جذباتی کشمکش اور تحلیل نفسی
انسانی زندگی اپنے سکون و تحفظ کے لیے ذہن سے عجیب و غریب کام لیتی ہے۔ جب دماغی کرب و...
انسانی زندگی اپنے سکون و تحفظ کے لیے ذہن سے عجیب و غریب کام لیتی ہے۔ جب دماغی کرب و تکلیف حد سے گزر جاتی ہے تو آدمی بے ہوش ہوجاتا ہے، یہ بھی ذہنی صحت کے تحفظ کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر کثرت اندوہ میں غشی طاری نہ ہو تو اندیشہ ہے کہ دماغ پھٹ جائے، اس کی رگیں چٹخ جائیں۔ بھلا اتنا جذباتی دبائو کون برداشت کرسکتا ہے؟ بے ہوش ہوجانا، گرد و پیش سے بے خبر ہوجانا، سکتے کی حالت میں آجانا، یہ سب درحقیقت وہ دفاعی تدابیر ہیں جو انسانی زندگی اپنے تحفظ کے لیے اختیار کرتی ہے، یعنی دماغی میکانزم کو معطل کرکے وہ دماغ کے نازک حصوں کو تباہ ہونے سے بچا دیتی ہے۔ شعور و لاشعور میں کشمکش پیدا ہونا ایک ناگزیر عمل ہے۔ انسانی جبلت (بلکہ جبلتیں) وہی ہیں جو حیوانات کی بقائے حیات کی ضامن ہیں۔ حیوانات فکر و تعقل سے محروم ہیں، ان کے یہاں دل و دماغ کی وہ کشمکش پائی ہی نہیں جاتی جو انسانوں کا مقسوم ہے مگر دل و دماغ (یا شعور و جبلت) کی یہی کشمکش اور یہی تصادم انسانیت کا وہ امتحان ہے جو اسے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرتا ہے۔
جانوروں کو اپنی تہذیب نفس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا کردار مشینی ہوتا ہے، مچھلی کا بچہ پیدا ہوتے ہی تیرنے لگتا ہے اور مرغی کا چوزہ انڈے سے برآمد ہوتے ہی زمین پر چونچیں مارنے لگتا ہے، لیکن آدم زاد کو سب کچھ سیکھنا پڑتا ہے، چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، بولنا چالنا اور حاجات ضروریہ سے فارغ ہونا، آدمی کا جنسی کردار بھی تربیت پذیر ہے، عقل قدم قدم پر اس کی رہنمائی کرتی ہے اور جبلت اسے اپنی راہ پر چلانا چاہتی ہے۔ یہیں سے جذباتی کشمکش کی ابتدا ہوتی ہے اور خیر و شر کا یہی تصور عقل و جذبات کی یہی کشمکش اور مفید و مضر اقدار کی یہی پیکار انسانی شخصیت میں پختگی اور استحکام پیدا کرتی ہے۔ انسان حوادث کی بھٹی میں تپے بغیر اس میل کچیل سے پاک و صاف نہیں ہوسکتا جو بشری جبلت کی پیداوار ہے۔ جب تک انسان اپنے ''اندرون'' سے باخبر نہ ہوگا، اس میں خود آگاہی اور خودشناسی کی صفت پیدا نہیں ہوسکتی، اور خود آگاہی کے لیے اندرونی کرب سے گزرنا زینہ اولیں کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان مباحث میں بار بار تحلیل نفسی کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ تحلیل نفسی کے معنی ہیں اپنے نفس (ذہن) کی کیفیتوں کو ٹٹولنا اور ان شگافوں کو دریافت کرنا جو انسانی سوچ میں پڑ گئے ہیں۔ تحلیل نفسی کا طریقہ یہ ہے کہ معمول کو بستر پر آرام سے لٹادیا جاتا ہے اور اسے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اوپر استغراق کی کیفیت طاری کرکے مطالعہ ذات کی کوشش کرے اور اس کے ذہن میں جتنے خیالات یکے بعد دیگرے آرہے ہیں، انھیں بے تکلف اور بے تکان بیان کرتا چلا جائے۔ اس کوشش میں معمول پر خود تنویمی (سیلف ہپناسز) کی ہلکی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ تنویم اور تحلیل دونوں کا طریقہ کار یکساں ہے، یعنی لاشعور میں دبی ہوئی یادوں اور یادداشتوں کو شعور کی سطح پر لایا جائے۔ فرق یہ ہے کہ تحلیل نفسی سے صرف ذہنی امراض اور اعصابی شکایتوں کا علاج کیا جاسکتا ہے اور تنویم کاری سے ذہنی اور اعصابی کمزوریوں کے علاوہ بعض جسمانی امراض (مثلاً درد سر، بدہضمی، قبض، دانتوں کی تکلیف، عارضی نامردی وغیرہ) بھی رفع کیے جاتے ہیں۔ تحلیل نفسی کا ایک نقص یہ ہے کہ اس عمل کے دوران ''انتقال جذبات محبت'' کے قانون تحت معمول (جس کے نفس کا تجزیہ اور ذہنی کیفیتوں کی تحلیل کی جارہی ہے) عامل یعنی معالج نفسیات تحلیل کرنے والے کو اپنا رازدار، محرم اسرار اور محبوب قرار دے لیتا ہے۔
بیداری کے عالم میں شعور محتسب کے فرائض انجام دیتا ہے اور لاشعوری ہیجانات کو بروئے کار نہیں آنے دیتا اور عام حالات میں تمام تصورات اور جذبات شعور کی چھلنی میں چھن چھن کر لاشعور میں پہنچتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ چوکس اور چوکنا نہیں رہتا، کبھی کوئی جذباتی ترغیب (مثلاً اچانک کوئی پرتشدد منظر، خون) بڑی تیزی سے ذہن کی دہلیز کو پار کرکے لاشعور میں داخل ہوجاتی ہے اور ایک دھماکے کے ساتھ لاشعور میں پیوست ہوجاتی ہے۔ نفس کے اس حصے کی جسے ہم افہام و تفہیم کے عملی مقاصد کے پیش نظر لاشعور کہتے ہیں کی عجیب خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر ترغیب اور واقعے کو کسی انکار، کسی پس و پیش اور کسی دلیل و حجت کے بغیر جوں کا توں قبول کرلیتا ہے اور وہ ترغیب لاشعور میں جڑ پکڑ لیتی ہے۔ تنویم کار کا کام یہ ہے کہ وہ شعور پر اونگھ یا نیند طاری کردے تاکہ شعور کا داروغہ درمیان سے ہٹ جائے اور ماہر تنویم کی ترغیب کسی خلل پذیری اور دخل اندازی کے بغیر نفس کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔ تنویم کی حالت میں معمول کی تحلیل نفسی مفید ہے، آسان بھی۔ معمول اس عالم میں اپنا سینہ تنویم کار کے سامنے کھول دیتا ہے اور اس کی زندگی کی تمام فراموش یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ ہم اپنے سینے میں کیا کیا راز چھپائے ہوئے ہیں اس کا اندازہ غیر تو غیر خود ہمیں بھی نہیں، یہ تو صرف تحلیل نفسی سے ہی معلوم ہوسکتا ہے کہ ایک فرشتے میں کتنے شیطان اور شیطان میں کتنے فرشتے چھپے ہوئے ہیں۔
