تلوار اور حجاب
انسانی تاریخ میں تلوار کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ ایک جانب تو یہ جنگوں کا لازمہ تھی تو...
انسانی تاریخ میں تلوار کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ ایک جانب تو یہ جنگوں کا لازمہ تھی تو دوسری جانب قریباً تمام ہی مذاہب کے ماننے والوں کے لیے یہ جہاد، جنت، آخرت اور حقیقی کامیابی کی ضامن تھی۔ یہاں تک کہ اس دور کے اہنسا کے پرچارک بھی اسے شجاعت کی علامت اور مرد کا زیور مانتے تھے۔ لہٰذا آپ دیکھیں گے کہ ہر گھر میں تلوار ہوتی تھی۔ اور یہ سلسلہ کوئی ایک دو دن کی بات نہیں صدیاں گزر گئیں۔ یہاں تک کہ اب سے نصف صدی قبل تک بھی گھروں میں تلواریں پائی جاتی تھیں۔ خود ہمارے دادا کی ایک سے زائد تلواریں گھر میں موجود تھیں۔
سوال یہ ہے کہ اس دور میں گھر گھر میں تلوار کیسے پہنچی؟ وہ دور نہ تو صنعت کا دور تھا، نہ ہی اشتہار کا۔ لیکن تلوار ہر گھر میں تھی۔ تاریخ دانوں سے دریافت کیجیے کیا کبھی تلوار سازی کی صنعت کہیں پائی گئی؟ کبھی تاریخ میں کہیں ایسا ہوا ہو کہ تلوار بنانے کی فیکٹریاں قائم کی گئی ہوں؟ کہیں کبھی کسی ملک میں تلواروں کی اہمیت کے پیش نظر کوئی محکمہ بنایا گیا ہو؟ کبھی کہیں کوئی وزیر تلوار رہا ہو؟ یا تلوار سازی کا کوئی قلم دان ہو؟ کیا کبھی ایسا ہوا کہ کہیں کے تلوار سازوں نے برآمدات کی اجازت مانگی ہو؟ یا کبھی اجازت نامے کے ذریعے تلواریں بنانے کے کارخانے دوسرے ملکوں میں لگانے کا کوئی رواج رہا ہو؟ کیا کبھی ایسا ہوا کہ تلواروں کی فروخت، اشتہار بازی کی رہینِ منت رہی ہو۔
اشتہار آتے ہوں، ہر چوراہے پر اشتہار آویزاں ہوں کہ تلوار خریدیے، مردوں کی، عورتوں کی، بچوں کی، بچیوں کی، بوڑھوں کی الگ الگ تلواریں، نئی نئی تلواریں، قسم قسم کی تلواریں، دنیا بھر کی تلواریں، طلائی نقرئی، کاغذی، ریشمی، مختلف دھاتوں کی تلواریں، زنخوں اور ہیجڑوں کے لیے بھی لچکتی اور اٹھلاتی ہوئی تلواریں، کہ تلوار ہمارا شعار ہے، تلواروں کے شو، تلواربازی کے کلب۔ تلوار بازی کے مقابلے، ڈسپلے سینٹر، تلواروں کی نمائشیں، تلوار کی مارکیٹیں، تلوار پر کالم، تلوار پر معلوماتی سلسلے، معلومات خاص کے پروگرام، تلوار پر ''ٹاک شو''، تلوار پر معلومات عامہ کے پروگرام، سیمینار، کتابیں، عالمی انعامی مقابلے، انتقال کرنے والے بڑے لوگوں کی تلواروں کو فروخت کے لیے پیش کر کے لاکھوں روپے کمانے کا رواج۔
