ہم اِنھیں انڈے دیں گے چوزے دیں گے
اب نہ اِس سلسلے کی کوئی تقریب ہو رہی ہے اور نہ کوئی تشہیر۔ مرغیوں سے انڈے نکالنے کا مرحلہ تو بعد میں آنا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان کی زمانہ اپوزیشن میں کی جانیوالی تقریروں، لیکچروں اور بیانوں سے ہمارے لوگوں میں یہ تاثر عام ہوچکاتھا کہ انھیں خان کی شکل میں ایک انتہائی ولولہ انگیز صاحب کمال وہنر، زبردست وژن رکھنے والا لیڈر مل گیا ہے جو اِس ملک کوجدید زمانے کے تقاضوں کے مطابق ترقی و خوشحالی کے عظمتوں اور رفعتوں تک پہنچا دیگا۔
وزیراعظم کے منصب پر فائز ہونے سے چند ماہ قبل کی بھی اگر تقریریں دیکھی جائیں تو دل ودماغ کو یقین نہیں آتا کہ آیا یہ وہی شخص ہے جسکے کہے ہوئے ہر جملے ہر لفظ میں ذہانت و حکمت ، عزت وغیرت ، دانشمندی و دوراندیشی جھلک رہی تھی اورجو اِس قوم کو خودی اورخود داری کے سبق روزانہ پڑھایا اور سکھایا کرتا تھا مگر یہ سارے خواب چکنا چور ہو گئے جب وزیر اعظم بن جانے کے بعد خان نے اپنی لیاقت اور بصیرت کا عملی مظاہرہ کرنا شروع کیا۔
بیرونی ممالک سے بھیک ، امداد اور قرضے نہ لینے کے اپنے عزم اور عہد سے روگردانی تو کجا انھوں نے ملک کی ترقی اور خودکفالت کے لیے ایسے ایسے پروگرام اور منصوبے پیش کیے جن پر قوم حیران وششدر رہ گئی۔ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی اِس دنیا میں انھوں نے قوم کو جب انڈوں، مرغیوں، بھینسوں اورکٹوں سے اپنی قسمت بدلنے کے منصوبے پیش کیے تو سوائے اُنکے کسی کو اِسکی افادیت واہمیت پر ایک فیصد بھی یقین نہ تھا لیکن وہ اپنے اِس وژن پر بضد تھے اور اپنی اِس تجویز پر مائیکروسافٹ کے مالک بل گیٹس کا حوالہ دینے لگے تو کچھ دیر کے لیے قوم نے مان لیا کہ شاید خان سچ بول رہا ہو اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ ہو سکتا ہے کہ پولٹری کی اِس صنعت سے ہم اَس دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دینگے اور خود کو معاشی و اقتصادی طور پر ایک انتہائی طاقتور قوم بنا دینگے لیکن پھر کیا ہوا 12سو روپے میں 5 مرغیاں اور ایک مرغا دینے کا یہ عظیم الشان پروجیکٹ صرف چند ٹرکوں پر مشتمل ثابت ہوا اورصرف صوبہ پنجاب کے ایک دو مقام پر اِسکا عملی مظاہرہ دکھانے کے بعد از خود ختم ہو گیا۔
اب نہ اِس سلسلے کی کوئی تقریب ہو رہی ہے اور نہ کوئی تشہیر۔ مرغیوں سے انڈے نکالنے کا مرحلہ تو بعد میں آنا تھا جنہوں نے 12 سو روپے کے عوض یہ چھ عدد مرغیاں اور مرغا حاصل کیا تھا انھوں نے بھی موقعہ غنیمت جان کر اُسکا سوپ اور بریانی بنا کر کبھی کا ہضم کر ڈالا۔ مرغیوں اور انڈوں کے اِس پروجیکٹ کی ناکامی کے بعد بھینسوں اورکٹوں سے وطن عزیزکو ایشین ٹائیگر بنانے کا پروجیکٹ بھی تقریروں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ خان صاحب کی اِس ایک خوبی کے ہم بہت بڑے معترف اور قدرداں ہیں کہ انھیں تقریرکرنے کا ہنر بخوبی آتا ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں کے موجودہ کھیپ میں فی الحال اُنکا کوئی ثانی اور ہم پلہ نہیں ہے۔
