نیب ترمیمی آرڈیننس

تجزیہ کاروں کی یہ بات سولہ آنے سچ ہے کہ کپتان کی نیت کتنی ہی صاف کیوں نہ ہو پر عوامل کے نتائج یہ نکل رہے ہیں۔

ملکی نظام اس وقت 1973کے آئین کے تحت چل رہا ہے اور اس میں ملک کا سب سے بڑا اور سپریم ادارہ پارلیمنٹ کو قرار دیا گیا ہے لیکن عملی طور پر بارہا نہ صرف اس ایوان کی سپرمیسی کو سبوتاژ کیا جاتا رہا ہے بلکہ آئین کو بھی معطل کیا جاتا رہا ہے ۔ اب موجودہ حکومت نے بھی حالیہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے لیے پارلیمنٹ کو بائی پاس کیا ہے ۔

یو ٹرن کی شناخت بنالینے والے وزیر اعظم عمران خان نے ''احتساب سب کا '' ، '' قانون سب کے لیے برابر ہے '' پر ایک اور 90ڈگری کا یوٹرن لیا، حالانکہ مخالفین نے اس بار بڑی کوششیں کیں کہ کسی طرح نیب ترامیم کے معاملے پر انھیں یو ٹرن لینے سے باز رکھ سکیں لیکن کپتان بھلا کیسے کوئی اعزاز اپنے ہاتھوں سے جانے دیتے۔

گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران حزب ِ اختلاف کی تمام جماعتیں چیخ چیخ کر کہتی رہیں کہ احتساب کی موجودہ صورت مساوی خطوط پر استوار نہیں ہے اور ملک میں احتساب یکساں بنیادوں پر ہونا چاہیے ۔ جب کہ الزام لگایا جاتا ہے کہ نیب کی موجودہ ساخت اور اختیارات بھی ایسے ہیں کہ جن کے استعمال سے صرف حکومت وقت کے انتقام کی بُو آتی ہے ۔ اس لیے اس میں ترامیم ہونی چاہئیں اور وہ ترامیم پارلیمنٹ میں بحث کے بعد پاس کردہ قانون کی صورت میں ہونی چاہئیں ۔

جس کے لیے ستمبر 2019کے ابتدائی دنوں میں ملک کے معروف قانون دان و پی پی پی کے سینیٹرفاروق ایچ نائیک نے سینیٹ میں ایک نیب ترامیمی بل پیش کیا تھا۔ جس کی کچھ خاص باتیں قارئین کی معلومات کے لیے یہاں پیش کر رہا ہوں: (1) نیب میں کرپشن کے صرف ایسے کیسز آنے چاہئیں جن کی مالیت کم از کم 50کروڑ ہو ، جو بدعنوانی یاغیر قانونی طریقے سے حاصل کیے گئے ہوں ، (2) نیب کے قانون میں دوران ِ تفتیش یا جانچ گرفتاری نہ ہو اور گرفتاری کے اختیارات عدالت کے پاس ہوں ، (3) بل میں یہ تجویز شامل تھی کہ جس عدالت کو کیس کے لیے ریفرنس بھیجا جائے وہی ملزم کو بلانے یا گرفتاری وارنٹ جاری کرسکنے کے اختیارات رکھتی ہو، (4) نیب عدالتوں کو ضمانت دینے اور وعدہ معاف گواہ پر جرح کا موقع فراہم کیا جائے گا، (5) بل کے مطابق نیب افسر ریفرنس داخل کرنے سے قبل میڈیا پر کوئی بیان نہیں دے گااور عوامی بیان دینے پر ایک سال سزا اور لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔

درج بالا ترامیمی تجاویز کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ بہتر تجاویز ہیں ۔ حکومت اس معاملے کو مخالف جماعتوں سے مشاورت کے بعد ایک مکمل قانون ایوان سے پاس کراسکتی تھی لیکن موجودہ حکومت نے اس بل کو وہیں سڑنے دیا اور خود بارلیمنٹ سے باہر صرف کابینہ کی میٹنگ میں نیب ترامیم کا حالیہ آرڈیننس منظور کیا اور ں صدر کو بھجوادیا اور انھوں نے اسے ''من و عن'' منظور کرلیا ۔ جس میں کئی ایسی سفارشات یا ترامیم شامل ہیں جن سے حکومت کی جانب سے ''اپنوں '' کو بچانے کے این آر او کی واضح تصویر نظر آرہی ہے ، مثلاً اس آرڈیننس میںحکومتی ،بیورو کریٹس اورکاروباری یا دیگر نجی افرادکو نیب قانون سے مستثنی ٰ قرار دیا گیا ہے۔

