’لیکچرر‘ منتخب نہ کرنے والے استاد نے کہا ’بھلا تمہیں کیا ضرورت‘ رئیس فاطمہ
والد نے قرض لے کر گھر بنوایا، دلی اور الہ آبا دکے مکانات کا کوئی ’کلیم‘ نہیں لیا
برصغیر کی دھرتی پر جب 1947ء میں مذہب کے نام پر بلوائیوں نے خون بہانا شروع کیا، تو بہت سے 'احساس مند' ایسے بھی تھے، جنہوں نے آگے آکر اپنے ہم مذہب شرپسندوں سے دوسرے عقائد کے ماننے والے انسانوں کی جانیں بچائیں۔۔۔
الہ آباد کا یہ واقعہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔۔۔ یہ نگری بٹوارے کے بعد بھارت کا حصہ قرار پائی، تو یہاں کے مسلمانوں پر عتاب ٹوٹا۔۔۔ ان کے والد کراچی میں تعینات تھے۔۔فسادات میں اس مسلمان گھرانے کے لیے بنگالی ہم سائے 'باسو بابو' نے اپنے گھر کے دروازے کھول دیے۔۔۔ اور حفاظت کا اتنا پکا انتظام کیا کہ سب کے تلک لگائے اور 'ہندو' حلیے بنائے۔۔۔ یہاں تک کے نام بھی ہندو رکھ دیے اور پھر یہ ظاہر کیا کہ یہ میری بھاوج اور ان کے بچے آئے ہوئے ہیں۔۔۔ جب بلوائیوں کا جی کچھ ٹھنڈا ہوا تو وہ انہیں وہاں سے بمبئی لے گئے اور پھر سمندری راستے کراچی روانہ کیا۔۔۔
جب کراچی میں موجود ان کے والد کو اپنے بیوی بچوں کے آمد کی اطلاع ہوئی، تو ان کی کیفیت کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں، کیوں کہ انہیں جو خبریں ملی تھیں، اس کے مطابق وہ یہ قیاس کر چکے تھے کہ ان کا گھرانا فسادات کی نذر ہو چکا ہے!
یہ سچی بپتا ممتاز ادیبہ اور مدرس رئیس فاطمہ کی ہے۔۔۔ ان کے والد نے بھی 'باسو بابو' کا یہ احسان فراموش نہیں کیا، اس حوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ 'کراچی میں انہیں برنس روڈ پر 'رحمت مینشن' میں گھر دیا گیا، جہاں وہ 1956ء تک رہیں، پڑوس میں رہائش پذیرہندو خاندان کا انہیں خاص خیال رکھنے کی ہدایت تھی، اُن کی حفاظت کی خاطر ان کے گھر پر باہر سے تالا ڈالے رکھا، پھر ایک دن کچھ مشتعل لوگ، جن میں باریش اور نمازوں کے نشان والے افراد بھی شامل تھے، وہ نقصان پہچانے آگئے، تو اُن کی دادی اور والدہ جو مکمل پردہ کرتی تھیں، گھر سے نکل کر آڑے آگئیں، دادی بولیں کہ میں سید زادی ہوں، تم لوگ میری لاش پر سے ہی گزر کر کچھ کر سکتے ہو! تم کیسے مسلمان ہو؟ مسلمان تو کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
اِدھر تم ہندوؤں کو مارو گے، اُدھر ہندوستان میں ہندو مسلمانوں کی جان کے درپے ہوں گے، چناں چہ وہ سر جھکا کر واپس چلے گئے۔ اس کے بعد والد نے اس ہندو خاندان کو تقریباً ایک ماہ اپنے گھر میں ٹھیرایا، وہ ہمارے ساتھ ہی دال اور سبزی سے لے کر گوشت تک جو بھی پکتا وہ کھاتے، اس دوران والدہ نے ان سے بے شمار پکوان اور مٹھایاں وغیرہ بنانا سیکھ لیں۔ والد کہتے تھے کہ وہاں ہم پر 'باسو بابو' نے احسان کیا، ہم بھی تمہیں ایسے نہیں جانے دیں گے، والد نے ان کے 'پگڑی' کے گھر کی قیمت لگوا کرپورے پیسے دیے، بلکہ انہیں ہوائی جہاز کا ٹکٹ کرا کے اچھی طرح ہندوستان روانہ کیا۔
رئیس فاطمہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے 1946ء میں الہ آباد میں آنکھ کھولی، انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کا پورا نام 'رئیس فاطمہ آفریدی' ہے، ان کے دادا دشمنیوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے پریشان ہو کر پشاور سے دلی آبسے تھے، انہوں نے وہاں سب کو معاف کرنے کا ایک خط چھوڑا اور کسی کو خبر کیے بغیر شہر چھوڑ دیا، پھر انہوں نے دلی میں ہی شادی کی۔ رئیس فاطمہ کے والد محمد بخش برطانوی دور حکومت میں 'سول ایوی ایشن' کے افسر متعین ہوئے، اس حوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ انٹرویو میں واحد مسلمان امیدوار تھے، جس کے سبب وہ ناامید تھے، لیکن وہ منتخب کیے گئے۔
اپنے والد سے متاثر رئیس فاطمہ کے بقول ان کے والد نے دلی اور الہ آباد میں اپنے مکانات کا یہاں کوئی بھی 'کلیم' (Claim) جمع نہیں کرایا، جب کہ یہاں 'پی ای سی ایچ ایس' (پاکستان ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی) میں انہیں قرض لے کر اپنا گھر بنوانا پڑا۔ یہاں انہوں نے اپنے اردگرد اتنی رشوت ستانی دیکھی کہ حاجیوں تک سے 'نذرانے' وصول کیے جاتے، لیکن انہوں نے کبھی کوئی غلط چیز گوارا نہ کی۔ جس اہلیت پر وہ خود آگے آئے، چاہتے تھے کہ ہم بھی اسی قابلیت پر آگے جائیں، اس لیے انہوں نے میری کبھی کوئی سفارش نہیں کی۔'