وہ اِس شعبے میں یکسر منفرد اور اکیلے ہیں۔ وہ ہر غلط بات بھی اتنے یقین اور اعتماد سے کرتے ہیں کہ کچھ دیر کے لیے اُسکے سچائی اور صداقت پر کامل یقین ہونے لگتا ہے۔دھرنے والے دنوں سے لے کر آج تک اپوزیشن سے متعلق بھی انھوں نے ایسی ہی باتیں کی تھیں جو رفتہ رفتہ عدل وانصاف کی چھلنی سے گزرکر لغواور بے وقعت ثابت ہوتی جا رہی ہیں۔ تقریروں سے یاد آیا کہ گزشتہ ستمبر میں بھی انھوں نے یو این او میں ایک زبردست تقریرکی تھی جسے سن کر ہماری قوم تو قوم کشمیریوں سمیت کچھ غیر ملکی حکمراں بھی اُنکی ذہانت اور خود اعتمادی کے قائل ہو گئے۔
ترکی کے طیب اردوان اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد تو اِس قدر متاثر ہوئے کہ فوراً ہی مل بیٹھ کر ایک نیا اسلامی اتحاد اور ٹی وی چینل بنانے کا عزم کر ڈالا۔ انھیں یہ تجویز بھی ہمارے خان صاحب ہی نے دی تھی مگر افسوس کے جب اِس تجویز پر عمل کرنے کا وقت آیا تو خان صاحب نے انھیں ایسی پیٹھ دکھائی کہ وہ کہیں کے نہیں رہے۔ وہ حیران وپریشان رہ گئے کہ بظاہر دبنگ اور دلیر نظر آنیوالا عمران خان اندرسے اتنا کمزور اورکم ہمت نکلے گا۔ وہ اگرکسی دباؤکی وجہ سے بنفس نفیس خود شرکت نہ کر سکتا تھا لیکن اپنے کسی نمایندے کو تو بھیج سکتا تھا۔ خان کے اِس رویے اور پسپائی کی وجہ سے انھیں ساری دنیا میں جو خفت اور شرمندگی اُٹھانا پڑی ہو گی ہم اُسکا اندازہ نہیں کر سکتے۔ اِس انکار سے ہماری اپنی صحت پر توکوئی خاص اثر نہیں پڑا لیکن باعزت حکمرانوں کے یہاں یہ انتہائی ذلت اور رسوائی کی بات تصورکی جاتی ہے۔وزیراعظم عمران خان آج کل ٹورزم کے فروغ کے لیے بڑے بڑے لیکچر دے رہے ہیں۔
اُن کے بقول ہمارے یہاں ٹورزم اور سیاحت کے بہت اچھے اور حسین پر فزا مقامات موجود ہیں۔ جس طرح وہ پہلے کہا کرتے تھے کہ آسٹریلیا اور دنیا کے دیگر ممالک کی گائے بھینسیں 20 اور 24 لٹر دودھ دیتی ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ ہماری گائے محض 6 لٹر دودھ دیتی ہے۔
اِسی طرح وہ اب کہا کرتے ہیں کہ سوئٹزر لینڈ اور دنیا کے دیگر ممالک ٹورزم سے بے تحاشہ فارن ایکسچینج حاصل کر رہے ہیں تو ہم کیوں نہیں جب کہ اُنکے بقول ہمارے یہاں اُن سے زیادہ خوبصورت اور حسین مقامات ہیں۔ ٹورزم کے لیے دستیاب سہولتوں سے قطع نظر خان صاحب اِس وہم وگمان میں مگن ہیں کہ جیسے چٹکی بجاتے ہی ہم اِس شعبہ میں اربوں ڈالر حاصل کر سکتے ہیں جب کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ٹورزم کے لیے ضروری بنیادی سہولتیں تو کجا ہمارے یہاں امن و امان کی صورتحال ابھی بھی اِس قابل نہیں ہے کہ ہم کرکٹ کے لیے کسی دوسرے ملک کو اپنے یہاں راغب کر سکیں۔
بنگلہ دیش جیسے ملک کی کرکٹ ٹیم بھی ہمارے یہاں کوئی پانچ روزہ ٹیسٹ میچ کھیلنے سے گریزاں ہے۔ اِن حالات میں بھلا کون سیر و تفریح کی غرض سے ہمارے شمالی علاقوں کا دورہ کریگا۔ ٹورزم کے لیے سب سے اہم اور ضروری مواصلاتی نظام کا بہتر ہونا اور اُسے جدید تقاضوں کے عین مطابق بنانا ہوتا ہے جب کہ خان صاحب کل تک میاں نواز شریف کے اُن منصوبوں کے سب سے بڑے ناقد اور مخالف رہے ہیں جو ملک کے انفرا اسٹرکچر کو سدھارنے کی غرض سے شروع کیے گئے تھے۔ انھیں کل تک سڑکیں، شاہراہیں، فلائی اوورز اور انڈرپاس بنانا فضول اور غیر ضروری لگاکرتا تھا۔ وہ آج بھی ایسے منصوبوں کی تعمیر میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
