دم توڑتی روایت …
اردگرد موجود ہر چیز اس کے کورے ذہن کو آگاہی فراہم کر رہی ہوتی ہے۔
لاہور:
جس تیزی سے زمانہ فرلانگیں بھرتا ہوا آگے کی جانب دوڑ رہا ہے، اسی تیزی سے ہماری بہت سی مفید روایات دم توڑتی جارہی ہیں۔ جس کی وجہ سے آج مجموعی طور پر ہمارے معاشرے کے مزاج میں نمایاں تبدیلیاں بھی رونما ہورہی ہیں۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے ان کو بامقصد و مفید کہانیاں سنانے کا سلسلہ ایک زمانے سے نسل در نسل منتقل ہوتا آیا ہے۔ لیکن اب یہ سلسلہ تقریباً منقطع ہوچکا ہے۔ بچپن میں اچھی اچھی کہانیاں سننا انتہائی زیادہ مفید ہے۔ بچوں کو کہانیاں سنانے کا سلسلہ انسانی فطرت اور جذباتی میلانات سے قریب تر تربیت کا باقاعدہ اور غیر نصابی طریقہ ہے۔ کہانیوں کے ذریعے بچوں کی تربیت کا یہ سلسلہ اس وقت سے شروع ہوجاتا ہے، جب ایک بچہ بات سن کر اپنے تئیں سمجھنے لگتا ہے اور اپنے عمل اور ٹوٹی پھوٹی اور توتلی زبان اور اشاروں سے اس کا جواب بھی دینے لگتا ہے۔
چھوٹے بچوں کے ذہن چونکہ نرم شاخوں کی مانند ہوتے ہیں، انھیں جس جانب بھی موڑا جائے یہ مڑ جاتے ہیں۔ بچپن میں جب بچے کے نازک اور صاف ذہن میں ابھی پڑھ کر پوری طرح سمجھنے کی قوت پروان نہیں چڑھی ہوتی۔ ایسے میں سن کر کسی چیز کو محسوس کرنے کا تجربہ نہایت پراثر ثابت ہوتا ہے۔ کوئی بھی بچہ کسی بات کو سن کر فوراً اپنے تصور کی مدد سے اسے محسوس کرتا اور اپنے ذہن میں ان الفاظ یا چیزوں کی کوئی نہ کوئی شبیہ بنا لیتا ہے۔ صحافی و مصنف مبشر علی زیدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ''میری امی بچپن میں مجھے سلانے کے لیے کہانیاں سناتی تھیں۔ وہ کہانی شروع کرتیں اور اسے ختم کرنے سے پہلے سوجاتیں۔ میں رات بھر جاگتا رہتا، کہانی سوچتا رہتا، کردار مجھ سے باتیں کرتے رہتے۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں سچ مچ اپنی امی کی وجہ سے ہوں۔'' لہٰذا مطالعے کے قابل ہونے سے پہلے کہانیاں سننا اس ضمن میں خاصا کارآمد ثابت ہوتا ہے۔
کہانیوں کے ذریعے بچوں کو سکھانے اور سمجھانے کا یہ نہایت دلچسپ اور مفید سلسلہ بچے کے چشم تصور سے اسے ایسی دنیا کی سیر کرا رہا ہوتا ہے، جہاں وہ اپنی بہترین توجہ کے ساتھ بہت سی نئی چیزوں اور نئی باتوں کو سمجھ رہا ہوتا ہے۔ اس کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ اور مختلف کیفیات کا ادراک ہوتا ہے اور خود بخود پھر ان الفاظ کے لیے معانی، شکلیں اور ان کا اچھا یا برا ہونا بھی طے کر رہا ہوتا ہے۔ دنیا میں آنکھ کھولنے والے بچے کے لیے ہر چیز بالکل نئی ہوتی ہے، اردگرد موجود ہر چیز اس کے کورے ذہن کو آگاہی فراہم کر رہی ہوتی ہے۔ بہت سی چیزیں تو وہ اپنے تجربے سے پرکھ کر حاصل کرلیتا ہے، لیکن ننھے سے ذہن میں جب بھی اس مرحلے میں مشکل پیش آتی ہے تو اس کا اظہار وہ اپنے سوال کی صورت میں کرتا ہے۔ یہ بچے کے منطقی انداز میں سیکھنے اور تربیت کا وہ مرحلہ ہوتا ہے جو اسے عقلیت پسندی کی طرف لے جا رہا ہوتا ہے۔ بچپن میں سنائی جانے والی کہانیوں سے زبان و بیان کی تربیت اور تخیلاتی قوت بہت تیز اور فعال ہوجاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے مائیں اپنے بچوں کی کافی حد تک تربیت بامقصد و مفید کہانیاں سناکر ہی کرتی آئی ہیں۔ اگرچہ اس وقت مائیں کچھ زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہوتی تھیں لیکن اپنے بچوں کی تربیت سے کبھی بھی لاپروا نہیں رہیں۔ لیکن آج کل کی مائیں اگرچہ ماضی کی مائوں سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، لیکن بچوں کی تربیت کے معاملے میں خاصی کم زوری نظر آتی ہے۔ ماضی میں صرف ناظرہ قرآن پڑھی ہوئی مائیں بھی بچوں کو طلسم ہوش ربا اور الف لیلہ جیسی کہانیاں سناتی تھیں۔ ان کہانیوں سے بچوں کی ذہنی صلاحیتیں، سیکھنے کے عمل اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں کافی حد تک اضافہ ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری ثقافت و روایات بھی اجاگر ہوتی تھیں۔ یہ اس کی تربیت کا ایک موثر طریقہ تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اچھے برے اور صحیح غلط کی تربیت میں سکھانے کے لیے نصیحتوں سے زیادہ اہم کردار مختلف قصوں اور کہانیوں کا ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک دور وہ بھی گزرا ہے جب صرف گھر میں مائیں ہی نہیں بلکہ اسکولوں میں اساتذہ بھی بچوں کو مختلف قسم کی سبق آموز کہانیاں سنایا کرتے تھے، جس کا مقصد تدریس کے ماحول کو طلبا کے لیے دل چسپ بنانا اور انھیں ایک مثبت چیز کی طرف مائل کرنا ہوتا تھا۔ جب کسی وجہ سے کوئی پیریڈ فارغ ہوتا اور طلبا کے پاس کچھ فرصت ہوتی تو وہ خود بھی کہانی سننے کی فرمائش کرتے تھے، اس طرح گھروں کے ساتھ اسکولوں میں بھی کہانی سنانے کی روایت پروان چڑھتی رہتی تھی۔
جب ہمارے یہاں ذرایع ابلاغ کی ترقی شروع ہوئی تو بچوں کی کہانیوں کے آڈیو کیسٹوں کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ جو مائیں خود بچوں کو کہانیاں نہیں سنا پاتی تھیں، انھیں یہ سہولت ملی کہ وہ بچوں کو سنانے کے لیے بازار سے مختلف کہانیوں کے یہ کیسٹ لے آتیں۔ یوں وہ باآسانی اپنی مصروفیات جاری رکھتیں اور بچے بھی اپنی کہانی سننے میں محو رہتے۔ روزمرہ کی مصروفیات کے باعث بچوں کی کہانی سننے کا یہ دور بھی کسی نعمت سے کم نہ تھا کہ کم سے کم انھیں بذریعہ آڈیو کیسٹ ہی سہی، اچھی کہانیاں سننے کو مل رہی تھیں، پھر رفتہ رفتہ یہ سلسلہ بھی دم توڑ گیا۔ کچھ بڑے بچوں میں کہانیاں پڑھنے کا بھی ایک دور رہا ہے، جس سے بچے میں خود بخود مطالعہ کرنے کا ذوق پیدا ہوجاتا تھا، جو آخرعمر تک رہتا تھا۔ لیکن اب تو سب کچھ ہی تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ نام نہاد مصروفیات نے بچوں کو کہانیاں سنانے کے اس تربیتی طریقہ سے محروم کردیا اور خود وہ کہانیاں پڑھتے نہیں جس سے ان میںمطالعہ کرنے کا ذوق آخر عمر تک پیدا نہیں ہوتا۔
