پی ایس ایل کی گھر واپسی پاکستان استقبال کے لیے تیار
میگا ایونٹ کے انعقاد سے انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا سفر تیز ہوگا
ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے پاکستان نے کئی طویل اور صبر آزما مراحل طے کئے ہیں۔
مارچ 2009میں لاہور ٹیسٹ کے دوران سری لنکن ٹیم کی بس پر حملہ ہوا تو ملک میں کھیلوں کے میدان ویران ہوئے،سکیورٹی کی مجموعی صورتحال ایسی نہ تھی کہ غیر ملکی ٹیموں کو اعتماد میں لیا جاسکتا، بہر حال پاک فوج اور سکیورٹی اداروں نے ہر محاذ پر دہشت گردی کو شکست دیتے ہوئے امن و امان کی صورتحال بہتر بنائی، مئی 2015میں زمبابوین ٹیم محدود اوورز کی کرکٹ کے میچز کے لیے لاہور آئی۔
سیریز کے کامیاب انعقاد سے دنیا بھر کو مثبت پیغام گیا،بعد ازاں یہ سفر آہستگی سے مگر تسلسل کیساتھ آگے بڑھتا رہا، 2016میں پی ایس ایل کا پہلا ایڈیشن تو مکمل طور پریواے ای میں ہوا، اگلے سال دوسرے ایونٹ کا فائنل 5 مارچ کو قذافی سٹیڈیم لاہور میں ہوا تو دنیائے کرکٹ نے شاندار سکیورٹی انتظامات کیساتھ پاکستانیوں کا اس کھیل کے لیے جنون بھی دیکھا۔
فائنلسٹ ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز میں شامل چند غیرملکی کرکٹرز نے پاکستان آنے سے انکار کیا،پشاور زلمی کے تمام سٹار پلیئرز ایکشن میں نظر آئے اور ڈھیروں محبتیں سمیٹ کر یہاں سے واپس گئے،اسی سال ستمبر میں فاف ڈوپلیسی کی قیادت میں ورلڈ الیون کی ٹیم بھی آزادی کپ ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلنے کے لیے لاہور آئی،کرکٹ کو ترسے شائقین نے مقابلوں کا بھرپور لطف اٹھایا،سکیورٹی کے بھی بہترین انتظامات دیکھنے میں آئے۔
اکتوبر میں ٹی ٹوئنٹی سیریز کے 2 میچ یواے ای میں کھیلنے والی سری لنکن ٹیم آخری مقابلے کے لیے لاہور آئی تو انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے سفر میں پاکستان نے ایک اور بڑا قدم اٹھالیا،2009میں آئی لینڈرز پر حملے سے ہی کھیلوں کے میدان ویران ہوئے، اسی ٹیم کی ایک میچ کے لیے آمد بھی ایک بڑی پیش رفت تھی،2018میں ہونے والی پی ایس ایل 3کے ایلیمنیٹرز کا لاہور میزبان تھا۔
ایک عرصہ سے کرکٹ کو ترسے میں فائنل کا میلہ سجائے جانے سے دنیا کو مثبت پیغام گیا،پشاور زلمی میں شامل تمام غیر ملکی کرکٹرز ایک بار پھر پاکستان آئے ، ڈیرن سیمی تو شائقین کی آنکھ کا تارا بنے رہے، اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیوک رونکی، جے پال ڈومینی، چیڈ وک والٹن، سمیت پٹیل سمیت دیگر سٹارز نے بھی نیشنل سٹیڈیم میں میچ کھیل کر دیگر کھلاڑیوں کا اعتماد بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا،ویسٹ انڈیز کی ٹیم کراچی میں 3ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کھیلنے کے لیے آئی تو پاکستانیوں نے بانہیں پھیلا کر استقبال کیا۔