ماہرین تنویم نے محض سمجھنے سمجھانے کے لیے تنویم کاری کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ پدرانہ تنویم (پراقتدار مگر شفقت آمیز لہجے میں معمول کو ہدایت دینا) اور مادرانہ تنویم (مامتا بھری آواز میں معمول کو ہدایت دینا) ہر ماں اپنے بچے کو لوریاں سنا کر اور تھپکیاں دے کر سلاتی ہے، یہ لوریاں سنانا اور تھپکیاں دینا بجائے خود ایک تنویمی عمل ہے۔ مسمریزم میں معمول کو پاسز (ہاتھ پھیرنا) کے ذریعے سلایا جاتا ہے، بالکل یہی طریقہ کسی کو سلانے کے لیے عام لوگ بھی اختیار کرتے ہیں۔ جسم کے بعض حصوں پر نرمی سے ہاتھ پھیرنا، سہلانا اور نرمی سے اعضا کو تھپتھپانا درحقیقت خواب آور اعمال ہیں۔ معمول کو تنویم کاری سے قبل دیکھ لینا چاہیے کہ اس کا معمول کس قسم کی افتاد طبع کا مالک ہے۔ بچپن میں جب کہ شعور ابتدائی مرحلے میں ہوتا ہے، بچہ ہر ترغیب کو قبول کرلیتا ہے لیکن بلوغ کے ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ شعور اپنی مکمل اور الگ شخصیت پیدا کرلیتا ہے اور ترغیب پذیری میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کرتا رہتا ہے تاہم جس طرح رسی کے مسلسل گھسائو سے پتھر پر لکیر پڑ جاتی ہے اسی طرح مسلسل ترغیبات سے انجام کار ذہن بھی متاثر ہوہی جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تعمیری اور مثبت نظریات انسانی شخصیت کو طاقت، محبت، روشنی اور عظمت کے مینار میں تبدیل کردیتے ہیں اور منفی نظریات عرصہ زندگی کو کرہ جہنم بنادیتے ہیں۔ ہر خیال اچھے یا برے طریقے پر ہمارے جسم کو متاثر کرتا ہے۔ ہر وہ خیال یا ترغیب جو شعور کے ذریعے ہمارے لاشعور میں پہنچتی ہے ایک جبری تقاضا بن جاتی ہے اور پھر لاشعور جبراً اسے پورا کرکے رہتا ہے۔ آپ جس طرح اپنے تخیل کو استعمال کریں گے اس کا اثر لازمی طور پر آپ کی ذہنی اور جسمانی شخصیت پر پڑے گا۔ خودترغیبی کے لیے ضروری ہے کہ آپ کامل راحت و سکون کے عالم میں ہوں، جسم کو ڈھیلا ڈھالا چھوڑ کر بستر پر لیٹ جائیں اور خود کو مفید ترغیبات دینا شروع کریں۔ جب تک مکمل ذہنی سکون اور جسمانی آرام حاصل نہ ہو توجہ میں یکسوئی پیدا نہیں ہوسکتی۔ خودترغیبی کے سلسلے میں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ منفی ترغیبات و ہدایات موہوم امراض کو جنم دیتی ہیں۔
(نوٹ:گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں www.facebook.com/shayan.tamseel)
جانوروں کو اپنی تہذیب نفس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا کردار مشینی ہوتا ہے، مچھلی کا بچہ پیدا ہوتے ہی تیرنے لگتا ہے اور مرغی کا چوزہ انڈے سے برآمد ہوتے ہی زمین پر چونچیں مارنے لگتا ہے، لیکن آدم زاد کو سب کچھ سیکھنا پڑتا ہے، چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، بولنا چالنا اور حاجات ضروریہ سے فارغ ہونا، آدمی کا جنسی کردار بھی تربیت پذیر ہے، عقل قدم قدم پر اس کی رہنمائی کرتی ہے اور جبلت اسے اپنی راہ پر چلانا چاہتی ہے۔ یہیں سے جذباتی کشمکش کی ابتدا ہوتی ہے اور خیر و شر کا یہی تصور عقل و جذبات کی یہی کشمکش اور مفید و مضر اقدار کی یہی پیکار انسانی شخصیت میں پختگی اور استحکام پیدا کرتی ہے۔ انسان حوادث کی بھٹی میں تپے بغیر اس میل کچیل سے پاک و صاف نہیں ہوسکتا جو بشری جبلت کی پیداوار ہے۔ جب تک انسان اپنے ''اندرون'' سے باخبر نہ ہوگا، اس میں خود آگاہی اور خودشناسی کی صفت پیدا نہیں ہوسکتی، اور خود آگاہی کے لیے اندرونی کرب سے گزرنا زینہ اولیں کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان مباحث میں بار بار تحلیل نفسی کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ تحلیل نفسی کے معنی ہیں اپنے نفس (ذہن) کی کیفیتوں کو ٹٹولنا اور ان شگافوں کو دریافت کرنا جو انسانی سوچ میں پڑ گئے ہیں۔ تحلیل نفسی کا طریقہ یہ ہے کہ معمول کو بستر پر آرام سے لٹادیا جاتا ہے اور اسے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اوپر استغراق کی کیفیت طاری کرکے مطالعہ ذات کی کوشش کرے اور اس کے ذہن میں جتنے خیالات یکے بعد دیگرے آرہے ہیں، انھیں بے تکلف اور بے تکان بیان کرتا چلا جائے۔ اس کوشش میں معمول پر خود تنویمی (سیلف ہپناسز) کی ہلکی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ تنویم اور تحلیل دونوں کا طریقہ کار یکساں ہے، یعنی لاشعور میں دبی ہوئی یادوں اور یادداشتوں کو شعور کی سطح پر لایا جائے۔ فرق یہ ہے کہ تحلیل نفسی سے صرف ذہنی امراض اور اعصابی شکایتوں کا علاج کیا جاسکتا ہے اور تنویم کاری سے ذہنی اور اعصابی کمزوریوں کے علاوہ بعض جسمانی امراض (مثلاً درد سر، بدہضمی، قبض، دانتوں کی تکلیف، عارضی نامردی وغیرہ) بھی رفع کیے جاتے ہیں۔ تحلیل نفسی کا ایک نقص یہ ہے کہ اس عمل کے دوران ''انتقال جذبات محبت'' کے قانون تحت معمول (جس کے نفس کا تجزیہ اور ذہنی کیفیتوں کی تحلیل کی جارہی ہے) عامل یعنی معالج نفسیات تحلیل کرنے والے کو اپنا رازدار، محرم اسرار اور محبوب قرار دے لیتا ہے۔
بیداری کے عالم میں شعور محتسب کے فرائض انجام دیتا ہے اور لاشعوری ہیجانات کو بروئے کار نہیں آنے دیتا اور عام حالات میں تمام تصورات اور جذبات شعور کی چھلنی میں چھن چھن کر لاشعور میں پہنچتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ چوکس اور چوکنا نہیں رہتا، کبھی کوئی جذباتی ترغیب (مثلاً اچانک کوئی پرتشدد منظر، خون) بڑی تیزی سے ذہن کی دہلیز کو پار کرکے لاشعور میں داخل ہوجاتی ہے اور ایک دھماکے کے ساتھ لاشعور میں پیوست ہوجاتی ہے۔ نفس کے اس حصے کی جسے ہم افہام و تفہیم کے عملی مقاصد کے پیش نظر لاشعور کہتے ہیں کی عجیب خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر ترغیب اور واقعے کو کسی انکار، کسی پس و پیش اور کسی دلیل و حجت کے بغیر جوں کا توں قبول کرلیتا ہے اور وہ ترغیب لاشعور میں جڑ پکڑ لیتی ہے۔ تنویم کار کا کام یہ ہے کہ وہ شعور پر اونگھ یا نیند طاری کردے تاکہ شعور کا داروغہ درمیان سے ہٹ جائے اور ماہر تنویم کی ترغیب کسی خلل پذیری اور دخل اندازی کے بغیر نفس کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔ تنویم کی حالت میں معمول کی تحلیل نفسی مفید ہے، آسان بھی۔ معمول اس عالم میں اپنا سینہ تنویم کار کے سامنے کھول دیتا ہے اور اس کی زندگی کی تمام فراموش یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ ہم اپنے سینے میں کیا کیا راز چھپائے ہوئے ہیں اس کا اندازہ غیر تو غیر خود ہمیں بھی نہیں، یہ تو صرف تحلیل نفسی سے ہی معلوم ہوسکتا ہے کہ ایک فرشتے میں کتنے شیطان اور شیطان میں کتنے فرشتے چھپے ہوئے ہیں۔
ماہرین تنویم نے محض سمجھنے سمجھانے کے لیے تنویم کاری کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ پدرانہ تنویم (پراقتدار مگر شفقت آمیز لہجے میں معمول کو ہدایت دینا) اور مادرانہ تنویم (مامتا بھری آواز میں معمول کو ہدایت دینا) ہر ماں اپنے بچے کو لوریاں سنا کر اور تھپکیاں دے کر سلاتی ہے، یہ لوریاں سنانا اور تھپکیاں دینا بجائے خود ایک تنویمی عمل ہے۔ مسمریزم میں معمول کو پاسز (ہاتھ پھیرنا) کے ذریعے سلایا جاتا ہے، بالکل یہی طریقہ کسی کو سلانے کے لیے عام لوگ بھی اختیار کرتے ہیں۔ جسم کے بعض حصوں پر نرمی سے ہاتھ پھیرنا، سہلانا اور نرمی سے اعضا کو تھپتھپانا درحقیقت خواب آور اعمال ہیں۔ معمول کو تنویم کاری سے قبل دیکھ لینا چاہیے کہ اس کا معمول کس قسم کی افتاد طبع کا مالک ہے۔ بچپن میں جب کہ شعور ابتدائی مرحلے میں ہوتا ہے، بچہ ہر ترغیب کو قبول کرلیتا ہے لیکن بلوغ کے ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ شعور اپنی مکمل اور الگ شخصیت پیدا کرلیتا ہے اور ترغیب پذیری میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کرتا رہتا ہے تاہم جس طرح رسی کے مسلسل گھسائو سے پتھر پر لکیر پڑ جاتی ہے اسی طرح مسلسل ترغیبات سے انجام کار ذہن بھی متاثر ہوہی جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تعمیری اور مثبت نظریات انسانی شخصیت کو طاقت، محبت، روشنی اور عظمت کے مینار میں تبدیل کردیتے ہیں اور منفی نظریات عرصہ زندگی کو کرہ جہنم بنادیتے ہیں۔ ہر خیال اچھے یا برے طریقے پر ہمارے جسم کو متاثر کرتا ہے۔ ہر وہ خیال یا ترغیب جو شعور کے ذریعے ہمارے لاشعور میں پہنچتی ہے ایک جبری تقاضا بن جاتی ہے اور پھر لاشعور جبراً اسے پورا کرکے رہتا ہے۔ آپ جس طرح اپنے تخیل کو استعمال کریں گے اس کا اثر لازمی طور پر آپ کی ذہنی اور جسمانی شخصیت پر پڑے گا۔ خودترغیبی کے لیے ضروری ہے کہ آپ کامل راحت و سکون کے عالم میں ہوں، جسم کو ڈھیلا ڈھالا چھوڑ کر بستر پر لیٹ جائیں اور خود کو مفید ترغیبات دینا شروع کریں۔ جب تک مکمل ذہنی سکون اور جسمانی آرام حاصل نہ ہو توجہ میں یکسوئی پیدا نہیں ہوسکتی۔ خودترغیبی کے سلسلے میں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ منفی ترغیبات و ہدایات موہوم امراض کو جنم دیتی ہیں۔
(نوٹ:گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں www.facebook.com/shayan.tamseel)