اب کہانیاں سننے اور پڑھنے کی جگہ ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل جیسی بے شمار چیزوں نے لے لی ہے۔ آج کل ہمارے یہاں بچے کہانی سن کر سونے کے بجائے ٹی وی دیکھتے سوتے ہیں یا پھر موبائل سے کھیلتے ہوئے سونا چاہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ویڈیو گیم، کمپیوٹر اور ٹی وی وغیرہ دیکھنے والے بچوں کو کتابیں بور کرنے لگتی ہیں۔ ٹی وی وغیرہ دیکھتے لمحے بچے کی قوت متخیلہ کام نہیں کرتی، جب کہ کہانی کے ذریعے بچے کی تخیلاتی قوت بہت زیادہ تیز ہوتی ہے، کتاب پڑھتے ہوئے وہ کتاب کے ذریعے اپنے شعور میں کسی چیز کو محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ اب وقت کی کمی کا جواز تراش کر کتابوں سے تو جان چھڑائی ہی جانے لگی ہے، ساتھ ہی اب انٹرنیٹ پر موجود قابل مطالعہ مواد کے پڑھنے میں بھی کمی آئی ہے، جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ صرف کتابیں و رسائل یا چھپی ہوئی چیزیں ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر مطالعہ ہی کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ بہترین ہو تو ہمیں اپنے بچوں کو اچھی کہانیاں سنانے اور پڑھنے کی عادت ڈالنے کی اہمیت کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ جس سے یقیناً بچوں میں تحقیق و تجسس کی صلاحیت کی بڑھوتری کے ساتھ مطالعے کا ذوق بھی پروان چڑھے گا اور ان کا آنے والا کل آج سے بہت بہتر ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں اپنی کہانیوں والی دم توڑتی روایت کو ایک بار پھر زندہ کرنا ہوگا۔
جس تیزی سے زمانہ فرلانگیں بھرتا ہوا آگے کی جانب دوڑ رہا ہے، اسی تیزی سے ہماری بہت سی مفید روایات دم توڑتی جارہی ہیں۔ جس کی وجہ سے آج مجموعی طور پر ہمارے معاشرے کے مزاج میں نمایاں تبدیلیاں بھی رونما ہورہی ہیں۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے ان کو بامقصد و مفید کہانیاں سنانے کا سلسلہ ایک زمانے سے نسل در نسل منتقل ہوتا آیا ہے۔ لیکن اب یہ سلسلہ تقریباً منقطع ہوچکا ہے۔ بچپن میں اچھی اچھی کہانیاں سننا انتہائی زیادہ مفید ہے۔ بچوں کو کہانیاں سنانے کا سلسلہ انسانی فطرت اور جذباتی میلانات سے قریب تر تربیت کا باقاعدہ اور غیر نصابی طریقہ ہے۔ کہانیوں کے ذریعے بچوں کی تربیت کا یہ سلسلہ اس وقت سے شروع ہوجاتا ہے، جب ایک بچہ بات سن کر اپنے تئیں سمجھنے لگتا ہے اور اپنے عمل اور ٹوٹی پھوٹی اور توتلی زبان اور اشاروں سے اس کا جواب بھی دینے لگتا ہے۔
چھوٹے بچوں کے ذہن چونکہ نرم شاخوں کی مانند ہوتے ہیں، انھیں جس جانب بھی موڑا جائے یہ مڑ جاتے ہیں۔ بچپن میں جب بچے کے نازک اور صاف ذہن میں ابھی پڑھ کر پوری طرح سمجھنے کی قوت پروان نہیں چڑھی ہوتی۔ ایسے میں سن کر کسی چیز کو محسوس کرنے کا تجربہ نہایت پراثر ثابت ہوتا ہے۔ کوئی بھی بچہ کسی بات کو سن کر فوراً اپنے تصور کی مدد سے اسے محسوس کرتا اور اپنے ذہن میں ان الفاظ یا چیزوں کی کوئی نہ کوئی شبیہ بنا لیتا ہے۔ صحافی و مصنف مبشر علی زیدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ''میری امی بچپن میں مجھے سلانے کے لیے کہانیاں سناتی تھیں۔ وہ کہانی شروع کرتیں اور اسے ختم کرنے سے پہلے سوجاتیں۔ میں رات بھر جاگتا رہتا، کہانی سوچتا رہتا، کردار مجھ سے باتیں کرتے رہتے۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں سچ مچ اپنی امی کی وجہ سے ہوں۔'' لہٰذا مطالعے کے قابل ہونے سے پہلے کہانیاں سننا اس ضمن میں خاصا کارآمد ثابت ہوتا ہے۔
کہانیوں کے ذریعے بچوں کو سکھانے اور سمجھانے کا یہ نہایت دلچسپ اور مفید سلسلہ بچے کے چشم تصور سے اسے ایسی دنیا کی سیر کرا رہا ہوتا ہے، جہاں وہ اپنی بہترین توجہ کے ساتھ بہت سی نئی چیزوں اور نئی باتوں کو سمجھ رہا ہوتا ہے۔ اس کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ اور مختلف کیفیات کا ادراک ہوتا ہے اور خود بخود پھر ان الفاظ کے لیے معانی، شکلیں اور ان کا اچھا یا برا ہونا بھی طے کر رہا ہوتا ہے۔ دنیا میں آنکھ کھولنے والے بچے کے لیے ہر چیز بالکل نئی ہوتی ہے، اردگرد موجود ہر چیز اس کے کورے ذہن کو آگاہی فراہم کر رہی ہوتی ہے۔ بہت سی چیزیں تو وہ اپنے تجربے سے پرکھ کر حاصل کرلیتا ہے، لیکن ننھے سے ذہن میں جب بھی اس مرحلے میں مشکل پیش آتی ہے تو اس کا اظہار وہ اپنے سوال کی صورت میں کرتا ہے۔ یہ بچے کے منطقی انداز میں سیکھنے اور تربیت کا وہ مرحلہ ہوتا ہے جو اسے عقلیت پسندی کی طرف لے جا رہا ہوتا ہے۔ بچپن میں سنائی جانے والی کہانیوں سے زبان و بیان کی تربیت اور تخیلاتی قوت بہت تیز اور فعال ہوجاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے مائیں اپنے بچوں کی کافی حد تک تربیت بامقصد و مفید کہانیاں سناکر ہی کرتی آئی ہیں۔ اگرچہ اس وقت مائیں کچھ زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہوتی تھیں لیکن اپنے بچوں کی تربیت سے کبھی بھی لاپروا نہیں رہیں۔ لیکن آج کل کی مائیں اگرچہ ماضی کی مائوں سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، لیکن بچوں کی تربیت کے معاملے میں خاصی کم زوری نظر آتی ہے۔ ماضی میں صرف ناظرہ قرآن پڑھی ہوئی مائیں بھی بچوں کو طلسم ہوش ربا اور الف لیلہ جیسی کہانیاں سناتی تھیں۔ ان کہانیوں سے بچوں کی ذہنی صلاحیتیں، سیکھنے کے عمل اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں کافی حد تک اضافہ ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری ثقافت و روایات بھی اجاگر ہوتی تھیں۔ یہ اس کی تربیت کا ایک موثر طریقہ تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اچھے برے اور صحیح غلط کی تربیت میں سکھانے کے لیے نصیحتوں سے زیادہ اہم کردار مختلف قصوں اور کہانیوں کا ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک دور وہ بھی گزرا ہے جب صرف گھر میں مائیں ہی نہیں بلکہ اسکولوں میں اساتذہ بھی بچوں کو مختلف قسم کی سبق آموز کہانیاں سنایا کرتے تھے، جس کا مقصد تدریس کے ماحول کو طلبا کے لیے دل چسپ بنانا اور انھیں ایک مثبت چیز کی طرف مائل کرنا ہوتا تھا۔ جب کسی وجہ سے کوئی پیریڈ فارغ ہوتا اور طلبا کے پاس کچھ فرصت ہوتی تو وہ خود بھی کہانی سننے کی فرمائش کرتے تھے، اس طرح گھروں کے ساتھ اسکولوں میں بھی کہانی سنانے کی روایت پروان چڑھتی رہتی تھی۔
