کشکول توڑا جائے…

ویسے حقیقت تو یہی ہے کہ یہ مفادات کی ایک جنگ ہے جس میں پاکستان کے کروڑوں عوام پس رہے ہیں۔

ڈرون حملوں پر پابندی کا مدعا لے کر جانے والوں کو ایک اور کامیاب ڈرون حملے کی نوید سنادی گئی، جس میں طالبان کا امیر حکیم اﷲ محسود مارا گیا اور ہماری حکومت کے لیے مزید پریشانی اور الجھن پیدا ہو گئی۔ وفاقی حکومت کے ایک اہم عہدیدار کی جانب سے ڈرون حملے میں حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت پر اظہار مذمت حیران کن ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ ایک ایسے شخص کے لیے واویلا کرنا جو کہ خود حکومت پاکستان کو مطلوب تھا اور جس کے سر کی قیمت 10 اکتوبر 2007 کے جی ایچ کیو پر حملے کے بعد 5 کروڑ مقرر کی گئی تھی، کیونکہ اس حملے میں 12 فوجیوں سمیت 22 افراد شہید ہوئے تھے، تو ایسے دہشت گرد کے لیے حکومتی واویلا نہ سمجھنے والی بات ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حکیم اﷲ محسود انتہائی بدترین دہشت گرد اور پاکستان کا دشمن تھا اور اس پر ڈرون حملے پر وزارت داخلہ سراپا احتجاج بن گئی ہے، حتیٰ کہ امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرلیا گیا ہے۔ یہ تو وہی بات ہوگئی:

عجب تیری سیاست، عجب تیرا نظام

ویسے حقیقت تو یہی ہے کہ یہ مفادات کی ایک جنگ ہے جس میں پاکستان کے کروڑوں عوام پس رہے ہیں۔ ڈرون حملوں کی مذمت کی جانے چاہیے، اس سے انکار ممکن نہیں ہے، مگر کیا کریں ایک غیر ملکی رپورٹ کے مطابق ماضی میں اس کی اجازت تو ہم نے خود ہی دی تھی۔ امریکا کی جنگ میں جب ہم فریق بن گئے اور ڈالروں سے اپنے پیٹ بھرنے لگے بغیر سوچے سمجھے کہ اس کے مابعد اثرات کیا پڑیںگے تو پھر اب شور کیوں؟ ویسے بھی سرکاری سطح پر یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ڈرون حملوں میں 5 سال کے دوران 317 ڈرون حملے ہوئے اور ان میں صرف 57 بے گناہ لوگ مارے گئے۔


دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان اس دہشت گردی کی جنگ میں 50 ہزار سے زائد بے گناہ لوگوں کو کھو چکا ہے۔ عبادت گاہیں ہوں یا عید کے اجتماعات حتیٰ کہ نماز جنازہ کے اجتماعات پر بھی خودکش حملے ہوئے ہیں۔ اقلیتی برادری ہو یا دوسرے فرقے کے لوگ کوئی محفوظ نہ رہا، ان تمام حملوں کی ذمے داری طالبان نے قبول کی مگر ہمارے ماہرین اور قوم کے لیڈران کو یہ لوگ نظر نہیں آتے۔ ہمارے ہی ملک میں ان طالبان کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں، شمالی وزیرستان غیر ممنوعہ علاقہ بن چکا ہے اور ہم ہیں کہ مذاکرات کی بات کر رہے ہیں ہیں اور جس کے لییبے معنی دلیلوں سے کام لیا جا رہا ہے۔شاید سیاست چمکانے کے لیے یہ ضروری ہے۔ طالبان تو حکومت پاکستان کی رٹ کو ہی تسلیم نہیں کرتے، مذاکرات کے حوالے سے طالبان کا ایسا کوئی موقف سامنے نہیں آیا تھا جس سے اندازہ ہوتا کہ مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں۔ اب تو انھوں نے ویسے ہی کہہ دیا ہے کہ حکیم اﷲ محسود کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا۔ اسامہ بن لادن جس طرح یہاں اطمینان سے رہائش پذیر تھا ٹھیک اسی طرح حکیم اﷲ محسود نے دو کروڑ روپے خرچ کرکے ایک رہائش گاہ خریدی تھی۔

عینی شاہدین کے مطابق اس میں مختلف پھلوں کے باغات اور بڑی بڑی گاڑیاں موجود تھیں اور وہ وہاں اپنی بیویوں کے ساتھ بڑے اطمینان سے رہائش پذیر تھا۔ اصل بات صرف یہ ہے کہ ہمارے مذہبی رہنما اور کچھ سیاست دان اپنی دکان چمکانے کے لیے ان دہشت گردوں کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عوام کو دھوکے میں رکھا جاتا ہے۔ بے شک عوام پر خودکش حملے ہوتے رہیں۔ لوگ جنازے پر جنازے اٹھاتے رہیں مگر ہم ان دہشت گردوں کو دودھ پلاتے رہیںگے۔ ان کی حرکتوں سے چشم پوشی کرتے رہیںگے۔ دن دہاڑے یہ دہشت گرد ہماری جیلوں میں بیٹھ کر عدالتیں لگائیں یا غیر فرقہ کے لوگوں کو گولیوں سے اڑادیں ہم ان کو کچھ نہیں کہیں مگر جب ان دہشت گردوں میں سے کوئی مارا جائے تو ہم پریشانی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم مزاحمتی بیان دیتے ہیں، مذاکرات سبوتاژ ہونے کا واویلا کرتے ہیں۔ ایک طرف امریکا سے وفاداری، دوسری طرف طالبان سے یاری۔ یہی ہماری قسمت ہے کہ ایک طرف ڈرون حملے ہم پر ہوتے رہیں جو کہ ہماری خود مختاری کی سراسر توہین ہے تو دوسری طرف خودکش حملوں سے ملک کا کونا کونا محفوظ نہیں ہے، ہم سے نہ یہ خوش ہیں نہ وہ خوش۔ مگر ہم ان تمام صورت حال کا جائزہ لے کر ملک کی بہتری کے لیے نئی پالیسی بنانے کے بجائے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔

دنیا میں اکیلے ہوتے جا رہے ہیں مگر ہمیں اس کا احساس نہیں ہے۔ مودبانہ گزارش ہے کہ حکیم اﷲ محسود کے قتل پر واویلا کرنے کے بجائے اس کی حرکتیں عوام کے سامنے لائیں کہ ان کے احکامات کے ذریعے پاکستان میں کتنے لوگ خودکش حملوں میں مارے گئے، کتنا بڑا علاقہ ایسا ہے جہاں ان دہشت گردوں کا قبضہ ہے، کتنے لوگ ہیں جو روز ان کے حملوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ سچ کڑوا ضرور ہوتا ہے مگر اس کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔ حقائق سے نظر چرانا مسائل کو دعوت دیتا ہے، ان ہشت گردوں کے ہاتھوں کھیلنے کے بجائے ان کو پاکستان سے بے دخل کرنے کی پالیسی پر گامزن ہوں تو قوم آپ کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے گی۔ ہمیں امن و سکون چاہیے۔ اپنے لیے، اپنے گھر والوں کے لیے، ہماری بقا اسی میں ہے کہ ہم کسی کے ہاتھوں کھلونا نہ بنیں مگر یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم کشکول توڑ دیں گے۔
Load Next Story