ماضی کے تنازعات مستقبل کے جنگی خطرات
ایران اور امریکا کے درمیان ماضی کے تنازعات کی وجہ سے شورش کی لہر ہمیشہ قائم تھی لیکن اب جنگ کے سائے گہرے ہونے لگے ہیں
ریاستوں کے درمیان جب درد اور انبساط کی جڑیں مل جائیں تو امن و آشتی جنم لیتی ہے۔ مگر جب ان کی ساخت میں متضاد نظريات کی جڑیں مضبوط ہوجائیں، تو دونوں ریاستیں حریف کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔
چنانچہ اسی طرح ایران اور امریکا کو دنیا میں ایک دوسرے کا حریف تصور کیا جاتا ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے تعاقب میں رہتے ہیں، جس وجہ سے دونوں کے مفاد ایک دوسرے کے ہمیشہ متضاد رہتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے ایران پر معاشی پابندی کی وجہ سے ایران کا رویہ جارحانہ رہتا ہے۔ امریکا ایران کو تیل کی درآمدات پر پابندی لگانے کی دھمکی دیتا ہے، اور اس سے نمٹنے کی مکمل تیاری بھی کربیٹھا ہے۔
جب ایران میں 1979 میں انقلاب برپا ہوا، حکومت کے بادشاہی نظام کی مخالفت کی گئی اور ولایت فقیہ کی حمایت میں ملک گیر تحریکیں چلیں۔ یہ تنازعات گزشتہ کئی دہائیوں پر محیط دھمکیوں اور پابندیوں میں ماضی کا حصہ بن گئے ہیں۔ ایران اور امریکا کے تعلقات میں کونٹرا اسکینڈل، امریکی فوج کے ہیڈ کوارٹر پر بمباری، امریکا و ایران سفارتی تعلقات نے خطے کے امن کی راہ کو بند کردیا تھا۔
ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ سفارتی تعلقات کی وجہ سے شورش پیدا ہوئی ہے۔ کیونکہ چار نومبر 1979 کو ایرانی طلبا کے ایک گروہ نے تہران میں واقع امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں 52 امریکی سفارت کاروں اور سفارتی عملے کو 444 دن یعنی 20 جنوری 1981 تک یرغمال بنائے رکھا تھا۔ جس کے بعد بالکل اسی طرح کا واقعہ حال ہی میں کچھ سال قبل ہوا جب ایران میں پھر امریکی سفارتخانہ پر حملہ کیا تھا، جس کی وجہ سے پھر دونوں ممالک کے مابین کشیدہ صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔
ان ادوار میں کشیدہ سفارتی تعلقات کی وجہ سے صورتحال آگے مزید ابتر ہوتی جارہی تھی۔ ابھی سفارتی تعلقات بہتر نہیں ہوئے تھے کہ 1983 میں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایرانی ایما پر حزب اللہ نے امریکی سفارت خانے میں بم دھماکا کیا۔ جس کے نتیجے میں سفارت خانے کے 63 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حادثے کے بعد تقریباً 1980 سے 1988 تک جاری رہنے والی ایران عراق کی جنگ، اپنے عروج پر تھی۔ اسی دوران میڈیا میں یہ خبر گردش کرنے لگی کہ امریکا اور ایران کے درمیان خفیہ رابطے کا آغاز ہوا ہے، جس کا مقصد لبنان میں حزب اللہ کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے امریکیوں کو رہا کرانا ہے۔ اسی دوران امریکی اسلحہ کی ایران کو فراہمی کا ایک اسکینڈل سامنے آگیا۔ اس اسکینڈل کا میڈیا میں خوب چرچا کیا گیا، جو "ایران۔ کونٹرا" اسکینڈل کے نام سے تاریخ میں مشہور ہوا۔
امریکا اور ایران کے مابین شورش دہائیوں سے مسلسل چل رہی تھی۔ 2003 میں امریکا نے عراق پر حملہ کردیا، تاکہ صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ چنانچہ اس دوران امریکی صدر جارج بش کی جانب سے ایران پرعراق میں دہشت گرد ملیشیائوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کردیا۔ اس تعامل میں یہ کہا گیا کہ ایران نے امریکی فوجیوں کو ہلاک کروایا ہے۔
