تنازع جموں و کشمیرکا حل ممکنہ آپشنز

مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ سے مانگنا ایسے ہی ہے جیسے روٹی نہ ملنے کی شکایت کرنے والوں کوکیک کھانے کا مشورہ دینا۔

مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ سے مانگنا ایسے ہی ہے جیسے روٹی نہ ملنے کی شکایت کرنے والوں کوکیک کھانے کا مشورہ دینا۔ فوٹو: فائل

رواں ماہ کا پہلا ہفتہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے باسیوں کے لئے اس اعتبار سے اہم رہا کہ اس میں امریکی کانگریس میں ایک بل پیش کیا گیا جس میں بھارت سے مقبوضہ وادی میں مواصلات کی بندش اور نظر بندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔

ڈیموکریٹک پارٹی کی پرمیلا جیپال اور ری پبلکن پارٹی کے اسٹیو واٹکنز کی جانب سے پیش کئے گئے بل میں کہا گیا کہ گزشتہ 30 سال میں مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ بل کے متن میں بھارت سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مواصلات کی بندش، نظربندیوں کے خاتمے اور شہریوں کی مذہبی آزادی کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بل میں کہا گیا ہے کہ بھارت انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں رسائی بھی فراہم کرے۔

اس سے ایک ہفتہ قبل انقرہ میں ترک تھنک ٹینک کے اشتراک سے لاہور سینٹر فار پیس ریسرچ کے زیر اہتمام دو روزہ عالمی کشمیر کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں 25 ملکوں کے مندوبین نے شرکت کی۔کانفرنس میں کشمیریوں پر بھارتی مظالم کو انسانیت اورعالمی امن کے لیے سنگین خطرہ قراردیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فوری حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کیلئے متفکر آوازیں اس پاکستانی مطالبے کی حمایت کیلئے بھی گونجتی جو ریاست کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے بعد سامنے آیا تھا، ظاہر ہے ایسا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا، یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں کی حالت زار جب عالمی ضمیر پر بوجھ بنتی ہے تو اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی الگنی پر ڈال دیا جاتا ہے،حالانکہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ سے مانگنا ایسے ہی ہے جیسے روٹی نہ ملنے کی شکایت کرنے والوں کوکیک کھانے کا مشورہ دینا ۔ سوال یہ ہے کہ 5 اگست کو مودی سرکار نے اپنے اعلان شدہ انتخابی ایجنڈے کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ کیا تو ہمارا ردعمل کیا تھا۔

اقوام متحدہ کی قراردادیں۔ گویا نہرو سے لے کر مودی تک جموں و کشمیر سے جو بھی کھلواڑ ہوتا رہے ہم نے اقوام متحدہ کا در نہیں چھوڑنا،حالانکہ اقوام متحدہ جانا پنڈت نہرو کا جھانسہ تھا،جسے اقوام متحدہ سے بہتر کون سمجھتا ہو گا، اب تو بی جے پی نے اس جھانسے کے تکلف کو بھی ایک غلطی قرار دے کر جموں و کشمیر سے متعلق بھارتی سرکار کا خبث باطن ظاہر کر دیا ہے، مودی سرکا ر نے عملی طور پر جتا دیا کہ جہاں جموں و کشمیر کا معاملہ آئے وہاں تکلف نہیں محض دھونس سے کام چلانا ہی عین حکمت عملی ہے۔ ویسے بھی تکلف کی ضرورت تب ہوتی ہے جب آپ ملبوس ہوں، بھارتیہ جنتا پارٹی نے سیکولر ازم کا لباس اتار کر تکلف برخاست کر دیا، اب یہ ضروری نہیں کہ ہم بھی بے لباس ہو جائیں مگر یہ تو نہایت ضروری ہے کہ ہندو برہمنوں کی برہنگی دنیا کو دکھانے کیلئے اقوام متحدہ کے گنبد سے نکل آئیں ،جہاں ہم اپنی ہی آواز کی بازگشت سن کر دل بہلاتے رہتے ہیں۔

مدمقابل سے موقع بہ موقع لڑا جاتا ہے، دشمن کا وار دیکھ کر ہتھیارکا انتخاب کرنا ہوتا ہے،یہی مطلب بتایا ہے علما کرام نے''گھوڑے تیار رکھنے والی'' قرانی آیت کا ۔ ہتھیاروں کے میدان میں تو ہم نے جوہری ہتھیار بنانے تک یہ مقابلہ خوب کیا،لیکن سفارتی میدان میں ہمارے پاس اقوام متحدہ کی قراردادوں کے علاوہ اور کوئی ہتھیار نہیں، وہ بھی رام بھلا کرے پنڈت نہرو کا جو ہمیں یہ ہتھیار دلاسے کے ساتھ تھما گئے کہ اس کے ساتھ کھیلتے رہو ۔

