کوچۂ سخن

آنکھوں میں ترا ہجر بسانے کے نہیں ہیں<br /> یہ دن تو سنو روٹھ کے جانے کے نہیں ہیں

فوٹو: فائل

غزل



اٹھایا لطف تمہارے وطن کے لوگوں نے
کیا اِدھر کا نظارہ اُدھر کے لوگوں نے
منایا جشن سبھی نے مرے اجڑنے پر
دیا نہ کوئی دلاسا ٹھہر کے لوگوں نے
ہماری خاک ہی بکھری ہوئی نظر آئی
جہاں جہاں سے بھی دیکھا گزر کے لوگوں نے
ہوئے چراغ سبھی گل کیوں تیرے آتے ہی
نہ دیکھنے دیا کیوں آنکھ بھر کے لوگوں نے
ارادے ترک کیے اور سکوں سے بیٹھ گئے
سنے جو قصے ہمارے سفر کے، لوگوں نے
دیے ہیں مشورے سب نے شناوری کے بہت
کبھی نہ دیکھا بھنور میں اتر کے لوگوں نے
گلہ کریں بھی تو کیا ہم جہان والوں سے
لگائی آگ سدا گھر کو گھر کے لوگوں نے
مرے وطن میں سدا مفلسی کا راج رہا
فہیم زیست گزاری ہے مر کے لوگوں نے
(محمد فہیم۔ ریڈچ، برطانیہ)


۔۔۔
غزل



کسی کی کال آگئی کسی کی بات رہ گئی
دو طاقچوں میں جل جلا کے پوری رات رہ گئی
کسی کو فلم دیکھ کر بہت قرار آگیا
کسی کی آنکھ میں ملن کی واردات رہ گئی
بلیک کار میں کسی کے ساتھ وہ چلی گئی
کسی کے دل میں کار بن کے ایک مات رہ گئی
کسی نے ریل سے فقط تھا ہاتھ ہی ہلا دیا
کسی کے عشق واسطے تھی یہ زکات رہ گئی
جو بھاپ چائے سے اٹھی کسی کی سمت لے گئی
کسی کی سمت جانے کو ہاں! چائے ساتھ رہ گئی
(ابو لویزا علی۔ کراچی)


۔۔۔
غزل



عارضی کیا ہے دائمی کیا ہے
اس میں جھگڑے کی بات ہی کیا ہے
میری آنکھوں میں آ گئے تھے اشک
اس نے پوچھا تھا جب خوشی کیا ہے
سال پچپن گزارنے کے بعد
سوچتا ہوں کہ زندگی کیا ہے
اپنی مرضی سے ہل نہیں سکتا
ایک پُتلا ہے آدمی کیا ہے
کھیل ہے صرف چار سانسوں کا
دلبری کیا ہے دل لگی کیا ہے
روشنی کے سفیر ہو لیکن
یہ تو بتلاؤ آگہی کیا ہے
جو بھی، جیسا بھی، سامنے ہے امین
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے
(امین اوڈیرائی۔ اڈیرو لال، سندھ)


۔۔۔
غزل



ضبط کی انتہا ہے آج کی شام
اک قیامت بپا ہے آج کی شام
آج کی رات کیسے گزرے گی
کیا سے کیا ہو گیا ہے آج کی شام
روح کو جسم کو قرار نہیں
جام خالی پڑا ہے آج کی شام
ہاتھ پھر کیوں اُٹھے دعا کے لیے
جانے کیا التجا ہے آج کی شام
عمر بھر ساتھ تھا شفیق مراد
وہ کہاں کھو گیا ہے آج کی شام
(شفیق مراد۔ جرمنی)


