احتساب ایک بڑا سوالیہ نشان
بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے کسی ملزم کے خلاف کمزور استغاثہ دائر کریں گے تو اس کے نتائج وہی ہوں گے جو اس وقت سامنے آرہے ہیں۔
لاہور:
ہمارے نئے حکمرانوں نے تخت پر قدم رکھتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ قومی خزانے کے نادہندہ لوگوں سے وصولیاں کریں گے بلکہ ہمارے وزیر اعظم تو منتخب ہونے سے پہلے ہی اس بات پر مصر رہے کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے اور ملک کی دولت لوٹنے والوں کی چیخیں نکلوائیں گے۔
اس طرح کے کئی اعلانات ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے سنتے آ رہے ہیں لیکن جو بھی حکمرانی کے منصب پر فائز ہو گیا اس نے اپنے سابقہ اعلانات سے توبہ کر لی بلکہ قومی خزانے پر مزید بوجھ ڈال کر رخصت ہو گیا۔ پاکستانی قوم جوہر آنے والے کا اس گمان پر خیر مقدم کرتی ہے کہ شاید یہ وہی حقیقت منتظر ہو جس کا وہ مدت سے انتظار کر رہی ہے، نئے حکمرانوں کا بھی اسی امید کے ساتھ زبردست استقبال کیا گیا اور ان سے اپنی تمام امیدیں باندھ لی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت نے احتساب کے نام پر اندھا دھند پکڑ دھکڑ شروع کر دی جس کے نتائج آہستہ آہستہ ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔
یہ حقیقت تو اپنی جگہ ہے کہ قومی خزانے کی لوٹ مار میں سب نے حصہ بقدر جسا ڈالا ہے لیکن یہ حصہ اتنی ہوشیاری سے ڈالا کہ اپنے پیچھے کو ئی سراغ نہیں چھوڑا جس سے وہ قابو میں آ سکیں، اگر قابو میں کوئی آ بھی رہا ہے تو وہ چند ماہ کی قید کے بعد رہا ہو کر حکومت کے لیے مزید سبکی کا باعث بن رہا ہے، حکومتی احتساب کو اگر کوئی بھگت رہا ہے تو وہ اس ملک کے افسر ہیں جن کے قلم کی طاقت سے ملک کا کاروبار زندگی رواں دواں رہتا ہے لیکن حکومت نے بزور طاقت اس کاروبار کو خود ہی بند کر رکھا ہے اور اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ افسر شاہی حکومت کا کام کرنے سے انکاری ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ان کی گردن سب سے پتلی ہے جو آسانی سے کسی بھی حکمران کے ہاتھ میں آ جاتی ہے اور اصل چور لٹیرے لوٹ کے مال پر عیاشیاں کرتے ہیں اگر کوئی پکڑا جاتا ہے تو قانون کے ضابطوں کے تحت افسر شاہی کی جان شکنجے میں پھنس جاتی ہے۔
افسر شاہی نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت کا کام اتنا ہی کرو جس سے پکڑ میں نہ آ سکو ۔ گزشتہ ایک برس سے حکومت کی جانب سے کلیدی عہدوں پر مقرر کیے جانے والے افسران مسلسل تبادلوں کی زد میں ہیں اور بظاہر وجہ ایک ہی نظر آتی ہے کہ حکومت کو مطلوبہ نتائج نہیں مل رہے لیکن کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، ظاہر ہے جب آپ خوف کی فضاء طاری رکھیں گے تو اس فضاء میں افسر کام کیسے کرے گا اور مطلوبہ نتائج کیس طرح دے گا۔