گزشتہ سال پی ایس ایل کے میچز لاہور اور کراچی میں شیڈول کئے گئے، سرحدوں پر کشیدگی کی وجہ سے لاجسٹک مسائل آڑے آئے، پروازیں معطل ہونے کی وجہ سے پروڈکشن کمپنی کا سامان بروقت پہنچنا ممکن نہیں تھا،لاہور میچز کی میزبانی سے محروم رہ گیا، کراچی پلے آفز سمیت 8مقابلوں کا میزبان بنا، قبل ازیں انکار کرنے والے شین واٹسن سمیت بڑی تعداد میں غیر ملکی کرکٹرز شہر قائد آئے،انہوں نے پاکستانیوں کی مہمان نوازی کا لطف اٹھایا۔
آسٹریلوی آل راؤنڈر نے ٹور کو اپنے یادگار ترین لمحات میں سے ایک قرار دیدیا،گزشتہ سال ایک بڑی پیش رفت سری لنکن ٹیم کی دوبار پاکستان آمد تھی، پہلے آئی لینڈرز نے ستمبر، اکتوبر میں دورہ کرتے ہوئے کراچی میں ون ڈے اور لاہور میں ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلی،شاندار سکیورٹی انتظامات اور شائقین کے کے جوش و خروش نے سری لنکن کرکٹرز کے دل جیتے، دسمبر میں آئی لینڈرز کی آمد سے ہی ملک میں ٹیسٹ کرکٹ بھی بحال ہوگئی۔
راولپنڈی اور کراچی میں میچز کے لیے سری لنکا کے وہ کرکٹرز بھی آئے جنہوں نے قبل ازیں سکیورٹی خدشات کی بنا پر محدود اوورز کی کرکٹ کے میچز کھیلنے سے انکار کردیا تھا، بنگلہ دیش بھی اسی قسم کا تجربہ کرتے ہوئے پہلے ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے آنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے،ٹیسٹ کا معاملہ بعد میں دیکھنے کی بات کی گئی، پی سی بی اپنی کوئی ہوم سیریز نیوٹرل وینیو پر نہ کھیلنے کا موقف برقرار رکھے ہوئے ہے۔
دوسری جانب رواں سال پاکستان سپر لیگ کے تمام میچز اصل گھر پاکستان میں ہی کروانے کے لیے شیڈول بھی جاری کردیا گیا ہے، کراچی اور لاہور کیساتھ اس بار راولپنڈی اور ملتان میں بھی کرکٹ کا یہ میلہ سجے گا، 34 میچز ملک کے 4 مختلف وینیوز پر شائقین کی توجہ کا مرکز بنیں گے، افتتاحی تقریب 20فروری کو نیشنل سٹیڈیم کراچی میں ہوگی،پہلا میچ دفاعی چیمپئن کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور 2 بار ٹائٹل جیتنے والی اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیموں کے مابین کھیلا جائے گا،22 مارچ کو فائنل کا لاہور میزبان ہوگا۔
پہلا میچ روزانہ دوپہر 2بجے اور دوسرا رات 7بجے شروع ہوگا، ٹکٹوں کی فروخت 20 جنوری سے شروع ہوگی، پی ایس ایل کے آغاز سے 50روز قبل کاؤنٹ ڈاؤن شروع کرتے ہوئے بی سی بی ہیڈ کوارٹرز قذافی اسٹیڈیم کے باہر سٹار کرکٹرز کی تصاویر سے مزیئن ایک کلاک بھی نصب کردیا گیا ہے، ایونٹ کا واحد کوالیفائر نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا جائے گا، فائنل کیساتھ دونوں ایلیمنٹرز کی میزبانی بھی قذافی اسٹیڈیم لاہور کو دی گئی ہے، 14 میچ لاہور ، 9 کراچی، 8 راولپنڈی اور 3 ملتان میں ہوں گے۔
دفاعی چیمپئن کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اپنے 4 میچز کراچی، 3 لاہور 2 راولپنڈی اور 1 ملتان میں کھیلیں گے، پشاور زلمی کو اپنے 5 میچز راولپنڈی،3 کراچی جبکہ 1،1 لاہور اور ملتان میں کھیلنے کا موقع ملے گا، اسلام آباد یونائیٹڈ اپنے 5 میچز راولپنڈی، 3 لاہور اور 2 کراچی میں کھیلیں گے، کراچی کنگز اپنے 5 میچز کراچی، 2،2 لاہور اور راولپنڈی جبکہ ایک ملتان میں کھیلنے کا موقع پائیں گے۔