جو منصوبے سابقہ دور میں شروع کر دیے گئے تھے وہ انھیں مکمل کرنے میں بھی سستی اور کاہلی دکھا رہے ہیں۔ اُنکی سوچ اور وژن میں ایسے کسی پروجیکٹ کا عمل دخل اورگزر بسر نہیں ہے۔ وہ صرف خیالوں میں کرشمہ اور کرامات دیکھنا چاہتے ہیں۔ اورنج لائن منصوبہ اُنکی نظر میں آج بھی ایک عیاشی اور فضول خرچی سمجھا جاتا ہے جب کہ ٹورزم کی کامیابی کا راز ہی ایسے منصوبوں سے منسلک اور وابستہ ہے۔ صرف قدرت کی طرف سے دیے گئے حسین اور خوبصورت مقامات سے ٹورزم کی صنعت فروغ نہیں پا سکتی۔ اُسکے لیے ضروری ہے کہ سیاحوں کی پر سکون اور پر آسائش آمدورفت کے لیے تمام بنیادی سہولتیں بھی فراہم کی جائیں۔
جدید اور آرام دہ ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی اور عدم فراہمی، سڑکوں کی خستہ حالی اور جگہ جگہ غلاظت اور گندگی کے ڈھیر بھلا کیسے کسی غیر ملکی کو اپنی جانب راغب کر سکتے ہیں۔ خان صاحب قوم کو اکیسویں صدی میں نجانے کیسے کیسے خواب دکھاتے رہتے ہیں۔ کبھی کیکڑا ون سے تیل اور گیس کے ذخائر سے قوم کی قسمت بدل جانے کی نوید سنانے لگتے ہیں تو کبھی گائے بھینسوں کے دودھ سے ملک کی معیشت کو چارچاند لگانے کی خوشخبریاں سنانے لگتے ہیں۔ اپنی زمین میں چھپے سینڈک اور ریکوڈک کے ثابت شدہ خزانوں کو باہر نکالنے کی بجائے مرغیوں اورانڈوں سے اور پھر انڈوں سے چوزے نکال کر معاشی انقلاب برپاکرنے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُنکے چاہنے والے اُنکی اِن باتوں پر صرف یقین ہی نہیں کرتے بلکہ انھیں ذہین وفطین مان کر انھیں اِس دور کا ارسطو اور افلاطون بھی سمجھنے لگتے ہیں۔
وزیراعظم کے منصب پر فائز ہونے سے چند ماہ قبل کی بھی اگر تقریریں دیکھی جائیں تو دل ودماغ کو یقین نہیں آتا کہ آیا یہ وہی شخص ہے جسکے کہے ہوئے ہر جملے ہر لفظ میں ذہانت و حکمت ، عزت وغیرت ، دانشمندی و دوراندیشی جھلک رہی تھی اورجو اِس قوم کو خودی اورخود داری کے سبق روزانہ پڑھایا اور سکھایا کرتا تھا مگر یہ سارے خواب چکنا چور ہو گئے جب وزیر اعظم بن جانے کے بعد خان نے اپنی لیاقت اور بصیرت کا عملی مظاہرہ کرنا شروع کیا۔
بیرونی ممالک سے بھیک ، امداد اور قرضے نہ لینے کے اپنے عزم اور عہد سے روگردانی تو کجا انھوں نے ملک کی ترقی اور خودکفالت کے لیے ایسے ایسے پروگرام اور منصوبے پیش کیے جن پر قوم حیران وششدر رہ گئی۔ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی اِس دنیا میں انھوں نے قوم کو جب انڈوں، مرغیوں، بھینسوں اورکٹوں سے اپنی قسمت بدلنے کے منصوبے پیش کیے تو سوائے اُنکے کسی کو اِسکی افادیت واہمیت پر ایک فیصد بھی یقین نہ تھا لیکن وہ اپنے اِس وژن پر بضد تھے اور اپنی اِس تجویز پر مائیکروسافٹ کے مالک بل گیٹس کا حوالہ دینے لگے تو کچھ دیر کے لیے قوم نے مان لیا کہ شاید خان سچ بول رہا ہو اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ ہو سکتا ہے کہ پولٹری کی اِس صنعت سے ہم اَس دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دینگے اور خود کو معاشی و اقتصادی طور پر ایک انتہائی طاقتور قوم بنا دینگے لیکن پھر کیا ہوا 12سو روپے میں 5 مرغیاں اور ایک مرغا دینے کا یہ عظیم الشان پروجیکٹ صرف چند ٹرکوں پر مشتمل ثابت ہوا اورصرف صوبہ پنجاب کے ایک دو مقام پر اِسکا عملی مظاہرہ دکھانے کے بعد از خود ختم ہو گیا۔
