کوئی تو ان کی دم ہلا دے

ان گلیوں کے آوارہ کتوں کو بھی نہیں معلوم تھا کہ مولانا صاحب انھیں اس مقام تک پہنچا دینگے۔

muhammad.anis@expressnews.tv

میں دو دن سے اپنی گلی کے کتوں کو رشک سے دیکھ رہا تھا کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ اگر جنت میں ان سے آمنا سامنا ہو گیا توکیا ہو گا۔ جنت اور دوزخ سے لے کر یہودی ہونے تک کا سرٹیفیکٹ جاری کرنے والے مولانا فضل الرحمان نے کتوں کو بھی جنت میں جانے کے لیے سرٹیفیکٹ جاری کر دیا ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ امریکا سے ڈسے ہوئے ہوں۔میری ماں مجھے بچپن سے بتاتی رہیں کہ شہید جنت میں جائینگے مگر انھوں نے مجھے کبھی نہیں بتایا تھا کہ شہیدوں کی فہرست میں کتے بھی آسکتے ہیں۔ میری گلی کے نکڑ پر موجود پان والے بابو نے بتایا کہ آج کل روزانہ رات کو کتوں کی کانفرنس ہو رہی ہے جس میں یہ فیصلہ کیا جارہا ہے کہ امریکا کو کراچی بلایا جائے یا شہادت کے لیے وزیرستان جایا جائے ۔بابو کا خیال ہے کہ سب سے بڑے والے کتے کو امریکا ضرور مارے گا کیونکہ وہ کئی بچوںکو کاٹ چکا ہے۔ کتوں میں بھی مقابلہ شروع ہو جائے گا کہ جو جتنے بے گناہ انسان مارے گا اُسے اتنی جلد امریکی ڈرون کے ذریعہ شہادت ملے گی۔

مجھے کروٹ کروٹ کتے یاد آرہے تھے ۔ رات کے دوسرے پہر یہ سوچے بغیر کہ کچھ اچھے مولانا جلدی سو جاتے ہیں، میں نے اپنے ایک رفیق اور جامعہ بنوریہ العالمیہ کے مفتی سیف اللہ ربانی صاحب کو اپنی نیند نہ آنے کی وجہ بتائی اور پوچھا کہ جناب، جنت میں کتے ہونگے یا نہیں ؟ انھوں نے سادگی سے کہا کہ آج کل کے کتے کا تو معلوم نہیں لیکن روایات میں اصحاب کہف کے ایک کتے کے جنت میں جانے کی بشارت موجود ہے۔ مگر کیا ہمارے آج کے اصحاب خود جنت میں جائینگے جو کتوں کو شہید کرانے پر تلے ہوئے ہیں؟ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ کسی کی نیت اور شہادت کے مرتبے کا فیصلہ تو خدا ہی کر سکتا ہے ۔ مگر ہمارے یہاں کے کچھ عقل مند اور دانشور حضرات پہلے ہی سرٹیفکیٹ دینے لگ گئے ہیں۔

وزیرستان سے لے کر اسلام آباد تک اپنے سارے گھوڑے دوڑانے کے باوجود مجھے معلوم نہیں ہو سکا کہ ایک جماعت کے شہید کے ساتھ کوئی کتا بھی موجود تھا یا نہیں۔؟کروڑوں کے گھر اور لاکھوں کی گاڑی جہاں ہو، وہاں کتے تو ضرور ہوتے ہیں۔ کچھ جگہ بھوکنے والے ہوتے ہیں اور کہیں کاٹنے والے ۔ ہمارے استاد ، بھائی اور دوست ایاز خان صاحب نے اپنے کالم میں کئی اشارے دیے ہیں کہ کس نے جنت میں بھیجنے کا پورا بندوبست کیا ؟ اور کون آیندہ دنوں میں لوگوں کو حقیقی جنت کی طرف روانہ کریگا۔میرے تو پروں کو یہاں سے جلنے کی بیماری شروع ہو جاتی ہے اس لیے آگے کی کہانی ایاز خان صاحب ہی آپ کو بتائیں گے۔میں تو شہادت کے سرٹیفکیٹ پر آکر پھنس گیا ہوں ۔ کوئی ہے جو اپنی زنبیل سے تاریخ کے صٖفحے نکال کر مجھے سمجھائے کہ سرد جنگ کے دوران جو روسی امریکی اسلحہ سے مرے تھے کیا وہ بھی شہید کہلائیں گے؟ ویت نام کے ان تمام کیمونسٹوں کو تو ہم کبھی شہید نہیں کہہ سکتے جو امریکی اسلحہ سے چیچھڑوں کی طرح جانوروں کو کھلا دیے گئے تھے؟اس وقت شام میں بشار الاسد کا اگر کتا امریکی اسلحہ سے مر گیا تو ہم اسُے کیا درجہ دینگے ؟