ملتان سلطانز اپنے 5 میچز لاہور، 3 ملتان جبکہ 1،1 راولپنڈی اور کراچی میں کھیلیں گے، لاہور قلندرز اپنے 8 میچز لاہور جبکہ 1،1 کراچی اور راولپنڈی میں کھیلیں گے،یاد رہے کہ شیڈول مرتب کرتے ہوئے کسی بھی وینیو پر ایک دن میں 2 میچ نہیں رکھے گئے،دوپہر کو ایک شہر میں تو رات کو دوسرے میں ٹیمیں ایکشن میں ہوں گی۔
زمبابوین ٹیم کی آمد کے 2سال بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا دروازہ در اصل پی ایس ایل نے ہی کھولا تھا، پورے یونٹ کا پاکستان میں انعقاد ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی، دوسری طرف یہ پی سی بی، سیکورٹی اداروں کے ساتھ عوام کے لیے بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اس بار ایک یا 2 نہیں 4وینیوز کے گرد سیکورٹی کا حصار قائم کرنا ہوگا، پی سی بی حکام اور پی ایس ایل کی مینجمنٹ کو بھی سخت محنت کرنا ہوگی، عوام کے لیے چیلنج یوں ہے کہ انہیں سخت حفاظتی انتظامات کے دوران پیش آنے والی مشکلات کو بھی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرنا ہوگا۔
قوم اس امتحان میں بھی سرخرو ہوئی تو آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ جیسی بڑی ٹیموں کو بھی دورہ پاکستان پر آمادہ کرنے کے لیے پی سی بی کا کیس مضبوط ہوگا، اعتماد کی دولت چھن جائے تو بحالی کا سفر ہمیشہ مشکل ہوتا ہے، پاکستان کے سیکورٹی اداروں کی مدد سے ابھی تک مسلسل مثبت پیش رفت ہوئی ہے، پی سی بی کو بھی اس سفر میں کسی کی ناراضی مول لینے کی بجائے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے درمیانی راستے نکالنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
بنگلہ دیشی ٹیم اگر ٹی ٹوئنٹی میچز کے لیے پاکستان آنے کو تیار ہے تو ٹیسٹ میچز لازمی کھیلنے کی ضد چھوڑ دینا چاہیے، سری لنکن ٹیم کو بھی گزشتہ سال اکتوبر میں ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے لیے آنا تھا، بعدازاں دونوں بورڈز کی باہمی رضامندی کے ساتھ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز پہلے شیڈول کردیئے گئے،اعتماد بحال ہونے پر ٹیسٹ سیریز بھی ممکن ہوگئی، گرچہ جنوری، فروری کے بعد پاکستان ٹیم کی مصروفیات کے سبب بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ میچز کے لیے وقت نکالنا مشکل نظر آرہا ہے لیکن فی الحال ایک مزید انٹرنیشنل ٹیم کی ملک میں آمد کو غنیمت سمجھتے ہوئے بنگال ٹائیگرز کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی سیریز شیڈول کرلینا بھی غلط فیصلہ نہیں ہوگا۔
موجودہ صورتحال میں پاکستان کو عالمی کرکٹ برادری میں دوستوں کی اشد ضرورت ہے، چیئرمین پی سی بی احسان مانی بنگلہ دیشی ٹیم کے ٹیسٹ سیریز کے لیے نہ آنے کی صورت میں آئی سی سی ڈسپیوٹ کمیٹی میں جانے کا عندیہ دیتے آرہے ہیں، ان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کے باہمی سیریز کے معاملات میں کرکٹ کی عالمی باڈی مداخلت نہیں کرتی، یہ نکتہ نظر بنگلہ دیشی بورڈ کے حکام کی جانب سے بھی سامنے لایا جا چکا ہے، پی سی بی بھارت کیخلاف باہمی سیریز کے معاملے میں آئی سی سی ڈسپیوٹ کمیٹی میں جاکر کروڑوں کا نقصان اٹھا چکا ہے، اس بار کوئی نئی غلطی کرنے کے بجائے بنگلہ دیش کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
