سیاست کے کاروبار
ہمارے پاکستان میں پاک سر زمین شاد باد میں ’’سیاست‘‘ چند بڑے کاروباروں میں شامل ہے۔
ہمارے ملک پاکستان میں اب یہ بات پکی ہوچکی ہے، تسلیم کی جاچکی ہے کہ سیاست ''کاروبار'' ہے۔ چھانگا مانگا کے جنگلات گواہ ہیں، جہاں اسمبلی ممبران کو یرغمال بنا کر رکھا گیا، پھر ان ممبران کو گاڑیوں میں بھر کر اسمبلی لایا گیا اور مغویوں کے ووٹ کھلم کھلا اپنے حق میں ڈلوائے گئے۔
سینیٹ کے انتخابات میں آج ممبران کی بولی کروڑوں روپوں تک پہنچ چکی ہے اورکروڑوں روپے اپنے انتخابات پر خرچ کرکے اسمبلیوں میں پہنچنے والے ممبران اپنی '' بولی '' لگوا کر اپنے انتخابی اخراجات پورے کرتے ہیں اور پھر پانچ سال خوب منافع کماتے ہیں۔ ہمارے پاکستان میں پاک سر زمین شاد باد میں ''سیاست'' چند بڑے کاروباروں میں شامل ہے۔ اس کاروبار میں شریک '' لوگ '' انسانوں کو قتل کروا دیتے ہیں۔ تیل کے کھولتے کڑا میں زندہ انسانوں کو ڈال دیتے ہیں، دہکتے بٹھوں میں پھینک دیتے ہیں، بستی کی بستیاں جلا ڈالتے ہیں۔
اپنے ''سیاسی کاروبار'' کی بڑھوتری یعنی ترقی کے لیے رب ، رسول کو بھی نہیں بخشتے اور جھوٹا پروپیگنڈا کرکے رب ، رسول کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں اور گلی گلی، شہر شہر بات پھیلا دیتے ہیں کہ ''اسلام خطرے میں ہے'' حالانکہ یہ سیاہ کرتوت کرنیوالے خود خطرے میں ہوتے ہیں ، ان کے محل ماڑیاں خطرے میں ہوتے ہیں، ان کا کالا دھن خطرے میں ہوتا ہے ، ان کے بینک اور تجوریاں خطرے میں ہوتی ہیں۔ فتویٰ فروش مولوی حضرات ''سیاسی کاروبار'' والوں کے ساتھ بطور معاون شامل ہوتے ہیں۔ یہ دین فروش ، یہ فتویٰ فروش ، یہ اسلام دشمن ہر دورے میں رہے ہیں۔ دنیا چند روزکی ہے اور یہ پل دو پل کے عیش و آرام کی خاطر ، سیاسی کاروبار والوں کے سامنے جھک جاتے، دب جاتے اور بھول جاتے ہیں کہ آخر سب نے مر جانا ہے۔ جنرل ایوب کے زمانے میں بڑے کاروباری خاندانوں کی تعداد 20 تھی جو آج بڑھ کر 20لاکھ ہو چکی ہے۔
یہ ''سیاست کا کاروبار'' اتنا زبردست اور فائدے والا ہے کہ آج موجودہ اسمبلیوں میں دیکھ لیں، ان ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ میں ان کی تیسری یا چوتھی ''پیڑی'' بیٹھی ہے۔ جنرل ایوب کے بعد ان کا بیٹا گوہر ایوب اسمبلی میں آیا اور آج جنرل ایوب کا پوتا عمر ایوب اسمبلی میں بیٹھا ہے۔ مولانا مفتی محمود علما حق میں شامل تھے ساری زندگی بڑی صاف ستھری گزاری، آج مفتی محمود کے بیٹے مولانا فضل الرحمن اور مفتی صاحب کا پوتا قومی اسمبلی میں اپنے چچا کے ساتھ بیٹھا ہے۔ مسلم لیگیوں کی تو کیا بات ہے۔
پہلے اپنے قائد اعظم کی دو تین باتیں سن لیں۔ جب قائد اعظم زیارت بلوچستان میں شدید ترین علالت کے دن گزار رہے تھے ایک دن انھوں نے اپنی نرس سے پوچھا ''میں تمہاری کوئی خدمت کر سکتا ہوں تو بتاؤ؟'' نرس نے گورنر جنرل پاکستان سے کہا ''میرا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے، مگر مجھے بلوچستان بھیج دیا گیا ہے آپ میرا تبادلہ پنجاب کروا دیں۔'' قائد اعظم نے نرس کی بات سن کر کہا ''تبادلے کا کام متعلقہ وزارت کا ہے اور میں کسی ادارے کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتا۔'' ایک اور واقعہ بھی سن لیں ''قائد اعظم کی ایمبولینس ماڑی پور کراچی کی سنسان سڑک پر کھڑی تھی، ایمبولینس میں پٹرول ختم ہو گیا تھا، قائد اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح کا سہارا لے کر لیٹے ہوئے تھے کہ ایئرمارشل اصغر خان آ گئے، ایئر مارشل اصغر خان تب فلائنگ آفیسر تھے، اصغر خان کو دیکھ کر قائد نے ان سے پوچھا ''تم کون ہو؟'' اصغر خان صاحب نے جواب دیا ''میں ایئر فورس میں فلائنگ آفیسر ہوں۔'' قائد نے جواب سن کر فلائنگ آفیسر اصغر خان سے کہا ''تم واپس جاؤ، یہ تمہارا کام نہیں ہے، یہ جن کا کام ہے انھیں آنے دو۔''
ایک مسلم لیگی احمد سعید کرمانی ہوتے تھے، جنھوں نے بابائے مزدوراں مرزا ابراہیم کے مد مقابل اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا اور ہار گئے تھے، انتخابی نتیجے کا اعلان ریڈیو پاکستان سے نشر ہو گیا تھا، جس میں مرزا ابراہیم کی جیت اور احمد سعید کرمانی کی شکست کا اعلان ہو چکا تھا، مگر شام ہوتے ہوتے نتیجہ بدل دیا گیا اور احمد سعید کرمانی کی فتح کا اعلان کر دیا گیا، انھی احمد سعید کرمانی صاحب کا بیٹا آصف کرمانی آج پارلیمنٹ کا ممبر ہے۔ سیالکوٹ کے خواجہ صفدر صاحب بڑے نیک انسان تھے ، آج ان کا بیٹا خواجہ آصف پارلیمنٹ کا ممبر ہے۔ جھنگ کے بڑے جاگیردار کرنل عابد حسین کی بیٹی بیگم عابدہ حسین اپنے خاوند خانیوال کے فخر امام بھی ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ صوبہ پنجاب کے تمام بڑے خاندان، راجے، بُچے، چیمے، چٹھے، ترین، ٹوانے وغیرہ کے ''ہونہار'' سب آج کی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں اور ''سیاسی کاروبار'' سب کا خوب چل رہا ہے۔
جنوبی پنجاب کے مخدوم (رحیم یار خان) کھوسہ خاندان اور مزارات کے متولی حضرات شاہ محمود قریشی اور اب ان کے بیٹے بھی۔ سابق وزیر اعظم ملتان شریف کی درگاہ اندرون حرم گیٹ کے متولی گیلانی صاحب (پورا نام یاد نہیں آ رہا) اور اب ان کے بیٹے بھی، جہانگیر ترین اور اب ان کے بھی بیٹے، میاں نواز شریف اور اب ان کی بیٹی مریم نواز، میاں شہباز شریف اور ان کے بیٹے میاں حمزہ شہباز، ایک اور بھی تماشہ ہو رہا ہے۔
جنرل عمر کے بیٹے محمد زبیر سابق گورنر سندھ اور ان کے بھائی اسد عمر۔ ایک بھائی مسلم لیگ (ن) میں، دوسرا بھائی تحریک انصاف میں یعنی ''چت بھی اپنی اور پٹ بھی اپنی'' یہ چت بھی اپنی پٹ بھی اپنی والے کھیل پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، سندھ کے سید قمر علی شاہ کے بعد ان کے بیٹے نوید قمر، قائم علی شاہ اور ان کی بیٹی نفیسہ شاہ، طالب المولیٰ ان کے بعد ان کے دو فرزند مخدوم امین فہیم، مخدوم خلیق الزماں اور ایک تیسرے بھی اور اب ان کے پوتے بھی اسمبلیوں میں ہیں۔ یہ سب اور ان جیسے اور بھی سب سیاست کو کاروبار سمجھ کر میدان میں اترتے ہیں اور انھی سب نے غریبوں کے منہ کا نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ ''سیاسی کاروبار'' آج بھی زوروں پر ہے۔