کیا ایسا کچھ کبھی کہیں تاریخ کے کسی دور میں ہوا؟ اگر نہیں تو آخر کیوں؟ عصر حاضر میں اچھی اہم مذہبی چیزوں کو بھی اس طرح پیش کرنے کی جو ذہنیت پیدا ہوئی ہے اس کا سبب کیا ہے؟ ماضی میں کسی نے کبھی یہ نہیں سنا کہ دو تلواریں خریدیے اور ایک تلوار مفت لیجیے، ایک فٹ کی تلوار خریدیے تو ڈیڑھ فٹ کی تلوار آدھی قیمت پر ملے گی، تلواریں قسطوں میں خریدیے، تلوار کی انشورنس کرائیے، تلوار کی صفائی ہم سے کرائیے، گھر بیٹھے تلوار کی سروس، یہ سہولت صرف ہم پیش کرتے ہیں، صرف ہم پر بھروسہ کیجیے، ہمارا نام ہی ہماری ضمانت ہے، گھر بیٹھے تلوار خریدیے صرف آپ کا اشارہ کافی ہے، تلوار آپ کے گھر پر، تلوار کا قبضہ آج ہی لیجیے اور قیمت اپنی مرضی سے طے شدہ وعدے کے مطابق اپنی سہولت سے اداکیجیے، آج ہی سے قسطیں ادا کر کے اپنے جوان ہونے والے بچے کی بلوغت سے پہلے تلوار حاصل کیجیے تا کہ آپ کا بچہ میدان جنگ میں تلوار نہ ہونے کی وجہ سے شرکت سے محروم نہ رہ جائے۔
ہم ہر عاقل بالغ مرد کو میدان جہاد میں جہاد کا موقع عطا کرنے کے لیے شب و روز تلواریں بناتے ہیں، تلوار خریدتے ہوئے ہماری کمپنی کا ٹریڈ مارک یاد رکھیے، ہماری کمپنی کی کوئی شاخ نہیں ہے۔ کہیں ایک بڑا سا بورڈ آویزاں ہو، جلی حروف میں لکھا ہو ''تلوارکنسلٹنٹ'' تلوار خریدنے سے پہلے ہم سے مشورہ کریں۔ کہیں لکھا ہو ''تلوار بروکر'' ہم سستی تلواریں مہیا کرتے ہیں۔ دکان ہو پرانی تلواریں دے کر نئی تلواریں لیجیے۔ ایک تلوار خریدنے پر ایک تیر مفت۔ ہم تلوار بیچتے ہیں سستی اور چلانے کا طریقہ بتاتے ہیں بالکل مفت۔ تلوار کی دنیا میں چار سو سال سے مستند نام، بس تلوار ہم سے خریدیے ہماری بنائی ہوئی تلواروں نے تاریخی معرکوں میں کشتوں کے پشتے لگا دیے تھے، تمام متبرک تلواریں ہماری ساختہ ہیں۔ کنگ ایڈورڈ کے لگڑ دادا ہم سے تلواریں خریدتے تھے، لہٰذا آیندہ صرف ہم سے تلواروں کے لیے رجوع کیجیے۔
معذوروں کے لیے بھی ریشمی لکڑی یا کاغذ ی تلوار خریدیے، نہ پھٹے گی، نہ جلے گی، نہ ٹوٹے گی، تلواروں کے طغرے، تلواروں کے بینر، تلواروں کے قد آدم پوسٹر، اشتہار بازی کے لیے چھوٹی چھوٹی تلواروں کے کھلونے تا کہ بچے اس سے کھیلیں، تلوار کاروان پشاور سے کراچی تک تلوار کی اہمیت وقعت عوام تک پہنچانے کے لیے اس کاروان کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ جگہ جگہ تقاریر، مذاکرے، نغموں، نعروں کے ذریعے تلوار کی اہمیت اجاگر کی جائے گی، تلوار کے لیے ملین مارچ تلوار فیسٹول شرکت کرنے والوں کو قرعہ اندازی کے ذریعے پانچ تلواریں مفت، داخلہ بذریعہ ٹکٹ۔ ٹکٹ سنبھال کر رکھیے۔ پانچ ٹکٹ دکھانے والوں کو تلوار آدھی قیمت پر ملے گی۔ میلے میں پہلے آنے والے کو ایک تلوار مفت۔ پہلے آئیے پہلے پائیے۔ اپنا سرمایہ تلوار کے کاروبار میں لگائیے ہم خرما و ہم ثواب۔ یہ کارخانہ احتجاجی تحریک کے دوران زخمی ہونے والے ورثا کی کفالت کے لیے لگایا جا رہا ہے کاروبار کا کا روبار اور ثواب کا ثواب، دین دنیا ایک ساتھ، محفوظ سرمایہ کاری یہاں بھی وہاں بھی ۔