۔۔۔
غزل



جسے کائناتی جریدے میں لکھا گیا، مسئلہ ہے
تو کیا اب خدا کو بتانا پڑے گا، وہ کیا مسئلہ ہے
اداسی فقط مشرقی لڑکیوں کے لیے ہی نہیں ہے
بتاتے ہیں مغرب میں بھی ان دنوں یہ بڑا مسئلہ ہے
وگرنہ میں رونے کی اچھی طرح سے اداکاری کرتا
مجھے کیا خبر تھی مرا مسکرانا ترا مسئلہ ہے
ہمیں تو سبھی عشق اچھے لگے ہیں سو کرتے رہے ہیں
کسی کے لیے دوسرا عشق بھی دوسرا مسئلہ ہے
یہاں منظروں کی کمی ہے نہ آنکھوں کی تعداد کم ہے
یہاں دور بینوں کے ہوتے ہوئے دیکھنا مسئلہ ہے
کوئی روٹھ جائے تو میں بھی اسے اب مناتا نہیں ہوں
کہ یہ مسئلہ تو محبت میں ہر ایک کا مسئلہ ہے
جنہوں نے روایت کو پکڑا ہوا ہے گلے سے ابھی تک
مرا تو یہی ماننا ہے انہیں سانس کا مسئلہ ہے
(عباس مرزا ۔ گجرات)


۔۔۔
غزل



نیندوں میں چھپی ہوئی اداسی
ہر صبح ملی نئی اداسی
مصروف کوئی نہیں خوشی میں
یہ دیکھ کے کھل اٹھی اداسی
کمرے میں گلاب کے علاوہ
اک میں تھا تو دوسری اداسی
دریا سے سوال کر رہی تھی
کشتی میں وہ ڈولتی اداسی
کچھ اور ہی تیز تھیں وہ لہریں
دل تک میں سما گئی اداسی
آنگن میں گرا ہوا تھا گملا
بکھری تھی کلی کلی اداسی
مٹی کے بدن ہیں اصل میں سب
اور روح ہے بھربھری اداسی
(کامران نفیس۔ کراچی )


۔۔۔
غزل



نجانے کس کی دعا ہے کہ کام چل رہا ہے
کوئی نظام نہیں اور نظام چل رہا ہے

رہِ وفا میں بچھے ہیں جفا کے انگارے
جو چل رہا ہے وہ دو چار گام چل رہا ہے
کئی ادیبوں کے نامرد ہو چکے ہیں قلَم
کئی برس سے فقط ان کا نام چل رہا ہے
خبر ملی ہے کہ آقا پرست بستی میں
کسی کے پیچھے کسی کا غلام چل رہا ہے
ہے ثبت مہرِ سفارش حَسین جسموں پر
ادَب کی منڈی میں مالِ حرام چل رہا ہے
تجھے خبر نہیں واصف بدن کے سکّے کی
اے میرے دوست! یہ سکّہ تو عام چل رہا ہے
(جبار واصف۔ ملتان)


۔۔۔
غزل



آنکھوں میں ترا ہجر بسانے کے نہیں ہیں
یہ دن تو سنو روٹھ کے جانے کے نہیں ہیں
تا عمر گوارا ہیں یہ مخمل سے اندھیرے
آنکھوں سے ترے ہاتھ ہٹانے کے نہیں ہیں
طائف ہو کہ ڈیرہ ہو یا ملتان کہ روہی
ہم خانہ بدوش ایک ٹھکانے کے نہیں ہیں
کٹ جائیں نہ ان سے کہیں ماؤں کے کلیجے
یہ اشک چھپانے ہیں، دکھانے کے نہیں ہیں
جس دشت میں کھویا تھا مرا سرخ کجاوہ
اس دشت میں ہم لوٹ کے جانے کے نہیں ہیں
جو شعر ترے غم کی ریاضت سے ملے ہیں
وہ شعر زمانے کو سنانے کے نہیں ہیں
( ایمان قیصرانی۔ ڈی جی خان)