4صفحات پر مشتمل اس نیب آرڈیننس میں سیکشن 4کے تحت قانون کا اطلاق کہاں کہاں ہوگا کو واضح کیا گیا ہے ، جس میں نیب کی کارروائی کو لفظ کرپشن سے پابند کیا گیا ہے ۔ اگر کسی مقدمے میں لفظ کرپشن تحریر نہیں ہو تو نیب وہاں کارروائی نہیں کرسکتا ۔ جب کہ اس آرڈیننس میں پرائیوٹ افراد ، لیوی ، امپورٹ اور ٹیکس کے کیسز بھی نیب کے دائرہ ٔاختیار سے باہر قرار دیے گئے ہیں۔

آرڈیننس کی شق 9کی ذیلی شق 6 اے میں ترمیم کر کے لکھا گیا ہے کہ ''سرکاری محکمہ کی کسی غلطی یا نقص پر سرکاری ملازم کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی بلکہ نقص سے فائدہ اُٹھانے والے گرفت میں آئیں گے ''۔پھر حکومت سروس آف پاکستان اور آفس ہولڈرز والے الفاظ کی وجہ سے ملک میں چپڑاسی سے وفاقی سیکریٹری سطح تک کے افسران کو نیب استثنیٰ حاصل ہوگا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس آرڈیننس سے بنیادی طور پر حکومت کو بی آر ٹی اور مالم جبا کیسز سمیت دیگر کیسز میں براہ راست فا ئدہ ہوگا ۔


اسی لیے حالیہ نیب آرڈیننس کو حزب ِ اختلاف نے ''مدر آف این آر او'' یعنی 'این آر او کی ماں' قرار دیاہے ۔ ان کے مطابق نیب کے جس قانون کے تحت حزب ِ اختلاف کی تمام قیادت اور ان کے قریبی کاروباری حلقوں کو نشانہ بناکر گرفتار کیا گیا ، اُن کی بدنامی کی گئی ، اُسی قانون نے جب حکومتی اراکین و حکومت کے قریبی کاروباری حلقوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کیا تو حکومت نے خود کو اور اپنوں کو بچانے کے لیے ایک وسیع این آر او کی شکل میں حالیہ نیب ترامیمی آرڈیننس غیر پارلیمانی طریقے سے لاگو کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تمام اپوزیشن کی جماعتوں نے اِسے مسترد کردیا ہے ۔جب کہ آزاد و غیرجانبدار حلقوں و تجزیہ کاروں نے اسے مضحکہ خیز قرار دیا ہے ۔ جس میں نیب کے ادارے کو غیرجانبدار بنانے کے بجائے اُس پر مزید حکومتی قدغن لگائی گئی ہے ۔

تجزیہ کار اور عوامی حلقے سوالات اُٹھارہے ہیں کہ اس آرڈیننس کے بعد ملک میں احتساب کے نظام میں رہ کیا گیا ہے ؟ اور اس سوال میں وہ ہیں بھی حق بجانب کیونکہ عدلیہ اور افواج و قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کا احتساب کا اپنا علیحدہ علیحدہ نظام ہے ۔ باقی ماندہ اُمور و حلقوں جیسے حکومت ، سول عملداروں اور ملکی معیشت کے دیگر فریقوں یعنی صنعتکار ، تاجر و کاروباری حلقوں پر ہی لاگو ہوتا ہے ۔ اب اگر ان میں سے بیوروکریٹس اور کاروباری حلقوں کو نکال دیا جائے تو ملک میں صرف سیاسی یعنی پارلیمانی اور میڈیائی حلقے ہی رہ جاتے ہیں جو کہ سو فیصد عوامی نمایندگان یا ترجمان ہوتے ہیں ۔