سوال یہ ہے کہ یہ ذہنیت، یہ مکارانہ تجارتی طریقے، یہ سرمایہ دارانہ رویے، یہ حرص و حسد و ہوس کے دھندے، یہ رویے اس زمانے میں کیوں نہیں تھے اور اس زمانے میں اتنے عام کیوں ہو گئے ہیں؟ قالب کی اس عظیم تبدیلی کا سبب کیا ہے؟ کسی کی اس جانب توجہ ہے یا توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں ہے؟ کون غور کرے گا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا یہ مابعدالطبیعیات کی تبدیلی کے باعث ہے یا اچانک تبدیلی کا عمل شروع ہو گیا ہے؟ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا روایتی تہذیبی سانچے اور جدید سرمایہ دارانہ نظام کے ڈھانچے ایک ہو سکتے ہیں؟ کیا روایات کا پاسدار تہذیبوں کا پروردہ آدمی اس قسم کے گھٹیا طریقے اختیار کر سکتا ہے جو عہد حاضر میں عام ہیں۔
اور تو اور، اب تو حجاب اور برقعے پہننے والے مذہبی لوگ مذہبی رسالوں میں اشتہار شایع کراتے ہیں۔ دیدہ زیب برقعوں، اسکارف، حجاب اور عربی عبایا کا مرکز، برقعہ اور حجاب کا مقصد ستر پوشی ہے نہ کہ آرائش کی نمائش۔ مگر یہ عام ہو رہا ہے۔ فیشن کا دور ہے تو جہاں بینکوں اور سرمایہ داریت کی اسلام کاری ہو گئی وہاں مسلم فیشن میں کیا قباحت؟ انڈونیشیا مسلم خواتین کی فیشن انڈسٹری کا سرخیل بنا جا رہا ہے۔ ایک جانب سعودیہ سے نہایت خوبصورت، جاذبِ نظر، رنگ برنگے عبایا ہزاروں روپے میں فروخت کے لیے آ رہے ہیں۔ اگر سب ہی کا مقصد فیشن اور ''کنزیومر ازم'' ہی ہے تو فرق کیا ہے؟ ایک ''بِکنی'' یا ''اسکرٹ'' فروخت کر کے اسی مقصد کی خدمت میں جتا، آپ اسکارف اور عبایا بیچ کر۔
سوال یہ ہے کہ اگر مسلمان بھی حجاب کے نام پر بے حجابی اور دیدہ زیبی و دل فریبی ہی عام کرتے ہیں اور سرمائے ہی کی خدمت اور اسی میں اضافہ سب کو مطلوب ہے، تب دونوں کو ایک ہی کیوں نہ سمجھا جائے؟
سوال یہ ہے کہ اس دور میں گھر گھر میں تلوار کیسے پہنچی؟ وہ دور نہ تو صنعت کا دور تھا، نہ ہی اشتہار کا۔ لیکن تلوار ہر گھر میں تھی۔ تاریخ دانوں سے دریافت کیجیے کیا کبھی تلوار سازی کی صنعت کہیں پائی گئی؟ کبھی تاریخ میں کہیں ایسا ہوا ہو کہ تلوار بنانے کی فیکٹریاں قائم کی گئی ہوں؟ کہیں کبھی کسی ملک میں تلواروں کی اہمیت کے پیش نظر کوئی محکمہ بنایا گیا ہو؟ کبھی کہیں کوئی وزیر تلوار رہا ہو؟ یا تلوار سازی کا کوئی قلم دان ہو؟ کیا کبھی ایسا ہوا کہ کہیں کے تلوار سازوں نے برآمدات کی اجازت مانگی ہو؟ یا کبھی اجازت نامے کے ذریعے تلواریں بنانے کے کارخانے دوسرے ملکوں میں لگانے کا کوئی رواج رہا ہو؟ کیا کبھی ایسا ہوا کہ تلواروں کی فروخت، اشتہار بازی کی رہینِ منت رہی ہو۔