گفتگو میں رئیس فاطمہ کے پیشہ ورانہ سفر کا ذکر درآیا، اس بابت وہ اوراق زیست یوں پلٹتی ہیں '1972ء میں جب وہ پہلی بار 'لیکچرر' کی اسامی کے لیے انٹرویو دینے حیدرآباد گئیں۔ تو وہاں والد کو ان کے ایک شناسا افسر نے بتایا کہ 'یہاں وزیر صاحب کی ہدایت پر بھرتیاں طے ہو چکی ہیں، بیٹی سے کہو کہ وہ کوئی توقع نہ رکھے۔ رئیس فاطمہ کے بقول ان کا انٹرویو بہت اچھا ہوا، اس لیے وہ بہت پرامید تھیں، لیکن نتائج بہت تکلیف دہ رہے۔۔۔ یہ ان کی زندگی میں 'اہلیت' کا پہلا 'خون' تھا۔ اس سے پہلے وہ کالج سے یونیورسٹی تک ہر جگہ 'اہلیت' کو ہی سب کچھ سمجھتی آئی تھیں، لیکن یہاں معاملہ کچھ اور دیکھا۔
اس کے بعد کئی بار ایسا بھی ہوا کہ 'لیکچرر' کے انٹرویو لینے میرے اپنے ہی اساتذہ بیٹھے ہوئے ہوتے اور وہ مجھے منتخب نہیں کرتے۔۔۔ اردو کے ایک بہت نام وَر استاد نے انٹرویو میں مجھے مسترد کیا اور اپنی بھتیجی کا تقرر کرا دیا، جس پر مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے ان سے پوچھا کہ 'کلاس میں تو آپ میری مثالیں دیتے ہیں، لیکن انٹرویو میں مجھے منتخب نہیں کرتے، تو وہ بولے کہ تم تو ایک کھاتے پیتے گھرانے سے ہو، تمہیں بھلا کیا ضرورت؟ میں نے کہا کہ اگر کھاتے پیتے گھرانے سے ہوں، تو کیا مجھ سے یہ حق چھن گیا کہ میں اپنی مرضی کا کوئی کام اختیار کر سکوں؟
تعلیمی سفر کا ذکر کرتے ہوئے رئیس فاطمہ کہتی ہیں کہ 'کراچی کالج' سے گریجویشن کے بعد 1968ء میں جامعہ کراچی میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا، جہاں 'ہمدرد' فاؤنڈیشن کی روح ورواں سعدیہ راشد سمیت بہت سی نام ور شخصیات کا ساتھ رہا۔ رئیس فاطمہ کے بقول انہیں والد نے اعتماد دیا، جس کی وجہ سے لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں سے دوستی رہی۔ لکھنے لکھانے کے حوالے سے رئیس فاطمہ نے بتایا کہ اس کا آغاز بچوں کے مشہور رسالے 'نونہال' سے ہوا، پھر زمانہ طالب علمی میں ہی'جنگ' اخبار کے صفحے 'بزم طلبہ' میں ڈاکٹر نثار احمد زبیری کے زیر نگرانی 'کالم نگاری' کے ملک گیر مقابلے میں ان کا کالم بہترین قرار پایا، جس کے بعد انہیں وہاں ایک سال کے لیے کالم 'نذر طالبات' لکھنے کے لیے منتخب کیا گیا۔
اس کے علاوہ افسانے لکھنے کا سلسلہ بھی رہا، ادب لطیف، سیپ، اخبار خواتین، اخبار جہاں اور شاہد علی شاہد کے پرچے 'الحمرا' میں افسانے شایع ہوتے رہے ہیں، اس کے علاوہ پاکستان و ہندوستان متعدد ایسے پرچوں میں بھی افسانے شایع ہوئے، جس کی خبر بہت بعد میں ملی۔۔۔
رئیس فاطمہ افسانوںسے اپنی خاص رغبت کا اظہر کرتی ہیں، انہوں نے نام وَر ادیبہ قرۃ العین حیدر کے کام کا بھی تنقیدی جائزہ لیا، اُن کے مشہور ترین ناول ''آگ کا دریا'' کے ابتدائی صفحات پر تحقیق کی، جنہیں عام طور پر بوجھل کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور بہت کم قارئین انہیں سمجھ پاتے ہیں۔ رئیس فاطمہ کا خیال ہے کہ قرۃ العین حیدر کے بہت سے افسانے اِن کی آنکھوں دیکھی سچائیوں پر مبنی ہیں۔۔۔
صدا کاری کے حوالے سے رئیس فاطمہ بولیں کہ ریڈیو پاکستان کے بچوں کے پروگرام سے شرکت سے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا اور پھر 'بزم طلبہ' اور دیگر پروگراموں تک سلسلہ جاری رہا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ صبح دن بھر کے پروگراموں کی تفصیل میں وہ اپنا نام سن کر چونک جاتیں کہ کوئی دعوت نامہ تو ملا نہیں، پھر وہ یاور مہدی کو کال کرتیں، تو وہ اس کی تصدیق کرتے، اور کہتے کہ تم فی البدیہہ بات کر لیتی ہو، اس لیے جب کوئی اچانک انتظام کرنا ہو تو ہم تمہارا نام ڈال دیتے ہیں۔
