اندھوں کے شہر میں آئینے کی فروخت
سیل لگی ہوئی ہے، ہم یہ سوچتے ہی نہیں کہ ہمیں کپڑوں کی واقعی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟
آج کل سوشل میڈیا میں '' ٹک ٹاک'' بہت مقبول ہے،گوکہ اس کے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں، لیکن بعض اوقات ویڈیو کلپس میں پیغام پوشیدہ ہوتا ہے، ایسے ہی ایک '' ٹک ٹاک'' میں نہایت قابل غور پیغام دیا گیا جوکچھ یوں تھا۔
''بھائی صاحب! یہ کیا ہورہا ہے؟''وہ اداکار جس نے کبھی اٹھ کر پانی نہیں پیا، وہ چائے بنا رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ اچھی چائے کونسی ہے، وہ مشہور اداکارہ جس نے کبھی گھرمیں جھاڑونہیں اٹھائی وہ گھر بھرکے کپڑے دھوکر بتا رہی ہے کہ کون سا واشنگ پاؤڈراچھی دھلائی دیتا ہے۔ اداکاروں کی وہ جوڑی جس نے زندگی میں کبھی کچن میں قدم نہیں رکھا، وہ اچھے کھانے پکانے کے راز بتا رہی ہے کہ کس آئل میں پکائیں توکھانا مزے دار بنے گا۔
ایک اشتہار میں کروڑ پتی اداکار جو اپنی گاڑی بھی خود نہیں چلاتا ،کچن میں برتن دھو دھوکر اورگا گا کر کہہ رہا ہے کہ کس سے برتن صاف دھو لیتے ہیں۔
بھائی صاحب یہ سب کس کو پاگل بنارہے ہیں؟
اندھوں کے شہر میں آئینے فروخت کیے جارہے ہیں اور اندھے ہیں کہ لیے جا رہے ہیں۔
مذکورہ بالا پیغام موجودہ دورکے ایک اہم ترین مسئلہ کو بیان کررہا ہے کہ اشیاء بنا کر فروخت کرنے والے اپنے اشتہارورں میں بڑی بڑی نامور شخصیات کو پیش کر رہے ہیں ،کسی پروڈکٹ میں کوئی نامور کھلاڑی عوام کو بتارہا ہے کہ میں بھی یہ پروڈکٹ استعمال کرتا ہوں،آپ بھی کریں،کوئی اداکار یا اداکارہ بھی ایسے ہی دعوے کرتے نظرآ رہی ہے اور رہے ماڈلز وہ اپنی اداؤں سے عوام کو پاگل بنا رہے ہیں کہ اگر آپ نے اس پروڈکٹ کے مزے نہ لیے تو زندگی میں کچھ نہ کیا، جیسے لاہورکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ''جنے لہور نہیں ویکھیا او جمیا نئیں'' یوں یہ سب کے سب ملکر عوام کو مجبورکردیتے ہیں کہ عوام وہ سب کچھ خرید لیںجو اشتہار بتایا گیا ہے اور مشہور ومعروف شخصیت عوام کو اشیاء خریدنے کا پیغام دے رہی ہے۔
اب یہ عوام ہماری تیسری دنیا یعنی غربت کے مارے عوام ہوں یا امریکا جیسی ترقی یافتہ ملک کی عوام ہو ہرجگہ کے عوام میڈیا کے آگے ایسی ہی بھولی بھالی بن جاتی ہے کہ اسے دنیا کا کچھ پتا ہی نہیں بس جوکچھ میڈیا پر بتایا جا رہا ہے وہی سچ اور بہتر ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا میں جب ٹی وی کی نشریات شروع ہوئیں تو لپ اسٹک بنانے والی ایک کمپنی نے اپنی ''سیل'' بڑھانے کے لیے ٹی وی پر اشتہار دیے یوں اس کا سالانہ منافع جو پہلے ہزاروں ڈالر میں ہوتا تھا، اشتہارات کے بعد لاکھوں میں ہونے لگا۔گویا ان اشتہارات میں آنے والی ماڈلز نے جب امریکی خواتین کو یہ تاثر دیا کہ ''جنے لپ اسٹک نئی لائی او جمی نئیں'' تو لپ اسٹک کی فروخت میں کئی سو فیصد اضافہ ہوگیا۔
