تحریک طالبان پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت
نئے سربراہ کے انتخاب کے موقع پر طالبان گروپوں میں واضح تقسیم نظر آئی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حکیم اللہ محسود کی موت کے بعد اپنا نیا سربراہ مولوی فضل اللہ کو بنانے کا اعلان کر دیا ہے اور شیخ خالد حقانی کو ان کا معاون منتخب کیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ اس کا سربراہ ایسے شخص کو منتخب کیا گیا ہے جس کا تعلق وزیرستان بلکہ پورے فاٹا کے علاقے سے نہیں اور وہ غیر محسود بھی ہے ۔ مولوی فضل اللہ کا تعلق سوات سے ہے جو ایک بندوبستی علاقہ ہے۔ اسی طرح مولوی فضل اللہ کے معاون منتخب ہونے والے شیخ خالد حقانی کا تعلق بھی بندوبستی علاقے صوابی سے ہے۔ اسی طرح پہلی مرتبہ منتخب ہونے والی ٹاپ ٹو شخصیات کا تعلق وزیرستان سے نہیں۔ مولوی فضل اللہ اور شیخ خالد حقانی کے انتخاب کے بعد خیبر پختونخوا حکومت کی مشکلات میں اضافے کا امکان ہے کیونکہ ان طالبان رہنمائوں کے ہمدردوں کی ایک بڑی تعداد سوات اور صوابی میں موجود ہو گی جو حکومت کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے' اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی حکومت ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔
حکیم اللہ محسود یکم نومبر کو ایک ڈرون حملے میں مارا گیا تھا جس کے بعد نئے سربراہ کے انتخاب کے لیے طالبان کی شوریٰ نے صلاح مشورے شروع کر دیے۔ 20 سے 25 ارکان پر مشتمل شوریٰ میں طالبان کے تمام گروپس کے نمایندے شامل ہیں۔ 6 روز تک جاری رہنے والے اجلاس کے دوران نئے سربراہ کے انتخاب کے لیے مولوی فضل اللہ' خان سعید سجنا' شیخ خالد حقانی' عمر خالد خراسانی اور حافظ سعید کے ناموں پر غورکیا گیا۔ محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے خان سعید سجنا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہے مگر وہ سربراہ کی دوڑ میں مات کھا گیا۔ خاصی کھینچاتانی کے بعد طالبان شوریٰ مولوی فضل اللہ ایسے پاکستان مخالف شخص کو منتخب کرنے میں کامیاب ہوئی۔ مولوی فضل اللہ کے انتخاب کے بعد وفاقی حکومت کی مشکلات میں بھی خاصا اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ وہ طالبان سے مذاکرات کے لیے خاصی سرگرم تھی اور حکومتی بیانات کے مطابق وہ اس سلسلے میں کافی پیشرفت کر چکی تھی کیونکہ حکیم اللہ محسود مذاکرات پر راضی ہو چکا تھا۔
مگر اب حالات میں یکسر تبدیلی آ گئی ہے جو پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں اور حکومت پاکستان کے لیے مذاکرات کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے نئے سربراہ مولوی فضل اللہ نے مذاکرات نہ کرنے کا واضح اعلان کر دیا ہے۔ ذرایع کی رپورٹ کے مطابق طالبان شوریٰ کے اجلاس میں مولوی فضل اللہ نے دل کھول کر پاکستان کے خلاف اپنا بغض اور بھڑاس نکالی اور طالبان کمانڈروں پر بھی واضح کر دیا کہ حکومت پاکستان سے کسی طرح کا کوئی رابطہ نہیں رکھا جائے گا۔ فضل اللہ نے طالبان کمانڈروں کو وارننگ دی کہ اگر کسی کمانڈر کے رابطوں کے بارے میں علم ہوا تو اسے معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ سخت سزا دی جائے گی۔ فضل اللہ کی اس وارننگ کا اتنا اثر ہوا کہ کسی بھی کمانڈر نے پاکستان سے مذاکرات کی حمایت نہیں کی یہاں تک کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حامیوں میں شمار کیے جانے والے خان سعید سجنا نے بھی مکمل خاموشی اختیار کی۔
