ٹیکسی ڈرائیور قتل کیس تفتیشی افسر4ماہ بعد چالان جمع کرانے کیلیے تیار
عدالت کا قتل کیس میں ملوث رینجرز اہلکاروں کے کیس کی عدالتی فائل اور ریمانڈ پیپرملزمان کو دینے کا حکم
ٹیکسی ڈرائیور مراد قتل کیس کے تفتیشی افسر کو بیوہ سے مصالحت کی ناکامی کے بعد ملزمان کے خلاف چالان جمع کرانے کا خیال آگیا ہے 4 ماہ گزر جانے کے باوجود کسی بھی عدالت کو آگاہ نہیں کیا تھا۔
جبکہ مسلسل بیوہ و مدعیہ کو مصالحت کرنے پر آمادہ کرتا رہا تھا اور اوچھے ہتھکنڈے بھی استعمال کیے تھے، تفصیلات کے مطابق جمعہ کو تفتیشی افسر تھانہ گلستان جوہر انسپکٹر فرید الدین نے جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی ارم جہانگیر کی عدالت میں ٹیکسی ڈرائیور قتل کیس میں ملوث رینجرز اہلکاروں کے کیس کی عدالتی فائل اور ریمانڈ پیپر حاصل کرنے سے متعلق تفتیشی افسر نے درخواست داخل کی تھی، عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے عدالت میں موجود ملزمان رینجرز اہلکاروں غلام رسول ، برکت ، وقار سمیت 4 ملزمان سے متعلق ریمانڈ پیپر اور فائل تفتیشی افسر کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔
عدالت میں تفتیشی افسر نے موقف اختیار کیا کہ ملزمان کا مقدمہ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے بعد مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات 7ATA کا اضافہ کیا ہے اور مقدمے کا چالان دہشت گردی کی عدالت میں داخل کرنا ہے، ملزمان کو فائل اور ریمانڈ پیپر بھی دیدیے جائیں تاکہ چالان کے ساتھ تمام ضروری دستاویزات بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں داخل کرسکیں، واضح رہے کہ 4 ماہ گزر جانے کے باوجود تفتیشی افسر نے کسی بھی عدالت کو آگاہ کیا اور نہ ہی خود عدالت میں پیش ہوا تھا، استغاثہ کے مطابق16جولائی افطاری اور اپنے بیمار بیٹے کو ڈاکٹر کو دکھانے کے بعد اپنے گھر آرہا تھا کہ ملزمان نے مقتول ٹیکسی ڈرائیور مراد کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔
سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد رینجر حکام نے مذکورہ ملزمان کو پولیس کے حوالے کیا تھا، دوران تحقیقات ملزمان کو دو گواہوں نے شناخت بھی کیا تھا، عدالت نے 27جولائی کو ملزمان کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا،31جولائی کو ملزمان کے خلاف چالان جمع کرانے کا حکم دیا تھا، سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کا فیصلے میں تحقیقات مکمل کرکے چالان جمع کرانے اور مقدمہ کا فیصلہ ایک ہفتے میں سنانے کا حکم دیا تھا لیکن 4 ماہ گزر جانے کے باجود ملزمان کے خلاف چالان جمع نہیں کرایا ، ایک ماہ بعد28اگست کو مقتول کی بیوہ کو مصالحت کرنے پر مجبور کیا اورجوڈیشل مجسٹریٹ شرقی ارم جہانگیر کو روبرو پیش کیا تھا۔
اس موقع پر مدعیہ نے عدالت میں تحریری درخواست دی اور موقف اختیار کیا تھا کہ وہ مقدمہ واپس لینا چاہتی ہے اور تمام ملزمان کو فی سبیل اﷲ معاف کردیا ہے، فاضل عدالت نے تفتیشی افسر پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور درخواست واپس کردی تھی، اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کا ہے اور مصالحت کی درخواست متعلقہ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی تھی، تفتیشی افسر کو علم تھا کہ دہشت گردی کے ایکٹ میں مصالحت نہیں ہوسکتی اس نے معاملے کو طول دیا اور 4ماہ تک کسی بھی عدالت کو آگاہ نہیں کیا تھا۔
جبکہ مسلسل بیوہ و مدعیہ کو مصالحت کرنے پر آمادہ کرتا رہا تھا اور اوچھے ہتھکنڈے بھی استعمال کیے تھے، تفصیلات کے مطابق جمعہ کو تفتیشی افسر تھانہ گلستان جوہر انسپکٹر فرید الدین نے جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی ارم جہانگیر کی عدالت میں ٹیکسی ڈرائیور قتل کیس میں ملوث رینجرز اہلکاروں کے کیس کی عدالتی فائل اور ریمانڈ پیپر حاصل کرنے سے متعلق تفتیشی افسر نے درخواست داخل کی تھی، عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے عدالت میں موجود ملزمان رینجرز اہلکاروں غلام رسول ، برکت ، وقار سمیت 4 ملزمان سے متعلق ریمانڈ پیپر اور فائل تفتیشی افسر کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔
عدالت میں تفتیشی افسر نے موقف اختیار کیا کہ ملزمان کا مقدمہ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے بعد مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات 7ATA کا اضافہ کیا ہے اور مقدمے کا چالان دہشت گردی کی عدالت میں داخل کرنا ہے، ملزمان کو فائل اور ریمانڈ پیپر بھی دیدیے جائیں تاکہ چالان کے ساتھ تمام ضروری دستاویزات بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں داخل کرسکیں، واضح رہے کہ 4 ماہ گزر جانے کے باوجود تفتیشی افسر نے کسی بھی عدالت کو آگاہ کیا اور نہ ہی خود عدالت میں پیش ہوا تھا، استغاثہ کے مطابق16جولائی افطاری اور اپنے بیمار بیٹے کو ڈاکٹر کو دکھانے کے بعد اپنے گھر آرہا تھا کہ ملزمان نے مقتول ٹیکسی ڈرائیور مراد کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔
سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد رینجر حکام نے مذکورہ ملزمان کو پولیس کے حوالے کیا تھا، دوران تحقیقات ملزمان کو دو گواہوں نے شناخت بھی کیا تھا، عدالت نے 27جولائی کو ملزمان کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا،31جولائی کو ملزمان کے خلاف چالان جمع کرانے کا حکم دیا تھا، سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کا فیصلے میں تحقیقات مکمل کرکے چالان جمع کرانے اور مقدمہ کا فیصلہ ایک ہفتے میں سنانے کا حکم دیا تھا لیکن 4 ماہ گزر جانے کے باجود ملزمان کے خلاف چالان جمع نہیں کرایا ، ایک ماہ بعد28اگست کو مقتول کی بیوہ کو مصالحت کرنے پر مجبور کیا اورجوڈیشل مجسٹریٹ شرقی ارم جہانگیر کو روبرو پیش کیا تھا۔
اس موقع پر مدعیہ نے عدالت میں تحریری درخواست دی اور موقف اختیار کیا تھا کہ وہ مقدمہ واپس لینا چاہتی ہے اور تمام ملزمان کو فی سبیل اﷲ معاف کردیا ہے، فاضل عدالت نے تفتیشی افسر پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور درخواست واپس کردی تھی، اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کا ہے اور مصالحت کی درخواست متعلقہ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی تھی، تفتیشی افسر کو علم تھا کہ دہشت گردی کے ایکٹ میں مصالحت نہیں ہوسکتی اس نے معاملے کو طول دیا اور 4ماہ تک کسی بھی عدالت کو آگاہ نہیں کیا تھا۔