امریکی پولیس میں پاکستانی آفیسر ہیرو آخری حصہ
ہیوسٹن میں جرائم پر قابو پانے کے لیے ہم ساؤتھ ایشین شاپنگ سینٹرکے باہر انسانی زنجیر بناتے تھے
امریکی سینیئر پولیس آفیسر مظفرصدیقی صاحب سے گفتگوکا سلسلہ جاری تھا، میں نے ان سے مزید پوچھا کہ امریکا میں جرائم کی شرح کتنی ہے اوراس میں اضافہ ہو رہا ہے یا کمی ؟ وہ گویا ہوئے، اس کی مثال میں یوں دوں گا کہ اگرکسی بھی ملک کی معاشی صورتحال بگڑتی ہے تو وہاں جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا میں بھی دنیا کے تمام ممالک کی طرح جرائم کی شرح بڑھتی یا کم ہوتی رہتی ہے۔ پاکستان میں ایک تاثر عام ہے کہ یہاں جرائم میں زیادہ طرح ''کالے'' ملوث ہوتے ہیں۔ مجرم تو مجرم ہوتا ہے، جرائم کرنے والوں کا ہر ملک اور رنگ ونسل سے تعلق ہوسکتا ہے اور ہوتا بھی ہے، یہاں پاکستانی بھی جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اب ہم بطور پولیس آفیسر اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کی غرض سے کمیونٹی کی سطح پر جاتے ہیں یعنی عوام سے رابطہ کرتے ہیں اور جرم کے خلاف ان میں شعور بیدارکرنے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں اور ہماری کاوشیں بڑی حد تک کامیابی سے ہمکنار بھی ہوتی ہیں۔
ایک اور اہم بات جو یہاں میں آپ سے شیئرکرنا چاہوںگا کہ ہم جو بھی کام لگن اور تندہی سے سر انجام دیتے ہیں،اسے یہاں پر برملا سراہا جاتا ہے۔ میں آپ کو اپنی مثال دیتا ہوں، مجھے ٹاپ ٹین ایوارڈ دو بار ملا ہے۔ ان کی مدلل گفتگو سننے کے دوران میں ان سے سوال کیا ہے کہ یہاں ''کمیونٹی پولیسنگ'' کی صورتحال کیا ہے اور اس کے اثرات کیا مرتب ہوتے ہیں؟ انھوں نے جوابا کہا کہ آپ نے بڑا اچھا سوال کیا ہے۔ دراصل ہیوسٹن تیسرا بڑا شہر ہے امریکا کا۔ یہاں پر دو تین چیزیںآپ کے گوش گزارکرنا چاہوں گا، جو نہایت اہمیت وافادیت کی حامل ہیں۔ ہم جرائم کے خاتمے کے لیے، اس کے روٹس پرکام کرتے ہیں۔'' ایک آوازگھریلو تشدد''کے خلاف ہمارا کمیونٹی بیس پروگرام ہے۔
میں اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ بات کہتا ہوں کہ اگر میاں ، بیوی کے درمیان خوشگوار اور دوستانہ تعلقات ہونگے تو ایک گھر ، ایک خاندان کا ماحول انتہائی خوشگوار اور پر امن ہوگا، تو بچے ڈسٹرب نہیں ہونگے۔ ہماری شعور بیدارکرنے کی کوششوں کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں، اب اگر کسی خاتون خانہ پر اس کا شوہر ہاتھ اٹھاتا ہے یا مارپیٹ کرتا ہے تو وہ بڑے اعتماد اور بھروسے کے ساتھ پولیس اسٹیشن میں فون کرتی ہے اور ہم فورا کارروائی کرتے ہوئے متعلقہ شخص کو گرفتارکرلیتے ہیں۔
