حالانکہ خود پاکستان کی وزارت دفاع نے اپنی اس رپورٹ میں جو اس نے سینیٹ کو بھیجی ہے، یہ اعتراف کیا ہے کہ ڈرون حملوں میں اس وقت تک 2,160 شدت پسند اور صرف 67 عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔ اس رپورٹ سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ حکومت پاکستان کو مطلوب تقریباً سبھی اہم اور سنگین ملزمان ڈرون حملوں ہی میں ہلاک ہوئے ہیں۔ بعض عناصر نے اس رپورٹ کو متنازع قرار دیا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے مختلف اداروں اور شعبہ جات میں روابط کی کمی اور باہمی نقطہ نظر کا فرق بھی ایک اہم شخصیت کے اس بیان سے ظاہر ہوجاتا ہے، جس میں انھوں نے اس ڈرون کو جس میں حکیم اﷲ مارا گیا، امریکا کا پاکستان پر احسان قرار دیا۔
اب جہاں تک مذہبی اور نیم مذہبی سیاسی جماعتوں اور عمران کی تحریک انصاف کا تعلق ہے، تو ان سے سیاسی بلوغت پر مبنی کسی راست سوچ اور رویے کی توقع عبث ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں کی جانب سے ایک سفاک قاتل کو شہید قرار دے دینا کسی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ معاملہ صرف سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کا دہشت گردوں اور شدت پسندوںکی حمایت تک محدود نہیں ہے، بلکہ وطن عزیز میں ایسے تجزیہ نگاروں اور کالم نویسوں کی بھی کمی نہیں، جو شدت پسند عناصر کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان کی حمایت میں ہر فورم پر رطب اللسان رہتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو دہشت گرد قاتلوں کی وکالت میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انھوں نے پرویز ہود بھائی جیسے نابغہ روزگار سائنسدان اور دانشورکے ساتھ بدتمیزی بھی کرڈالی ۔
ابن صفی مرحوم نے اپنے ایک ناول میں اپنے ہیرو عمران کی زبان سے جملہ ادا کرایا تھا کہ ''دعوے ہمیشہ بزدل لوگ کیا کرتے ہیں، عمل پر یقین رکھنے والا انسان کبھی کوئی دعویٰ نہیں کرتا۔'' ویسے بھی اردو کا ایک محاورہ ہے کہ جوگرجتے ہیں، وہ برستے نہیں ہیں۔ کہاں کی غیرت، کہاں کی جرأت اورکہاں کی راست گوئی؟ کوئی پوچھے حکمران اشرافیہ اور سیاسی رہنماؤں سے کہ ان کی انا اور خودداری کہاں تھی، جب ایمل کانسی کو امریکا کے حوالے کیا جارہا تھا؟ کہاں تھی حب الوطنی جب رمزی یوسف کو امریکیوں کے کہنے پر گرفتار کررہے تھے؟ کہاں تھی قومی حمیت و غیرت جب امریکا سے ڈالروںکی جھنکار میں پورے ملک میں جہاد کے نام پر خوفناک جنگجو جتھے تیار ہورہے تھے؟ سابق امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے چند برس پہلے اپنی ایک تحریر میں پاکستانی حکمرانوں کی غیرت، جرأت اور قومی حمیت کا پول کھول دیا، جس میں اس نے لکھا کہ ہم نے پاکستان سے جو بھی کام لیا اس کے معاوضے کی پوری ادائیگی کی۔ جب کہ پاکستانی حکمرانوں نے جعلی بل دیے اور غلط واؤچروں پر بھی رقوم حاصل کیں اور ہم نے اپنے مفاد میںخاموشی اختیار کیے رکھی۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستانی ہم سے اسلحہ کے علاوہ سپاہیوںکی یونیفارموں تک کے لیے پیسے طلب کرتے ہیں۔
آج دنیا بھر میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ اسامہ بن لادن یہاں کئی برس کس طرح رہتا رہا؟ اسی طرح حکیم اﷲ محسود کی پرتعیش رہائش گاہ اہم علاقوں سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھی اور پاکستانی حکام اس سے کیونکر بے خبر رہے؟ عالمی ذرایع ابلاغ میں یہ سوال بھی گردش کررہا ہے کہ حکومت پاکستان شدت پسند عناصر سے ڈائیلاگ کے لیے کس ایجنڈے پر متفق ہوئی ہے؟ کیا وہ آئین میں ان کی مرضی کی ترامیم پر راضی ہوچکی ہے؟ کیا ان کی جانب سے شہید کیے گئے ہزاروں بے گناہ شہریوں اور سیکڑوں فوجیوں کا خون معاف کرنے پر آمادہ ہوچکی ہے؟ کیا GHQ، مہران بیس اور دیگر فوجی تنصیبات پر ان عناصر کے حملوں کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے؟ اس کے علاوہ ڈرون حملوں کی اخلاقی مذمت کے باوجود عالمی سطح پر یہ تیکنیکی سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ اگر مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں تو ان عناصر پر قابو پانے کے لیے جو فوجی آپریشن کیا جائے گا، اس میں ان علاقوں میں بمباری بھی متوقع ہے۔ کیا بمباری سے ہونے والا نقصان اور غیر متعلقہ افراد کی ہلاکتیں ڈرون کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ نہ ہوں گی؟ ایسی صورت میں پاکستانی حکومت اور سیاستدانوں کے پاس اس عمل کو Justify کرنے کا کیا جواز ہوگا؟
مگر ہمارے حکمران ان تمام سوالات سے بے خبر اپنی اپنی ڈفلیاں بجانے میں مصروف ہیں اور یہ بھول چکے ہیں کہ شترمرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے سے حقائق نہیں چھپتے۔ انھیں نہ آئین کی اہمیت کا اندازہ ہے اور نہ اس بات کی فکر ہے کہ تمام پڑوسی کسی نہ کسی سبب ناراض ہیں۔ ان حالات میں آج اپنی پہلی برسی پر اقبال حیدر بہت یاد آرہا ہے، جو منافقتوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے حقائق کو سامنے لانے کی جرأت رکھتا تھا اور بیباکی کے ساتھ سچائی کو منظر عام پر لانے کا حوصلہ رکھتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ آج وہ تمام خواب ٹوٹتے اور بکھرتے نظر آرہے ہیں، جو ایک شائستہ، باوقار اور جمہوری پاکستان کے لیے ہم سب نے آنکھوں میں سجا رکھے ہیں۔