افواج پاکستان پر تمام سیاسی جماعتوں کا اظہار اعتماد خوش آئند
آرمی ایکٹ قانونی سازی نے اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تجدید تعلقات کاا ٓغاز کردیا ہے۔
پاکستان کی 72 سالہ سیاسی و حکومتی تاریخ کا سب سے خطرناک لمحہ وہ تھا جب سابق چیف جسٹس آف پاکستان آصف کھوسہ نے حکومت کی جانب سے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع دینے کا نوٹیفیکیشن معطل کردیا تھا اور پاکستان سمیت دنیا بھر کی حکومتوں میں ایک ہلچل مچ گئی تھی اور یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ پاکستان میں جمہوریت ایک مرتبہ پھر سولی چڑھ جائے گی لیکن اس صورتحال میں افواج پاکستان نے نہایت تحمل اور تدبر کے ساتھ آئین پاکستان کا احترام اور بالادستی تسلیم کرتے ہوئے کسی قسم کے غیر آئینی اقدام کا خدشہ یکسر مسترد کردیا۔
تین روز تک سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کے دوران حکومت نے کئی قانونی غلطیاں کیں اور اگر یہ کہا جائے کہ حکومت نے اپنا تماشا خود لگایا تو بے جا نہ ہوگا۔
سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کا حکم دیا تو ایک مرتبہ پھر مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہ بحث چھڑ گئی کہ متفقہ طور پر قانون کی منظوری مشکل ہو جائے گی لیکن گزشتہ روز قومی اسمبلی میں یہ قانون اکثریت رائے سے منظور ہو چکا ہے،کسی جماعت نے بھی قانون کی مخالفت میں ووٹ نہیں ڈالا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور فاٹا کے دو آزاد ارکان نے قانون کی منظوری کے دوران ایوان سے واک آوٹ کر کے اپنا احتجاج ضرور ریکارڈ کروایا ہے۔ ہر ملک میں فوج سب سے حساس اور معتبر ریاستی ادارہ ہوتا ہے تاہم پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پس منظر میں فوج ملک کا سب سے طاقتور ریاستی ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ''بادشاہ گر'' کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ فوج کا ''ہما'' جس کے سر پہ بیٹھ جائے وہ ''حکمران'' بن جاتا ہے اور جس کے سر سے اڑ جائے وہ''پابند زندان'' ہو جاتا ہے۔
پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ عرصہ تک غیر جمہوری حکومتیں اقتدار میں رہی ہیں لیکن جو مختصر عرصہ جمہوریت کو میسر آیا ہے اس میں سے سب سے زیادہ اقتدار مسلم لیگ (ن) کو ملا ہے اور عام تاثر یہی پایا جاتا تھا کہ ن لیگی قیادت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے لیکن پھر میاں نواز شریف کو یہ ''خوش فہمی'' لاحق ہو گئی کہ وہ سچ میں حکمران ہیں، یہ خوش فہمی پیدا کرنے والوں میں ان کی بیٹی مریم نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھی پرویز رشید اور رانا ثناء اللہ سر فہرست تھے۔
میاں صاحب نے ماضی میں دو مرتبہ اپنی''برخاستگی'' کو بھی فراموش کردیا اور اس مرتبہ پہلے سے زیادہ جارحانہ انداز میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی شروع کی تو ان کے بھائی میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار نے انہیں روکنے اور سمجھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن میاں صاحب خود کو طیب اردگان سمجھنے لگے تھے لہذا انہوں نے سب کی سنی ان سنی کردی اور آخر کار اپنے ''انجام'' کو پہنچ گئے۔