رئیس فاطمہ بتاتی ہیں کہ 'پی ٹی وی' پر بھی گاہے گاہے سلسلہ رہا، قرۃ العین حیدر پر 13 پروگرام اور 'اسلامی سربراہی کانفرنس' کے پروگرام کے لیے سوالات کی تیاری قابل ذکر ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کہیں بھی کام کے لیے کہا نہیں، کسی نے بلایا تو چلی گئی، یہاں شاعروں اور ادیبوں کی گروہ بندیاں ہیں، بہت سی ادبی بیٹھکوں کی خبر ملتی ہے کہ فلاں فلاں نے آپ کے نام پر اعتراض کر کے آپ کا نام کٹوا دیا اور میں نام لے کر بتا دیتی ہوں کہ فلاں شخصیت نے اعتراض کیا ہوگا۔
رئیس فاطمہ کو زمانۂ طالب علمی میں ہی والدہ کی رحلت کا صدمہ سہنا پڑا، پھر والد نے دوسری شادی کرلی، جس سے گھر کے ماحول میں کافی تبدیلی آئی، کالج سے گھر لوٹتیں تو کبھی کھانا بھی کھایا جا چکا ہوتا، پھر ساتھ ملے ہوئے بھائی بھابی کے گھر جانا پڑتا۔ دراصل دوسری والدہ کو ان کی اپنے والد سے دوستی، ہم آہنگی اور تبادلہ خیال کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔
اس لیے انہوں نے باپ بیٹی کے درمیان فاصلے بڑھانے کی کوشش کی، وہ کہتی ہیں 'پھر میں بھی وقت کے تقاضے کے ساتھ ساتھ خود کو محدود کرتی چلی گئی، والد سے پیسے لینا بند کر دیے، وہ خود میری میز پر روپے رکھ کر چلے جاتے تھے، والدہ کا تقاضا تھا کہ مجھے جو ریڈیو وغیرہ سے چیک ملتے ہیں، میں وہ گھر پر دیا کروں، والد نے اسی لیے طارق روڈ پر واقع ایک بینک میں میرا اکاؤنٹ کھلوا دیا، تاکہ نہ میں انہیں چیک کیش کرانے کے لیے دوں اور نہ ہی دوسری والدہ کے سامنے یہ سب ذکر آئے۔
اپنے 'ڈاکٹریٹ' کے حوالے سے رئیس فاطمہ نے بتایا کہ اردو کے ایک ممتاز استاد کو وہ کئی موضوعات مع تحقیقی خاکہ بنا کر دیتیں، جسے وہ مسترد کر دیتے، لیکن پھر دوسروں کو تفویض کردیتے، پھر آخر میں، انہوں نے اپنے سسر احمد میاں جونا گڑھی کے اردو کام پر کام شروع کیا۔ 'نگراں' کی عدم توجہی کے سبب وہ بد دل ہوگئیں، لیکن اپنی یہ تحقیق 'اکادمی ادبیات کے معروف سلسلے 'پاکستانی ادب کے معمار' کے حوالے سے اشاعت کی بات ہوئی، پھر وہاں سے افتخار عارف رخصت ہوئے تو معاملہ کھٹائی میں پڑتا چلا گیا۔ پھر انہیں پتا چلا کہ ان کے کراچی سے تعلق کی وجہ سے معاملہ اٹک رہا ہے، چناں چہ انہوں نے پھر مسودہ واپس منگا لیا، وہ اب جوں کا توں ان کے پاس موجود ہے۔
اب تک 15کتابیں شایع ہوچکیں۔۔۔
رئیس فاطمہ نے باقاعدہ اور مستقل کالم نگاری روزنامہ ایکسپریس سے شروع کی، ان کا پہلا کالم یکم جنوری 2000ء کو شایع ہوا، اس حوالے سے وہ کہتی ہیں کہ مرحوم کالم نگار سید مشرف احمد نے انہیں بتایا کہ 'ایکسپریس' میں خواتین کالم نگاروں کی ضرورت ہے، انہوں نے نمونے کے طور پر تین کالم بھیجے کہ جو بہتر لگے، وہ شایع کرلیں، لیکن باری باری ان کے وہ تینوں کالم چھَپے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے وہ کالم نہیں لکھ پارہیں۔
ان کی کوشش ہے کہ جلد ہی وہ یہ سلسلہ بحال کریں۔ رئیس فاطمہ اپنی کتابوںکی اشاعت کو اپنے مرحوم شوہر قاضی اختر جونا گڑھی کی توجہ کا نتیجہ قرار دیتی ہیں، ورنہ انہوں نے کبھی اپنی تحریروں کو یک جا کرنے کا سوچا بھی نہیں تھا۔ 2000ء میں انہوں نے اس کی سعی کی اور پھر افسانوں، کالموں، بچوں کی کہانیوں، سفرناموں سے لے کر ادبی تنقید تک مختلف کتب شایع کرائیں، جن کی کل تعداد 15ہے۔
شہروں میں 90 فی صد مرد عورتوں کے استحصال کا شکار ہے!
رئیس فاطمہ کے بقول انہوں نے مظلوموں پر لکھا۔ 'ڈائجسٹ ادب' کا ذکر نکلا توبولیں کہ اس میں ساس، بہو اور شادی اور طلاق کے گنے چنے سے موضوعات ہی گردش کرتے رہتے ہیں، اصل ادب وہ ہوتا ہے، جو آپ کے احساسات، کرب اور سماج کے مسائل اور مظلوم کی آواز بنے۔
شاید اب سماج میں مظلومیت کا مطلب یہی ہے کہ ایک عورت ہے، جو ظلم کی چکی میں پس رہی ہے، جب کہ میرا کہنا یہ ہے کہ ہمارے دیہاتوں میں بے شک عورت پر مظالم ہوتے ہیں، لیکن ہمارے شہروں میں 90 فی صد مرد مظلوم ہے، اس کا استحصال خواتین کر رہی ہیں ،اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ میں نے خواجہ سراؤں کی تکلیف دہ زندگی کو دیکھا، تو پھر ان پر کالم لکھے، ہمارے ہاں انہیں سنجیدگی سے موضوع ہی نہیں بنایا جاتا۔
''شادی کا پوچھا تو ڈر ہے کہ کہیں وہ تھپڑ نہ مار دے۔۔۔!''
