کنٹینرز گمشدگی میں ٹیکس حکام امپورٹرز کا طاقتور گروہ ملوث ہے
اس گروہ نے سپریم کورٹ کو چکمہ دینے کیلیے مرضی کی تحقیقاتی رپورٹس بنوائیں
ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن (ڈی جی آئی اینڈ آئی) نے تصدیق کی ہے کہ قومی خزانے کو 200 ارب کا نقصان پہنچانے والے ایساف کیٹینرز گمشدگی اسکینڈل میں ٹیکس حکام اور درآمد کنندگان ملوث ہیں۔
ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو ملنے والی رپورٹ کی کاپی کے مطابق جعلی ایساف کنٹینرز کی درآمد کے ذریعے پیسے کمانے کا گندہ کھیل 2008 میں پیپلزپارٹی کی حکومت آنے کے فورأ بعد شروع ہوا اور 2012 میں اسکینڈل منظر عام پر آنے کے وقت عروج پر تھا جس کے بعد معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا۔ ایف بی آر حکام کے ایک گروہ نے پرال سسٹم کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے چالباز درآمد کنندگان، کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس اور ٹرانسپورٹرز کو ساتھ ملایا اور 2008 سے 2012 کے دوران افغانستان جانے والے لاتعداد کنٹینرز کو لاپتہ کرنے میں کامیاب رہے۔
ذرائع کے مطابق یہ گروہ اتنا طاقتور تھا کہ معاملہ منظرعام پر آجانے کے بعد اس نے سپریم کورٹ کو چکمہ دینے کے لیے اپنی مرضی کی رپورٹس بنوائیں، ایک کی ایک مثال حافظ انیس کی رپورٹ ہے جس میں ملزمان کو بچانے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کی پیش کیا گیا ہے، رمضان بھٹی کمیشن رپورٹ بھی اسی طرز کی ہے، اس میں کنٹینرز کے کراس بارڈر ٹائم کو غلط بتایا گیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ایک کنٹینر جب کراچی پورٹ چھوڑتا ہے تو اسے افغانستان پہنچنے میں 3 سے 4 دن لگتے ہیں اور بعد اوقات اس سے بھی کم وقت لگتا ہے۔ اس ناقابل عمل دعویٰ کا مقصد ایف ٹی او رپورٹ کو متنازعہ بنایا ہے، ایف ٹی او رپورٹ میں کنٹینرز گمشدگی میں ملوث درآمد کنندگان اور ٹرانسپورٹرز کے بڑے گروہ کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ ڈی جی آئی اینڈ آئی کے تفتیش کار نے ہزاروں ٹرانسپورٹرز کے انٹرویو کیے جنھوں نے بتایا کہ انھوں نے کنٹینرز کراچی کے مختلف علاقوں میں گوداموں میں اتارے ہیں۔ ٹرانسپورٹرز کے بیانات اب ریکارڈ کا حصہ ہیں، ڈی جی آئی اینڈ آئی کی رپورٹ جمع ہونے کے بعد تفتیشی افسر کو جون 2013 میں ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں کھلنے والے کنٹینرز کو پرال سسٹم کے ذریعے کلئیر کیا گیا مگر ان کے اے ٹی ٹی آئی نمبر گم ہوگئے تاہم ڈی جی آئی اینڈ آئی نے اس پہلو پر تفتیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
رپورٹ میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ گم ہونیوالے کنٹینرز میں ہر طرح کا قابل اعتراض سامان موجود تھا اور اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اب کراچی اور دیگر شہروں میں ٹارگٹ کلنگ کے لیے استعمال ہونے والا اسلحہ بھی انھی کنٹینرز کے ذریعے پاکستان لایا گیا ہو۔ کراچی بدامنی کیس میں چیف سیکریٹری سندھ اعجاز چوہدری کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں اسلحہ کی بڑی بڑی شپمنٹس کراچی آئی ہیں اور یہی اسلحہ ٹارگٹ کلنگ کیلیے استعمال ہورہا ہے۔ ڈی جی آئی اینڈ آئی کی رپورٹ اس اسکینڈل کے حوالے سے بہترین رپورٹ ہے مگر اسے سپریم کورٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔
ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو ملنے والی رپورٹ کی کاپی کے مطابق جعلی ایساف کنٹینرز کی درآمد کے ذریعے پیسے کمانے کا گندہ کھیل 2008 میں پیپلزپارٹی کی حکومت آنے کے فورأ بعد شروع ہوا اور 2012 میں اسکینڈل منظر عام پر آنے کے وقت عروج پر تھا جس کے بعد معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا۔ ایف بی آر حکام کے ایک گروہ نے پرال سسٹم کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے چالباز درآمد کنندگان، کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس اور ٹرانسپورٹرز کو ساتھ ملایا اور 2008 سے 2012 کے دوران افغانستان جانے والے لاتعداد کنٹینرز کو لاپتہ کرنے میں کامیاب رہے۔
ذرائع کے مطابق یہ گروہ اتنا طاقتور تھا کہ معاملہ منظرعام پر آجانے کے بعد اس نے سپریم کورٹ کو چکمہ دینے کے لیے اپنی مرضی کی رپورٹس بنوائیں، ایک کی ایک مثال حافظ انیس کی رپورٹ ہے جس میں ملزمان کو بچانے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کی پیش کیا گیا ہے، رمضان بھٹی کمیشن رپورٹ بھی اسی طرز کی ہے، اس میں کنٹینرز کے کراس بارڈر ٹائم کو غلط بتایا گیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ایک کنٹینر جب کراچی پورٹ چھوڑتا ہے تو اسے افغانستان پہنچنے میں 3 سے 4 دن لگتے ہیں اور بعد اوقات اس سے بھی کم وقت لگتا ہے۔ اس ناقابل عمل دعویٰ کا مقصد ایف ٹی او رپورٹ کو متنازعہ بنایا ہے، ایف ٹی او رپورٹ میں کنٹینرز گمشدگی میں ملوث درآمد کنندگان اور ٹرانسپورٹرز کے بڑے گروہ کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ ڈی جی آئی اینڈ آئی کے تفتیش کار نے ہزاروں ٹرانسپورٹرز کے انٹرویو کیے جنھوں نے بتایا کہ انھوں نے کنٹینرز کراچی کے مختلف علاقوں میں گوداموں میں اتارے ہیں۔ ٹرانسپورٹرز کے بیانات اب ریکارڈ کا حصہ ہیں، ڈی جی آئی اینڈ آئی کی رپورٹ جمع ہونے کے بعد تفتیشی افسر کو جون 2013 میں ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں کھلنے والے کنٹینرز کو پرال سسٹم کے ذریعے کلئیر کیا گیا مگر ان کے اے ٹی ٹی آئی نمبر گم ہوگئے تاہم ڈی جی آئی اینڈ آئی نے اس پہلو پر تفتیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
رپورٹ میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ گم ہونیوالے کنٹینرز میں ہر طرح کا قابل اعتراض سامان موجود تھا اور اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اب کراچی اور دیگر شہروں میں ٹارگٹ کلنگ کے لیے استعمال ہونے والا اسلحہ بھی انھی کنٹینرز کے ذریعے پاکستان لایا گیا ہو۔ کراچی بدامنی کیس میں چیف سیکریٹری سندھ اعجاز چوہدری کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں اسلحہ کی بڑی بڑی شپمنٹس کراچی آئی ہیں اور یہی اسلحہ ٹارگٹ کلنگ کیلیے استعمال ہورہا ہے۔ ڈی جی آئی اینڈ آئی کی رپورٹ اس اسکینڈل کے حوالے سے بہترین رپورٹ ہے مگر اسے سپریم کورٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