ابھی کی بات ہے سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد پیش ہوئی، ووٹنگ سے پہلے 64 اراکین نے کھڑے ہو کر علی الاعلان اپنی وفاداری کا برملا اظہار کیا اور جب خفیہ رائے شماری ہوئی تو 64 کی بجائے صندوقچی سے 50 ووٹ نکلے۔ یعنی 14 ووٹ بک گئے۔ یہ ابھی کل کی ہی بات ہے۔ عوام ہیں کہ بھوکے مر رہے ہیں، انھیں بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں، عام آدمی کے بچے تعلیم سے محروم ہیں، بغیر دوا دارو مر جاتے ہیں اور سیاسی کاروباری حضرات نے اندرون اور بیرون ملک جائیدادیں بنا رکھی ہیں، بینک بھر رکھے ہیں اور ان کو کوئی مائی کا لعل روکنے والا نہیں۔ مگر اب وقت آگیا ہے یوم حساب آن پہنچا ہے۔ اور یہ حساب عوام لیں گے۔
اب ظالم اور مظلوم کے بیچ لکیر کھنچ کر رہے گی۔ شاعر نصرت صدیقی لائل پور والے کا شعر سامنے آچکا ہے۔ اس شعر کے تحت لکیر کھنچے گی شعر سنیے اور اسے اپنی روحوں کا غم بنالیں۔ اسے متاع ہستی سمجھ کر گلی گلی گھوم جائیں، اب باپ بیٹے، بھائیوں کے درمیان بھی لکیر کھنچے گی۔ شعر سنیے:
ایک ظلم کرتا ہے، ایک ظلم سہتا ہے
آپ کا تعلق ہے کون سے گھرانے سے
یہ نصیب نصیب کی بات ہے کہ ایسا بولتا ہوا شعر نصرت صدیقی کے حصے میں آگیا۔ فیصلے کی اس گھڑی میں شاعروں ادیبوں کو بھی فیصلہ کرنا ہوگا، سرکار، دربار سے ناتا توڑنا ہوگا اور اپنے قلم کو خالد علیگ کا قلم بنانا ہوگا۔ عوامی ، انقلابی شاعر صحافی خالد علیگ مرحوم کا لافانی شعر ہے:
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا، یا ہاتھ قلم رکھنا
قاتل، ڈاکو، لٹیروں کے پاس موقع ہے۔ اپنا لوٹا ہوا مال عوام کو لوٹا دیں، ''بس اسی میں تری مکتی ہے۔''
سینیٹ کے انتخابات میں آج ممبران کی بولی کروڑوں روپوں تک پہنچ چکی ہے اورکروڑوں روپے اپنے انتخابات پر خرچ کرکے اسمبلیوں میں پہنچنے والے ممبران اپنی '' بولی '' لگوا کر اپنے انتخابی اخراجات پورے کرتے ہیں اور پھر پانچ سال خوب منافع کماتے ہیں۔ ہمارے پاکستان میں پاک سر زمین شاد باد میں ''سیاست'' چند بڑے کاروباروں میں شامل ہے۔ اس کاروبار میں شریک '' لوگ '' انسانوں کو قتل کروا دیتے ہیں۔ تیل کے کھولتے کڑا میں زندہ انسانوں کو ڈال دیتے ہیں، دہکتے بٹھوں میں پھینک دیتے ہیں، بستی کی بستیاں جلا ڈالتے ہیں۔
اپنے ''سیاسی کاروبار'' کی بڑھوتری یعنی ترقی کے لیے رب ، رسول کو بھی نہیں بخشتے اور جھوٹا پروپیگنڈا کرکے رب ، رسول کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں اور گلی گلی، شہر شہر بات پھیلا دیتے ہیں کہ ''اسلام خطرے میں ہے'' حالانکہ یہ سیاہ کرتوت کرنیوالے خود خطرے میں ہوتے ہیں ، ان کے محل ماڑیاں خطرے میں ہوتے ہیں، ان کا کالا دھن خطرے میں ہوتا ہے ، ان کے بینک اور تجوریاں خطرے میں ہوتی ہیں۔ فتویٰ فروش مولوی حضرات ''سیاسی کاروبار'' والوں کے ساتھ بطور معاون شامل ہوتے ہیں۔ یہ دین فروش ، یہ فتویٰ فروش ، یہ اسلام دشمن ہر دورے میں رہے ہیں۔ دنیا چند روزکی ہے اور یہ پل دو پل کے عیش و آرام کی خاطر ، سیاسی کاروبار والوں کے سامنے جھک جاتے، دب جاتے اور بھول جاتے ہیں کہ آخر سب نے مر جانا ہے۔ جنرل ایوب کے زمانے میں بڑے کاروباری خاندانوں کی تعداد 20 تھی جو آج بڑھ کر 20لاکھ ہو چکی ہے۔