شادی کے ذکر پر رئیس فاطمہ نے بتایا کہ قاضی اختر جوناگڑھی سے ان کی پہلی ملاقات 1968ء میں 'انجمن ترقی اردو' کے کتب خانے میں ہوئی، لائبریرین نے میری کتاب دوستی کی تعریف کی، تو وہ میری طرف متوجہ ہوئے، وہ میری تحریروں سے واقف تھے۔ یہ پہلا تعارف تھا، پھر چند برسوں بعد اپنی سہیلی اختر جبیں کے ہم راہ اچانک دوبارہ ملاقات ہوئی، اتفاق سے اختر جبیں کے شوہر قاضی صاحب کے شناسا تھے۔
اس لیے انہوں نے اختر جبیں کو رئیس فاطمہ سے اپنی شادی کے خیال سے آگاہ کیا، جس پر انہوں نے کہا کہ آپ کی بھی تو دوستی ہے، آپ خود کہیں، تو قاضی اختر بولے کہ 'اگر ان سے کہوں گا، تو ڈر ہے کہ وہ کہیں تھپڑ ہی نہ مار دیں۔' ہم نے رئیس فاطمہ سے پوچھا کہ کیا واقعی ایسا ہوتا، تو وہ بولیں کہ چوں کہ گھرانا ایسا رہا ہے، تو بس اٹھ کر چلی جاتی، میں نے تو اپنے کسی شاگرد پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں اپنی زندگی اور حالات دیکھ کر شادی کا خیال دل سے نکال چکی تھی، لیکن ذہین طاہرہ نے سمجھایا کہ دیکھو اب دوسری والدہ کے آنے کے سبب تمہارے گھر کا ماحول بھی تمہارے لیے اجنبی اجنبی سا ہونے لگا ہے۔
تمہارے والد مجھ سے تمہاری شادی کے حوالے سے فکرمندی ظاہر کرتے رہتے ہیں۔۔۔ تو میں کہتی کہ کیسے کسی نئے فرد کے ساتھ اپنی پوری زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لوں، تو انہوں نے کہا کہ کچھ چیزیں قسمت پر بھی چھوڑ دینا چاہئیں۔ یوں 1979ء میں وہ قاضی محمد اختر جونا گڑھی کی شریک حیات ہوگئیں، وہ خود بھی ادب وصحافت کے راہی تھے، 2015ء میں شوہر کی رحلت نے رئیس فاطمہ کی زندگی کو ایک گہرے صدمے سے دوچار کیا۔ ان کا ایک بیٹا راحیل اختر ہے، جو اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب بیٹا چھوٹا تھا، تو فکرمند رہتی تھیں کہ اس کے اسکول لوٹنے سے پہلے کالج سے گھر آجاؤں۔ اب وہ اسلام آباد میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، وہ میری نظروں سے دور ہیں، میں ان کی آواز بھی نہیں سن سکتی، لیکن میری تمام دعائیں ان کے ساتھ ہیں کہ وہ ہمیشہ خوش رہیں۔
جامعہ ملیہ سے دہلی کالج تک ۔۔۔
رئیس فاطمہ کے تدریسی سفر کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ وہ 1974ء میں جامعہ ملیہ کالج میں ایڈہاک پر 'لیکچرر' ہوئیں، شہر قائد کی اس مشہور درس گاہ میں انہوں نے ایک یادگار دور گزارا۔ 1979ء میں 'پبلک سروس کمیشن' کا امتحان دے کر 'مستقل' ہوگئیں، تو سعود آباد کالج میں تقرر ہوگیا۔ جامعہ ملیہ کے بھرپور علمی ماحول کے بعد یہاں جی نہ لگا، تبادلے کی درخواست پر ڈگری کالج فیڈرل بی ایریا میں پرنسپل بننے کی پیش کش ہوئی، وہاں گئیں، تو وہاں کا ماحول نہ بھایا، چناں چہ سعود آباد کالج لوٹ گئیں۔ اس کے بعد سراج الدولہ کالج میں تبادلہ ہوا۔
جہاں طالب علم ہی نہیں آتے تھے، اور عملہ فقط حاضری لگا کر چلا جاتا، ان کے ضمیر نے ملامت کی اور جب انہوں نے یہاں سے تبادلے کی خواہش کی، تو کہا گیا کہ لوگ تو یہاں کہہ کر تبادلے کراتے ہیں، جس پر وہ بولیں 'مجھے نہیں لگتا کہ یہاں میری روزی حلال ہو رہی ہے!' پھر ناظم آباد گرلز کالج میں ایک بہت بھرپور وقت گزرا، اس کے بعد دہلی بوائز کالج میں بھی صرف کیے گئے وقت کو بھی بہت اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہاں لڑکوں کی حاضری سو فی صد ہوتی تھی۔ رئیس فاطمہ کہتی ہیں کہ انہیں 'آسان اردو' کے مقابلے میں 'اردو اعلیٰ' پڑھانے میں لطف آتا، بہت سے کم زور طلبہ مجھ سے اردو پڑھنے پر اصرار کرتے تو میں معذرت کر لیتی کہ پہلے آپ بنیادی اردو بہتر کر کے آئیں، پھر ضرور پڑھاؤں گی۔ وہ کہتی ہیں کہ دستاویزات پر عمر دو سال زیادہ لکھے جانے کے سبب انہیں 2004ء میں ریٹائر ہونا پڑا۔
'ملازموں سے بھی تبھی کام لے سکے گی جب خود جانتی ہوگی!'
ماضی کے دریچے وا کرتے ہوئے رئیس فاطمہ نے بتایا کہ 'میرے کمرے میں صرف کتابیں ہوتی تھیں اور ایک لکھنے کی میز تھی۔ لڑکی ہونے کے باوجود کبھی سنگھار میز یا آئینہ نہیں رکھا، میرے تیار ہونے کے لیے 'بیسن' کا شیشہ کافی تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں ہمیں لپ اسٹک لگانے کی اجازت نہیں تھی، کہ آپ پڑھنے جا رہے ہیں، تو پھر طالب علم ہی دکھائی دیں۔ جامعہ کراچی میں گاؤن لازمی ہوتا، اس کے بغیر کلاس میں نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ گھر میں والد روزانہ صبح اپنے سامنے اخبار پڑھواتے تھے، والدہ نے سختی کر کے امور خانہ داری سکھائے۔ ایک مرتبہ وہ مجھے کمرے سے کہانی پڑھتے پڑھتے اٹھا کر باورچی خانے لے آئیں۔
والد نے جب یہ ماجرا دیکھا، تو پوچھا، والدہ بولیں کہ یہ دوسرے گھر جائے گی، تو کیا کرے گی؟ اب ہم اس قابل تو ہیں نہیں کہ جہیز میں ساتھ ملازم بھی دیں، تو والد بولے کہ اس قابل تو ہیں کہ ملازم دے تو سکتے ہیں، جس پر والدہ نے کہا کہ خادموں سے بھی تو تب ہی کام لے سکے گی، جب خود کام آئے گا۔ والدہ مجھ سے روٹی بنواتیں، اور کہتیں چلو گول نہیں بنتی نہ سہی، یہ ٹیڑی میڑھی روٹی میں اور تمہارے ابا کھالیں گے، تم بناؤ۔ اس لیے ہمارے گھر میں کبھی روٹی باہر سے نہیں آئی، الا یہ کہ نہاری یا پائے پکے ہوئے ہوں۔ آج میں بھی یہ کہتی ہیں کہ عورت کا پہلی ترجیح اس کا گھر ہونا چاہیے۔
الہ آباد کا یہ واقعہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔۔۔ یہ نگری بٹوارے کے بعد بھارت کا حصہ قرار پائی، تو یہاں کے مسلمانوں پر عتاب ٹوٹا۔۔۔ ان کے والد کراچی میں تعینات تھے۔۔فسادات میں اس مسلمان گھرانے کے لیے بنگالی ہم سائے 'باسو بابو' نے اپنے گھر کے دروازے کھول دیے۔۔۔ اور حفاظت کا اتنا پکا انتظام کیا کہ سب کے تلک لگائے اور 'ہندو' حلیے بنائے۔۔۔ یہاں تک کے نام بھی ہندو رکھ دیے اور پھر یہ ظاہر کیا کہ یہ میری بھاوج اور ان کے بچے آئے ہوئے ہیں۔۔۔ جب بلوائیوں کا جی کچھ ٹھنڈا ہوا تو وہ انہیں وہاں سے بمبئی لے گئے اور پھر سمندری راستے کراچی روانہ کیا۔۔۔
جب کراچی میں موجود ان کے والد کو اپنے بیوی بچوں کے آمد کی اطلاع ہوئی، تو ان کی کیفیت کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں، کیوں کہ انہیں جو خبریں ملی تھیں، اس کے مطابق وہ یہ قیاس کر چکے تھے کہ ان کا گھرانا فسادات کی نذر ہو چکا ہے!