ماضی کے ان تنازعات کی وجہ سے شورش کی لہر ہمیشہ قائم رہی تھی۔ ابھی چند روز پہلے ہی بغداد میں ایک جنگجو تنظیم نے امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا۔ جس میں ایک امریکی کنٹریکٹر مارا گیا۔ اسی اثنا میں صدر ٹرمپ نے اس حملے کی ذمے داری ایران پر عائد کرتے ہوئے دھمکی دے ڈالی کہ ایران کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ ابھی اس معاملے کے اثرات ختم ہی نہیں ہوئے تھے کہ اچانک سنسنی خیز خبریں گردش کرنے لگیں کہ بغداد میں امریکی ڈرون نے کارگو ٹرمینل کے قریب سڑک پر 2 گاڑیوں پر راکٹ حملہ کرکے ایرانی کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کردیا ہے۔ ایران کےلیے یہ حملہ اس کی ساخت پر حملے کے مترادف تھا۔ جس کے نتیجے میں ایران جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا امریکا سے بدلہ لینے کےلیے آگ بگولہ ہوگیا۔
اب اس سنگین صورتحال میں صدر ٹرمپ نے قاسم سلیمان کو امریکیوں کا قاتل قرار دیا۔ دوسری جانب امریکی سیاست دانوں نے اس حملے کو خطے میں امن کی صورتحال کو بگاڑ کا باعث قرار دیتے ہوئے، ساتھ ہی خطے میں تشدد اور جنگ کی فضا قائم کرنے کا ذمے دار بنادیا۔ جس پر عالمی برادری میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ ان تنازعات میں ثالثی کردار مفید ثابت ہوگا۔ چونکہ اب جس پر حملہ کیا گیا تھا، وہ بھی کوئی عام فرد نہیں تھا، اور جس ڈرون سے حملہ کیا گیا تھا، وہ بھی خطرناک ترین مہلک ڈرون طیارہ تھا۔
اس حملے میں دنیا کا سب سے خطرناک اور مہلک "ریپئر ڈرون" استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ڈرون انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کے ساتھ بغیر آواز کے اپنے ہدف کو کم وقت میں دور سے نشانہ بناسکتا ہے۔ یہ ڈرون 2007 سے امریکی فوج کے زیر استعمال ہے، جس کی قیمت ایک کروڑ 60 لاکھ ڈالر ہے۔ چنانچہ اس ڈرون کے ذریعے حملہ کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ قاسم سلیمان کو ہلاک کردیا جائے۔ کیونکہ ایران عراق کی جنگ میں قاسم سلیمانی نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے دیئے تھے؛ اور وہ ترقی کرکے سینئر کمانڈر کے منصب پر فائز ہوگئے تھے۔ وہ جب 1998 میں قدس فورس کے کمانڈر بنے، تو انہوں نے بیرونی خفیہ کارروائیوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں ایران کی ساخت کو مضبوط کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ جب کہ اتحادی گروہوں کو ہر ممکن مدد فراہم کرکے ایران کا وفادار بنالیا تھا۔ جنرل قاسم کی سرپرستی میں عراقی ملیشیاؤں کا منظم گروہ بن گیا تھا۔
آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد اگر کسی شخص کے ہاتھ میں طاقت کی کمان ہے، تو اس میں جنرل قاسم سلیمانی کو ہی مانا جاتا تھا۔ چونکہ ان خدامات کی وجہ سے جنرل قاسم سلیمان کو ہیرو قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے شیعہ کرد گروہوں کو صدام حسین کے خلاف متحد کیا تھا؛ اور حزب اللہ اور فلسطین تحریک میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ امریکا کی ان فوجی خفیہ سازشوں پر کڑی نظر تھی کہ وہ کہیں امریکی ساخت کو مشرق وسطیٰ میں نقصان نہ پہنچادیں۔ لہٰذا صدر ٹرمپ کے حکم پر امریکا نے فضائی حملے میں اپنے لیے خطرے کا جواز بناکر ہلاک کردیا۔
