راولپنڈی کے آزاد قاتل

اہم سیاسی و مذہبی شخصیات کا راولپنڈی میں قتل ہونا اور ان کے قاتلوں کا آج تک نہ پکڑا جانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے

پنڈی کے کسی ایک بھی کیس کو آج تک منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ (فوٹو: فائل)

سہ پہر چار بجے کا وقت ہے۔ کمپنی باغ میں ہزاروں انسانوں پر مشتمل ایک جمِ غفیر موجود ہے۔ ایسے میں ایک شخص جلسہ گاہ میں داخل ہوا جس کی آمد پر حاضرین و سامعین کے جذبات و احساسات میں یکدم ایک برقی لہرسی دوڑ گئی، جس کے اسٹیج پر آتے ہی فضا نعروں سے گونج اٹھی۔ صاحبِ صدرِ جلسہ نے حاضرین پر نظر دوڑائی۔ اپنے دونوں ہاتھوں کو فضا میں بلند کرکے حاضرین سے اظہارِ تشکر فرمایا۔

اب جلسے کا باقاعدہ آغاز ہوا چاہتا ہے۔ مولانا عارف اللہ قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے ہیں۔ سامعینِ مجمع احتراماً خاموش کھڑے ہیں۔ تلاوتِ کلامِ بابرکت کے مکمل ہونے کے بعد اب نہ صرف حاضرین بلکہ پوری قوم مدبرانہ انداز اور پُرعزم لہجے میں قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کی تاریخی تقریر سننے کےلیے بے تاب ہورہی ہے۔ تالیوں کی گونج میں میر مجلس کو خوش آمدید کہا جارہا ہے۔ شور تھمتا ہے۔ ایک ٹھہری ہوئی آواز سنائی دیتی ہے ''برادرانِ ملت...''

ٹھائیں، ٹھائیں! پے در پے آنے والی یہ دو آوازیں سماعتوں پر جب پڑیں تو ایک سکتہ طاری ہوگیا۔ پھر چند سیکنڈ بعد ایک اور آواز آئی ''ٹھائیں''۔ اِس تیسری آواز پر مجمع میں بھگدڑ مچ گئی۔ اتنے میں لاؤڈاسپیکر پر کسی کے گرنے کی آواز آئی۔ نظر دوڑائی گئی تو دیکھا کہ پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم اسٹیج پر لہولہان پڑے ہیں۔ اس کے بعد ایک بار پھر متعدد گولیوں کے چلنے کی آوازیں فضا میں گونجنے لگیں۔

کم و بیش وہی وقت ہے۔ راولپنڈی سے براستہ ایم ٹو موٹر وے، ایک گاڑی شہرِ اقتدار کی جانب رواں دواں ہے۔ دورانِ سفر دھیمی مگر دلکش آواز میں کلامِ مبارک کی تلاوت کی جارہی ہے۔ جس سے بذاتِ خود مولانا اور ان کے محافظ، محظوظ ہورہے ہیں کہ دنیائے پردہ سے متشابہہ ایک عجب منظر دیکھنے میں آیا۔ ایک سفید پجیرو، جو پیچھے کافی فاصلے پر موجود تھی، اچانک انتہائی برق رفتاری سے جبلِ استقامت ممبر قومی اسمبلی مولانا محمد اعظم طارق کی گاڑی کو اوورٹیک کرتی ہے اور تھوڑا آگے نکل کر اچانک روڈ کے درمیان چنگھاڑتے ہوئے رکتی ہے۔ جس میں سے خودکار اسلحے سے لیس تین افراد گاڑی رکنے سے قبل ہی چھلانگ لگا کر اترتے ہیں اور تین مختلف سمتوں میں فوری پوزیشن لیتے ہوئے مولانا کی گاڑی پر گولیوں کی بوچھاڑ شروع کردیتے ہیں۔ تین منٹ سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ 40 گولیاں مولانا اعظم طارق کے وجود میں پیوست ہوگئی ہیں اور فضا میں صرف اور صرف گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونج رہی ہے۔

تاریخ نے ایک بار پھر خود کو دہرانے کا ثبوت دیا۔ تقریباً وہی وقت ہے اور جائے مقام بھی۔ جسے کبھی کمپنی باغ کہا جاتا تھا۔ اس وقت درجنوں ہزار سیاسی معتقدین کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر پنڈال میں موجود ہے۔ قیادت کا قافلہ اپنی منزل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ جلسہ گاہ میں بھی ایک شورِ طوفاں برپا ہے۔ نظر گھما کر دیکھا تو چشمِ بینا ناقابلِ یقین منظر دیکھ کر حیراں سی ہوگئی۔ اسلامی دنیا کی پہلی مسلمان خاتون وزیرِاعظم کا خطاب پانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بار پھر اپنے جیالوں سے اظہارِ محبت کےلیے گاڑی کی چھت سے باہر تشریف لارہی ہیں اور آپ اپنے تمام جاں نثاران کی جانب سے ملنے والی بیش بہا عقیدت و محبت کا جواب دے رہی ہیں۔ یہ منظر آج بھی ایک سنہری عکس کی مانند تاریخ کے اوراق میں اسی تازہ احساس کے ساتھ محفوظ ہے۔ اسی شور شرابے میں اچانک دبی ہوئی آواز میں گولیاں چلنے کی آواز سنائی دیتی ہے اور ساتھ ہی صورِ اسرافیل کی مانند زوردار دھماکا ہوجاتا ہے، جو قیامت کا سا نقشہ کھینچ کر رکھ دیتا ہے۔ جب تک ہوش و حواس قابو میں آتے ہیں، تب تک پتہ چلتا ہے کہ دخترِ مشرق لہو میں لت پت ہوکر گاڑی کے اندر گرچکی ہیں۔