گزشتہ دونوں حکومتوں کے سربراہ اور ان کے حواری احتساب کے عمل سے گزر رہے ہیں، قومی دولت کی لوٹ مار کا غلغلہ بڑے زور و شور کے ساتھ بلند ہوا لیکن جتنا باآواز بلند ہوا تھا اتنی ہی جلدی اس کا گلہ خشک بھی ہو گیا۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کی بد حالی میں جتنا حصہ گزشتہ دو ادوار میں ڈالا گیا اور معاشی ابتری کی انتہا ہوئی ہے اس سے پہلے ملک مقروض تھا مگر اب ہم دیوالیہ ہو گئے ہیں ۔ اسی دیوالیہ پن کو لیے ہم بھیک مانگنے کبھی ایک ملک کے دورے پر جاتے ہیں تو کبھی کسی دوسرے برادر ملک کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں جو ہمیں خیرات میں سے کچھ دے تو دیتے ہیں لیکن بعد میں اپنی ضروتوں کے لیے ہمیں استعمال کرتے ہیں جس کا وہ حق رکھتے ہیں کیونکہ ایک مقروض کی جو عزت ہوتی ہے وہ سب کو معلوم ہے ۔
اب معلوم یوں ہوتا ہے کہ حکومت اپنے احتسابی عمل سے توبہ تائب ہو گئی ہے اور ا س نے چیخیں نکلوانے کے اپنے ارادے موخر کر دئے ہیں، عملی صورت میں یہی کچھ دکھائی دے رہا ہے کہ جن لوگوں کو ملکی لوٹ مار کے الزام میں پکڑا گیا ہے، ان کی عدالتوں سے دھڑا دھڑ ضمانتیں ہو رہی ہیں یعنی کہ حکومت اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام ہو رہی ہے جس کی وجہ سے عدالتیں ان ملزموں کو ریلیف فراہم کر رہی ہیں ۔ اب وہ زمانہ متروک ہو چکا کہ لوگ بینکوں سے قرض حاصل کرتے تھے جس کا باقاعدہ ریکارڈ ہوتا تھا اور اس کی وصولی ممکن تھی مگر اب بڑے لوگ بینکوں کے بجائے کمیشن کی رقم بیرون ملک جمع کرا دیتے ہیں جس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا لہذا ان سے وصولی ایک مشکل کام ہے، پہلے تو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ کس نے کتنی رقم وصول کی ہے اس کے بعد اس سے وصولی کی نوبت آئے گی۔
یہاں سرکاری گواہ سب سے اہم اور معتبر سمجھا جاتا ہے جو یہ بتائے کہ کس نے کتنا کمیشن کھایا ہے کیونکہ ایسی رقوم کی رسیدیں یا مصدقہ ریکارڈ نہیں ہوتا ۔ معلومات حاصل کرنے کے دوسرے بھی ذرایع ہیں، معیار زندگی اور اس طرح کی دوسری واقعاتی شہادتیں بھی مدد کرتی ہیں ۔ بہر حال حکومتوں کے پاس بے شمار طریقے ہوتے ہیں اگر نیت صاف ہو جو بظاہر لگتا ہے تو پھر بہت کچھ وصول ہو سکتا ہے ۔
اس وقت پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے میں تازہ روح پھونکنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ قومی زندگی میں بگاڑ اس قدر مہیب اور اعصاب شکن ہے کہ اس پر قابو پانے کے لیے مسلسل ریاضت غیر معمولی ذہانت اور اجتماعی قوت ارادی درکار ہے۔ کرپشن نے ملکی معیشت میں شگاف ڈال دیے ہیں جس کی وجہ سے احتساب کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے لیکن ملک لوٹنے والوں نے بھی ایکا کر رکھا ہے، اس لیے حکومت کی احتساب کی کوششیں فی الحال ناکام ہو رہی ہیں ۔
بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے کسی ملزم کے خلاف کمزور استغاثہ دائر کریں گے تو اس کے نتائج وہی ہوں گے جو اس وقت سامنے آ رہے ہیں، حکومت دعوئوںکے برعکس ابھی تک اپنے ملزموں کے خلاف کچھ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے حکومت کی نیک نامی کو دھچکہ لگا ہے۔ وزیر اعظم بار بار اپنی احتسابی باتوں کو دہرا رہے ہیں لیکن عمل اس کے برعکس ہو رہا ہے، یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جو عوام کے ذہنوں میں کلبلا رہا ہے۔