یہ سچی بپتا ممتاز ادیبہ اور مدرس رئیس فاطمہ کی ہے۔۔۔ ان کے والد نے بھی 'باسو بابو' کا یہ احسان فراموش نہیں کیا، اس حوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ 'کراچی میں انہیں برنس روڈ پر 'رحمت مینشن' میں گھر دیا گیا، جہاں وہ 1956ء تک رہیں، پڑوس میں رہائش پذیرہندو خاندان کا انہیں خاص خیال رکھنے کی ہدایت تھی، اُن کی حفاظت کی خاطر ان کے گھر پر باہر سے تالا ڈالے رکھا، پھر ایک دن کچھ مشتعل لوگ، جن میں باریش اور نمازوں کے نشان والے افراد بھی شامل تھے، وہ نقصان پہچانے آگئے، تو اُن کی دادی اور والدہ جو مکمل پردہ کرتی تھیں، گھر سے نکل کر آڑے آگئیں، دادی بولیں کہ میں سید زادی ہوں، تم لوگ میری لاش پر سے ہی گزر کر کچھ کر سکتے ہو! تم کیسے مسلمان ہو؟ مسلمان تو کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
اِدھر تم ہندوؤں کو مارو گے، اُدھر ہندوستان میں ہندو مسلمانوں کی جان کے درپے ہوں گے، چناں چہ وہ سر جھکا کر واپس چلے گئے۔ اس کے بعد والد نے اس ہندو خاندان کو تقریباً ایک ماہ اپنے گھر میں ٹھیرایا، وہ ہمارے ساتھ ہی دال اور سبزی سے لے کر گوشت تک جو بھی پکتا وہ کھاتے، اس دوران والدہ نے ان سے بے شمار پکوان اور مٹھایاں وغیرہ بنانا سیکھ لیں۔ والد کہتے تھے کہ وہاں ہم پر 'باسو بابو' نے احسان کیا، ہم بھی تمہیں ایسے نہیں جانے دیں گے، والد نے ان کے 'پگڑی' کے گھر کی قیمت لگوا کرپورے پیسے دیے، بلکہ انہیں ہوائی جہاز کا ٹکٹ کرا کے اچھی طرح ہندوستان روانہ کیا۔
رئیس فاطمہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے 1946ء میں الہ آباد میں آنکھ کھولی، انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کا پورا نام 'رئیس فاطمہ آفریدی' ہے، ان کے دادا دشمنیوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے پریشان ہو کر پشاور سے دلی آبسے تھے، انہوں نے وہاں سب کو معاف کرنے کا ایک خط چھوڑا اور کسی کو خبر کیے بغیر شہر چھوڑ دیا، پھر انہوں نے دلی میں ہی شادی کی۔ رئیس فاطمہ کے والد محمد بخش برطانوی دور حکومت میں 'سول ایوی ایشن' کے افسر متعین ہوئے، اس حوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ انٹرویو میں واحد مسلمان امیدوار تھے، جس کے سبب وہ ناامید تھے، لیکن وہ منتخب کیے گئے۔
اپنے والد سے متاثر رئیس فاطمہ کے بقول ان کے والد نے دلی اور الہ آباد میں اپنے مکانات کا یہاں کوئی بھی 'کلیم' (Claim) جمع نہیں کرایا، جب کہ یہاں 'پی ای سی ایچ ایس' (پاکستان ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی) میں انہیں قرض لے کر اپنا گھر بنوانا پڑا۔ یہاں انہوں نے اپنے اردگرد اتنی رشوت ستانی دیکھی کہ حاجیوں تک سے 'نذرانے' وصول کیے جاتے، لیکن انہوں نے کبھی کوئی غلط چیز گوارا نہ کی۔ جس اہلیت پر وہ خود آگے آئے، چاہتے تھے کہ ہم بھی اسی قابلیت پر آگے جائیں، اس لیے انہوں نے میری کبھی کوئی سفارش نہیں کی۔'
گفتگو میں رئیس فاطمہ کے پیشہ ورانہ سفر کا ذکر درآیا، اس بابت وہ اوراق زیست یوں پلٹتی ہیں '1972ء میں جب وہ پہلی بار 'لیکچرر' کی اسامی کے لیے انٹرویو دینے حیدرآباد گئیں۔ تو وہاں والد کو ان کے ایک شناسا افسر نے بتایا کہ 'یہاں وزیر صاحب کی ہدایت پر بھرتیاں طے ہو چکی ہیں، بیٹی سے کہو کہ وہ کوئی توقع نہ رکھے۔ رئیس فاطمہ کے بقول ان کا انٹرویو بہت اچھا ہوا، اس لیے وہ بہت پرامید تھیں، لیکن نتائج بہت تکلیف دہ رہے۔۔۔ یہ ان کی زندگی میں 'اہلیت' کا پہلا 'خون' تھا۔ اس سے پہلے وہ کالج سے یونیورسٹی تک ہر جگہ 'اہلیت' کو ہی سب کچھ سمجھتی آئی تھیں، لیکن یہاں معاملہ کچھ اور دیکھا۔