یہ کہنا اب قبل از وقت ہوگا کہ یہ متنازع صورتحال جنگ کی جانب گامزن ہے۔ مگر عالمی قوتوں کی ثالثی کی ہر ممکن کوششوں سے حالات قابو میں آسکتے ہیں۔ اب یہ ذمے داری پوری مسلم امہ کی ہے کہ وہ اس صورتحال میں خطے کی فلاح و بہبود کےلیے جنگی اثرات کو ختم کرنے میں اپنا کلیدی کراد ادا کرے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
چنانچہ اسی طرح ایران اور امریکا کو دنیا میں ایک دوسرے کا حریف تصور کیا جاتا ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے تعاقب میں رہتے ہیں، جس وجہ سے دونوں کے مفاد ایک دوسرے کے ہمیشہ متضاد رہتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے ایران پر معاشی پابندی کی وجہ سے ایران کا رویہ جارحانہ رہتا ہے۔ امریکا ایران کو تیل کی درآمدات پر پابندی لگانے کی دھمکی دیتا ہے، اور اس سے نمٹنے کی مکمل تیاری بھی کربیٹھا ہے۔
جب ایران میں 1979 میں انقلاب برپا ہوا، حکومت کے بادشاہی نظام کی مخالفت کی گئی اور ولایت فقیہ کی حمایت میں ملک گیر تحریکیں چلیں۔ یہ تنازعات گزشتہ کئی دہائیوں پر محیط دھمکیوں اور پابندیوں میں ماضی کا حصہ بن گئے ہیں۔ ایران اور امریکا کے تعلقات میں کونٹرا اسکینڈل، امریکی فوج کے ہیڈ کوارٹر پر بمباری، امریکا و ایران سفارتی تعلقات نے خطے کے امن کی راہ کو بند کردیا تھا۔
ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ سفارتی تعلقات کی وجہ سے شورش پیدا ہوئی ہے۔ کیونکہ چار نومبر 1979 کو ایرانی طلبا کے ایک گروہ نے تہران میں واقع امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں 52 امریکی سفارت کاروں اور سفارتی عملے کو 444 دن یعنی 20 جنوری 1981 تک یرغمال بنائے رکھا تھا۔ جس کے بعد بالکل اسی طرح کا واقعہ حال ہی میں کچھ سال قبل ہوا جب ایران میں پھر امریکی سفارتخانہ پر حملہ کیا تھا، جس کی وجہ سے پھر دونوں ممالک کے مابین کشیدہ صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔
ان ادوار میں کشیدہ سفارتی تعلقات کی وجہ سے صورتحال آگے مزید ابتر ہوتی جارہی تھی۔ ابھی سفارتی تعلقات بہتر نہیں ہوئے تھے کہ 1983 میں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایرانی ایما پر حزب اللہ نے امریکی سفارت خانے میں بم دھماکا کیا۔ جس کے نتیجے میں سفارت خانے کے 63 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حادثے کے بعد تقریباً 1980 سے 1988 تک جاری رہنے والی ایران عراق کی جنگ، اپنے عروج پر تھی۔ اسی دوران میڈیا میں یہ خبر گردش کرنے لگی کہ امریکا اور ایران کے درمیان خفیہ رابطے کا آغاز ہوا ہے، جس کا مقصد لبنان میں حزب اللہ کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے امریکیوں کو رہا کرانا ہے۔ اسی دوران امریکی اسلحہ کی ایران کو فراہمی کا ایک اسکینڈل سامنے آگیا۔ اس اسکینڈل کا میڈیا میں خوب چرچا کیا گیا، جو "ایران۔ کونٹرا" اسکینڈل کے نام سے تاریخ میں مشہور ہوا۔
امریکا اور ایران کے مابین شورش دہائیوں سے مسلسل چل رہی تھی۔ 2003 میں امریکا نے عراق پر حملہ کردیا، تاکہ صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ چنانچہ اس دوران امریکی صدر جارج بش کی جانب سے ایران پرعراق میں دہشت گرد ملیشیائوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کردیا۔ اس تعامل میں یہ کہا گیا کہ ایران نے امریکی فوجیوں کو ہلاک کروایا ہے۔