امریکی مصنف گرانٹ ڈیوڈ اپنی کتاب ''کنزیومر ریولیشن'' میں لکھتا ہے کہ صنعتی انقلاب سے قبل ضرورت انسان کو بتاتی تھی کہ اس نے کیا کچھ خریدنا ہے مگر اس انقلاب کے بعد صنعت کاروں نے جب اپنی اشیاء کو بہت بڑی تعداد میں تیارکرلیا تو اس کو فروخت کرنے کے لیے اشتہارات کا سہارا لیا ،چنانچہ اب عوام کو میڈیا یہ بتاتا ہے کہ ان کی ضرورت کیا ہے اور لوگ میڈیا سے متاثر ہوکر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ان کی ضرورت وہی ہے جو میڈیا بتا رہا ہے۔ گویا پہلے ''ضرورت'' انسان کو بتاتی تھی کہ اس کوکیا خریدنا ہے لیکن اب ''میڈیا '' یہ بتاتا ہے کہ انسان کی ضرورت کیا ہے؟ اور اس کوکیا خریدنا ہے؟
گرانٹ ڈیوڈ اس تناظر میں لکھتا ہے کہ لوگ جس کو صنعتی انقلاب کہتے ہیں، وہ دراصل ''صارف انقلاب'' ہے یعنی ''کنزیومر ریولوشن، ایک ایسا انقلاب جس میں صارف یا کنزیومرز پیدا کیے گئے۔
گرانٹ ڈیوڈ کی یہ بات اکثر اس وقت دل کو لگتی ہے جب ہم کسی شاپنگ مال میں خریداری کرنے کے لیے جائیں،کبھی گروسری آئیٹم خریدنے ہوتے ہیں مگر بچے اپنی پسند کی اشیاء اٹھا لیتے ہیں اب بچوں کو کیسے کنٹرول کریں؟ بچے جوکچھ اشتہارات میں دیکھتے ہیں۔
اس کا ضرورت سے کچھ زیادہ ہی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔(امریکا میں ہیلری نے بچوں پر اشتہارات سے متعلق ایک تحقیق کے بعد لکھا کہ اشتہارات دیکھنے والے بچوں پر والدین کی نصیحت بے اثر ہوتی ہے وہ اپنی مرضی کے آگے والدین کی نصیحت کو خاطر میں نہیں لاتے۔) اسی طرح جب ہم جوتے خریدنے کے لیے شاپنگ مال میں داخل ہوتے ہیں لیکن جب باہر نکلتے ہیں توہاتھ میں ایک شاپرجوتے کا تو دوسرا پینٹ شرٹس کا ہوتا ہے۔
ہم سیل کا اشتہار دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ چلوکپڑے لے لیتے ہیں سستے مل رہے ہیں،سیل لگی ہوئی ہے، ہم یہ سوچتے ہی نہیں کہ ہمیں کپڑوں کی واقعی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟یوں ہمیں ایسے موقعوں پرگرانٹ ڈیوڈ کی بات درست لگتی ہے کہ پہلے ضرورت یہ بتاتی تھی کہ ہمیں کیا خریدنا ہے لیکن اب میڈیا اور اشتہارات بتاتے ہیں کہ ہمیں کیا خریدنا ہے۔ بات تویہ بہت معمولی سی لگتی ہے مگر اس سے عام لوگوں کے گھرکے ماہانہ بجٹ پر اثر بھی پڑتا ہے اورگھریلو زندگی بھی متاثر ہوجاتی ہے، یعنی شاپنگ کے بعد تنخواہ دار شخص کو مہینے کے آخری روزگزار نا مشکل ہوجاتے ہیں کہ وہ گاڑی میں پٹرول ڈلوانے کے لیے کس سے ادھار مانگے یا بیوی پیسے مانگے توکہاں سے دے؟ اور اگر بیوی ناراض ہوجائے تو بھی گھریلو ناچاقی کے چانس الگ!
