سیاستدانوں کی کردارکشی
یہ تلخ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے مخالف سیاستدانوں کی کردارکشی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری کہتے ہیں کہ ہرکوئی سیاستدانوں کی توہین کرتا ہے، 5 لاکھ ووٹ لے کر منتخب ہونے والے عوامی نمایندے کی محض ریٹنگ کی دوڑ میں توہین کی جاتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جو بویا وہ ہی کاٹا جاتا ہے۔ اگرچہ جمہوری کلچر میں کسی قسم کے تشدد خواہ وہ زبانی ہو یا جسمانی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے مخالف سیاستدانوں کی کردارکشی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی، مخالفین کو چور اور ڈاکو قرار دیا گیا، اب خود تحریک انصاف والے اس صورتحال کا شکار ہوئے۔ اس ملک کی تاریخ 14 اگست 1947 کی رات سے شروع ہوتی ہے اور 15 اگست کو پاکستان کی پہلی حکومت کے قیام کے ساتھ سیاست دانوں کے احتساب کا سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے۔ جب 15 اگست 1947 کے دن کا آغاز ہوا تو سندھ میں ایوب کھوڑو اور صوبہ سرحد میں خدائی خدمات گار تحریک اور کانگریس کے ڈاکٹر خانصاحب وزیر اعلیٰ تھے۔
گو ان کی جماعت نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی مگر ڈاکٹر خانصاحب اور ان کے بھائی خان عبدالغفار خان نے انگریز راج کے خلاف تاریخی جدوجہد کی تھی اور جوانی کے کئی سال جیلوں میں گزارے تھے۔ ڈاکٹر خان پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان سے وابستگی کا اظہار کرچکے تھے۔
بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خانصاحب اور ملک کے نئے گورنر جنرل محمد علی جناح کے درمیان ملاقات کی تاریخ طے ہوچکی تھی کہ ڈاکٹر خانصاحب اور غفار خان کو غدار قرار دیا گیا۔ سرحد میں ڈاکٹر خان کی حکومت کو توڑ دیا گیا، نئے وزیر اعلیٰ خان عبدالقیوم خان کے حکم پر بڈا بیڑ میں خدائی خدمت اور سیکڑوں کارکنوں پر پولیس نے گولیاں چلائیں۔ خان عبدالغفار خان، ان کے صاحبزادے عبدالولی خان اور سیکڑوں کارکنوں کو برسوں جیل میں رکھا گیا۔ خان غفار خان اور ان کے بیٹے ولی خان ہر دور میں معتوب رہے۔ انھیں جنرل ضیاء الحق نے محب وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کا تعلق مسلم لیگ سے تھا مگر ایوب کھوڑو سندھ کے بارے میں کراچی میں قائم ہونے والی مرکزی حکومت کی پالیسی سے متفق نہیں تھے۔ ایوب کھوڑو پر سائیکل چوری کرنے کا الزام لگا کر انھیں برطرف کیا گیا اور سیاست کے لیے نا اہل قرار دیدیا گیا۔ حسین شہید سہروردی کا شمار بنگال کے ممتاز مسلمان سیاسی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔
وہ آزادی کے وقت تک متحدہ بنگال کے پریمیئر تھے۔ سہروردی بنگال میں ہونے والے خوفناک ہندو مسلم فسادات کو روکنے کے لیے کلکتہ میں رک گئے تھے۔ انھوں نے مہاتما گاندھی کے ساتھ مل کر مذہبی فسادات کی آگ کو روکنے کی کوشش کی مگر سہروردی پاکستان آئے تو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے انھیں غدار قرار دیا اور حکومت نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں۔ سہروردی کا شمار برصغیر کے بڑے وکلاء میں ہوتا تھا۔ پاکستان میں انھیں قانون کی پریکٹس کرنے کی اجازت نہیں ملی مگر پنجاب کے چھوٹے شہر منٹگمری (موجودہ ساہیوال) کی بار ایسوسی ایشن نے سہروردی کو وکالت کا لائسنس دیا تھا۔
