صوبائی کابینہ میں توسیع اور ردو بدل کا معاملہ نمٹ گیا

وزیراعلیٰ نے اپنی ٹیم میں آٹھ معاونین خصوصی کو شامل کیا ہے

وزیراعلیٰ نے اپنی ٹیم میں آٹھ معاونین خصوصی کو شامل کیا ہے

خیبرپختونخوا کی کابینہ اور حکومتی ٹیم میں توسیع و ردوبدل کا معاملہ طویل عرصے سے التواء کا شکار تھاکیونکہ اس سلسلے میں مشاورتی عمل طویل سے طویل ہوتا جا رہا تھا جس کی بنیادی وجہ کابینہ اور حکومتی ٹیم میں نئے ارکان کی شمولیت سے زیادہ پہلے سے خدمات انجام دینے والے وزراء کے محکموں میں ردوبدل تھا جو آسان مرحلہ نہ تھا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف میں کئی لابیاں بیک وقت سرگرم ہیں اور ان میں سے ہر ایک لابی کا کسی نہ کسی کے سر پر ہاتھ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مشاورت طویل سے طویل تر ہوتی رہی تاہم اب جو کچھ ہوا ہے یہ کئی ایک لوگوںکے لیے چشم کشا ہے کیونکہ جن وزراء کے محکمے تبدیل کیے گئے ہیں وہ فوکسڈ ہوگئے ہیں، مذکورہ وزراء کے محکمے اس وجہ سے تبدیل نہیں کیے گئے کہ بس ایسا وزیراعلیٰ چاہتے تھے یا پھر ان کی کارکردگی اتنی اچھی تھی کہ وزیراعلیٰ اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے ایک محکمہ کے تمام مسائل ان سے حل کرانے کے بعد انھیں دوسرا محکمہ حوالے کردیا ہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مذکورہ محکموں کے حوالے سے ان کی کارکردگی مناسب نہیں تھی ۔

ہشام انعام اللہ کے حوالے صحت کا محکمہ کیا گیا تھا تاہم وہ اسے سنبھال نہیں پا رہے تھے اور یہ افواہ کئی دنوں سے زیر گردش تھی کہ محکمہ صحت ان کے ہاتھوں سے گیا کہ گیا اور یہی کچھ ہوا ہے کہ صحت جیسے بڑے محکمہ کا قلمدان لے کر انھیں سماجی بہبود کا محکمہ حوالے کردیا گیا ہے حالانکہ اگر محکمہ صحت کے حوالے سے ان کی کارکردگی مناسب نہیں تھی تو اس صورت میں انھیں کوئی دوسرا محکمہ حوالے کیے جانے کی بجائے آرام کرنے کا موقع دیاجاناچاہیے تھا تاہم وزیراعلیٰ نے انھیں ایڈجیسٹ کیا ہے۔

ڈاکٹر امجد علی خان اور معدنیات کا بھی مزید ساتھ چلنا مشکل ہوگیا تھا کیونکہ ان کی راہ میں جتنی بڑی رکاوٹیں کھڑی تھیں ان سے نمٹنا ان کے بس کی بات نہیں تھی،گوکہ انہوں نے اتنا عرصہ اپنے تئیں بہت کوشش کی لیکن وہ سمجھ گئے تھے کہ اگر وہ ان رکاوٹوں سے سر ٹکراتے رہے تو نقصان ان کا اپنا ہی ہوگا اس لیے ان کی عافیت اسی میں تھی کہ وہ اپنا پرانا محکمہ ہاؤسنگ سنبھالیں اور ایک طرف ہوجائیں۔

اکبرایوب خان پی ٹی آئی کے گزشتہ دور میں اپنے برادر اکبر یوسف ایوب خان کی نااہلی کے بعد ضمنی انتخابات کے ذریعے صوبائی اسمبلی میں وارد ہوئے اور انھیں مشیر بناتے ہوئے سی اینڈ ڈبلیو کے محکمہ کا قلمدان حوالے کیا گیا اور جب وہ 2018ء کے عام انتخابات میں اپنے چھوٹے بھائی ارشد ایوب کے ساتھ دو نشستیں جیت کر ایوان میں واپس آئے تو انھیں وزیر بناتے ہوئے وہی پرانا سی اینڈ ڈبلیو کا محکمہ حوالے کیا گیا۔