پیپلز پارٹی کبھی بھی اسٹیبشلمنٹ کی مدد سے اقتدار میں نہیں آئی لیکن انہوں نے کبھی بھی ایک مخصوص حد سے آگے جا کر اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کرنے کی حماقت بھی نہیں کی ہے جس کی وجہ سے انہیں''ریلیف'' بھی ملتا رہتا ہے۔گزشتہ روز قومی اسمبلی میں سب جماعتوں نے ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے اور افواج پاکستان کو اپنی سیاست کا شکار نہیں ہونے دیا ہے۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے کئی روز قبل اپنی پارٹی کو واضح ہدایات دے دی تھیں کہ آرمی ایکٹ پر قانون سازی کے معاملے میں سیاست نہ کی جائے۔
پہلی بات تو یہ کہ جسٹس آصف کھوسہ کو اس انداز میں یہ معاملہ عدالت میں ڈیل نہیں کرنا چاہئے تھا لیکن شاید وہ کسی بات پر خفا ہو گئے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے کچھ زیادہ ہی ہاتھ سخت کر لیا تھا۔ پاکستان کے بچے بچے کو یہ معلوم تھا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت آرمی ایکٹ کے خلاف ووٹ نہیں دے گی لیکن اب سیاسی صف بندی بھی تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
چند ہفتے قبل تک یہ مضبوط تاثر موجود تھا کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت''راندہ درگاہ'' قرار دی جا چکی ہے اور تحریک انصاف حکومت کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے ان دونوں سیاسی جماعتوں کے گرد احتساب کا شکنجہ کسا جا رہا ہے، تحریک انصاف کے بارے بھی یہ مضبوط تاثر تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی ''اکلوتی'' فیورٹ جماعت بن چکی ہے لیکن آرمی ایکٹ قانون سازی نے یہ تمام تاثر زائل کر دیئے ہیں، ایک تو یہ واضح ہو گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے آج بھی مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ نتیجہ خیز روابط برقرار ہیں اوردونوں جماعتوں کی قیادت کو گزشتہ دو ماہ میں ملنے والا ریلیف بھی اس کا واضح ثبوت ہے جبکہ یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ تحریک انصاف اب اسٹیبلشمنٹ کی اتنی ''چہیتی'' نہیں رہی جتنا کہ کچھ عرصہ قبل سمجھی جاتی تھی۔
آرمی ایکٹ قانونی سازی نے اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تجدید تعلقات کاا ٓغاز کردیا ہے اور سیاست میوزیکل چیئر گیم کا نام ہے کب کس کی باری آجائے کچھ کہا نہیں جا سکتا اس لئے تحریک انصاف کی حکومت کیلئے اب مزید ضروری ہو گیا ہے کہ وہ ''ڈیلیور'' کرے اور اپنی کارکردگی سے عوام اور اداروں کو مطمئن کرے فی الوقت تو حکومت کارکردگی کے حوالے سے بہت مایوس کن نتائج دے رہی ہے۔
افواج پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف دنیا کی ایک بڑی جنگ کامیابی سے لڑی ہے اور اس وقت بھی پاکستان کی سرحدوں پر کشیدہ حالات کے علاوہ خطے کی مجموعی صورتحال بھی خوفناک ترین چیلنجز کا شکار ہے۔ ایسے میں عسکری قیادت کے معاملات پر سیاسی اتفاق رائے ملک و قوم کیلئے بہترین فیصلہ ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کی نئی تاریخ رقم کر رکھی ہے اور پاکستان پر جارحیت کی دھمکیاں دے رہا ہے ، دوسری جانب افغانستان میں جاری جنگ کے اثرات پاکستان پر آرہے ہیں اور اب ایران اور امریکہ کی خوفناک کشیدگی نے صورتحال کو مزید الجھا دیا ہے۔
سوشل میڈیا کے لبرلز غیر ملکی ایجنڈے اور فنڈنگ کے زیر اثر افواج پاکستان کے خلاف جو بھی پراپیگنڈہ کریں لیکن ہر محب وطن پاکستانی اپنی فوج سے پیار کرتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ فوج نہ ہوتی تو آج آزاد پاکستان بھی نہ ہوتا،بھارت کب کا جارحیت کر چکا ہوتا۔ ہزاروں فوجیوں نے جانوں کی قربانی دیکر لاہور، کراچی ،اسلام آباد کو طالبان کی یلغار سے محفوظ بنایا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ فوج سیاست میں انجینئرنگ نہ کرے لیکن اس کیلئے سب سے زیادہ ذمہ داری خود سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی حب الوطنی، قابلیت، قوت فیصلہ اور عوامی خدمت کے ذریعے خود کو اس کاا ہل ثابت کریں کہ اب انہیں ملک و قوم کی خدمت اور فیصلوں کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی معاونت تو چاہئے ہو گی لیکن اقتدار میں آنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں اور چور دروازوں کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔
تین روز تک سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کے دوران حکومت نے کئی قانونی غلطیاں کیں اور اگر یہ کہا جائے کہ حکومت نے اپنا تماشا خود لگایا تو بے جا نہ ہوگا۔
سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کا حکم دیا تو ایک مرتبہ پھر مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہ بحث چھڑ گئی کہ متفقہ طور پر قانون کی منظوری مشکل ہو جائے گی لیکن گزشتہ روز قومی اسمبلی میں یہ قانون اکثریت رائے سے منظور ہو چکا ہے،کسی جماعت نے بھی قانون کی مخالفت میں ووٹ نہیں ڈالا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور فاٹا کے دو آزاد ارکان نے قانون کی منظوری کے دوران ایوان سے واک آوٹ کر کے اپنا احتجاج ضرور ریکارڈ کروایا ہے۔ ہر ملک میں فوج سب سے حساس اور معتبر ریاستی ادارہ ہوتا ہے تاہم پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پس منظر میں فوج ملک کا سب سے طاقتور ریاستی ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ''بادشاہ گر'' کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ فوج کا ''ہما'' جس کے سر پہ بیٹھ جائے وہ ''حکمران'' بن جاتا ہے اور جس کے سر سے اڑ جائے وہ''پابند زندان'' ہو جاتا ہے۔
پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ عرصہ تک غیر جمہوری حکومتیں اقتدار میں رہی ہیں لیکن جو مختصر عرصہ جمہوریت کو میسر آیا ہے اس میں سے سب سے زیادہ اقتدار مسلم لیگ (ن) کو ملا ہے اور عام تاثر یہی پایا جاتا تھا کہ ن لیگی قیادت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے لیکن پھر میاں نواز شریف کو یہ ''خوش فہمی'' لاحق ہو گئی کہ وہ سچ میں حکمران ہیں، یہ خوش فہمی پیدا کرنے والوں میں ان کی بیٹی مریم نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھی پرویز رشید اور رانا ثناء اللہ سر فہرست تھے۔
میاں صاحب نے ماضی میں دو مرتبہ اپنی''برخاستگی'' کو بھی فراموش کردیا اور اس مرتبہ پہلے سے زیادہ جارحانہ انداز میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی شروع کی تو ان کے بھائی میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار نے انہیں روکنے اور سمجھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن میاں صاحب خود کو طیب اردگان سمجھنے لگے تھے لہذا انہوں نے سب کی سنی ان سنی کردی اور آخر کار اپنے ''انجام'' کو پہنچ گئے۔
پیپلز پارٹی کبھی بھی اسٹیبشلمنٹ کی مدد سے اقتدار میں نہیں آئی لیکن انہوں نے کبھی بھی ایک مخصوص حد سے آگے جا کر اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کرنے کی حماقت بھی نہیں کی ہے جس کی وجہ سے انہیں''ریلیف'' بھی ملتا رہتا ہے۔گزشتہ روز قومی اسمبلی میں سب جماعتوں نے ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے اور افواج پاکستان کو اپنی سیاست کا شکار نہیں ہونے دیا ہے۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے کئی روز قبل اپنی پارٹی کو واضح ہدایات دے دی تھیں کہ آرمی ایکٹ پر قانون سازی کے معاملے میں سیاست نہ کی جائے۔