مارچ 2009میں لاہور ٹیسٹ کے دوران سری لنکن ٹیم کی بس پر حملہ ہوا تو ملک میں کھیلوں کے میدان ویران ہوئے،سکیورٹی کی مجموعی صورتحال ایسی نہ تھی کہ غیر ملکی ٹیموں کو اعتماد میں لیا جاسکتا، بہر حال پاک فوج اور سکیورٹی اداروں نے ہر محاذ پر دہشت گردی کو شکست دیتے ہوئے امن و امان کی صورتحال بہتر بنائی، مئی 2015میں زمبابوین ٹیم محدود اوورز کی کرکٹ کے میچز کے لیے لاہور آئی۔
سیریز کے کامیاب انعقاد سے دنیا بھر کو مثبت پیغام گیا،بعد ازاں یہ سفر آہستگی سے مگر تسلسل کیساتھ آگے بڑھتا رہا، 2016میں پی ایس ایل کا پہلا ایڈیشن تو مکمل طور پریواے ای میں ہوا، اگلے سال دوسرے ایونٹ کا فائنل 5 مارچ کو قذافی سٹیڈیم لاہور میں ہوا تو دنیائے کرکٹ نے شاندار سکیورٹی انتظامات کیساتھ پاکستانیوں کا اس کھیل کے لیے جنون بھی دیکھا۔
فائنلسٹ ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز میں شامل چند غیرملکی کرکٹرز نے پاکستان آنے سے انکار کیا،پشاور زلمی کے تمام سٹار پلیئرز ایکشن میں نظر آئے اور ڈھیروں محبتیں سمیٹ کر یہاں سے واپس گئے،اسی سال ستمبر میں فاف ڈوپلیسی کی قیادت میں ورلڈ الیون کی ٹیم بھی آزادی کپ ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلنے کے لیے لاہور آئی،کرکٹ کو ترسے شائقین نے مقابلوں کا بھرپور لطف اٹھایا،سکیورٹی کے بھی بہترین انتظامات دیکھنے میں آئے۔
اکتوبر میں ٹی ٹوئنٹی سیریز کے 2 میچ یواے ای میں کھیلنے والی سری لنکن ٹیم آخری مقابلے کے لیے لاہور آئی تو انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے سفر میں پاکستان نے ایک اور بڑا قدم اٹھالیا،2009میں آئی لینڈرز پر حملے سے ہی کھیلوں کے میدان ویران ہوئے، اسی ٹیم کی ایک میچ کے لیے آمد بھی ایک بڑی پیش رفت تھی،2018میں ہونے والی پی ایس ایل 3کے ایلیمنیٹرز کا لاہور میزبان تھا۔
ایک عرصہ سے کرکٹ کو ترسے میں فائنل کا میلہ سجائے جانے سے دنیا کو مثبت پیغام گیا،پشاور زلمی میں شامل تمام غیر ملکی کرکٹرز ایک بار پھر پاکستان آئے ، ڈیرن سیمی تو شائقین کی آنکھ کا تارا بنے رہے، اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیوک رونکی، جے پال ڈومینی، چیڈ وک والٹن، سمیت پٹیل سمیت دیگر سٹارز نے بھی نیشنل سٹیڈیم میں میچ کھیل کر دیگر کھلاڑیوں کا اعتماد بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا،ویسٹ انڈیز کی ٹیم کراچی میں 3ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کھیلنے کے لیے آئی تو پاکستانیوں نے بانہیں پھیلا کر استقبال کیا۔
گزشتہ سال پی ایس ایل کے میچز لاہور اور کراچی میں شیڈول کئے گئے، سرحدوں پر کشیدگی کی وجہ سے لاجسٹک مسائل آڑے آئے، پروازیں معطل ہونے کی وجہ سے پروڈکشن کمپنی کا سامان بروقت پہنچنا ممکن نہیں تھا،لاہور میچز کی میزبانی سے محروم رہ گیا، کراچی پلے آفز سمیت 8مقابلوں کا میزبان بنا، قبل ازیں انکار کرنے والے شین واٹسن سمیت بڑی تعداد میں غیر ملکی کرکٹرز شہر قائد آئے،انہوں نے پاکستانیوں کی مہمان نوازی کا لطف اٹھایا۔