سہروردی ملک کے وزیر اعظم بنے مگر 10 مہینے بعد ان کو برطرف کر دیا گیا۔ جنرل ایوب خان حکومت نے ایپڈو کے قانون کے تحت حسین شہید سہروردی کو سیاست سے نا اہل قرار دیا اور جیل میں بند کر دیا۔ سہروردی کی سیاست کو جاننے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ وہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان آخری مضبوط کڑی تھے۔
محترمہ فاطمہ جناح نے جب جنرل ایوب خان کی آمریت کو چیلنج کیا اور جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو راولپنڈی میں قائم مرکزی حکومت نے فاطمہ جناح کی کردار کشی کی مہم چلائی۔ انھیں ملک دشمن قرار دیا گیا۔ 1964کے انتخابات کے دوران ایوب خان کی حکومت نے اخبارات میںجہازی سائز اشتہارات شایع کرائے۔ ان اشتہارات میں فاطمہ جناح کو ملک دشمنوں کے ہاتھوں کھیلنے کے الزامات لگائے گئے۔
50 کی دھائی میں مشرقی پاکستان میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ جگتو فرنٹ نے 26 نکات کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیا۔ یہ 26 نکات 1940کی قرارداد پاکستان کی بنیاد پر مرتب کیے گئے تھے۔ انتخابات میں مسلم لیگ کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر نئے وزیر اعلیٰ اے کے مولوی فضل حق کی حکومت کو 8 ماہ بعد برطرف کر دیا گیا اور ان پر ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے۔ 2015میں ملک کے آئین میں ہونے والی 18ویں ترمیم جگتو فرنٹ کے 26 نکات کی تقریباً عکاسی کرتی ہے۔ اسی طرح بلوچستان کی قوم پرست قیادت ہمیشہ مرکزکے زیر عتاب رہی۔
میر غوث بخش بزنجو ، سردار عطاء اﷲ مینگل، سردار خیر بخش مری اور نواب اکبر بگٹی کو ہمیشہ غدار قرار دیا گیا۔ نواب اکبر بگٹی کا معاملہ ایک منفرد نوعیت کا ہے۔ وہ ہمیشہ سے پاکستان کے حامی رہے اور قوم پرست سیاست کے خلاف مزاحمت کی۔ وہ اسکندر مرزا کے دور میں وزیر مملکت رہے۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں بھٹو نے انھیں بلوچستان کا گورنر بنایا۔ 1988 میں صدر غلام اسحاق خان کی ایماء پر وزیر اعلیٰ بنایا مگر اکبر بگٹی کو ایک آپریشن میں ہلاک کیا گیا ۔ سندھ میں جی ایم سید کا شمار قوم پرست رہنما کے طور پر ہوتا ہے۔ جی ایم سید کی کوششوں سے سندھ اسمبلی میں پاکستان کی حمایت میں قرارداد منظور ہوئی تھی۔
سید کا ایک کارنامہ یہ تھا کہ ان کی ایماء پر سندھ اسمبلی نے ایک قرارداد میں ہندوستان کے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ سندھ میں آکر بس جائیں مگر جی ایم سید کی زندگی کا ایک بڑ ا حصہ جیلوں میں گزرا۔ 80کی دھائی میں جی ایم سید نے سندھ میں چلنے والی ایم آر ڈی کی تحریک کی مخالفت کا فیصلہ کیا تو جنرل ضیاء الحق نے انھیں محب وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا مگر پھر وہ کچھ برسوں بعد معتوب قرار پائے۔
ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض اور حبیب جالب اپنی مزاحمتی شاعری کی بناء پر ہمیشہ معتوب رہے۔ فیض پر افغانستان اور سوویت یونین کے ایجنٹ ہونے کے الزامات لگائے گئے۔ حبیب جالب ہر حکومت میں معتوب رہے اور زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزارا۔ جب فیض احمد فیض کو سوویت یونین نے امن کا سب سے بڑا ایوارڈ لینن پرائز دینے کا اعلان کیا تو ملک میں ان کو ملک دشمن قرار دینے کی باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ یہ سب کچھ حبیب جالب کے ساتھ کیا گیا مگر اب بھارت میں ہندوانتہا پسندی کے خلاف مزاحمتی تحریک میں فیض احمد فیض اور حبیب جالب ممتاز مقام حاصل کرچکے ہیں۔ اب پاکستانی دانشور اور میڈیا ان دونوں شعراء کا ذکر انتہائی احترام کے ساتھ کر رہے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو جب ایوب خان کے وزیر خارجہ تھے وہ سلامتی کونسل میں کشمیریوں کے حقوق کے لیے گرج رہے تھے تو سب سے بڑے محب وطن تھے، مگر ایوب آمریت کو چیلنج کرنے اور عوامی راج کا نعرہ لگانے پر وہ غیر مسلم غدار سب کچھ ٹھہرائے گئے۔ ایک آمر نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دے کر سوچا کہ یہ باب بند ہوگیا، مگر ذوالفقار علی بھٹو اپنی جان کا نذرانہ دیتے ہی ملک کے متفقہ رہنما بن گئے۔ ایسا ہی کچھ ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہوا۔ جنرل ضیاء الحق ، غلام اسحاق خان، فاروق لغاری، جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کو ہر قسم کے الزامات سے نوازا۔ شیخ رشید نے انھیں سیکیورٹی رسک قرار دیا۔ بے نظیر بھٹو پر الزامات لگانے میں میاں نواز شریف بھی پیچھے نہیں رہے مگر بے نظیر بھٹو اپنے والد کی طرح آج سب کی رہنما ہیں۔
تاریخ کی ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے میاں نواز شریف نے جمہوری حکومت کی بالادستی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کو رد کیا اور آزاد خارجہ پالیسی کا راستہ اختیار کیا تو وہ مودی کے یار قرار پائے۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ جمہوری نظام میں ہی ملک کا مستقبل ہے۔ جمہوری نظام کے لیے سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما لازمی ہیں مگر سیاستدان ہی اپنے ساتھیوں پر رکیک حملے کرتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ فواد چوہدری اور وزیر مملکت زرتاج گل نے سیاستدانوں کی کردارکشی اور میڈیا کے کردار کا ذکرکیا ہے، وہ بالکل درست ہے۔ اگر فواد چوہدری اور زرتاج گل چاہیں کہ سیاستدانوں کی کردار کشی کا سلسلہ ختم ہو تو انھیں پہل کرنی ہوگی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کو جمع کر کے ضابطہ اخلاق تیارکرنا ہوگا۔ اس ضابطہ اخلاق کی پابندی سب کوکرنی ہوگی۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے مخالف سیاستدانوں کی کردارکشی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی، مخالفین کو چور اور ڈاکو قرار دیا گیا، اب خود تحریک انصاف والے اس صورتحال کا شکار ہوئے۔ اس ملک کی تاریخ 14 اگست 1947 کی رات سے شروع ہوتی ہے اور 15 اگست کو پاکستان کی پہلی حکومت کے قیام کے ساتھ سیاست دانوں کے احتساب کا سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے۔ جب 15 اگست 1947 کے دن کا آغاز ہوا تو سندھ میں ایوب کھوڑو اور صوبہ سرحد میں خدائی خدمات گار تحریک اور کانگریس کے ڈاکٹر خانصاحب وزیر اعلیٰ تھے۔
گو ان کی جماعت نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی مگر ڈاکٹر خانصاحب اور ان کے بھائی خان عبدالغفار خان نے انگریز راج کے خلاف تاریخی جدوجہد کی تھی اور جوانی کے کئی سال جیلوں میں گزارے تھے۔ ڈاکٹر خان پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان سے وابستگی کا اظہار کرچکے تھے۔
بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خانصاحب اور ملک کے نئے گورنر جنرل محمد علی جناح کے درمیان ملاقات کی تاریخ طے ہوچکی تھی کہ ڈاکٹر خانصاحب اور غفار خان کو غدار قرار دیا گیا۔ سرحد میں ڈاکٹر خان کی حکومت کو توڑ دیا گیا، نئے وزیر اعلیٰ خان عبدالقیوم خان کے حکم پر بڈا بیڑ میں خدائی خدمت اور سیکڑوں کارکنوں پر پولیس نے گولیاں چلائیں۔ خان عبدالغفار خان، ان کے صاحبزادے عبدالولی خان اور سیکڑوں کارکنوں کو برسوں جیل میں رکھا گیا۔ خان غفار خان اور ان کے بیٹے ولی خان ہر دور میں معتوب رہے۔ انھیں جنرل ضیاء الحق نے محب وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کا تعلق مسلم لیگ سے تھا مگر ایوب کھوڑو سندھ کے بارے میں کراچی میں قائم ہونے والی مرکزی حکومت کی پالیسی سے متفق نہیں تھے۔ ایوب کھوڑو پر سائیکل چوری کرنے کا الزام لگا کر انھیں برطرف کیا گیا اور سیاست کے لیے نا اہل قرار دیدیا گیا۔ حسین شہید سہروردی کا شمار بنگال کے ممتاز مسلمان سیاسی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔
وہ آزادی کے وقت تک متحدہ بنگال کے پریمیئر تھے۔ سہروردی بنگال میں ہونے والے خوفناک ہندو مسلم فسادات کو روکنے کے لیے کلکتہ میں رک گئے تھے۔ انھوں نے مہاتما گاندھی کے ساتھ مل کر مذہبی فسادات کی آگ کو روکنے کی کوشش کی مگر سہروردی پاکستان آئے تو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے انھیں غدار قرار دیا اور حکومت نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں۔ سہروردی کا شمار برصغیر کے بڑے وکلاء میں ہوتا تھا۔ پاکستان میں انھیں قانون کی پریکٹس کرنے کی اجازت نہیں ملی مگر پنجاب کے چھوٹے شہر منٹگمری (موجودہ ساہیوال) کی بار ایسوسی ایشن نے سہروردی کو وکالت کا لائسنس دیا تھا۔
سہروردی ملک کے وزیر اعظم بنے مگر 10 مہینے بعد ان کو برطرف کر دیا گیا۔ جنرل ایوب خان حکومت نے ایپڈو کے قانون کے تحت حسین شہید سہروردی کو سیاست سے نا اہل قرار دیا اور جیل میں بند کر دیا۔ سہروردی کی سیاست کو جاننے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ وہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان آخری مضبوط کڑی تھے۔
محترمہ فاطمہ جناح نے جب جنرل ایوب خان کی آمریت کو چیلنج کیا اور جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو راولپنڈی میں قائم مرکزی حکومت نے فاطمہ جناح کی کردار کشی کی مہم چلائی۔ انھیں ملک دشمن قرار دیا گیا۔ 1964کے انتخابات کے دوران ایوب خان کی حکومت نے اخبارات میںجہازی سائز اشتہارات شایع کرائے۔ ان اشتہارات میں فاطمہ جناح کو ملک دشمنوں کے ہاتھوں کھیلنے کے الزامات لگائے گئے۔
50 کی دھائی میں مشرقی پاکستان میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ جگتو فرنٹ نے 26 نکات کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیا۔ یہ 26 نکات 1940کی قرارداد پاکستان کی بنیاد پر مرتب کیے گئے تھے۔ انتخابات میں مسلم لیگ کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر نئے وزیر اعلیٰ اے کے مولوی فضل حق کی حکومت کو 8 ماہ بعد برطرف کر دیا گیا اور ان پر ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے۔ 2015میں ملک کے آئین میں ہونے والی 18ویں ترمیم جگتو فرنٹ کے 26 نکات کی تقریباً عکاسی کرتی ہے۔ اسی طرح بلوچستان کی قوم پرست قیادت ہمیشہ مرکزکے زیر عتاب رہی۔
میر غوث بخش بزنجو ، سردار عطاء اﷲ مینگل، سردار خیر بخش مری اور نواب اکبر بگٹی کو ہمیشہ غدار قرار دیا گیا۔ نواب اکبر بگٹی کا معاملہ ایک منفرد نوعیت کا ہے۔ وہ ہمیشہ سے پاکستان کے حامی رہے اور قوم پرست سیاست کے خلاف مزاحمت کی۔ وہ اسکندر مرزا کے دور میں وزیر مملکت رہے۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں بھٹو نے انھیں بلوچستان کا گورنر بنایا۔ 1988 میں صدر غلام اسحاق خان کی ایماء پر وزیر اعلیٰ بنایا مگر اکبر بگٹی کو ایک آپریشن میں ہلاک کیا گیا ۔ سندھ میں جی ایم سید کا شمار قوم پرست رہنما کے طور پر ہوتا ہے۔ جی ایم سید کی کوششوں سے سندھ اسمبلی میں پاکستان کی حمایت میں قرارداد منظور ہوئی تھی۔