اشتہار آتے ہوں، ہر چوراہے پر اشتہار آویزاں ہوں کہ تلوار خریدیے، مردوں کی، عورتوں کی، بچوں کی، بچیوں کی، بوڑھوں کی الگ الگ تلواریں، نئی نئی تلواریں، قسم قسم کی تلواریں، دنیا بھر کی تلواریں، طلائی نقرئی، کاغذی، ریشمی، مختلف دھاتوں کی تلواریں، زنخوں اور ہیجڑوں کے لیے بھی لچکتی اور اٹھلاتی ہوئی تلواریں، کہ تلوار ہمارا شعار ہے، تلواروں کے شو، تلواربازی کے کلب۔ تلوار بازی کے مقابلے، ڈسپلے سینٹر، تلواروں کی نمائشیں، تلوار کی مارکیٹیں، تلوار پر کالم، تلوار پر معلوماتی سلسلے، معلومات خاص کے پروگرام، تلوار پر ''ٹاک شو''، تلوار پر معلومات عامہ کے پروگرام، سیمینار، کتابیں، عالمی انعامی مقابلے، انتقال کرنے والے بڑے لوگوں کی تلواروں کو فروخت کے لیے پیش کر کے لاکھوں روپے کمانے کا رواج۔
کیا ایسا کچھ کبھی کہیں تاریخ کے کسی دور میں ہوا؟ اگر نہیں تو آخر کیوں؟ عصر حاضر میں اچھی اہم مذہبی چیزوں کو بھی اس طرح پیش کرنے کی جو ذہنیت پیدا ہوئی ہے اس کا سبب کیا ہے؟ ماضی میں کسی نے کبھی یہ نہیں سنا کہ دو تلواریں خریدیے اور ایک تلوار مفت لیجیے، ایک فٹ کی تلوار خریدیے تو ڈیڑھ فٹ کی تلوار آدھی قیمت پر ملے گی، تلواریں قسطوں میں خریدیے، تلوار کی انشورنس کرائیے، تلوار کی صفائی ہم سے کرائیے، گھر بیٹھے تلوار کی سروس، یہ سہولت صرف ہم پیش کرتے ہیں، صرف ہم پر بھروسہ کیجیے، ہمارا نام ہی ہماری ضمانت ہے، گھر بیٹھے تلوار خریدیے صرف آپ کا اشارہ کافی ہے، تلوار آپ کے گھر پر، تلوار کا قبضہ آج ہی لیجیے اور قیمت اپنی مرضی سے طے شدہ وعدے کے مطابق اپنی سہولت سے اداکیجیے، آج ہی سے قسطیں ادا کر کے اپنے جوان ہونے والے بچے کی بلوغت سے پہلے تلوار حاصل کیجیے تا کہ آپ کا بچہ میدان جنگ میں تلوار نہ ہونے کی وجہ سے شرکت سے محروم نہ رہ جائے۔
ہم ہر عاقل بالغ مرد کو میدان جہاد میں جہاد کا موقع عطا کرنے کے لیے شب و روز تلواریں بناتے ہیں، تلوار خریدتے ہوئے ہماری کمپنی کا ٹریڈ مارک یاد رکھیے، ہماری کمپنی کی کوئی شاخ نہیں ہے۔ کہیں ایک بڑا سا بورڈ آویزاں ہو، جلی حروف میں لکھا ہو ''تلوارکنسلٹنٹ'' تلوار خریدنے سے پہلے ہم سے مشورہ کریں۔ کہیں لکھا ہو ''تلوار بروکر'' ہم سستی تلواریں مہیا کرتے ہیں۔ دکان ہو پرانی تلواریں دے کر نئی تلواریں لیجیے۔ ایک تلوار خریدنے پر ایک تیر مفت۔ ہم تلوار بیچتے ہیں سستی اور چلانے کا طریقہ بتاتے ہیں بالکل مفت۔ تلوار کی دنیا میں چار سو سال سے مستند نام، بس تلوار ہم سے خریدیے ہماری بنائی ہوئی تلواروں نے تاریخی معرکوں میں کشتوں کے پشتے لگا دیے تھے، تمام متبرک تلواریں ہماری ساختہ ہیں۔ کنگ ایڈورڈ کے لگڑ دادا ہم سے تلواریں خریدتے تھے، لہٰذا آیندہ صرف ہم سے تلواروں کے لیے رجوع کیجیے۔