یہ ''سیاست کا کاروبار'' اتنا زبردست اور فائدے والا ہے کہ آج موجودہ اسمبلیوں میں دیکھ لیں، ان ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ میں ان کی تیسری یا چوتھی ''پیڑی'' بیٹھی ہے۔ جنرل ایوب کے بعد ان کا بیٹا گوہر ایوب اسمبلی میں آیا اور آج جنرل ایوب کا پوتا عمر ایوب اسمبلی میں بیٹھا ہے۔ مولانا مفتی محمود علما حق میں شامل تھے ساری زندگی بڑی صاف ستھری گزاری، آج مفتی محمود کے بیٹے مولانا فضل الرحمن اور مفتی صاحب کا پوتا قومی اسمبلی میں اپنے چچا کے ساتھ بیٹھا ہے۔ مسلم لیگیوں کی تو کیا بات ہے۔
پہلے اپنے قائد اعظم کی دو تین باتیں سن لیں۔ جب قائد اعظم زیارت بلوچستان میں شدید ترین علالت کے دن گزار رہے تھے ایک دن انھوں نے اپنی نرس سے پوچھا ''میں تمہاری کوئی خدمت کر سکتا ہوں تو بتاؤ؟'' نرس نے گورنر جنرل پاکستان سے کہا ''میرا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے، مگر مجھے بلوچستان بھیج دیا گیا ہے آپ میرا تبادلہ پنجاب کروا دیں۔'' قائد اعظم نے نرس کی بات سن کر کہا ''تبادلے کا کام متعلقہ وزارت کا ہے اور میں کسی ادارے کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتا۔'' ایک اور واقعہ بھی سن لیں ''قائد اعظم کی ایمبولینس ماڑی پور کراچی کی سنسان سڑک پر کھڑی تھی، ایمبولینس میں پٹرول ختم ہو گیا تھا، قائد اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح کا سہارا لے کر لیٹے ہوئے تھے کہ ایئرمارشل اصغر خان آ گئے، ایئر مارشل اصغر خان تب فلائنگ آفیسر تھے، اصغر خان کو دیکھ کر قائد نے ان سے پوچھا ''تم کون ہو؟'' اصغر خان صاحب نے جواب دیا ''میں ایئر فورس میں فلائنگ آفیسر ہوں۔'' قائد نے جواب سن کر فلائنگ آفیسر اصغر خان سے کہا ''تم واپس جاؤ، یہ تمہارا کام نہیں ہے، یہ جن کا کام ہے انھیں آنے دو۔''
ایک مسلم لیگی احمد سعید کرمانی ہوتے تھے، جنھوں نے بابائے مزدوراں مرزا ابراہیم کے مد مقابل اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا اور ہار گئے تھے، انتخابی نتیجے کا اعلان ریڈیو پاکستان سے نشر ہو گیا تھا، جس میں مرزا ابراہیم کی جیت اور احمد سعید کرمانی کی شکست کا اعلان ہو چکا تھا، مگر شام ہوتے ہوتے نتیجہ بدل دیا گیا اور احمد سعید کرمانی کی فتح کا اعلان کر دیا گیا، انھی احمد سعید کرمانی صاحب کا بیٹا آصف کرمانی آج پارلیمنٹ کا ممبر ہے۔ سیالکوٹ کے خواجہ صفدر صاحب بڑے نیک انسان تھے ، آج ان کا بیٹا خواجہ آصف پارلیمنٹ کا ممبر ہے۔ جھنگ کے بڑے جاگیردار کرنل عابد حسین کی بیٹی بیگم عابدہ حسین اپنے خاوند خانیوال کے فخر امام بھی ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ صوبہ پنجاب کے تمام بڑے خاندان، راجے، بُچے، چیمے، چٹھے، ترین، ٹوانے وغیرہ کے ''ہونہار'' سب آج کی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں اور ''سیاسی کاروبار'' سب کا خوب چل رہا ہے۔