سید کا ایک کارنامہ یہ تھا کہ ان کی ایماء پر سندھ اسمبلی نے ایک قرارداد میں ہندوستان کے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ سندھ میں آکر بس جائیں مگر جی ایم سید کی زندگی کا ایک بڑ ا حصہ جیلوں میں گزرا۔ 80کی دھائی میں جی ایم سید نے سندھ میں چلنے والی ایم آر ڈی کی تحریک کی مخالفت کا فیصلہ کیا تو جنرل ضیاء الحق نے انھیں محب وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا مگر پھر وہ کچھ برسوں بعد معتوب قرار پائے۔
ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض اور حبیب جالب اپنی مزاحمتی شاعری کی بناء پر ہمیشہ معتوب رہے۔ فیض پر افغانستان اور سوویت یونین کے ایجنٹ ہونے کے الزامات لگائے گئے۔ حبیب جالب ہر حکومت میں معتوب رہے اور زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزارا۔ جب فیض احمد فیض کو سوویت یونین نے امن کا سب سے بڑا ایوارڈ لینن پرائز دینے کا اعلان کیا تو ملک میں ان کو ملک دشمن قرار دینے کی باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ یہ سب کچھ حبیب جالب کے ساتھ کیا گیا مگر اب بھارت میں ہندوانتہا پسندی کے خلاف مزاحمتی تحریک میں فیض احمد فیض اور حبیب جالب ممتاز مقام حاصل کرچکے ہیں۔ اب پاکستانی دانشور اور میڈیا ان دونوں شعراء کا ذکر انتہائی احترام کے ساتھ کر رہے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو جب ایوب خان کے وزیر خارجہ تھے وہ سلامتی کونسل میں کشمیریوں کے حقوق کے لیے گرج رہے تھے تو سب سے بڑے محب وطن تھے، مگر ایوب آمریت کو چیلنج کرنے اور عوامی راج کا نعرہ لگانے پر وہ غیر مسلم غدار سب کچھ ٹھہرائے گئے۔ ایک آمر نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دے کر سوچا کہ یہ باب بند ہوگیا، مگر ذوالفقار علی بھٹو اپنی جان کا نذرانہ دیتے ہی ملک کے متفقہ رہنما بن گئے۔ ایسا ہی کچھ ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہوا۔ جنرل ضیاء الحق ، غلام اسحاق خان، فاروق لغاری، جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کو ہر قسم کے الزامات سے نوازا۔ شیخ رشید نے انھیں سیکیورٹی رسک قرار دیا۔ بے نظیر بھٹو پر الزامات لگانے میں میاں نواز شریف بھی پیچھے نہیں رہے مگر بے نظیر بھٹو اپنے والد کی طرح آج سب کی رہنما ہیں۔
تاریخ کی ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے میاں نواز شریف نے جمہوری حکومت کی بالادستی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کو رد کیا اور آزاد خارجہ پالیسی کا راستہ اختیار کیا تو وہ مودی کے یار قرار پائے۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ جمہوری نظام میں ہی ملک کا مستقبل ہے۔ جمہوری نظام کے لیے سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما لازمی ہیں مگر سیاستدان ہی اپنے ساتھیوں پر رکیک حملے کرتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ فواد چوہدری اور وزیر مملکت زرتاج گل نے سیاستدانوں کی کردارکشی اور میڈیا کے کردار کا ذکرکیا ہے، وہ بالکل درست ہے۔ اگر فواد چوہدری اور زرتاج گل چاہیں کہ سیاستدانوں کی کردار کشی کا سلسلہ ختم ہو تو انھیں پہل کرنی ہوگی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کو جمع کر کے ضابطہ اخلاق تیارکرنا ہوگا۔ اس ضابطہ اخلاق کی پابندی سب کوکرنی ہوگی۔