تاہم اس مرتبہ وہ شاید توقعات پر پورے نہیں اتر پا رہے تھے اس لیے ان کا محکمہ تبدیل کرتے ہوئے انھیں ضیاء اللہ بنگش سے تعلیم کے محکمہ کا قلمدان لیتے ہوئے حوالے کیا گیا تاہم ان کی اپنی تعلیمی قابلیت صرف میٹرک ہونے سے ایک ایشو کھڑا ہوگیا ہے جس پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے۔


رہی بات ضیاء اللہ بنگش کی کہ جن سے تعلیم کی وزارت لی گئی ہے تو ان کو بھی آئی ٹی کے محکمہ کا قلمدان دیتے ہوئے ایڈجیسٹمنٹ کی گئی ہے تاکہ کابینہ میں کوہاٹ کی نمائندگی برقراررہے۔ شہرام ترکئی گزشتہ دور میں سینئر وزیر کے طور پر صحت کا محکمہ چلاتے رہے ہیں تاہم مسائل موجود تھے جو اب مزید بڑھ چکے ہیں اس لیے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ محکمہ صحت کے امور کو درست نہج پر لانے کے لیے اس کا قلمدان ان کے حوالے کیاگیا ہے تاہم بعض حکومتی حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا بطور انعام نہیں بلکہ بطور سزا کیاگیا ہے کہ بلدیات کے محکمہ کا قلمدان ان سے لیتے ہوئے انھیں صحت کا محکمہ حوالے کردیا گیا ہے۔

جس پر وہ ہرگز خوش نہیں، تاہم شاید موجودہ حالات کے ساتھ انھیں سمجھوتہ کرنا پڑے، رہی بات کامران بنگش کی تو موجودہ پی ٹی آئی حکومت میں وہ ایک چمکتے ہوئے ہیرے کی مانند سامنے آئے ہیں جنہوں نے آئی ٹی کے محکمہ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا یہی وجہ ہے کہ انھیں بطور انعام بلدیات جیسی بڑی وزارت حوالے کی گئی ہے اور اب بلدیاتی انتخابات بھی ان ہی کی نگرانی میں منعقد ہونگے۔شاہ محمد وزیرگزشتہ دور میں ٹرانسپورٹ کے انچارج معاون خصوصی تھے تاہم جب وہ بنوں سے دوبارہ نشست جیت کر آئے تو وہ اس امید پر تھے کہ اس مرتبہ انھیں وزیر بنایا جائے گا لیکن جب انھیں نظر انداز کیاگیا تو وہ حکومتی ٹیم سے باہر ہوکر آرام سے بیٹھ گئے لیکن اب ڈیڑھ سال بعد ان کی بھی سنی گئی ہے اور انھیں دوبارہ محکمہ ٹرانسپورٹ کا قلمدان حوالے کرتے ہوئے وزیر بنادیا گیا ہے۔

جس کے ساتھ ہی قبائلی اضلاع سے محمد اقبال وزیر کے نام قرعہ نکلا ہے اور انھیں ریلیف و بحالی کا محکمہ دیتے ہوئے کابینہ میں شامل کیا گیا ہے ، قبائلی اضلاع سے ڈاکٹر جی جی جمال کے صاحبزادے غزن جمال کو بطور معاون خصوصی حکومتی ٹیم کا حصہ بناتے ہوئے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا محکمہ دیا گیا ہے، غزن جمال کو اس سے قبل قبائلی اضلاع میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے وزیراعلیٰ کا ترجمان بنایا گیا تھا اور اس مرتبہ کسی دوسرے قبائلی رکن کا نام زیر غور تھا جو عین وقت پر ڈراپ کردیا گیا اور غزن جمال کو حکومتی ٹیم کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔ نوشہرہ سے رکن اسمبلی خلیق الرحمٰن جوموجودہ وزیردفاع پرویز خٹک کے قریب ہونے کی وجہ سے گزشتہ دور میں پارلیمانی سیکرٹری رہے،اس دور میں پس منظر میں چلتے آرہے تھے تاہم اب انھیں مشیر بناتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے محکمہ کا قلمدان دیاگیا ہے۔