ہمارے نئے حکمرانوں نے تخت پر قدم رکھتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ قومی خزانے کے نادہندہ لوگوں سے وصولیاں کریں گے بلکہ ہمارے وزیر اعظم تو منتخب ہونے سے پہلے ہی اس بات پر مصر رہے کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے اور ملک کی دولت لوٹنے والوں کی چیخیں نکلوائیں گے۔
اس طرح کے کئی اعلانات ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے سنتے آ رہے ہیں لیکن جو بھی حکمرانی کے منصب پر فائز ہو گیا اس نے اپنے سابقہ اعلانات سے توبہ کر لی بلکہ قومی خزانے پر مزید بوجھ ڈال کر رخصت ہو گیا۔ پاکستانی قوم جوہر آنے والے کا اس گمان پر خیر مقدم کرتی ہے کہ شاید یہ وہی حقیقت منتظر ہو جس کا وہ مدت سے انتظار کر رہی ہے، نئے حکمرانوں کا بھی اسی امید کے ساتھ زبردست استقبال کیا گیا اور ان سے اپنی تمام امیدیں باندھ لی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت نے احتساب کے نام پر اندھا دھند پکڑ دھکڑ شروع کر دی جس کے نتائج آہستہ آہستہ ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔
یہ حقیقت تو اپنی جگہ ہے کہ قومی خزانے کی لوٹ مار میں سب نے حصہ بقدر جسا ڈالا ہے لیکن یہ حصہ اتنی ہوشیاری سے ڈالا کہ اپنے پیچھے کو ئی سراغ نہیں چھوڑا جس سے وہ قابو میں آ سکیں، اگر قابو میں کوئی آ بھی رہا ہے تو وہ چند ماہ کی قید کے بعد رہا ہو کر حکومت کے لیے مزید سبکی کا باعث بن رہا ہے، حکومتی احتساب کو اگر کوئی بھگت رہا ہے تو وہ اس ملک کے افسر ہیں جن کے قلم کی طاقت سے ملک کا کاروبار زندگی رواں دواں رہتا ہے لیکن حکومت نے بزور طاقت اس کاروبار کو خود ہی بند کر رکھا ہے اور اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ افسر شاہی حکومت کا کام کرنے سے انکاری ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ان کی گردن سب سے پتلی ہے جو آسانی سے کسی بھی حکمران کے ہاتھ میں آ جاتی ہے اور اصل چور لٹیرے لوٹ کے مال پر عیاشیاں کرتے ہیں اگر کوئی پکڑا جاتا ہے تو قانون کے ضابطوں کے تحت افسر شاہی کی جان شکنجے میں پھنس جاتی ہے۔
افسر شاہی نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت کا کام اتنا ہی کرو جس سے پکڑ میں نہ آ سکو ۔ گزشتہ ایک برس سے حکومت کی جانب سے کلیدی عہدوں پر مقرر کیے جانے والے افسران مسلسل تبادلوں کی زد میں ہیں اور بظاہر وجہ ایک ہی نظر آتی ہے کہ حکومت کو مطلوبہ نتائج نہیں مل رہے لیکن کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، ظاہر ہے جب آپ خوف کی فضاء طاری رکھیں گے تو اس فضاء میں افسر کام کیسے کرے گا اور مطلوبہ نتائج کیس طرح دے گا۔
