پنجاب کا روایتی تہوار لوہڑی اور دلا بھٹی شہید

تہوار سے جڑے مرکزی کردار دلا بھٹی کی قبر لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں خستہ حالی کا شکار

لوہڑی سردی کے آخری ایام میں منایا جانے والا پنجاب کا روایتی تہوارہے فوٹو: ایکسپریس

پنجاب کا روایتی تہوار لوہڑی اور دلا بھٹی شہید پاکستان میں بسنے والی سکھ اور ہندو برادری 13 جنوری کو لوہڑی کا تہوار منارہی ہے۔

لوہڑی سردی کے آخری ایام میں منایا جانے والا پنجاب کا روایتی تہوارہے۔ قیام پاکستان سے قبل متحدہ پنجاب میں سکھ اور ہندو بھرپور طریقے سے یہ تہوارمناتے تھے تاہم قیام پاکستان کے بعد اب بھارتی پنجاب میں یہ تہوار سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والی سکھ اور ہندو برادری بھی لوہڑی کا تہوار مناتی ہے۔ یہ تہوار ہر سال 13 جنوری کو منایا جاتا ہے۔

گوردوارہ ڈیرہ صاحب لاہورکے گیانی سرداررنجیت سنگھ ہرسال لوہڑی کی تقریب کا اہتمام کرتے ہیں،انہوں نے بتایا کہ اس سال بھی لوہڑی کا تہواربھرپورطریقے سے منائیں گے،گورودوارہ ڈیرہ صاحب میں آگ کا الاؤ جھلاکراس میں میٹھی ریوڑیاں پھینکی جاتی ہیں اورلوہڑی کے گیت گائے جاتے ہیں۔ اس میں لاہورمیں بسنے والے سکھ اورہندوخاندان شریک ہوتے ہیں

لوہڑی اک موسمی تہوار ہے۔ کہتے ہیں جس دن کماد (گنے ) کی فصل پک کر تیار ہوتی ہے توکسان گنے کارس نکال کراس سے گڑبنانے کے لئے جمع ہوتے ہیں، کھیتوں میں آگ کے الاؤ جلائے جاتے ہیں اورگڑتیارکرکے ایک دوسرے کا منہ میٹھاکروایاجاتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق لوہڑی ہندوؤں کامذہبی تہوارہے جس میں آگ کا الاؤ جلاکرسردی کے موسم میں سورج کوخوش آمدیدکہا جاتا ہے،ہندومت میں آگ کودیوتا کی زبان کہا جاتا ہے اس لئے اس تہوارکے موقع پر دیوتا کی خوشنودی کے لئے آگ کے الاؤمیں دیسی گھی،تیل اورخشک میوہ جات پھینکے جاتے ہیں۔ لوہڑی کا تہواربیٹوں کی پیدائش کی خوشی میں بھی منایاجاتا ہے۔



گورنمنٹ کالج لاہورکے پروفیسرکلیان سنگھ کلیان نے بتایا کہ پندرھویں صدی میں جب متحدہ ہندوستان پر مغل بادشاہ اکبرکی حکومت تھی ، اس دورمیں پنڈی بھٹیاں کے علاقہ میں راجپوت خاندان کے ہاں رائے عبداللہ خان بھٹی پیداہوا جسے دلابھٹی کے نام سے جاناجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دلابھٹی پنجاب کا مشہورمزاحمتی کردارہے جس نے مغل بادشاہ اکبراعظم کے دور میں شاہی جبر کے خلاف عام لوگوں کے حقوق کی جنگ لڑی ، دلابھٹی کے کارناموں کی یادمیں لوہڑی کا تہوارمنایاجاتا ہے جوآج پاکستان اوربھارت دونوں ملکوں میں مقبول ہے۔


کلیان سنگھ کلیان بتاتے ہیں لوہڑی کے تہوارسے متعلق مختلف کہانیاں مشہورہیں۔ اکبربادشاہ کے دورمیں ان کے ہرکارے پنجاب سے خوبصورت لڑکیوں کو اٹھاتے اوران کی عزت پامال کرتے تھے جس کے خلاف دلابھٹی نے مزاحمت شروع کی تھی۔ اسی دوران ایک زمیندار نے قرض کی ادائیگی نہ ہونے پر ہندوخاندان کی دو لڑکیوں سندری اورمندری کواٹھالیا۔ دلابھٹی نے پنجاب کی ان بیٹیوں کو ناصرف زمیندار کے قبضے سے چھڑوایااوراپنے ساتھ جنگل میں لے گیا بلکہ ان دونوں ہندوبہنوں کی شادیاں بھی کروائیں۔