بھائی آپ تو سیریس ہو گئے،میں تو سیاست کر رہا تھا۔ اصل کہانی یہ ہے کہ میں کئی دنوں سے ٹشو بنانے والی کمپنیوں کے سیلز مین کو ڈھونڈ رہا ہوں تاکہ جیسے ہی چوہدری نثار صاحب پریس کانفرنس کے لیے آئیں تو انھیں دیتا رہوں ۔ اُن کی سیاست پر ڈرون گرنے سے جتنا صدمہ ہوا ہے اتنا میڈونا کو اپنی بلی کے بیمار ہونے پر نہیں ہوا ہو گا۔مغرب بلی ، کتوں اور جانورں سے اتنی محبت کیوں کرتا ہے یہ مجھے اب سمجھ آیا ہے کہ انھیں ڈر ہے کہ اگر اُن کا کتا جنت میں چلا گیا تو وہ کہیں تنہا نہ رہ جائے۔


فیض احمد فیض نے لکھا تھا ؎

یہ گلیوں کے آوارہ کتے

ان گلیوں کے آوارہ کتوں کو بھی نہیں معلوم تھا کہ مولانا صاحب انھیں اس مقام تک پہنچا دینگے۔ مولانا صاحب نے ان کی سوئی ہوئی دم کو ہلا دیا ہے یا صدیوں سے ٹیڑھی دم کو سیدھا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہم مذاکرات کرینگے یا نہیں ابھی تک اس پر ہماری تحقیق مکمل نہیں ہوئی لیکن مغربی سائنسدانوں نے کتے کی دم پر تحقیق کر کے ثابت کر دیا ہے کہ کون سا وقت ان سے مذاکرات کے لیے ٹھیک ہے اور کون سا سیاست کے لیے بہتر ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق جب کتا بائیں طرف دم ہلائے تو سمجھ جائیں کہ مذاکرات ممکن ہے کیونکہ اُس وقت وہ خوشی کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ وقت کی کمی تھی ورنہ کئی لوگ وزیر داخلہ سے پوچھنا چاہتے تھے کہ انھیں کیسے یقین ہوا تھا کہ اس وقت دم بائیں طرف ہل رہی ہے ۔ سینیٹ والوں نے وزیر داخلہ صاحب کو یہ بات سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے کہ جناب، اٹلی کے جس سائنسدان نے یہ تحقیق کی ہے وہ بھی پریشان ہے کہ اس کے سائیڈ افیکٹ اتنے برے کیوں آرہے ہیں ۔ اب اس میں قصور کتے کا ہے یا دم کا ؟

اگر آپ کا اُس سائنسدان سے رابطہ ہو جائے تو برائے مہربانی اُس سے پوچھیے گا کہ کیا کتے کی دم میں کوئی مٹانے والا مٹیریل ہوتا ہے یا لکھنے والا ۔ کیونکہ ایمنسٹی نے یہ لکھا کہ ڈرون سے 600 سے زائد عام شہری ہلاک ہوئے۔ مگر ناجانے حکومت میں کس نے دم ہل کر ایک زیرو (صفر) مٹا دیا۔مجھے لگتا ہے کہ سینیٹ میں اختلاف کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ کس نے دم ہلا کر وزیر داخلہ کو مشکل میں ڈالا ہے پر جب سیاست چل رہی ہو تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کتا شہید ہو رہا ہے یا بلی ۔ بس اُس وقت صرف سیاست ہوتی ہے جیسے کہ حکیم اللہ محسود کے بعد حکومت اور اپوزیشن نے کی ۔ شہید چاہے کوئی بھی ہو اُس کے بعد بس سیاست ہوتی ہے ۔ جس میں دم ہلا ہلا کر کبھی کچھ لکھا جاتا ہے اور کبھی کچھ مٹا دیاجاتا ہے ۔ لیکن کوئی تو ان کی دم ہلا دے ۔
Load Next Story