ماضی کے ان تنازعات کی وجہ سے شورش کی لہر ہمیشہ قائم رہی تھی۔ ابھی چند روز پہلے ہی بغداد میں ایک جنگجو تنظیم نے امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا۔ جس میں ایک امریکی کنٹریکٹر مارا گیا۔ اسی اثنا میں صدر ٹرمپ نے اس حملے کی ذمے داری ایران پر عائد کرتے ہوئے دھمکی دے ڈالی کہ ایران کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ ابھی اس معاملے کے اثرات ختم ہی نہیں ہوئے تھے کہ اچانک سنسنی خیز خبریں گردش کرنے لگیں کہ بغداد میں امریکی ڈرون نے کارگو ٹرمینل کے قریب سڑک پر 2 گاڑیوں پر راکٹ حملہ کرکے ایرانی کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کردیا ہے۔ ایران کےلیے یہ حملہ اس کی ساخت پر حملے کے مترادف تھا۔ جس کے نتیجے میں ایران جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا امریکا سے بدلہ لینے کےلیے آگ بگولہ ہوگیا۔
اب اس سنگین صورتحال میں صدر ٹرمپ نے قاسم سلیمان کو امریکیوں کا قاتل قرار دیا۔ دوسری جانب امریکی سیاست دانوں نے اس حملے کو خطے میں امن کی صورتحال کو بگاڑ کا باعث قرار دیتے ہوئے، ساتھ ہی خطے میں تشدد اور جنگ کی فضا قائم کرنے کا ذمے دار بنادیا۔ جس پر عالمی برادری میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ ان تنازعات میں ثالثی کردار مفید ثابت ہوگا۔ چونکہ اب جس پر حملہ کیا گیا تھا، وہ بھی کوئی عام فرد نہیں تھا، اور جس ڈرون سے حملہ کیا گیا تھا، وہ بھی خطرناک ترین مہلک ڈرون طیارہ تھا۔
اس حملے میں دنیا کا سب سے خطرناک اور مہلک "ریپئر ڈرون" استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ڈرون انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کے ساتھ بغیر آواز کے اپنے ہدف کو کم وقت میں دور سے نشانہ بناسکتا ہے۔ یہ ڈرون 2007 سے امریکی فوج کے زیر استعمال ہے، جس کی قیمت ایک کروڑ 60 لاکھ ڈالر ہے۔ چنانچہ اس ڈرون کے ذریعے حملہ کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ قاسم سلیمان کو ہلاک کردیا جائے۔ کیونکہ ایران عراق کی جنگ میں قاسم سلیمانی نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے دیئے تھے؛ اور وہ ترقی کرکے سینئر کمانڈر کے منصب پر فائز ہوگئے تھے۔ وہ جب 1998 میں قدس فورس کے کمانڈر بنے، تو انہوں نے بیرونی خفیہ کارروائیوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں ایران کی ساخت کو مضبوط کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ جب کہ اتحادی گروہوں کو ہر ممکن مدد فراہم کرکے ایران کا وفادار بنالیا تھا۔ جنرل قاسم کی سرپرستی میں عراقی ملیشیاؤں کا منظم گروہ بن گیا تھا۔
آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد اگر کسی شخص کے ہاتھ میں طاقت کی کمان ہے، تو اس میں جنرل قاسم سلیمانی کو ہی مانا جاتا تھا۔ چونکہ ان خدامات کی وجہ سے جنرل قاسم سلیمان کو ہیرو قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے شیعہ کرد گروہوں کو صدام حسین کے خلاف متحد کیا تھا؛ اور حزب اللہ اور فلسطین تحریک میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ امریکا کی ان فوجی خفیہ سازشوں پر کڑی نظر تھی کہ وہ کہیں امریکی ساخت کو مشرق وسطیٰ میں نقصان نہ پہنچادیں۔ لہٰذا صدر ٹرمپ کے حکم پر امریکا نے فضائی حملے میں اپنے لیے خطرے کا جواز بناکر ہلاک کردیا۔
یہ کہنا اب قبل از وقت ہوگا کہ یہ متنازع صورتحال جنگ کی جانب گامزن ہے۔ مگر عالمی قوتوں کی ثالثی کی ہر ممکن کوششوں سے حالات قابو میں آسکتے ہیں۔ اب یہ ذمے داری پوری مسلم امہ کی ہے کہ وہ اس صورتحال میں خطے کی فلاح و بہبود کےلیے جنگی اثرات کو ختم کرنے میں اپنا کلیدی کراد ادا کرے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