یوں دیکھا جائے تو اس سارے ''گھن چکر'' سے اشیاء بنانے والے، اشتہار بنانے والے اور اس میں آنے والے اداکار، ماڈلزسب دولت کماکر خوشحال ہوتے جاتے ہیں مگر عوام خاص کر ملازم پیشہ مڈل کلاس بے حال اور بد حال ہوتے چلے جاتے ہیں،مگر حیرت یہ ہے کہ یہ سب کام دن رات چل رہا ہے اور خوب چل رہا ہے، میڈیا پر اشتہارات چل رہے ہیں،جن میں مشہور''سیلیبرٹیس، آ، آ کر ایسے آئینے فروخت کر رہی ہیں جن کی ضرورت عوام کو قطعی نہیں، مگرکمال یہی ہے کہ اندھوں کے شہر میں آئینے فروخت کیے جا رہے ہیں، شاید عوام اندھے ہیں؟ اور فروخت کرنے والے کیا کمال کے ہیں کہ اندھوں کوآئینے کامیابی سے فروخت بھی کررہی ہیں۔
''بھائی صاحب! یہ کیا ہورہا ہے؟''وہ اداکار جس نے کبھی اٹھ کر پانی نہیں پیا، وہ چائے بنا رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ اچھی چائے کونسی ہے، وہ مشہور اداکارہ جس نے کبھی گھرمیں جھاڑونہیں اٹھائی وہ گھر بھرکے کپڑے دھوکر بتا رہی ہے کہ کون سا واشنگ پاؤڈراچھی دھلائی دیتا ہے۔ اداکاروں کی وہ جوڑی جس نے زندگی میں کبھی کچن میں قدم نہیں رکھا، وہ اچھے کھانے پکانے کے راز بتا رہی ہے کہ کس آئل میں پکائیں توکھانا مزے دار بنے گا۔
ایک اشتہار میں کروڑ پتی اداکار جو اپنی گاڑی بھی خود نہیں چلاتا ،کچن میں برتن دھو دھوکر اورگا گا کر کہہ رہا ہے کہ کس سے برتن صاف دھو لیتے ہیں۔
بھائی صاحب یہ سب کس کو پاگل بنارہے ہیں؟
اندھوں کے شہر میں آئینے فروخت کیے جارہے ہیں اور اندھے ہیں کہ لیے جا رہے ہیں۔
مذکورہ بالا پیغام موجودہ دورکے ایک اہم ترین مسئلہ کو بیان کررہا ہے کہ اشیاء بنا کر فروخت کرنے والے اپنے اشتہارورں میں بڑی بڑی نامور شخصیات کو پیش کر رہے ہیں ،کسی پروڈکٹ میں کوئی نامور کھلاڑی عوام کو بتارہا ہے کہ میں بھی یہ پروڈکٹ استعمال کرتا ہوں،آپ بھی کریں،کوئی اداکار یا اداکارہ بھی ایسے ہی دعوے کرتے نظرآ رہی ہے اور رہے ماڈلز وہ اپنی اداؤں سے عوام کو پاگل بنا رہے ہیں کہ اگر آپ نے اس پروڈکٹ کے مزے نہ لیے تو زندگی میں کچھ نہ کیا، جیسے لاہورکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ''جنے لہور نہیں ویکھیا او جمیا نئیں'' یوں یہ سب کے سب ملکر عوام کو مجبورکردیتے ہیں کہ عوام وہ سب کچھ خرید لیںجو اشتہار بتایا گیا ہے اور مشہور ومعروف شخصیت عوام کو اشیاء خریدنے کا پیغام دے رہی ہے۔
اب یہ عوام ہماری تیسری دنیا یعنی غربت کے مارے عوام ہوں یا امریکا جیسی ترقی یافتہ ملک کی عوام ہو ہرجگہ کے عوام میڈیا کے آگے ایسی ہی بھولی بھالی بن جاتی ہے کہ اسے دنیا کا کچھ پتا ہی نہیں بس جوکچھ میڈیا پر بتایا جا رہا ہے وہی سچ اور بہتر ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا میں جب ٹی وی کی نشریات شروع ہوئیں تو لپ اسٹک بنانے والی ایک کمپنی نے اپنی ''سیل'' بڑھانے کے لیے ٹی وی پر اشتہار دیے یوں اس کا سالانہ منافع جو پہلے ہزاروں ڈالر میں ہوتا تھا، اشتہارات کے بعد لاکھوں میں ہونے لگا۔گویا ان اشتہارات میں آنے والی ماڈلز نے جب امریکی خواتین کو یہ تاثر دیا کہ ''جنے لپ اسٹک نئی لائی او جمی نئیں'' تو لپ اسٹک کی فروخت میں کئی سو فیصد اضافہ ہوگیا۔