گزشتہ دونوں حکومتوں کے سربراہ اور ان کے حواری احتساب کے عمل سے گزر رہے ہیں، قومی دولت کی لوٹ مار کا غلغلہ بڑے زور و شور کے ساتھ بلند ہوا لیکن جتنا باآواز بلند ہوا تھا اتنی ہی جلدی اس کا گلہ خشک بھی ہو گیا۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کی بد حالی میں جتنا حصہ گزشتہ دو ادوار میں ڈالا گیا اور معاشی ابتری کی انتہا ہوئی ہے اس سے پہلے ملک مقروض تھا مگر اب ہم دیوالیہ ہو گئے ہیں ۔ اسی دیوالیہ پن کو لیے ہم بھیک مانگنے کبھی ایک ملک کے دورے پر جاتے ہیں تو کبھی کسی دوسرے برادر ملک کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں جو ہمیں خیرات میں سے کچھ دے تو دیتے ہیں لیکن بعد میں اپنی ضروتوں کے لیے ہمیں استعمال کرتے ہیں جس کا وہ حق رکھتے ہیں کیونکہ ایک مقروض کی جو عزت ہوتی ہے وہ سب کو معلوم ہے ۔
اب معلوم یوں ہوتا ہے کہ حکومت اپنے احتسابی عمل سے توبہ تائب ہو گئی ہے اور ا س نے چیخیں نکلوانے کے اپنے ارادے موخر کر دئے ہیں، عملی صورت میں یہی کچھ دکھائی دے رہا ہے کہ جن لوگوں کو ملکی لوٹ مار کے الزام میں پکڑا گیا ہے، ان کی عدالتوں سے دھڑا دھڑ ضمانتیں ہو رہی ہیں یعنی کہ حکومت اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام ہو رہی ہے جس کی وجہ سے عدالتیں ان ملزموں کو ریلیف فراہم کر رہی ہیں ۔ اب وہ زمانہ متروک ہو چکا کہ لوگ بینکوں سے قرض حاصل کرتے تھے جس کا باقاعدہ ریکارڈ ہوتا تھا اور اس کی وصولی ممکن تھی مگر اب بڑے لوگ بینکوں کے بجائے کمیشن کی رقم بیرون ملک جمع کرا دیتے ہیں جس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا لہذا ان سے وصولی ایک مشکل کام ہے، پہلے تو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ کس نے کتنی رقم وصول کی ہے اس کے بعد اس سے وصولی کی نوبت آئے گی۔
یہاں سرکاری گواہ سب سے اہم اور معتبر سمجھا جاتا ہے جو یہ بتائے کہ کس نے کتنا کمیشن کھایا ہے کیونکہ ایسی رقوم کی رسیدیں یا مصدقہ ریکارڈ نہیں ہوتا ۔ معلومات حاصل کرنے کے دوسرے بھی ذرایع ہیں، معیار زندگی اور اس طرح کی دوسری واقعاتی شہادتیں بھی مدد کرتی ہیں ۔ بہر حال حکومتوں کے پاس بے شمار طریقے ہوتے ہیں اگر نیت صاف ہو جو بظاہر لگتا ہے تو پھر بہت کچھ وصول ہو سکتا ہے ۔
اس وقت پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے میں تازہ روح پھونکنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ قومی زندگی میں بگاڑ اس قدر مہیب اور اعصاب شکن ہے کہ اس پر قابو پانے کے لیے مسلسل ریاضت غیر معمولی ذہانت اور اجتماعی قوت ارادی درکار ہے۔ کرپشن نے ملکی معیشت میں شگاف ڈال دیے ہیں جس کی وجہ سے احتساب کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے لیکن ملک لوٹنے والوں نے بھی ایکا کر رکھا ہے، اس لیے حکومت کی احتساب کی کوششیں فی الحال ناکام ہو رہی ہیں ۔
بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے کسی ملزم کے خلاف کمزور استغاثہ دائر کریں گے تو اس کے نتائج وہی ہوں گے جو اس وقت سامنے آ رہے ہیں، حکومت دعوئوںکے برعکس ابھی تک اپنے ملزموں کے خلاف کچھ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے حکومت کی نیک نامی کو دھچکہ لگا ہے۔ وزیر اعظم بار بار اپنی احتسابی باتوں کو دہرا رہے ہیں لیکن عمل اس کے برعکس ہو رہا ہے، یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جو عوام کے ذہنوں میں کلبلا رہا ہے۔