مضر صحت بھارتی چینی ریلیز کرنے کے حکم پر کسٹم سپریم کورٹ پہنچ گیا
چینی زائد المیعاد ہونے کے سبب مضر صحت ہے لیکن پھر بھی ہائی کورٹ نے اجازت دے دی
پاکستان کسٹمز نے ممبئی سے کراچی پورٹ پہنچنے والی مضر صحت بھارتی چینی کے روکے گئے 262 کنٹینرز کے حالیہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمی میں اپیل دائر کردی۔
ڈائریکٹر جنرل ٹرانزٹ ٹریڈ ڈاکٹر سرفراز احمد وڑائچ نے بتایا کہ ڈائریکٹوریٹ ٹرانزٹ ٹریڈ نے قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے زائد المیعاد اور مضر صحت بھارتی چینی کے کنٹینرز روکے تھے کیونکہ روکی جانے والی بھارتی چینی کے دو مختلف نمونوں کی ابتدائی ٹیسٹنگ کسٹمز لیبارٹری سے کروائی گئی جس میں چینی کو مضر صحت قرار دیا گیا تھا۔
بعدازاں افغان درآمد کنندہ کی ایما پر 65 کنسائمنٹس کے 65 نمونوں کی جانچ پڑتال پی سی ایس آئی آر کی لیبارٹری سے کروائی گئی اور اس لیبارٹری نے بھی روکی گئی بھارتی چینی کو انسانی استعمال کے لیے مضر قرار دیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ بھارتی چینی کے مذکورہ کنسائمنٹس کو ریلیز کرانے کی غرض سے متعلقہ درآمد کنندہ نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا جس پر مذکورہ چینی کی جانچ پڑتال نجی لیبارٹریز ایچ ای جے اور ایس جی ایس کروائی گئی اور ان لیبارٹریز کی رپورٹ پر عدالت عالیہ نے درآمد کنندہ کے حق میں فیصلہ دیا جس پر ڈائریکٹوریٹ ٹرانزٹ ٹریڈ نے ایف بی آر کی مشاورت سے عدالت عظمی میں اپیل دائر کردی۔
انہوں نے بتایا کہ ڈائریکٹوریٹ ٹرانزٹ ٹریڈ پاکستان کے راستے تیسرے ملک کے لیے درآمد ہونے والی اشیاء کو مقامی قوانین کے تحت جانچ پڑتال کروانا چاہتی ہے۔
دوسری جانب پاک افغان چیمبر آف کامرس کے صدر زبیر موتی والا نے بتایا کہ حال ہی میں کابل کا دورہ کرنے والے پاکستانی تاجروں کے وفد کو افغانستان کے سرکاری حکام اور تاجروں کے ساتھ ہونے والے اجلاسوں میں افغان درآمد کنندہ کے روکے گئے 262 بھارتی چینی کے کنٹینرز ریلیز کرانے کا دباؤ وفد پر ڈالا گیا اور پاک افغان چیمبر کو معاملے کا فوری حل نکالنے پر زور دیا گیا۔
واضح رہے کہ مضر صحت چینی کے مذکورہ کنٹیرز جولائی 2019ء میں بذریعہ سڑک ای موور نامی بانڈڈ کیرئیر کمپنی کے توسط سے قندھار افغانستان جانے تھے تاہم پاکستان کسٹمز کے ڈائریکٹوریٹ ٹرانزٹ ٹریڈ نے لیبارٹری رپورٹ کی بنیاد پر انہیں روک لیا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ کنٹینرز میں مجموعی طورپر 6708 میٹرک ٹن بھارتی چینی موجود ہے اور روکی جانے والی چینی کی بوری پر سال 2017-18 کے سیزن کی چینی کی تحریر درج ہے اور بھارتی چینی کی ان بوریوں پر پیکنگ کے بعد دو سال تک استعمال کرنے کی میعاد بھی موجود ہے۔
ڈائریکٹر جنرل ٹرانزٹ ٹریڈ ڈاکٹر سرفراز احمد وڑائچ نے بتایا کہ ڈائریکٹوریٹ ٹرانزٹ ٹریڈ نے قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے زائد المیعاد اور مضر صحت بھارتی چینی کے کنٹینرز روکے تھے کیونکہ روکی جانے والی بھارتی چینی کے دو مختلف نمونوں کی ابتدائی ٹیسٹنگ کسٹمز لیبارٹری سے کروائی گئی جس میں چینی کو مضر صحت قرار دیا گیا تھا۔
بعدازاں افغان درآمد کنندہ کی ایما پر 65 کنسائمنٹس کے 65 نمونوں کی جانچ پڑتال پی سی ایس آئی آر کی لیبارٹری سے کروائی گئی اور اس لیبارٹری نے بھی روکی گئی بھارتی چینی کو انسانی استعمال کے لیے مضر قرار دیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ بھارتی چینی کے مذکورہ کنسائمنٹس کو ریلیز کرانے کی غرض سے متعلقہ درآمد کنندہ نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا جس پر مذکورہ چینی کی جانچ پڑتال نجی لیبارٹریز ایچ ای جے اور ایس جی ایس کروائی گئی اور ان لیبارٹریز کی رپورٹ پر عدالت عالیہ نے درآمد کنندہ کے حق میں فیصلہ دیا جس پر ڈائریکٹوریٹ ٹرانزٹ ٹریڈ نے ایف بی آر کی مشاورت سے عدالت عظمی میں اپیل دائر کردی۔
انہوں نے بتایا کہ ڈائریکٹوریٹ ٹرانزٹ ٹریڈ پاکستان کے راستے تیسرے ملک کے لیے درآمد ہونے والی اشیاء کو مقامی قوانین کے تحت جانچ پڑتال کروانا چاہتی ہے۔
دوسری جانب پاک افغان چیمبر آف کامرس کے صدر زبیر موتی والا نے بتایا کہ حال ہی میں کابل کا دورہ کرنے والے پاکستانی تاجروں کے وفد کو افغانستان کے سرکاری حکام اور تاجروں کے ساتھ ہونے والے اجلاسوں میں افغان درآمد کنندہ کے روکے گئے 262 بھارتی چینی کے کنٹینرز ریلیز کرانے کا دباؤ وفد پر ڈالا گیا اور پاک افغان چیمبر کو معاملے کا فوری حل نکالنے پر زور دیا گیا۔
واضح رہے کہ مضر صحت چینی کے مذکورہ کنٹیرز جولائی 2019ء میں بذریعہ سڑک ای موور نامی بانڈڈ کیرئیر کمپنی کے توسط سے قندھار افغانستان جانے تھے تاہم پاکستان کسٹمز کے ڈائریکٹوریٹ ٹرانزٹ ٹریڈ نے لیبارٹری رپورٹ کی بنیاد پر انہیں روک لیا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ کنٹینرز میں مجموعی طورپر 6708 میٹرک ٹن بھارتی چینی موجود ہے اور روکی جانے والی چینی کی بوری پر سال 2017-18 کے سیزن کی چینی کی تحریر درج ہے اور بھارتی چینی کی ان بوریوں پر پیکنگ کے بعد دو سال تک استعمال کرنے کی میعاد بھی موجود ہے۔