امریکی مصنف گرانٹ ڈیوڈ اپنی کتاب ''کنزیومر ریولیشن'' میں لکھتا ہے کہ صنعتی انقلاب سے قبل ضرورت انسان کو بتاتی تھی کہ اس نے کیا کچھ خریدنا ہے مگر اس انقلاب کے بعد صنعت کاروں نے جب اپنی اشیاء کو بہت بڑی تعداد میں تیارکرلیا تو اس کو فروخت کرنے کے لیے اشتہارات کا سہارا لیا ،چنانچہ اب عوام کو میڈیا یہ بتاتا ہے کہ ان کی ضرورت کیا ہے اور لوگ میڈیا سے متاثر ہوکر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ان کی ضرورت وہی ہے جو میڈیا بتا رہا ہے۔ گویا پہلے ''ضرورت'' انسان کو بتاتی تھی کہ اس کوکیا خریدنا ہے لیکن اب ''میڈیا '' یہ بتاتا ہے کہ انسان کی ضرورت کیا ہے؟ اور اس کوکیا خریدنا ہے؟
گرانٹ ڈیوڈ اس تناظر میں لکھتا ہے کہ لوگ جس کو صنعتی انقلاب کہتے ہیں، وہ دراصل ''صارف انقلاب'' ہے یعنی ''کنزیومر ریولوشن، ایک ایسا انقلاب جس میں صارف یا کنزیومرز پیدا کیے گئے۔
گرانٹ ڈیوڈ کی یہ بات اکثر اس وقت دل کو لگتی ہے جب ہم کسی شاپنگ مال میں خریداری کرنے کے لیے جائیں،کبھی گروسری آئیٹم خریدنے ہوتے ہیں مگر بچے اپنی پسند کی اشیاء اٹھا لیتے ہیں اب بچوں کو کیسے کنٹرول کریں؟ بچے جوکچھ اشتہارات میں دیکھتے ہیں۔
اس کا ضرورت سے کچھ زیادہ ہی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔(امریکا میں ہیلری نے بچوں پر اشتہارات سے متعلق ایک تحقیق کے بعد لکھا کہ اشتہارات دیکھنے والے بچوں پر والدین کی نصیحت بے اثر ہوتی ہے وہ اپنی مرضی کے آگے والدین کی نصیحت کو خاطر میں نہیں لاتے۔) اسی طرح جب ہم جوتے خریدنے کے لیے شاپنگ مال میں داخل ہوتے ہیں لیکن جب باہر نکلتے ہیں توہاتھ میں ایک شاپرجوتے کا تو دوسرا پینٹ شرٹس کا ہوتا ہے۔
ہم سیل کا اشتہار دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ چلوکپڑے لے لیتے ہیں سستے مل رہے ہیں،سیل لگی ہوئی ہے، ہم یہ سوچتے ہی نہیں کہ ہمیں کپڑوں کی واقعی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟یوں ہمیں ایسے موقعوں پرگرانٹ ڈیوڈ کی بات درست لگتی ہے کہ پہلے ضرورت یہ بتاتی تھی کہ ہمیں کیا خریدنا ہے لیکن اب میڈیا اور اشتہارات بتاتے ہیں کہ ہمیں کیا خریدنا ہے۔ بات تویہ بہت معمولی سی لگتی ہے مگر اس سے عام لوگوں کے گھرکے ماہانہ بجٹ پر اثر بھی پڑتا ہے اورگھریلو زندگی بھی متاثر ہوجاتی ہے، یعنی شاپنگ کے بعد تنخواہ دار شخص کو مہینے کے آخری روزگزار نا مشکل ہوجاتے ہیں کہ وہ گاڑی میں پٹرول ڈلوانے کے لیے کس سے ادھار مانگے یا بیوی پیسے مانگے توکہاں سے دے؟ اور اگر بیوی ناراض ہوجائے تو بھی گھریلو ناچاقی کے چانس الگ!
یوں دیکھا جائے تو اس سارے ''گھن چکر'' سے اشیاء بنانے والے، اشتہار بنانے والے اور اس میں آنے والے اداکار، ماڈلزسب دولت کماکر خوشحال ہوتے جاتے ہیں مگر عوام خاص کر ملازم پیشہ مڈل کلاس بے حال اور بد حال ہوتے چلے جاتے ہیں،مگر حیرت یہ ہے کہ یہ سب کام دن رات چل رہا ہے اور خوب چل رہا ہے، میڈیا پر اشتہارات چل رہے ہیں،جن میں مشہور''سیلیبرٹیس، آ، آ کر ایسے آئینے فروخت کر رہی ہیں جن کی ضرورت عوام کو قطعی نہیں، مگرکمال یہی ہے کہ اندھوں کے شہر میں آئینے فروخت کیے جا رہے ہیں، شاید عوام اندھے ہیں؟ اور فروخت کرنے والے کیا کمال کے ہیں کہ اندھوں کوآئینے کامیابی سے فروخت بھی کررہی ہیں۔