جب ہمارے یہاں ذرایع ابلاغ کی ترقی شروع ہوئی تو بچوں کی کہانیوں کے آڈیو کیسٹوں کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ جو مائیں خود بچوں کو کہانیاں نہیں سنا پاتی تھیں، انھیں یہ سہولت ملی کہ وہ بچوں کو سنانے کے لیے بازار سے مختلف کہانیوں کے یہ کیسٹ لے آتیں۔ یوں وہ باآسانی اپنی مصروفیات جاری رکھتیں اور بچے بھی اپنی کہانی سننے میں محو رہتے۔ روزمرہ کی مصروفیات کے باعث بچوں کی کہانی سننے کا یہ دور بھی کسی نعمت سے کم نہ تھا کہ کم سے کم انھیں بذریعہ آڈیو کیسٹ ہی سہی، اچھی کہانیاں سننے کو مل رہی تھیں، پھر رفتہ رفتہ یہ سلسلہ بھی دم توڑ گیا۔ کچھ بڑے بچوں میں کہانیاں پڑھنے کا بھی ایک دور رہا ہے، جس سے بچے میں خود بخود مطالعہ کرنے کا ذوق پیدا ہوجاتا تھا، جو آخرعمر تک رہتا تھا۔ لیکن اب تو سب کچھ ہی تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ نام نہاد مصروفیات نے بچوں کو کہانیاں سنانے کے اس تربیتی طریقہ سے محروم کردیا اور خود وہ کہانیاں پڑھتے نہیں جس سے ان میںمطالعہ کرنے کا ذوق آخر عمر تک پیدا نہیں ہوتا۔
اب کہانیاں سننے اور پڑھنے کی جگہ ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل جیسی بے شمار چیزوں نے لے لی ہے۔ آج کل ہمارے یہاں بچے کہانی سن کر سونے کے بجائے ٹی وی دیکھتے سوتے ہیں یا پھر موبائل سے کھیلتے ہوئے سونا چاہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ویڈیو گیم، کمپیوٹر اور ٹی وی وغیرہ دیکھنے والے بچوں کو کتابیں بور کرنے لگتی ہیں۔ ٹی وی وغیرہ دیکھتے لمحے بچے کی قوت متخیلہ کام نہیں کرتی، جب کہ کہانی کے ذریعے بچے کی تخیلاتی قوت بہت زیادہ تیز ہوتی ہے، کتاب پڑھتے ہوئے وہ کتاب کے ذریعے اپنے شعور میں کسی چیز کو محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ اب وقت کی کمی کا جواز تراش کر کتابوں سے تو جان چھڑائی ہی جانے لگی ہے، ساتھ ہی اب انٹرنیٹ پر موجود قابل مطالعہ مواد کے پڑھنے میں بھی کمی آئی ہے، جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ صرف کتابیں و رسائل یا چھپی ہوئی چیزیں ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر مطالعہ ہی کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ بہترین ہو تو ہمیں اپنے بچوں کو اچھی کہانیاں سنانے اور پڑھنے کی عادت ڈالنے کی اہمیت کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ جس سے یقیناً بچوں میں تحقیق و تجسس کی صلاحیت کی بڑھوتری کے ساتھ مطالعے کا ذوق بھی پروان چڑھے گا اور ان کا آنے والا کل آج سے بہت بہتر ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں اپنی کہانیوں والی دم توڑتی روایت کو ایک بار پھر زندہ کرنا ہوگا۔