وزیراعلیٰ نے اپنی ٹیم میں آٹھ معاونین خصوصی کو شامل کیا ہے ان میں عارف احمد زئی کی شمولیت لازمی تھی جو قومی وطن پارٹی کے صوبائی چیئرمین سکندر شیرپاؤکو شکست دیتے ہوئے کامیاب ہوئے تھے،اسی لیے عارف احمد زئی کو نہ صرف معاون خصوصی مقرر کیا گیا ہے بلکہ معدنیات جیسا بڑا محکمہ بھی دیا گیا ہے، شفیع اللہ خان کو معاون خصوصی مقرر کرتے ہوئے دیر کو نمائندگی دی گئی، پیپلزپارٹی دور کے وزیر سید احمد حسین شاہ کو بھی بطور معاون خصوصی ایڈجیسٹ کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ظہور شاکر کی صورت ہنگو اورتاج محمد ترند کی شکل میں بٹ گرام کو بھی کابینہ میں نمائندگی حاصل ہوگئی ہے۔

کیلاش جیسے پسماندہ علاقہ کو نمائندگی دینے کے لیے وزیر زادہ کو نمائندگی دی گئی ہے جس کی وجہ سے روی کمار ایک مرتبہ پھر پیچھے رہ گئے۔ روی کمار گزشتہ دورمیں بھی بدقسمتی کا شکار رہے جو اقلیتی فہرست میں ہونے کے باوجود اسمبلی رکن نہ بن سکے اور اس مرتبہ اسمبلی رکن تو بنے لیکن ان کی قسمت میں حکومتی ٹیم کا حصہ بننا نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ وہ انتہائی متحرک ہونے کے باوجود وزیراعلیٰ اور پی ٹی آئی قیادت کی نظروںمیں نہ آسکے اور اس بدقسمتی کا شکار صرف روی کمارنہیں ہوئے بلکہ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی تمام اٹھارہ خواتین بھی کو اس بدقسمتی سے نہیں بخشا اور ان میں سے کسی ایک کو بھی حکومتی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا حالانکہ تین خواتین ارکان تو ایسی ہیں جو گزشتہ دور میں بھی اسمبلی کاحصہ تھیں لیکن پی ٹی آئی قیادت کے دربار میں شرف قبولیت نہ پا سکیں اور اب شنید ہے کہ انھیں بطور پارلیمانی سیکرٹریز ایڈجیسٹ کیا جائے گا۔

تاہم کسی ایک خاتون رکن کو بھی وزیر، مشیر یا معاون خصوصی نہ بنانا بہرکیف افسوسناک ہے اور وہ بھی پی ٹی آئی جیسی پارٹی کے لیے کہ جس کی کامیابیوں میں خواتین کا ایک بڑا حصہ ہے، دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی جس نے ذیشان خانزادہ کو سینٹ کے ضمنی انتخابات میں اسی شرط پر ووٹ دیا تھا کہ انھیں حکومت میں شامل کیا جائے گا،وہ بھی باہر رہ گئی ہے اور باپ کے چار ارکان میں سے کسی ایک کو بھی حکومتی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا جس کے باعث بلوچستان عوامی پارٹی کو فی الحال پرانی تنخواہ پر کام جاری رکھنا پڑے گا۔ تاہم چونکہ وزیراعلیٰ کے پاس ابھی ایک مشیر لینے کی بھی گنجائش ہے اور معاونین خصوصی کی تقرری پر کوئی قدغن بھی نہیں اس لیے مستقبل میںجہاں کہیں بھی پی ٹی آئی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے درمیان معاملات طے پائے وہیں باپ بھی کے پی حکومت کا حصہ ہوگی۔
Load Next Story