آسٹریلوی آل راؤنڈر نے ٹور کو اپنے یادگار ترین لمحات میں سے ایک قرار دیدیا،گزشتہ سال ایک بڑی پیش رفت سری لنکن ٹیم کی دوبار پاکستان آمد تھی، پہلے آئی لینڈرز نے ستمبر، اکتوبر میں دورہ کرتے ہوئے کراچی میں ون ڈے اور لاہور میں ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلی،شاندار سکیورٹی انتظامات اور شائقین کے کے جوش و خروش نے سری لنکن کرکٹرز کے دل جیتے، دسمبر میں آئی لینڈرز کی آمد سے ہی ملک میں ٹیسٹ کرکٹ بھی بحال ہوگئی۔
راولپنڈی اور کراچی میں میچز کے لیے سری لنکا کے وہ کرکٹرز بھی آئے جنہوں نے قبل ازیں سکیورٹی خدشات کی بنا پر محدود اوورز کی کرکٹ کے میچز کھیلنے سے انکار کردیا تھا، بنگلہ دیش بھی اسی قسم کا تجربہ کرتے ہوئے پہلے ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے آنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے،ٹیسٹ کا معاملہ بعد میں دیکھنے کی بات کی گئی، پی سی بی اپنی کوئی ہوم سیریز نیوٹرل وینیو پر نہ کھیلنے کا موقف برقرار رکھے ہوئے ہے۔
دوسری جانب رواں سال پاکستان سپر لیگ کے تمام میچز اصل گھر پاکستان میں ہی کروانے کے لیے شیڈول بھی جاری کردیا گیا ہے، کراچی اور لاہور کیساتھ اس بار راولپنڈی اور ملتان میں بھی کرکٹ کا یہ میلہ سجے گا، 34 میچز ملک کے 4 مختلف وینیوز پر شائقین کی توجہ کا مرکز بنیں گے، افتتاحی تقریب 20فروری کو نیشنل سٹیڈیم کراچی میں ہوگی،پہلا میچ دفاعی چیمپئن کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور 2 بار ٹائٹل جیتنے والی اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیموں کے مابین کھیلا جائے گا،22 مارچ کو فائنل کا لاہور میزبان ہوگا۔
پہلا میچ روزانہ دوپہر 2بجے اور دوسرا رات 7بجے شروع ہوگا، ٹکٹوں کی فروخت 20 جنوری سے شروع ہوگی، پی ایس ایل کے آغاز سے 50روز قبل کاؤنٹ ڈاؤن شروع کرتے ہوئے بی سی بی ہیڈ کوارٹرز قذافی اسٹیڈیم کے باہر سٹار کرکٹرز کی تصاویر سے مزیئن ایک کلاک بھی نصب کردیا گیا ہے، ایونٹ کا واحد کوالیفائر نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا جائے گا، فائنل کیساتھ دونوں ایلیمنٹرز کی میزبانی بھی قذافی اسٹیڈیم لاہور کو دی گئی ہے، 14 میچ لاہور ، 9 کراچی، 8 راولپنڈی اور 3 ملتان میں ہوں گے۔
دفاعی چیمپئن کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اپنے 4 میچز کراچی، 3 لاہور 2 راولپنڈی اور 1 ملتان میں کھیلیں گے، پشاور زلمی کو اپنے 5 میچز راولپنڈی،3 کراچی جبکہ 1،1 لاہور اور ملتان میں کھیلنے کا موقع ملے گا، اسلام آباد یونائیٹڈ اپنے 5 میچز راولپنڈی، 3 لاہور اور 2 کراچی میں کھیلیں گے، کراچی کنگز اپنے 5 میچز کراچی، 2،2 لاہور اور راولپنڈی جبکہ ایک ملتان میں کھیلنے کا موقع پائیں گے۔
ملتان سلطانز اپنے 5 میچز لاہور، 3 ملتان جبکہ 1،1 راولپنڈی اور کراچی میں کھیلیں گے، لاہور قلندرز اپنے 8 میچز لاہور جبکہ 1،1 کراچی اور راولپنڈی میں کھیلیں گے،یاد رہے کہ شیڈول مرتب کرتے ہوئے کسی بھی وینیو پر ایک دن میں 2 میچ نہیں رکھے گئے،دوپہر کو ایک شہر میں تو رات کو دوسرے میں ٹیمیں ایکشن میں ہوں گی۔