اب کوئی بھی طالبان کمانڈر پاکستان سے مذاکرات کی حمایت نہیں کر سکے گا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں اسے طالبان شوریٰ کی مخالفت مول لینا پڑے گی۔ مولوی فضل اللہ نے 2009ء میں جرائم پیشہ افراد کی مدد سے سوات میں اپنی حکومت قائم کر لی تھی جس پر فوج کو اس کے خلاف آپریشن کرنا پڑا۔ اور وہ اپنے ساتھیوں سمیت افغانستان فرار ہو گیا۔ 2009ء میں حکومت پاکستان نے اس کے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے سے بڑھا کر 5 کروڑ روپے کر دی تھی۔ پاکستانی حکام کی جانب سے افغان حکام سے فضل اللہ کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا۔ فضل اللہ اپردیر کے علاقے میں پاکستانی میجر جنرل ثناء اللہ اور ان کے دیگر ساتھیوں کی شہادت کی ذمے داری بھی قبول کر چکا ہے۔ فضل اللہ اور اس کے ساتھی پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں پر کئی بار حملہ آور ہو چکے ہیں جس میں خاصا جانی نقصان ہوا۔ بعض اطلاعات کے مطابق افغانستان میں مقیم فضل اللہ کو کرزئی انتظامیہ' افغانستان کی خفیہ ایجنسی خاد کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ بعض حلقے اس قسم کا دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ فضل اللہ کو امریکی آشیر باد بھی حاصل ہے اور اس کے امریکی ایجنسیوں اور را سے رابطے ہیں۔
اس نے طالبان کا سربراہ منتخب ہونے کے بعد پہلا انٹرویو بھی امریکی میڈیا ہی کو دیا جس میں اس نے دوٹوک اعلان کیا کہ ڈرون حملے میں مارے جانے والے حکیم اللہ محسود کا بدلہ لیا جائے گا۔ حکیم اللہ محسود کو مارا امریکا نے اور کیا اب فضل اللہ اس کا بدلہ پاکستان سے لے گا۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان جن طالبان گروپوں کے ساتھ مذاکرات کا عمل آگے بڑھاتا ہے امریکا انھیں ڈرون حملوں کا نشانہ بنا دیتا ہے جس کی واضح مثال حکیم اللہ محسود کی ہے۔ ذرایع کے مطابق نئے سربراہ کے انتخاب کے لیے طالبان شوریٰ نے پہلے تین دن متعدد اجلاس کیے۔ کچھ گروپ محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے خان سعید سجنا کی حمایت کر رہے تھے، اس لیے طالبان گروپوں کو انتشار سے بچانے کے لیے افغان طالبان کے امیر ملا عمر نے اہم کردار ادا کیا۔
اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو اس سے افغان طالبان اور پاکستان تحریک طالبان کے درمیان اتحاد کے تاثر کو تقویت ملتی ہے۔ نئے سربراہ کے انتخاب کے موقع پر طالبان گروپوں میں واضح تقسیم نظر آئی ہے۔ غیر محسود اور فاٹا سے باہر کے علاقوں سے منتخب ہونے والے سربراہ اور اس کے معاون کے بعد طالبان میں بے چینی کے عنصر کے پیدا ہونے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ فضل اللہ کے نئے سربراہ بننے کے بعد تحریک انصاف اور دیگر جماعتیں جو طالبان سے مذاکرات کی حمایت کر رہی تھیں اب ان کے لیے بھی اس کی حمایت کرنا آسان نہیں رہے گا۔ حکومت پاکستان کو بھی موجودہ تبدیلیوں پر گہری نظر رکھنا پڑے گی کیونکہ فضل اللہ نے پاکستانی حکومت سے مخالفت کا کھل کر اظہار کر دیا ہے۔ اب ممکن ہے کہ پاکستانی حکومت کے لیے بھی مذاکرات کا عمل شروع کرنا مشکل ہو جائے اس کا پتہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کیونکہ ابھی تک وفاقی حکومت کا موقف سامنے نہیں آیا۔
حکیم اللہ محسود یکم نومبر کو ایک ڈرون حملے میں مارا گیا تھا جس کے بعد نئے سربراہ کے انتخاب کے لیے طالبان کی شوریٰ نے صلاح مشورے شروع کر دیے۔ 20 سے 25 ارکان پر مشتمل شوریٰ میں طالبان کے تمام گروپس کے نمایندے شامل ہیں۔ 6 روز تک جاری رہنے والے اجلاس کے دوران نئے سربراہ کے انتخاب کے لیے مولوی فضل اللہ' خان سعید سجنا' شیخ خالد حقانی' عمر خالد خراسانی اور حافظ سعید کے ناموں پر غورکیا گیا۔ محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے خان سعید سجنا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہے مگر وہ سربراہ کی دوڑ میں مات کھا گیا۔ خاصی کھینچاتانی کے بعد طالبان شوریٰ مولوی فضل اللہ ایسے پاکستان مخالف شخص کو منتخب کرنے میں کامیاب ہوئی۔ مولوی فضل اللہ کے انتخاب کے بعد وفاقی حکومت کی مشکلات میں بھی خاصا اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ وہ طالبان سے مذاکرات کے لیے خاصی سرگرم تھی اور حکومتی بیانات کے مطابق وہ اس سلسلے میں کافی پیشرفت کر چکی تھی کیونکہ حکیم اللہ محسود مذاکرات پر راضی ہو چکا تھا۔