جنوبی پنجاب کے مخدوم (رحیم یار خان) کھوسہ خاندان اور مزارات کے متولی حضرات شاہ محمود قریشی اور اب ان کے بیٹے بھی۔ سابق وزیر اعظم ملتان شریف کی درگاہ اندرون حرم گیٹ کے متولی گیلانی صاحب (پورا نام یاد نہیں آ رہا) اور اب ان کے بیٹے بھی، جہانگیر ترین اور اب ان کے بھی بیٹے، میاں نواز شریف اور اب ان کی بیٹی مریم نواز، میاں شہباز شریف اور ان کے بیٹے میاں حمزہ شہباز، ایک اور بھی تماشہ ہو رہا ہے۔
جنرل عمر کے بیٹے محمد زبیر سابق گورنر سندھ اور ان کے بھائی اسد عمر۔ ایک بھائی مسلم لیگ (ن) میں، دوسرا بھائی تحریک انصاف میں یعنی ''چت بھی اپنی اور پٹ بھی اپنی'' یہ چت بھی اپنی پٹ بھی اپنی والے کھیل پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، سندھ کے سید قمر علی شاہ کے بعد ان کے بیٹے نوید قمر، قائم علی شاہ اور ان کی بیٹی نفیسہ شاہ، طالب المولیٰ ان کے بعد ان کے دو فرزند مخدوم امین فہیم، مخدوم خلیق الزماں اور ایک تیسرے بھی اور اب ان کے پوتے بھی اسمبلیوں میں ہیں۔ یہ سب اور ان جیسے اور بھی سب سیاست کو کاروبار سمجھ کر میدان میں اترتے ہیں اور انھی سب نے غریبوں کے منہ کا نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ ''سیاسی کاروبار'' آج بھی زوروں پر ہے۔
ابھی کی بات ہے سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد پیش ہوئی، ووٹنگ سے پہلے 64 اراکین نے کھڑے ہو کر علی الاعلان اپنی وفاداری کا برملا اظہار کیا اور جب خفیہ رائے شماری ہوئی تو 64 کی بجائے صندوقچی سے 50 ووٹ نکلے۔ یعنی 14 ووٹ بک گئے۔ یہ ابھی کل کی ہی بات ہے۔ عوام ہیں کہ بھوکے مر رہے ہیں، انھیں بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں، عام آدمی کے بچے تعلیم سے محروم ہیں، بغیر دوا دارو مر جاتے ہیں اور سیاسی کاروباری حضرات نے اندرون اور بیرون ملک جائیدادیں بنا رکھی ہیں، بینک بھر رکھے ہیں اور ان کو کوئی مائی کا لعل روکنے والا نہیں۔ مگر اب وقت آگیا ہے یوم حساب آن پہنچا ہے۔ اور یہ حساب عوام لیں گے۔
اب ظالم اور مظلوم کے بیچ لکیر کھنچ کر رہے گی۔ شاعر نصرت صدیقی لائل پور والے کا شعر سامنے آچکا ہے۔ اس شعر کے تحت لکیر کھنچے گی شعر سنیے اور اسے اپنی روحوں کا غم بنالیں۔ اسے متاع ہستی سمجھ کر گلی گلی گھوم جائیں، اب باپ بیٹے، بھائیوں کے درمیان بھی لکیر کھنچے گی۔ شعر سنیے:
ایک ظلم کرتا ہے، ایک ظلم سہتا ہے
آپ کا تعلق ہے کون سے گھرانے سے
یہ نصیب نصیب کی بات ہے کہ ایسا بولتا ہوا شعر نصرت صدیقی کے حصے میں آگیا۔ فیصلے کی اس گھڑی میں شاعروں ادیبوں کو بھی فیصلہ کرنا ہوگا، سرکار، دربار سے ناتا توڑنا ہوگا اور اپنے قلم کو خالد علیگ کا قلم بنانا ہوگا۔ عوامی ، انقلابی شاعر صحافی خالد علیگ مرحوم کا لافانی شعر ہے:
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا، یا ہاتھ قلم رکھنا
قاتل، ڈاکو، لٹیروں کے پاس موقع ہے۔ اپنا لوٹا ہوا مال عوام کو لوٹا دیں، ''بس اسی میں تری مکتی ہے۔''