اب نہ اِس سلسلے کی کوئی تقریب ہو رہی ہے اور نہ کوئی تشہیر۔ مرغیوں سے انڈے نکالنے کا مرحلہ تو بعد میں آنا تھا جنہوں نے 12 سو روپے کے عوض یہ چھ عدد مرغیاں اور مرغا حاصل کیا تھا انھوں نے بھی موقعہ غنیمت جان کر اُسکا سوپ اور بریانی بنا کر کبھی کا ہضم کر ڈالا۔ مرغیوں اور انڈوں کے اِس پروجیکٹ کی ناکامی کے بعد بھینسوں اورکٹوں سے وطن عزیزکو ایشین ٹائیگر بنانے کا پروجیکٹ بھی تقریروں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ خان صاحب کی اِس ایک خوبی کے ہم بہت بڑے معترف اور قدرداں ہیں کہ انھیں تقریرکرنے کا ہنر بخوبی آتا ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں کے موجودہ کھیپ میں فی الحال اُنکا کوئی ثانی اور ہم پلہ نہیں ہے۔
وہ اِس شعبے میں یکسر منفرد اور اکیلے ہیں۔ وہ ہر غلط بات بھی اتنے یقین اور اعتماد سے کرتے ہیں کہ کچھ دیر کے لیے اُسکے سچائی اور صداقت پر کامل یقین ہونے لگتا ہے۔دھرنے والے دنوں سے لے کر آج تک اپوزیشن سے متعلق بھی انھوں نے ایسی ہی باتیں کی تھیں جو رفتہ رفتہ عدل وانصاف کی چھلنی سے گزرکر لغواور بے وقعت ثابت ہوتی جا رہی ہیں۔ تقریروں سے یاد آیا کہ گزشتہ ستمبر میں بھی انھوں نے یو این او میں ایک زبردست تقریرکی تھی جسے سن کر ہماری قوم تو قوم کشمیریوں سمیت کچھ غیر ملکی حکمراں بھی اُنکی ذہانت اور خود اعتمادی کے قائل ہو گئے۔
ترکی کے طیب اردوان اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد تو اِس قدر متاثر ہوئے کہ فوراً ہی مل بیٹھ کر ایک نیا اسلامی اتحاد اور ٹی وی چینل بنانے کا عزم کر ڈالا۔ انھیں یہ تجویز بھی ہمارے خان صاحب ہی نے دی تھی مگر افسوس کے جب اِس تجویز پر عمل کرنے کا وقت آیا تو خان صاحب نے انھیں ایسی پیٹھ دکھائی کہ وہ کہیں کے نہیں رہے۔ وہ حیران وپریشان رہ گئے کہ بظاہر دبنگ اور دلیر نظر آنیوالا عمران خان اندرسے اتنا کمزور اورکم ہمت نکلے گا۔ وہ اگرکسی دباؤکی وجہ سے بنفس نفیس خود شرکت نہ کر سکتا تھا لیکن اپنے کسی نمایندے کو تو بھیج سکتا تھا۔ خان کے اِس رویے اور پسپائی کی وجہ سے انھیں ساری دنیا میں جو خفت اور شرمندگی اُٹھانا پڑی ہو گی ہم اُسکا اندازہ نہیں کر سکتے۔ اِس انکار سے ہماری اپنی صحت پر توکوئی خاص اثر نہیں پڑا لیکن باعزت حکمرانوں کے یہاں یہ انتہائی ذلت اور رسوائی کی بات تصورکی جاتی ہے۔وزیراعظم عمران خان آج کل ٹورزم کے فروغ کے لیے بڑے بڑے لیکچر دے رہے ہیں۔
اُن کے بقول ہمارے یہاں ٹورزم اور سیاحت کے بہت اچھے اور حسین پر فزا مقامات موجود ہیں۔ جس طرح وہ پہلے کہا کرتے تھے کہ آسٹریلیا اور دنیا کے دیگر ممالک کی گائے بھینسیں 20 اور 24 لٹر دودھ دیتی ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ ہماری گائے محض 6 لٹر دودھ دیتی ہے۔