کاش کے یہ سلسلہ تھم سکتا۔ لیکن قادرِ قدیر کو شاید یہ منظور نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ملک الموت نے وقت اور جگہ کا تعین ازل سے ہی طے کر رکھا ہے، بدلتے ہیں تو صرف اس کے شکار۔ اس بار اس نے عارضۂ قلب میں مبتلا ایک 83 سالہ بوڑھے شخص کا انتخاب کیا۔ ناموسِ رسالت کے قانون کے تحت سزائے موت پانے والی خاتون آسیہ مسیح کی رہائی کے خلاف ملک بھر بالخصوص شہر اقتدار میں دھرنوں کا سلسلہ عروج پر ہے۔ دوسری جانب امریکا اور طالبان کے مابین مذاکراتی عمل جاری ہے۔ ایسے میں راولپنڈی کے ایک گھر میں پاکستان کے مشہو عالمِ دین، سیاست دان اور عظیم مذہبی اسکالر مولانا سمیع الحق آرام فرما رہے ہیں۔ ان کے محافظ اور ملازم گھر سے باہر موجود ہیں۔ مولانا عصر کی نماز سے فراغت کے بعد بستر پر لیٹے تسبیح میں مصروف ہیں کہ اچانک ایک شخص کمرے میں داخل ہوتا ہے اور تجربہ کار قصاب کی مانند مولانا کے سینے اور قلب پر پے در پے خنجر سے وار کرنے لگتا ہے۔ اس کے ماہرانہ حملے کے باعث مولانا کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ جب مولانا کے خادم کمرے میں مولانا کو نمازِ مغرب کی اطلاع دینے آئے تو دیکھتے ہیں کہ مولانا سمیع الحق سرتاپا خون میں نہاچکے ہیں۔

ان تمام تر واقعات کا انجام کیا ہوا، یہ ہم سب کے علم میں ہے۔ لیکن راقم، قارئین کی توجہ جس نکتے پر مبذول کروانا چاہتا ہے وہ بظاہر بہت چھوٹی سی بات ہے۔ لیکن یہ بات اپنے آپ میں کئی سوالات چھپائے رکھتی ہے۔ ''پنڈی شہر اور اس کے آزاد قاتل''۔

پاکستان کی انتہائی اہم سیاسی و مذہبی شخصیات کا راولپنڈی میں قتل ہونا اور ان کے قاتلوں کا آج تک نہ پکڑا جانا اپنے آپ میں کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ہر واقعے کی ٹائمنگ غور کرنے والی ہے۔ قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان پر گولیاں چلانے والا سید اکبر تو بس ایک شقی القلب مہرہ تھا، اصل قاتل تو اس کے پیچھے پوشیدہ تھے، ان کا آج تک پتہ نہ چل سکا۔ ممبر قومی اسمبلی مولانا محمد اعظم طارق کے قاتل وہ تربیت یافتہ دہشت گرد نہیں تھے جنہوں نے ان پر سیکڑوں گولیاں برسائیں۔ بلکہ اصل قاتل وہ ہیں جو آج بھی ملک میں کہیں نہ کہیں دندناتے پھررہے ہیں۔ قائد عوام کی سیاسی خلافت کی حقیقی حقدار محترمہ بے نظیر بھٹو پر گولیاں چلانے والا کٹھ پتلی خودکش بمبار، اس کی ڈوریاں کن ہاتھوں میں تھیں، اس کا پتہ آج تک نہ لگ سکا۔ جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ، چیئرمین پاکستان دفاع کونسل مولانا سمیع الحق کا قتل اپنے آپ میں ایک پیچیدہ سوال بن کر رہ گیا ہے۔ وہ شخص کون تھا جو گھر میں داخل ہوا، قتل کیا اور پھر ایسا فرار ہوا کہ کوئی کیمرے کی آنکھ اسے محفوظ نہ کرسکی۔

قائد ملت تا مولانا سمیع الحق۔ ایک شہر اتنی زندگیاں آخر کیسے نگل گیا؟ راولپنڈی کے کسی ایک بھی کیس کو آج تک منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکا؟ کیا راولپنڈی شہر ایک سیاسی مقتل بن چکا ہے؟ آخر راولپنڈی ہی کیوں؟ مجھے آج تک ان سوالات کا جواب نہیں مل سکا۔ رب ذوالجلال سے یہی التجا ہے کہ کاش! یہاں پھر کبھی کوئی مقتل نہ سجے۔ کاش! راولپنڈی کی سرزمین کسی کے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کا ہدف نہ بن سکے۔ کاش... اے کاش!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story