زمبابوین ٹیم کی آمد کے 2سال بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا دروازہ در اصل پی ایس ایل نے ہی کھولا تھا، پورے یونٹ کا پاکستان میں انعقاد ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی، دوسری طرف یہ پی سی بی، سیکورٹی اداروں کے ساتھ عوام کے لیے بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اس بار ایک یا 2 نہیں 4وینیوز کے گرد سیکورٹی کا حصار قائم کرنا ہوگا، پی سی بی حکام اور پی ایس ایل کی مینجمنٹ کو بھی سخت محنت کرنا ہوگی، عوام کے لیے چیلنج یوں ہے کہ انہیں سخت حفاظتی انتظامات کے دوران پیش آنے والی مشکلات کو بھی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرنا ہوگا۔
قوم اس امتحان میں بھی سرخرو ہوئی تو آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ جیسی بڑی ٹیموں کو بھی دورہ پاکستان پر آمادہ کرنے کے لیے پی سی بی کا کیس مضبوط ہوگا، اعتماد کی دولت چھن جائے تو بحالی کا سفر ہمیشہ مشکل ہوتا ہے، پاکستان کے سیکورٹی اداروں کی مدد سے ابھی تک مسلسل مثبت پیش رفت ہوئی ہے، پی سی بی کو بھی اس سفر میں کسی کی ناراضی مول لینے کی بجائے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے درمیانی راستے نکالنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
بنگلہ دیشی ٹیم اگر ٹی ٹوئنٹی میچز کے لیے پاکستان آنے کو تیار ہے تو ٹیسٹ میچز لازمی کھیلنے کی ضد چھوڑ دینا چاہیے، سری لنکن ٹیم کو بھی گزشتہ سال اکتوبر میں ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے لیے آنا تھا، بعدازاں دونوں بورڈز کی باہمی رضامندی کے ساتھ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز پہلے شیڈول کردیئے گئے،اعتماد بحال ہونے پر ٹیسٹ سیریز بھی ممکن ہوگئی، گرچہ جنوری، فروری کے بعد پاکستان ٹیم کی مصروفیات کے سبب بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ میچز کے لیے وقت نکالنا مشکل نظر آرہا ہے لیکن فی الحال ایک مزید انٹرنیشنل ٹیم کی ملک میں آمد کو غنیمت سمجھتے ہوئے بنگال ٹائیگرز کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی سیریز شیڈول کرلینا بھی غلط فیصلہ نہیں ہوگا۔
موجودہ صورتحال میں پاکستان کو عالمی کرکٹ برادری میں دوستوں کی اشد ضرورت ہے، چیئرمین پی سی بی احسان مانی بنگلہ دیشی ٹیم کے ٹیسٹ سیریز کے لیے نہ آنے کی صورت میں آئی سی سی ڈسپیوٹ کمیٹی میں جانے کا عندیہ دیتے آرہے ہیں، ان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کے باہمی سیریز کے معاملات میں کرکٹ کی عالمی باڈی مداخلت نہیں کرتی، یہ نکتہ نظر بنگلہ دیشی بورڈ کے حکام کی جانب سے بھی سامنے لایا جا چکا ہے، پی سی بی بھارت کیخلاف باہمی سیریز کے معاملے میں آئی سی سی ڈسپیوٹ کمیٹی میں جاکر کروڑوں کا نقصان اٹھا چکا ہے، اس بار کوئی نئی غلطی کرنے کے بجائے بنگلہ دیش کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