مگر اب حالات میں یکسر تبدیلی آ گئی ہے جو پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں اور حکومت پاکستان کے لیے مذاکرات کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے نئے سربراہ مولوی فضل اللہ نے مذاکرات نہ کرنے کا واضح اعلان کر دیا ہے۔ ذرایع کی رپورٹ کے مطابق طالبان شوریٰ کے اجلاس میں مولوی فضل اللہ نے دل کھول کر پاکستان کے خلاف اپنا بغض اور بھڑاس نکالی اور طالبان کمانڈروں پر بھی واضح کر دیا کہ حکومت پاکستان سے کسی طرح کا کوئی رابطہ نہیں رکھا جائے گا۔ فضل اللہ نے طالبان کمانڈروں کو وارننگ دی کہ اگر کسی کمانڈر کے رابطوں کے بارے میں علم ہوا تو اسے معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ سخت سزا دی جائے گی۔ فضل اللہ کی اس وارننگ کا اتنا اثر ہوا کہ کسی بھی کمانڈر نے پاکستان سے مذاکرات کی حمایت نہیں کی یہاں تک کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حامیوں میں شمار کیے جانے والے خان سعید سجنا نے بھی مکمل خاموشی اختیار کی۔
اب کوئی بھی طالبان کمانڈر پاکستان سے مذاکرات کی حمایت نہیں کر سکے گا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں اسے طالبان شوریٰ کی مخالفت مول لینا پڑے گی۔ مولوی فضل اللہ نے 2009ء میں جرائم پیشہ افراد کی مدد سے سوات میں اپنی حکومت قائم کر لی تھی جس پر فوج کو اس کے خلاف آپریشن کرنا پڑا۔ اور وہ اپنے ساتھیوں سمیت افغانستان فرار ہو گیا۔ 2009ء میں حکومت پاکستان نے اس کے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے سے بڑھا کر 5 کروڑ روپے کر دی تھی۔ پاکستانی حکام کی جانب سے افغان حکام سے فضل اللہ کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا۔ فضل اللہ اپردیر کے علاقے میں پاکستانی میجر جنرل ثناء اللہ اور ان کے دیگر ساتھیوں کی شہادت کی ذمے داری بھی قبول کر چکا ہے۔ فضل اللہ اور اس کے ساتھی پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں پر کئی بار حملہ آور ہو چکے ہیں جس میں خاصا جانی نقصان ہوا۔ بعض اطلاعات کے مطابق افغانستان میں مقیم فضل اللہ کو کرزئی انتظامیہ' افغانستان کی خفیہ ایجنسی خاد کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ بعض حلقے اس قسم کا دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ فضل اللہ کو امریکی آشیر باد بھی حاصل ہے اور اس کے امریکی ایجنسیوں اور را سے رابطے ہیں۔
اس نے طالبان کا سربراہ منتخب ہونے کے بعد پہلا انٹرویو بھی امریکی میڈیا ہی کو دیا جس میں اس نے دوٹوک اعلان کیا کہ ڈرون حملے میں مارے جانے والے حکیم اللہ محسود کا بدلہ لیا جائے گا۔ حکیم اللہ محسود کو مارا امریکا نے اور کیا اب فضل اللہ اس کا بدلہ پاکستان سے لے گا۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان جن طالبان گروپوں کے ساتھ مذاکرات کا عمل آگے بڑھاتا ہے امریکا انھیں ڈرون حملوں کا نشانہ بنا دیتا ہے جس کی واضح مثال حکیم اللہ محسود کی ہے۔ ذرایع کے مطابق نئے سربراہ کے انتخاب کے لیے طالبان شوریٰ نے پہلے تین دن متعدد اجلاس کیے۔ کچھ گروپ محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے خان سعید سجنا کی حمایت کر رہے تھے، اس لیے طالبان گروپوں کو انتشار سے بچانے کے لیے افغان طالبان کے امیر ملا عمر نے اہم کردار ادا کیا۔
اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو اس سے افغان طالبان اور پاکستان تحریک طالبان کے درمیان اتحاد کے تاثر کو تقویت ملتی ہے۔ نئے سربراہ کے انتخاب کے موقع پر طالبان گروپوں میں واضح تقسیم نظر آئی ہے۔ غیر محسود اور فاٹا سے باہر کے علاقوں سے منتخب ہونے والے سربراہ اور اس کے معاون کے بعد طالبان میں بے چینی کے عنصر کے پیدا ہونے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ فضل اللہ کے نئے سربراہ بننے کے بعد تحریک انصاف اور دیگر جماعتیں جو طالبان سے مذاکرات کی حمایت کر رہی تھیں اب ان کے لیے بھی اس کی حمایت کرنا آسان نہیں رہے گا۔ حکومت پاکستان کو بھی موجودہ تبدیلیوں پر گہری نظر رکھنا پڑے گی کیونکہ فضل اللہ نے پاکستانی حکومت سے مخالفت کا کھل کر اظہار کر دیا ہے۔ اب ممکن ہے کہ پاکستانی حکومت کے لیے بھی مذاکرات کا عمل شروع کرنا مشکل ہو جائے اس کا پتہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کیونکہ ابھی تک وفاقی حکومت کا موقف سامنے نہیں آیا۔