اس کے بعد کئی بار ایسا بھی ہوا کہ 'لیکچرر' کے انٹرویو لینے میرے اپنے ہی اساتذہ بیٹھے ہوئے ہوتے اور وہ مجھے منتخب نہیں کرتے۔۔۔ اردو کے ایک بہت نام وَر استاد نے انٹرویو میں مجھے مسترد کیا اور اپنی بھتیجی کا تقرر کرا دیا، جس پر مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے ان سے پوچھا کہ 'کلاس میں تو آپ میری مثالیں دیتے ہیں، لیکن انٹرویو میں مجھے منتخب نہیں کرتے، تو وہ بولے کہ تم تو ایک کھاتے پیتے گھرانے سے ہو، تمہیں بھلا کیا ضرورت؟ میں نے کہا کہ اگر کھاتے پیتے گھرانے سے ہوں، تو کیا مجھ سے یہ حق چھن گیا کہ میں اپنی مرضی کا کوئی کام اختیار کر سکوں؟
تعلیمی سفر کا ذکر کرتے ہوئے رئیس فاطمہ کہتی ہیں کہ 'کراچی کالج' سے گریجویشن کے بعد 1968ء میں جامعہ کراچی میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا، جہاں 'ہمدرد' فاؤنڈیشن کی روح ورواں سعدیہ راشد سمیت بہت سی نام ور شخصیات کا ساتھ رہا۔ رئیس فاطمہ کے بقول انہیں والد نے اعتماد دیا، جس کی وجہ سے لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں سے دوستی رہی۔ لکھنے لکھانے کے حوالے سے رئیس فاطمہ نے بتایا کہ اس کا آغاز بچوں کے مشہور رسالے 'نونہال' سے ہوا، پھر زمانہ طالب علمی میں ہی'جنگ' اخبار کے صفحے 'بزم طلبہ' میں ڈاکٹر نثار احمد زبیری کے زیر نگرانی 'کالم نگاری' کے ملک گیر مقابلے میں ان کا کالم بہترین قرار پایا، جس کے بعد انہیں وہاں ایک سال کے لیے کالم 'نذر طالبات' لکھنے کے لیے منتخب کیا گیا۔
اس کے علاوہ افسانے لکھنے کا سلسلہ بھی رہا، ادب لطیف، سیپ، اخبار خواتین، اخبار جہاں اور شاہد علی شاہد کے پرچے 'الحمرا' میں افسانے شایع ہوتے رہے ہیں، اس کے علاوہ پاکستان و ہندوستان متعدد ایسے پرچوں میں بھی افسانے شایع ہوئے، جس کی خبر بہت بعد میں ملی۔۔۔
رئیس فاطمہ افسانوںسے اپنی خاص رغبت کا اظہر کرتی ہیں، انہوں نے نام وَر ادیبہ قرۃ العین حیدر کے کام کا بھی تنقیدی جائزہ لیا، اُن کے مشہور ترین ناول ''آگ کا دریا'' کے ابتدائی صفحات پر تحقیق کی، جنہیں عام طور پر بوجھل کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور بہت کم قارئین انہیں سمجھ پاتے ہیں۔ رئیس فاطمہ کا خیال ہے کہ قرۃ العین حیدر کے بہت سے افسانے اِن کی آنکھوں دیکھی سچائیوں پر مبنی ہیں۔۔۔
صدا کاری کے حوالے سے رئیس فاطمہ بولیں کہ ریڈیو پاکستان کے بچوں کے پروگرام سے شرکت سے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا اور پھر 'بزم طلبہ' اور دیگر پروگراموں تک سلسلہ جاری رہا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ صبح دن بھر کے پروگراموں کی تفصیل میں وہ اپنا نام سن کر چونک جاتیں کہ کوئی دعوت نامہ تو ملا نہیں، پھر وہ یاور مہدی کو کال کرتیں، تو وہ اس کی تصدیق کرتے، اور کہتے کہ تم فی البدیہہ بات کر لیتی ہو، اس لیے جب کوئی اچانک انتظام کرنا ہو تو ہم تمہارا نام ڈال دیتے ہیں۔
رئیس فاطمہ بتاتی ہیں کہ 'پی ٹی وی' پر بھی گاہے گاہے سلسلہ رہا، قرۃ العین حیدر پر 13 پروگرام اور 'اسلامی سربراہی کانفرنس' کے پروگرام کے لیے سوالات کی تیاری قابل ذکر ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کہیں بھی کام کے لیے کہا نہیں، کسی نے بلایا تو چلی گئی، یہاں شاعروں اور ادیبوں کی گروہ بندیاں ہیں، بہت سی ادبی بیٹھکوں کی خبر ملتی ہے کہ فلاں فلاں نے آپ کے نام پر اعتراض کر کے آپ کا نام کٹوا دیا اور میں نام لے کر بتا دیتی ہوں کہ فلاں شخصیت نے اعتراض کیا ہوگا۔