موقع بہ موقع لڑنے کا تقاضا تو یہ تھا کہ مودی سرکار نے جب نہایت نفاست کے ساتھ پنڈت جواہر لال نہرو کی شامل کردہ آئینی شق 370 کا استعمال کرکے بزعم خود جموں و کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ کیلیے ختم کیا تو وہیں ریاست کے خیرخواہوں کو ایک نیا سفارتی ہتھیار بھی فراہم کردیا تھا۔ کیوں کہ مذکورہ شق صدارتی فرمان کے ذریعے اپنے خاتمے کا راستہ تو مہیا کرتی ہے، مگر براستہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلی۔ لوک سبھا کا روٹ تو اختیار کرلیا گیا مگر ریاستی اسمبلی کا سفر غیر معینہ مدت کیلیے ملتوی ہے۔ مودی ڈاکٹرائن اس سفر کیلیے حالات سازگار بنائے گی اور بالآخر مذکورہ شق کی یہ دوسری شرط بھی پوری کردی جائے گی۔


مودی سرکار کی برہنگی ظاہر کرنے کیلئے ہمیں اس دوسری شرط کو تین ماہ کے اندر پورا کرنے کیلئے شور مچانا چاہیے تھا ، جو ظاہر ہے نہیں مچایا گیا ،غیر روایتی وار کا مقابلہ روایتی ہتھیاروں سے نہیں کیا جاتا۔ اب یہ لڑائی اسی میدان میں لڑی جائے گی جو نریندر مودی اور امیت شاہ نے سجایا ہے۔ وار کرنے میں ٹائمنگ کلیدی اہمیت کی حامل ہے، مخالف کو اسی کے ہتھیار سے مارنا حقیقی جواں مردی ہے۔ ہمیں چاہیے تھا کہ دنیا کو آرٹیکل 370 ازبر کرا دیتے اور بتاتے کہ اسی آرٹیکل کے تحت تین ماہ کے اندر ریاستی اسمبلی سے منظوری بھی ازحد ضروری ہے۔ اس منظوری کی مدت تین ماہ ہے، من مرضی کی مدت نہیں۔ آغاز روس سے کیا جاتا، جس کا ردعمل تھا کہ بھارت نے اپنے آئین کے مطابق اقدام کیا۔

تین ماہ کا عرصہ تو گزر گیا ،لہذا یہ ہتھیارکارگر نہیں رہا، مگر گاہے بہ گاہے اس کی نمائش ضرور کرتے رہنا چاہیے، اب ہمیں کمان میں نیا تیر پروستے ہوئے بھارت کے اندر اٹھنے والی آوازوں کو اپنے ساتھ ملا کر دنیا پر اثرانداز ہونا ہے، ان آوازوں کو ساتھ ملانے کا طریقہ یہ ہے کہ ہمارا یہ مطالبہ ہو کہ ریاست جموں و کشمیر میں گورنر راج ختم کیا جائے۔ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی ریاستی اسمبلی بحال کی جائے،یہاںیہ امر ملحوظ رہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اب کوئی 'کٹھ پتلی' نہیں رہا،ہمارے بعض اخبارات بدستور ''کٹھ پتلی'' کا سابقہ استعمال کر رہے ہیں،اس 'سیاسی بلوغت'پر ماتم کرنے کی بھی ضرورت نہیں اس لیے کہ ہمارا سارا برقی و پرنٹ میڈیا آزاد جموں و کشمیر اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے بجائے محض آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کہنے اور لکھنے پر اکتفاکرتا ہے،گویا جموں ازخود ہم نے بھارت کے حوالے کر دیا ہے،آج کل ایک اور'سیاسی بدعت' سرکاری سطح پر فروغ پا رہی ہے،ہم بھارت کو ہندوستان کہہ کر اس کی سیاسی بالادستی کا پرچار کرتے رہتے ہیں،ہندوستان کبھی ہوتا تھا جو اب نہیں رہا،کس کس کا ماتم کریں گے۔

چلیں ایک اور تیرکمان میں پروستے ہیں۔ ایک سچ کی مدد سے دوسرے سچ کو ثابت کیا جاتا ہے،آزاد جموں و کشمیر ایک سچائی ہے جس کی مدد سے ہمیں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے جھوٹ کی قلعی کھولنی چاہیے۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ اب صرف پاکستانی کشمیر پر بات ہوگی۔ پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ اس کے جواب میں کہتا بسم اللہ۔ آئیں آزاد جموں و کشمیر پر پہلے بات کر لیتے ہیں۔ بات کرنے سے آزاد جموں و کشمیر بھارت کا ہو جاتا؟ بات کرنے میں کیا حرج تھا؟ کیا ہم بات کرنا نہیں جانتے؟ گفتگو کی بنیاد کیا ہوتی؟ بھارت کہتا آزاد جموں و کشمیر ہمارا ہے، آپ نے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہی تو ہم سننا چاہتے تھے۔ کسی بھی خطہ ارضی کے مقدر کا فیصلہ وہاں کے رہنے والوں نے کرنا ہوتا ہے۔