کہا جاتا ہے کہ نتیجہ ہی ثبوت ہوتا ہے،اس لحاظ سے تجزیہ کاروں کی یہ بات سولہ آنے سچ ہے کہ کپتان کی نیت کتنی ہی صاف کیوں نہ ہو پر عوامل کے نتائج یہ نکل رہے ہیں کہ اس آرڈیننس کا مطلب غیرجانبدار احتساب یا ملکی اُمور کو شفاف و مستحکم بنانا ہرگز نہیں بلکہ اپنوں کو بچانے کی راہ ہموار کرنا ہے ۔ جس کا خودوزیر اعظم نے کراچی میں تاجروں سے خطاب کے دوران اعتراف بھی کیا ۔ ایک تو ہمارے کپتان جہاں جو جی چاہتا ہے کہہ دیتے ہیں ۔ یہی حال کراچی میں کاروباری حلقے سے وابستہ افراد سے خطاب کے دوران ہوا ، جہاں انھوں نے واضح الفاظ میں نیب ترمیمی آرڈیننس سے اپنے دوستوں کو بچانے کی بات کہہ دی ۔

جو بات اس آرڈیننس کو اول روز سے ہی عوامی حلقوں میں مشتبہ بناگئی ۔ بہرحال بڑے پیمانے پر تنقید ہونے پر اب حکومتی نمایندے اور وزراء اس آرڈیننس کو پارلیمنٹ میں لانے کے اعلانات اور یقین دہانیاں کراتے نظر آرہے ہیں ۔ لیکن یہ اس سے بھی مضحکہ خیز ہوگا کیونکہ آئینی طور پر کسی بھی قانون کو پہلے پارلیمنٹ میں لایا جاتا ہے اور وہاں سے پاس کرانے کے بعد صدر کو اطلاق کے لیے بھجوایا جاتا ہے مگر یہ پہلا قانون ہوگا جو پہلے صدر کی جانب سے لاگو ہوگا اور اس کی پارلیمنٹ سے منظوری بعد میں لی جائے گی ۔ موجودہ حکومت اپنے قیام سے اب تک کے ڈیڑھ سالہ دورانیے میں 21صدارتی آرڈیننس لاچکی ہے ۔ یہ سب باتیں غیر جمہوری ہیں جوکہ کم از کم کوئی منتخب حکومت نہیں کرسکتی ۔

اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری اور لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے ۔ جس میں درخواست گذار کی جانب سے موقف رکھا گیا ہے کہ اس آرڈیننس میں آئین کی آرٹیکل 5، 18اے اور 25کی خلاف ورزی کی گئی ہے ۔ اس آرڈیننس کی حیثیت اور جاری رہنے یا نہ رہنے کا دارومدار تو اب عدالت کے فیصلے پر ہی منحصر ہے لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ اس آرڈیننس سے حکومت نے اپنے ہی گول پوسٹ میں گول کرنے کی حماقت کی ہے ۔ کیونکہ تجزیہ کاروں کی جانب سے موجودہ حکومت کے اقدامات کی بدولت سال 2019کو پہلے ہی سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔

دوسری جانب عوام پر پے درپے بجلی ، گیس اور پیٹرول کے نرخوں میں اضافے کے بم گرانے کے فیصلوں سے حکومتی کشتی پہلے ہی عوامی تنقید کے طوفان میں ہچکولے کھارہی ہے ایسے میں اس آرڈیننس سے حکومت نے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑہ مارا ہے ۔

اس تمام صورتحال پر پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی تجویز نہایت موزوں نظر آتی ہے کہ نیب کو سرے سے ختم کرکے ملک میں اینٹی کرپشن پولیس کو مضبوط و بااختیار بنایا جائے ۔ ان کی تجویز سے متفق ہوتے ہوئے ہم یہاں اس میں تھوڑی سی ترمیم کرتے ہوئے حکومت کے سامنے رکھتے ہیں کہ اینٹی کرپشن پولیس کو مضبوط، مستحکم اور فعال بنانے کے ساتھ ساتھ اُسے عدالتی کمیشن کے ماتحت کرکے ملک بھر میں نافذ کیا جائے اور اُسے ملک کے تمام اداروں اور حلقوں پر بااختیار بنایا جائے تو یہ سب کے لیے قابل قبول بھی ہوگا اور ملک میں مساوات کو یقینی بنانے کا باعث بھی ہوگا ، جوکہ ملک کی مضبوطی اور مستقل استحکام کی جانب پیش قدمی بھی ثابت ہوگی ۔
Load Next Story