رئیس فاطمہ کو زمانۂ طالب علمی میں ہی والدہ کی رحلت کا صدمہ سہنا پڑا، پھر والد نے دوسری شادی کرلی، جس سے گھر کے ماحول میں کافی تبدیلی آئی، کالج سے گھر لوٹتیں تو کبھی کھانا بھی کھایا جا چکا ہوتا، پھر ساتھ ملے ہوئے بھائی بھابی کے گھر جانا پڑتا۔ دراصل دوسری والدہ کو ان کی اپنے والد سے دوستی، ہم آہنگی اور تبادلہ خیال کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔
اس لیے انہوں نے باپ بیٹی کے درمیان فاصلے بڑھانے کی کوشش کی، وہ کہتی ہیں 'پھر میں بھی وقت کے تقاضے کے ساتھ ساتھ خود کو محدود کرتی چلی گئی، والد سے پیسے لینا بند کر دیے، وہ خود میری میز پر روپے رکھ کر چلے جاتے تھے، والدہ کا تقاضا تھا کہ مجھے جو ریڈیو وغیرہ سے چیک ملتے ہیں، میں وہ گھر پر دیا کروں، والد نے اسی لیے طارق روڈ پر واقع ایک بینک میں میرا اکاؤنٹ کھلوا دیا، تاکہ نہ میں انہیں چیک کیش کرانے کے لیے دوں اور نہ ہی دوسری والدہ کے سامنے یہ سب ذکر آئے۔
اپنے 'ڈاکٹریٹ' کے حوالے سے رئیس فاطمہ نے بتایا کہ اردو کے ایک ممتاز استاد کو وہ کئی موضوعات مع تحقیقی خاکہ بنا کر دیتیں، جسے وہ مسترد کر دیتے، لیکن پھر دوسروں کو تفویض کردیتے، پھر آخر میں، انہوں نے اپنے سسر احمد میاں جونا گڑھی کے اردو کام پر کام شروع کیا۔ 'نگراں' کی عدم توجہی کے سبب وہ بد دل ہوگئیں، لیکن اپنی یہ تحقیق 'اکادمی ادبیات کے معروف سلسلے 'پاکستانی ادب کے معمار' کے حوالے سے اشاعت کی بات ہوئی، پھر وہاں سے افتخار عارف رخصت ہوئے تو معاملہ کھٹائی میں پڑتا چلا گیا۔ پھر انہیں پتا چلا کہ ان کے کراچی سے تعلق کی وجہ سے معاملہ اٹک رہا ہے، چناں چہ انہوں نے پھر مسودہ واپس منگا لیا، وہ اب جوں کا توں ان کے پاس موجود ہے۔
اب تک 15کتابیں شایع ہوچکیں۔۔۔
رئیس فاطمہ نے باقاعدہ اور مستقل کالم نگاری روزنامہ ایکسپریس سے شروع کی، ان کا پہلا کالم یکم جنوری 2000ء کو شایع ہوا، اس حوالے سے وہ کہتی ہیں کہ مرحوم کالم نگار سید مشرف احمد نے انہیں بتایا کہ 'ایکسپریس' میں خواتین کالم نگاروں کی ضرورت ہے، انہوں نے نمونے کے طور پر تین کالم بھیجے کہ جو بہتر لگے، وہ شایع کرلیں، لیکن باری باری ان کے وہ تینوں کالم چھَپے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے وہ کالم نہیں لکھ پارہیں۔
ان کی کوشش ہے کہ جلد ہی وہ یہ سلسلہ بحال کریں۔ رئیس فاطمہ اپنی کتابوںکی اشاعت کو اپنے مرحوم شوہر قاضی اختر جونا گڑھی کی توجہ کا نتیجہ قرار دیتی ہیں، ورنہ انہوں نے کبھی اپنی تحریروں کو یک جا کرنے کا سوچا بھی نہیں تھا۔ 2000ء میں انہوں نے اس کی سعی کی اور پھر افسانوں، کالموں، بچوں کی کہانیوں، سفرناموں سے لے کر ادبی تنقید تک مختلف کتب شایع کرائیں، جن کی کل تعداد 15ہے۔
شہروں میں 90 فی صد مرد عورتوں کے استحصال کا شکار ہے!
رئیس فاطمہ کے بقول انہوں نے مظلوموں پر لکھا۔ 'ڈائجسٹ ادب' کا ذکر نکلا توبولیں کہ اس میں ساس، بہو اور شادی اور طلاق کے گنے چنے سے موضوعات ہی گردش کرتے رہتے ہیں، اصل ادب وہ ہوتا ہے، جو آپ کے احساسات، کرب اور سماج کے مسائل اور مظلوم کی آواز بنے۔
شاید اب سماج میں مظلومیت کا مطلب یہی ہے کہ ایک عورت ہے، جو ظلم کی چکی میں پس رہی ہے، جب کہ میرا کہنا یہ ہے کہ ہمارے دیہاتوں میں بے شک عورت پر مظالم ہوتے ہیں، لیکن ہمارے شہروں میں 90 فی صد مرد مظلوم ہے، اس کا استحصال خواتین کر رہی ہیں ،اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ میں نے خواجہ سراؤں کی تکلیف دہ زندگی کو دیکھا، تو پھر ان پر کالم لکھے، ہمارے ہاں انہیں سنجیدگی سے موضوع ہی نہیں بنایا جاتا۔
''شادی کا پوچھا تو ڈر ہے کہ کہیں وہ تھپڑ نہ مار دے۔۔۔!''