ہندولڑکیوں کی شادی کے موقع پردلابھٹی نے خودہی آگ کا الاؤ جلایا، ان کے پھیرے کروائے اوران کا کنیادان کیا،ان لڑکیوں کو جہیزمیں دینے کے لئے دلابھٹی کے پاس کچھ نہیں تھا، اس نے اپنے ڈیرے پرموجود شکراور تل لیکردونوں لڑکیوں کی جھولی میں ڈالے اورانہیں دعائیں دیں۔ یہاں چونکہ شادی کے منترپڑھنے والاکوئی نہیں تھا دلابھٹی چونکہ مسلمان تھا اس لئے اس نے پھیروں کے موقع پر جو الفاظ پڑھے تھے وہ آج لوہڑی کے موقع پر ایک لوک گیت کے طورپر گائے جاتے ہیں۔

یہ بھی کہاجاتا ہے کہ دلا بھٹی نے دراصل اپنے باپ اور دادا کی پھانسی کا بدلہ لینے کے لیے بغاوت کی تھی جس کی وجہ سے اکبر بادشاہ کو پندرہ سال دارالحکومت لاہور منتقل کرنا پڑا، دلا بھٹی نے مغلیہ سلطنت کو اپنی روزمرہ کاروائیوں سے تگنی کا ناچ نچا کر رکھ دیا تھا ۔ایک مصنف بشیر بھٹی کی روایت کے مطابق دلا بھٹی نے ایک موقع پر اکبر بادشاہ کو اغوا بھی کیا، جس میں بادشاہ نے خود کو بھانڈ کہہ کر جان بخشوائی ۔۔۔ اس کے بعد اکبر بادشاہ نے اس بہادر باغی کو دھوکا دیتے ہوئے صلح کے لیے اپنے دربار میں بلایا اور مقدمہ چلوا دیا ۔۔ دلا بھٹی کو لاہور میں پھانسی دی گئی اورلاہورکے میانی صاحب قبرستان میں اس کی آخری آرام گاہ ہے
دلا بھٹی اکیڈمی کے چیئر مین بشیر حسین بھٹی کے مطابق دلابھٹی 1547 میں پنڈی بھٹیاں کے علاقے میں پیداہوئے اور 26 مارچ 1599 کوانہیں لاہورمیں پھانسی دی گئی۔



حضرت شاہ حسین عرف مادھو لال حسین نے دلا بھٹی کی لاش اکبر بادشاہ سے وصول کی اوراس کا نماز جنازہ بھاٹی چوک میں پڑھایا اور وہاں سے اس و قت کے میانی صاحب جہاں ایک اونچا ٹیلہ ہوا کرتا تھا میں دفن کر دیا جو بعد ازاں احاطہ دلا بھٹی کے نام سے منسوب ہوا ،یہ احاطہ میجر شبیر شریف (نشان حیدر)کے سامنے موجود ہے اس مقام پر سب سے پہلی قبر تھی جس کے 40 سال بعد دلا بھٹی مزار کے قریب طاہر بندگی کی تدفین ہوئی ۔دلا بھٹی کے مزار کی تعمیر کا عمل بادشاہ اکبر کے دور میں ہی شروع کر دیا گیا تھا جس کو محکمہ آرکیالوجی نے تحقیقات کے بعد درست قرار دے دیا کیونکہ وہاں سے ملنے والی اینٹوں اور لال پتھر کا استعمال مغلیہ دور میں کیا جاتا تھا۔

قبرستان میں روزانہ ہزاروں لوگ فاتحہ خوانی کے لئے آتے ہیں تاہم قبرستان کے مجاوروں اور یہاں قبروں کی کھدائی کرنیوالے مزدوروں کے علاوہ شاید ہی کسی کو دلابھٹی سے متعلق معلوم ہوگا۔
Load Next Story