معذوروں کے لیے بھی ریشمی لکڑی یا کاغذ ی تلوار خریدیے، نہ پھٹے گی، نہ جلے گی، نہ ٹوٹے گی، تلواروں کے طغرے، تلواروں کے بینر، تلواروں کے قد آدم پوسٹر، اشتہار بازی کے لیے چھوٹی چھوٹی تلواروں کے کھلونے تا کہ بچے اس سے کھیلیں، تلوار کاروان پشاور سے کراچی تک تلوار کی اہمیت وقعت عوام تک پہنچانے کے لیے اس کاروان کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ جگہ جگہ تقاریر، مذاکرے، نغموں، نعروں کے ذریعے تلوار کی اہمیت اجاگر کی جائے گی، تلوار کے لیے ملین مارچ تلوار فیسٹول شرکت کرنے والوں کو قرعہ اندازی کے ذریعے پانچ تلواریں مفت، داخلہ بذریعہ ٹکٹ۔ ٹکٹ سنبھال کر رکھیے۔ پانچ ٹکٹ دکھانے والوں کو تلوار آدھی قیمت پر ملے گی۔ میلے میں پہلے آنے والے کو ایک تلوار مفت۔ پہلے آئیے پہلے پائیے۔ اپنا سرمایہ تلوار کے کاروبار میں لگائیے ہم خرما و ہم ثواب۔ یہ کارخانہ احتجاجی تحریک کے دوران زخمی ہونے والے ورثا کی کفالت کے لیے لگایا جا رہا ہے کاروبار کا کا روبار اور ثواب کا ثواب، دین دنیا ایک ساتھ، محفوظ سرمایہ کاری یہاں بھی وہاں بھی ۔
سوال یہ ہے کہ یہ ذہنیت، یہ مکارانہ تجارتی طریقے، یہ سرمایہ دارانہ رویے، یہ حرص و حسد و ہوس کے دھندے، یہ رویے اس زمانے میں کیوں نہیں تھے اور اس زمانے میں اتنے عام کیوں ہو گئے ہیں؟ قالب کی اس عظیم تبدیلی کا سبب کیا ہے؟ کسی کی اس جانب توجہ ہے یا توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں ہے؟ کون غور کرے گا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا یہ مابعدالطبیعیات کی تبدیلی کے باعث ہے یا اچانک تبدیلی کا عمل شروع ہو گیا ہے؟ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا روایتی تہذیبی سانچے اور جدید سرمایہ دارانہ نظام کے ڈھانچے ایک ہو سکتے ہیں؟ کیا روایات کا پاسدار تہذیبوں کا پروردہ آدمی اس قسم کے گھٹیا طریقے اختیار کر سکتا ہے جو عہد حاضر میں عام ہیں۔
اور تو اور، اب تو حجاب اور برقعے پہننے والے مذہبی لوگ مذہبی رسالوں میں اشتہار شایع کراتے ہیں۔ دیدہ زیب برقعوں، اسکارف، حجاب اور عربی عبایا کا مرکز، برقعہ اور حجاب کا مقصد ستر پوشی ہے نہ کہ آرائش کی نمائش۔ مگر یہ عام ہو رہا ہے۔ فیشن کا دور ہے تو جہاں بینکوں اور سرمایہ داریت کی اسلام کاری ہو گئی وہاں مسلم فیشن میں کیا قباحت؟ انڈونیشیا مسلم خواتین کی فیشن انڈسٹری کا سرخیل بنا جا رہا ہے۔ ایک جانب سعودیہ سے نہایت خوبصورت، جاذبِ نظر، رنگ برنگے عبایا ہزاروں روپے میں فروخت کے لیے آ رہے ہیں۔ اگر سب ہی کا مقصد فیشن اور ''کنزیومر ازم'' ہی ہے تو فرق کیا ہے؟ ایک ''بِکنی'' یا ''اسکرٹ'' فروخت کر کے اسی مقصد کی خدمت میں جتا، آپ اسکارف اور عبایا بیچ کر۔
سوال یہ ہے کہ اگر مسلمان بھی حجاب کے نام پر بے حجابی اور دیدہ زیبی و دل فریبی ہی عام کرتے ہیں اور سرمائے ہی کی خدمت اور اسی میں اضافہ سب کو مطلوب ہے، تب دونوں کو ایک ہی کیوں نہ سمجھا جائے؟