شادی کے ذکر پر رئیس فاطمہ نے بتایا کہ قاضی اختر جوناگڑھی سے ان کی پہلی ملاقات 1968ء میں 'انجمن ترقی اردو' کے کتب خانے میں ہوئی، لائبریرین نے میری کتاب دوستی کی تعریف کی، تو وہ میری طرف متوجہ ہوئے، وہ میری تحریروں سے واقف تھے۔ یہ پہلا تعارف تھا، پھر چند برسوں بعد اپنی سہیلی اختر جبیں کے ہم راہ اچانک دوبارہ ملاقات ہوئی، اتفاق سے اختر جبیں کے شوہر قاضی صاحب کے شناسا تھے۔
اس لیے انہوں نے اختر جبیں کو رئیس فاطمہ سے اپنی شادی کے خیال سے آگاہ کیا، جس پر انہوں نے کہا کہ آپ کی بھی تو دوستی ہے، آپ خود کہیں، تو قاضی اختر بولے کہ 'اگر ان سے کہوں گا، تو ڈر ہے کہ وہ کہیں تھپڑ ہی نہ مار دیں۔' ہم نے رئیس فاطمہ سے پوچھا کہ کیا واقعی ایسا ہوتا، تو وہ بولیں کہ چوں کہ گھرانا ایسا رہا ہے، تو بس اٹھ کر چلی جاتی، میں نے تو اپنے کسی شاگرد پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں اپنی زندگی اور حالات دیکھ کر شادی کا خیال دل سے نکال چکی تھی، لیکن ذہین طاہرہ نے سمجھایا کہ دیکھو اب دوسری والدہ کے آنے کے سبب تمہارے گھر کا ماحول بھی تمہارے لیے اجنبی اجنبی سا ہونے لگا ہے۔
تمہارے والد مجھ سے تمہاری شادی کے حوالے سے فکرمندی ظاہر کرتے رہتے ہیں۔۔۔ تو میں کہتی کہ کیسے کسی نئے فرد کے ساتھ اپنی پوری زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لوں، تو انہوں نے کہا کہ کچھ چیزیں قسمت پر بھی چھوڑ دینا چاہئیں۔ یوں 1979ء میں وہ قاضی محمد اختر جونا گڑھی کی شریک حیات ہوگئیں، وہ خود بھی ادب وصحافت کے راہی تھے، 2015ء میں شوہر کی رحلت نے رئیس فاطمہ کی زندگی کو ایک گہرے صدمے سے دوچار کیا۔ ان کا ایک بیٹا راحیل اختر ہے، جو اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب بیٹا چھوٹا تھا، تو فکرمند رہتی تھیں کہ اس کے اسکول لوٹنے سے پہلے کالج سے گھر آجاؤں۔ اب وہ اسلام آباد میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، وہ میری نظروں سے دور ہیں، میں ان کی آواز بھی نہیں سن سکتی، لیکن میری تمام دعائیں ان کے ساتھ ہیں کہ وہ ہمیشہ خوش رہیں۔
جامعہ ملیہ سے دہلی کالج تک ۔۔۔
رئیس فاطمہ کے تدریسی سفر کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ وہ 1974ء میں جامعہ ملیہ کالج میں ایڈہاک پر 'لیکچرر' ہوئیں، شہر قائد کی اس مشہور درس گاہ میں انہوں نے ایک یادگار دور گزارا۔ 1979ء میں 'پبلک سروس کمیشن' کا امتحان دے کر 'مستقل' ہوگئیں، تو سعود آباد کالج میں تقرر ہوگیا۔ جامعہ ملیہ کے بھرپور علمی ماحول کے بعد یہاں جی نہ لگا، تبادلے کی درخواست پر ڈگری کالج فیڈرل بی ایریا میں پرنسپل بننے کی پیش کش ہوئی، وہاں گئیں، تو وہاں کا ماحول نہ بھایا، چناں چہ سعود آباد کالج لوٹ گئیں۔ اس کے بعد سراج الدولہ کالج میں تبادلہ ہوا۔
جہاں طالب علم ہی نہیں آتے تھے، اور عملہ فقط حاضری لگا کر چلا جاتا، ان کے ضمیر نے ملامت کی اور جب انہوں نے یہاں سے تبادلے کی خواہش کی، تو کہا گیا کہ لوگ تو یہاں کہہ کر تبادلے کراتے ہیں، جس پر وہ بولیں 'مجھے نہیں لگتا کہ یہاں میری روزی حلال ہو رہی ہے!' پھر ناظم آباد گرلز کالج میں ایک بہت بھرپور وقت گزرا، اس کے بعد دہلی بوائز کالج میں بھی صرف کیے گئے وقت کو بھی بہت اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہاں لڑکوں کی حاضری سو فی صد ہوتی تھی۔ رئیس فاطمہ کہتی ہیں کہ انہیں 'آسان اردو' کے مقابلے میں 'اردو اعلیٰ' پڑھانے میں لطف آتا، بہت سے کم زور طلبہ مجھ سے اردو پڑھنے پر اصرار کرتے تو میں معذرت کر لیتی کہ پہلے آپ بنیادی اردو بہتر کر کے آئیں، پھر ضرور پڑھاؤں گی۔ وہ کہتی ہیں کہ دستاویزات پر عمر دو سال زیادہ لکھے جانے کے سبب انہیں 2004ء میں ریٹائر ہونا پڑا۔
'ملازموں سے بھی تبھی کام لے سکے گی جب خود جانتی ہوگی!'
ماضی کے دریچے وا کرتے ہوئے رئیس فاطمہ نے بتایا کہ 'میرے کمرے میں صرف کتابیں ہوتی تھیں اور ایک لکھنے کی میز تھی۔ لڑکی ہونے کے باوجود کبھی سنگھار میز یا آئینہ نہیں رکھا، میرے تیار ہونے کے لیے 'بیسن' کا شیشہ کافی تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں ہمیں لپ اسٹک لگانے کی اجازت نہیں تھی، کہ آپ پڑھنے جا رہے ہیں، تو پھر طالب علم ہی دکھائی دیں۔ جامعہ کراچی میں گاؤن لازمی ہوتا، اس کے بغیر کلاس میں نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ گھر میں والد روزانہ صبح اپنے سامنے اخبار پڑھواتے تھے، والدہ نے سختی کر کے امور خانہ داری سکھائے۔ ایک مرتبہ وہ مجھے کمرے سے کہانی پڑھتے پڑھتے اٹھا کر باورچی خانے لے آئیں۔
والد نے جب یہ ماجرا دیکھا، تو پوچھا، والدہ بولیں کہ یہ دوسرے گھر جائے گی، تو کیا کرے گی؟ اب ہم اس قابل تو ہیں نہیں کہ جہیز میں ساتھ ملازم بھی دیں، تو والد بولے کہ اس قابل تو ہیں کہ ملازم دے تو سکتے ہیں، جس پر والدہ نے کہا کہ خادموں سے بھی تو تب ہی کام لے سکے گی، جب خود کام آئے گا۔ والدہ مجھ سے روٹی بنواتیں، اور کہتیں چلو گول نہیں بنتی نہ سہی، یہ ٹیڑی میڑھی روٹی میں اور تمہارے ابا کھالیں گے، تم بناؤ۔ اس لیے ہمارے گھر میں کبھی روٹی باہر سے نہیں آئی، الا یہ کہ نہاری یا پائے پکے ہوئے ہوں۔ آج میں بھی یہ کہتی ہیں کہ عورت کا پہلی ترجیح اس کا گھر ہونا چاہیے۔