ہیوسٹن میں جرائم پر قابو پانے کے لیے ہم ساؤتھ ایشین شاپنگ سینٹرکے باہر انسانی زنجیر بناتے تھے تاکہ عوام میں تحفظ کا احساس پیدا ہوسکے۔ میں نے سے پوچھاکہ دوران ملازمت آپ نے کون سے ایسے مشکل کیسزحل کیے جوآپ کے لیے یادگار کا درجہ رکھتے ہوں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہاں! ایک اندھے قتل کا کیس تھا، کیس خاصا پیچیدہ تھا، جو میں نے حل کیا، آخر میں بیٹا ہی ماں کا قاتل نکلا۔ یہ کیس یہاں پولیس کے نصاب میں اب پڑھایا بھی جاتا ہے۔ دوسرا آپ یاد ہوگا کہ بھارت کے موجودہ وزیراعظم جب گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو سیکڑوں لوگ فسادات میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
یہاں پر ایک مسجد کے سامنے سات ہندؤں کے گھر جلائے گئے تھے۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ کسی مسلمان نے یہ کارروائی کی ہوگی لیکن جب میں نے تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ مذہبی عنصر اس میں ملوث نہیں تھا بلکہ یہ کارروائی ایک ہندو نے ذاتی حیثیت سے کی تھی۔ بھارت کے معروف ترین فلمی اداکار قادرخان سے میں نے کہا تھا کہ اس واقعے پر فلم بن سکتی ہے لیکن انھوں نے انکارکیا، شاید صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ پاکستانیوں کا امریکا میں مقیم دیگر نسلی اور لسانی گروہوں سے میل جول کیسا ہے؟ تو فورا گویا ہوئے کہ عموما کہا جاتا ہے کہ یہودی خراب لوگ ہوتے ہیں ، وہ بھی ہمارے بارے میں یہی رائے رکھتے ہیں (ہنستے ہوئے)۔ اس ضمن میں ہم نے یہاں ''بلو برج'' پروگرام تشکیل دیا ۔
جس کے تحت ایک کلاس میں پچاس مسلمان اور پچاس ہی یہودی بچے موجود ہوتے تھے۔ ہم نے ان مشترکہ چیزوں کا ذکرکیا جو مسلمانوں اور یہودیوں میں پائی جاتی ہیں۔ اس طرح نہ صرف دونوں کے درمیان غلط فہمیاں دور ہوئیں بلکہ مجھے پورے امریکا سے پانچ سے چھ ہزار خطوط موصول ہوئے، امریکا کی دیگر ریاستیں اس پروگرام کوکاپی کرنا چاہتی تھیں گوکہ یہ پروگرام اب بجٹ کی کمی کے باعث رکا ہوا ہے ۔ میں پولیس کیڈٹس کو مسجد لے کر جاتا ہوں اور ان کو پڑھاتا ہوں کہ مسلمان کیا ہیں؟ میں نے کہا کہ آپ نے امریکن پولیس کے نظام پر خاصی تفصیل سے گفتگوکی ہے یہ بتائیں کہ آپ پاکستان کے اندرکیا کام کر رہے ہیں۔
وہ جوابا گویا ہوئے کہ امریکا میں مقیم پاکستانی چاہتے ہیں کہ ان کے آبائی وطن کا بھی بھلا ہو۔ میری اس ضمن میں ایک تجویز یہ ہے کہ یہاں مقیم افراد کے لیے بیس یا پچاس ڈالر اکٹھا دینا کوئی مشکل بات نہیں تو سب سے پہلے توکراچی میں پولیس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے پولیس اسٹیشنزکوگود لینے کا عمل شروع ہونا چاہیے۔ میں نے ذاتی حیثیت میں یہ آفر دے رکھی ہے کہ کسی بھی شہید پولیس آفیسر کے بیٹے کو یہاں ایجوکیشن دلوانے کے اخراجات میں خود برداشت کروں گا۔ یقینا کراچی پولیس کے حکام اس پر جلد عمل کی تدبیر نکالیں گے۔ کراچی کے علاقوں لانڈھی ،کورنگی اور ملیر میں بھی لوگوں کی فلاح کے لیے کام کر رہا ہوں ۔