پہلی بات تو یہ کہ جسٹس آصف کھوسہ کو اس انداز میں یہ معاملہ عدالت میں ڈیل نہیں کرنا چاہئے تھا لیکن شاید وہ کسی بات پر خفا ہو گئے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے کچھ زیادہ ہی ہاتھ سخت کر لیا تھا۔ پاکستان کے بچے بچے کو یہ معلوم تھا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت آرمی ایکٹ کے خلاف ووٹ نہیں دے گی لیکن اب سیاسی صف بندی بھی تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
چند ہفتے قبل تک یہ مضبوط تاثر موجود تھا کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت''راندہ درگاہ'' قرار دی جا چکی ہے اور تحریک انصاف حکومت کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے ان دونوں سیاسی جماعتوں کے گرد احتساب کا شکنجہ کسا جا رہا ہے، تحریک انصاف کے بارے بھی یہ مضبوط تاثر تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی ''اکلوتی'' فیورٹ جماعت بن چکی ہے لیکن آرمی ایکٹ قانون سازی نے یہ تمام تاثر زائل کر دیئے ہیں، ایک تو یہ واضح ہو گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے آج بھی مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ نتیجہ خیز روابط برقرار ہیں اوردونوں جماعتوں کی قیادت کو گزشتہ دو ماہ میں ملنے والا ریلیف بھی اس کا واضح ثبوت ہے جبکہ یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ تحریک انصاف اب اسٹیبلشمنٹ کی اتنی ''چہیتی'' نہیں رہی جتنا کہ کچھ عرصہ قبل سمجھی جاتی تھی۔
آرمی ایکٹ قانونی سازی نے اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تجدید تعلقات کاا ٓغاز کردیا ہے اور سیاست میوزیکل چیئر گیم کا نام ہے کب کس کی باری آجائے کچھ کہا نہیں جا سکتا اس لئے تحریک انصاف کی حکومت کیلئے اب مزید ضروری ہو گیا ہے کہ وہ ''ڈیلیور'' کرے اور اپنی کارکردگی سے عوام اور اداروں کو مطمئن کرے فی الوقت تو حکومت کارکردگی کے حوالے سے بہت مایوس کن نتائج دے رہی ہے۔
افواج پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف دنیا کی ایک بڑی جنگ کامیابی سے لڑی ہے اور اس وقت بھی پاکستان کی سرحدوں پر کشیدہ حالات کے علاوہ خطے کی مجموعی صورتحال بھی خوفناک ترین چیلنجز کا شکار ہے۔ ایسے میں عسکری قیادت کے معاملات پر سیاسی اتفاق رائے ملک و قوم کیلئے بہترین فیصلہ ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کی نئی تاریخ رقم کر رکھی ہے اور پاکستان پر جارحیت کی دھمکیاں دے رہا ہے ، دوسری جانب افغانستان میں جاری جنگ کے اثرات پاکستان پر آرہے ہیں اور اب ایران اور امریکہ کی خوفناک کشیدگی نے صورتحال کو مزید الجھا دیا ہے۔
سوشل میڈیا کے لبرلز غیر ملکی ایجنڈے اور فنڈنگ کے زیر اثر افواج پاکستان کے خلاف جو بھی پراپیگنڈہ کریں لیکن ہر محب وطن پاکستانی اپنی فوج سے پیار کرتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ فوج نہ ہوتی تو آج آزاد پاکستان بھی نہ ہوتا،بھارت کب کا جارحیت کر چکا ہوتا۔ ہزاروں فوجیوں نے جانوں کی قربانی دیکر لاہور، کراچی ،اسلام آباد کو طالبان کی یلغار سے محفوظ بنایا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ فوج سیاست میں انجینئرنگ نہ کرے لیکن اس کیلئے سب سے زیادہ ذمہ داری خود سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی حب الوطنی، قابلیت، قوت فیصلہ اور عوامی خدمت کے ذریعے خود کو اس کاا ہل ثابت کریں کہ اب انہیں ملک و قوم کی خدمت اور فیصلوں کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی معاونت تو چاہئے ہو گی لیکن اقتدار میں آنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں اور چور دروازوں کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