ہمیں پاکستانی کشمیریوں پر اعتماد نہیں؟ یقیناً ہے۔ تو پھر جو ماڈل ہم بھارتی کشمیر پر لاگو کرانا چاہتے ہیں، اسے پاکستانی کشمیر پر لاگو کرنے میں کیا حرج ہے؟ اب تو دونوں اطراف کے کشمیری یک زبان اور یک جان ہیں۔ بھارت کو اس شرط کے ساتھ آزاد جموں و کشمیر پر بات چیت کی دعوت دی جاتی کہ جو فارمولا یہاں طے ہوگا اس کا اطلاق مقبوضہ کشمیر پر بھی ہوگا۔ کیوں کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارت کا ریاست کے ساتھ الحاق نہیں رہا، قبضہ ہوگیا ہے۔ بھارت اس گھیرے میں نہ آتا تو ہمیں رضاکارانہ طور پر اقوام متحدہ سے درخواست کرنی چاہیے تھی کہ اپنی نگرانی میں آزاد جموں و کشمیر میں ریفرنڈم کرائے اور یہاں کے باشندوں کی مرضی معلوم کر لے۔

بھارتی وزارت داخلہ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی 70 سالہ پوزیشن تبدیل کی۔ ہماری وزارت داخلہ کو بھی آزاد جموں و کشمیر پر بھارتی دعویٰ ختم کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے بعد اکھاڑا سج جائے گا۔ پھر ہماری وزارت خارجہ کی باری آئے گی۔ جو مطالبہ کرے گی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر پاکستانی دعویٰ ختم کرنے کیلیے وہی اقدامات کیے جائیں جو ہم نے آزاد جموں و کشمیر میں کیے ہیں۔ یہیں سے نیا کشمیری بیانیہ جنم لے گا۔اس کے بعد آخری اور فیصلہ کن تیر کی باری آئے گی جو بھارت کو مذاکرات کی میز پر لے آئے گا۔

ہم اکھاڑے میں بھارت کو للکاریں، دنیا والوں سے کہیں کہ اس کو اکھاڑے میں لاؤ۔ بھارت کبھی نہیں آئے گا، لیکن ایک فضا ضرور بنے گی جس میں اسلامی سربراہی کانفرنس بلا کر دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے حالات اب ایسے ہوگئے ہیں کہ ہم اس کی مسلح مدد کریں۔ عالمی قانون ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے۔ یہ وہی قانون ہے جس کے تحت امریکا نے بوسنیا کی مدد کی تھی۔ امریکا کے اعمال نامہ میں شاید یہ واحد نیکی ہوگی جو اس کی بخشش کا باعث بن جائے۔ مگر ہم نے یہ راستہ اختیار نہ کیا تو یہ یقیناً وہ گناہ ہوگا جو ہماری گرفت کا باعث بنے گا۔ بھارت آخری اور فیصلہ کن لڑائی تک چالاکی کے میدان میں ہمیں مات دیتا رہے گا۔

سوال یہ ہے کہ ہمیں اس آخری معرکے کا انتظار کرنا ہے یا تھوڑی سی چالاکی بھی سیکھنی ہے۔ زندگی کے بہاؤ میں پاؤں جمانے کیلیے تھوڑی سی بے وفائی اور تھوری سی خودغرضی کی طرح تھوڑی سی چالاکی بھی ازحد ضروری ہے۔ مخاطب کو اپنا پس منظر بتانا بے کار ہے، جو سامنے والے کو بخوبی نظر آرہا ہوتا ہے، اسے تو یہ بتانا اس کے پاؤں اکھیڑ دیتا ہے کہ اس کے عقب میں کھائی ہے، ذرا محتاط رہے، جوہری طاقت ہمارا پس منظر ہے جو ساری دنیا کو دکھائی دے رہا ہے۔ اس کا خود تذکرہ کرنا ہمارے بجائے بھارت کو فائدہ دے گا۔ہمیں بھارت کو یہ باور کرانا ہے کہ ہم اسے کس کھائی میں گرا سکتے ہیں، ہمیں برہان وانی کا تذکرہ تازہ رکھنا ہے، بھارتی اقدامات کے نتیجے میں برہان وانی پیدا ہوں گے، جن کی ہم مدد کریں گے، بھارت یہ کڑوی گولی نگل نہیں پائے گا، نہرو کی طرح مودی بھی اقوام متحدہ جاکر سانس بحال کرے گا۔ مضبوط موقف بھی جوہری دھماکے سے کم نہیں ہوتا۔
Load Next Story