۔۔۔



خستگی


جو ناخنوں سے کھرچ رہی ہے
سفید بالوں سے خستگی کو
وہ جس کے چہرے پہ بل پڑا ہے
شباب مغرب کو چل پڑا ہے
ہماری بستی کی وہ ضعیفہ
ادھیڑ عمری سے ٹھیک پہلے
حسین و دل کش پری نما تھی
مگر یہ حسن و شباب اس کا
ادھیڑ عمری میں ڈھل چکا ہے
تو بات کچھ اس طرح ہے مالک
ہمارے دل میں بھی اک حسینہ
حسین و دل کش پری نما ہے
تُو اس سے آنکھیں نہ پھیر مالک
شبابِ جاناں کی خیر مالک
بڑا تماشا بنا ہوا ہے!!
(شہزاد مہدی۔ اسکردو، گلگت بلتستان)


۔۔۔
غزل



ذرا ذرا سے یہ افسانے تھوڑی ہوتے ہیں
ہیں رازِ عشق جو بتلانے تھوڑی ہوتے ہیں
زمانہ بھول گئے ہیں تمہاری الفت میں
تمہاری یاد سے بیگانے تھوڑی ہوتے ہیں
رکھیں جو جسم کی چاہت تو ایسے لوگ فقط
ہوس پرست ہیں دیوانے تھوڑی ہوتے ہیں
چلو یہ مان لیا کہ ہماری غلطی تھی
ذرا سی بات پہ جرمانے تھوڑی ہوتے ہیں
سوال کرتے نہیں تجھ سے سیف دکھ کا مگر
تمہارے حال سے انجانے تھوڑی ہوتے ہیں
(سیف الرّحمٰن۔ کوٹ مومن)


۔۔۔
غزل



خشک دریا کی یہ نشانی ہے
دشت میں جل پری کہانی ہے
تیری تصویر پھر بناؤں گا
چاند سے تھوڑی مٹی لانی ہے
کال کو دیر سے اٹھانے کی
اس کی عادت بہت پرانی ہے
نظم کہنا بہت ہی آساں ہے
ایک سگرٹ ہی تو جلانی ہے
اس لیے دوستی نبھا رہا ہوں
چار دن کی یہ زندگانی ہے
میری مٹی کے اپنے آنسو ہیں
تیری بارش تو آسمانی ہے
(نزیر حجازی۔ نوشکی، بلوچستان)


۔۔۔
غزل



جو بھی کہتا ہے کہ اونچائی سے ڈر لگتا ہے
درحقیقت اسے گہرائی سے ڈر لگتا ہے
آپ رکھیے گا سلام و دعا رسمی سی ہی
اب مجھے یار، شناسائی سے ڈر لگتا ہے
آپ بس دوست نہیں، آپ مِرے بھائی ہیں
ایسے شیرین زباں بھائی سے ڈر لگتا ہے
کوئی بھی کمرے میں آجائے تو چونک اٹھتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ تنہائی سے ڈر لگتا ہے
چھوڑ بیٹھے ہیں یہاں لوگ خدا سے ڈرنا
اب بھی لیکن انہیں رسوائی سے ڈر لگتا ہے
(سالِم احسان۔گوجرانوالہ)


۔۔۔
غزل
تجھ کو رہنا ہی پڑے گا اب ہماری خاک پر
ہم نے کندہ کر دیا دل کو تری پوشاک پر
یہ بدن کا بوجھ اترے تو سفر بھی تیز ہو
اک قدم دھرتی پہ رکھیں، دوسرا افلاک پر
ہو سکے تو دیکھ اپنا چہرہ، اپنے خال وخد
سنگ کیوں لے کے کھڑا ہے آئنہ بے باک پر
اس کی گردش بھی سنوارے کیسی کیسی صورتیں
کیسے کیسے نقش بنتے ہیں، زمیں کے چاک پر
دسترس جب سے کسی کے آسمانوں پر ہوئی
نیلمی آنکھیں اتر آئیں مرے پیچاک پر
دفعتاً گل کر دیا کس نے یہ سورج کا چراغ
کس نے مل دی ہے سیاہی کاسۂ لولاک پر
ایک سورج سے یہ آنسو خشک کیا ہوں گے مہر
آتشِ جان چاہیے ہم کو دل نم ناک پر
(اُم فاطمہ۔ کراچی)


Load Next Story