اِسی طرح وہ اب کہا کرتے ہیں کہ سوئٹزر لینڈ اور دنیا کے دیگر ممالک ٹورزم سے بے تحاشہ فارن ایکسچینج حاصل کر رہے ہیں تو ہم کیوں نہیں جب کہ اُنکے بقول ہمارے یہاں اُن سے زیادہ خوبصورت اور حسین مقامات ہیں۔ ٹورزم کے لیے دستیاب سہولتوں سے قطع نظر خان صاحب اِس وہم وگمان میں مگن ہیں کہ جیسے چٹکی بجاتے ہی ہم اِس شعبہ میں اربوں ڈالر حاصل کر سکتے ہیں جب کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ٹورزم کے لیے ضروری بنیادی سہولتیں تو کجا ہمارے یہاں امن و امان کی صورتحال ابھی بھی اِس قابل نہیں ہے کہ ہم کرکٹ کے لیے کسی دوسرے ملک کو اپنے یہاں راغب کر سکیں۔
بنگلہ دیش جیسے ملک کی کرکٹ ٹیم بھی ہمارے یہاں کوئی پانچ روزہ ٹیسٹ میچ کھیلنے سے گریزاں ہے۔ اِن حالات میں بھلا کون سیر و تفریح کی غرض سے ہمارے شمالی علاقوں کا دورہ کریگا۔ ٹورزم کے لیے سب سے اہم اور ضروری مواصلاتی نظام کا بہتر ہونا اور اُسے جدید تقاضوں کے عین مطابق بنانا ہوتا ہے جب کہ خان صاحب کل تک میاں نواز شریف کے اُن منصوبوں کے سب سے بڑے ناقد اور مخالف رہے ہیں جو ملک کے انفرا اسٹرکچر کو سدھارنے کی غرض سے شروع کیے گئے تھے۔ انھیں کل تک سڑکیں، شاہراہیں، فلائی اوورز اور انڈرپاس بنانا فضول اور غیر ضروری لگاکرتا تھا۔ وہ آج بھی ایسے منصوبوں کی تعمیر میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
جو منصوبے سابقہ دور میں شروع کر دیے گئے تھے وہ انھیں مکمل کرنے میں بھی سستی اور کاہلی دکھا رہے ہیں۔ اُنکی سوچ اور وژن میں ایسے کسی پروجیکٹ کا عمل دخل اورگزر بسر نہیں ہے۔ وہ صرف خیالوں میں کرشمہ اور کرامات دیکھنا چاہتے ہیں۔ اورنج لائن منصوبہ اُنکی نظر میں آج بھی ایک عیاشی اور فضول خرچی سمجھا جاتا ہے جب کہ ٹورزم کی کامیابی کا راز ہی ایسے منصوبوں سے منسلک اور وابستہ ہے۔ صرف قدرت کی طرف سے دیے گئے حسین اور خوبصورت مقامات سے ٹورزم کی صنعت فروغ نہیں پا سکتی۔ اُسکے لیے ضروری ہے کہ سیاحوں کی پر سکون اور پر آسائش آمدورفت کے لیے تمام بنیادی سہولتیں بھی فراہم کی جائیں۔
جدید اور آرام دہ ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی اور عدم فراہمی، سڑکوں کی خستہ حالی اور جگہ جگہ غلاظت اور گندگی کے ڈھیر بھلا کیسے کسی غیر ملکی کو اپنی جانب راغب کر سکتے ہیں۔ خان صاحب قوم کو اکیسویں صدی میں نجانے کیسے کیسے خواب دکھاتے رہتے ہیں۔ کبھی کیکڑا ون سے تیل اور گیس کے ذخائر سے قوم کی قسمت بدل جانے کی نوید سنانے لگتے ہیں تو کبھی گائے بھینسوں کے دودھ سے ملک کی معیشت کو چارچاند لگانے کی خوشخبریاں سنانے لگتے ہیں۔ اپنی زمین میں چھپے سینڈک اور ریکوڈک کے ثابت شدہ خزانوں کو باہر نکالنے کی بجائے مرغیوں اورانڈوں سے اور پھر انڈوں سے چوزے نکال کر معاشی انقلاب برپاکرنے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُنکے چاہنے والے اُنکی اِن باتوں پر صرف یقین ہی نہیں کرتے بلکہ انھیں ذہین وفطین مان کر انھیں اِس دور کا ارسطو اور افلاطون بھی سمجھنے لگتے ہیں۔