یہ سب کچھ اپنی جیب سے کرتا ہوں ،کسی سے چندہ نہیں لیتا۔ میں نے پوچھا کہ آپ پاکستانی ہیں، یہاں کے لوگ آپ سے کتنی محبت کرتے ہیں؟ دنیا کے مختلف ممالک کے یہاں مقیم ہیں ، سب مجھے عزت اور پیار دیتے ہیں یہی میرا صلہ ہے۔ میں نے کہا کہ امریکا کے خلاف پاکستانیوںکے جذبات اور تحفظات بھی تو ہیں؟ تو انھوں نے جوابا کہا کہ جس تھالی میں کھاؤ اس میں چھید نہ کرو کی مثال کو سامنے رکھیں، ہم امریکا سے بھی محبت کرتے ہیں۔ یہاں سب کے لیے ترقی کے یکساں مواقعے موجود ہیں جن سے ہم سب فائدہ اٹھاتے ہیں تو پھر امریکا کے وفادارکیوں نہ ہوں؟ سنا ہے کہ آپ پولیس سے ریٹائرمنٹ کے بعد الیکشن میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ جی ہاں! آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ دراصل اس ملک نے ہمیں سب کچھ دیا ہے۔ ہم قانون کے اندر رہتے ہوئے سب کچھ کرسکتے ہیں ۔ الیکشن میں ری پبلکن کی جانب سے پولیس چیف کا انتخاب لڑرہا ہوں جو نومبر میں منعقد ہونگے مجھے قوی امید ہے کہ تمام رنگ ونسل کے لوگوں کا ووٹ مجھے ملے گا۔
میں نے اپنے اس کالم میں ایکسپریس کے قارئین سے یہ گفتگو اس لیے شیئرکی ہے کہ یہ انتہائی مفید نکات پر مشتمل ہے، مجھے آپ کے فیڈ بیک کا انتظار شدت سے رہے گا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا میں بھی دنیا کے تمام ممالک کی طرح جرائم کی شرح بڑھتی یا کم ہوتی رہتی ہے۔ پاکستان میں ایک تاثر عام ہے کہ یہاں جرائم میں زیادہ طرح ''کالے'' ملوث ہوتے ہیں۔ مجرم تو مجرم ہوتا ہے، جرائم کرنے والوں کا ہر ملک اور رنگ ونسل سے تعلق ہوسکتا ہے اور ہوتا بھی ہے، یہاں پاکستانی بھی جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اب ہم بطور پولیس آفیسر اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کی غرض سے کمیونٹی کی سطح پر جاتے ہیں یعنی عوام سے رابطہ کرتے ہیں اور جرم کے خلاف ان میں شعور بیدارکرنے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں اور ہماری کاوشیں بڑی حد تک کامیابی سے ہمکنار بھی ہوتی ہیں۔
ایک اور اہم بات جو یہاں میں آپ سے شیئرکرنا چاہوںگا کہ ہم جو بھی کام لگن اور تندہی سے سر انجام دیتے ہیں،اسے یہاں پر برملا سراہا جاتا ہے۔ میں آپ کو اپنی مثال دیتا ہوں، مجھے ٹاپ ٹین ایوارڈ دو بار ملا ہے۔ ان کی مدلل گفتگو سننے کے دوران میں ان سے سوال کیا ہے کہ یہاں ''کمیونٹی پولیسنگ'' کی صورتحال کیا ہے اور اس کے اثرات کیا مرتب ہوتے ہیں؟ انھوں نے جوابا کہا کہ آپ نے بڑا اچھا سوال کیا ہے۔ دراصل ہیوسٹن تیسرا بڑا شہر ہے امریکا کا۔ یہاں پر دو تین چیزیںآپ کے گوش گزارکرنا چاہوں گا، جو نہایت اہمیت وافادیت کی حامل ہیں۔ ہم جرائم کے خاتمے کے لیے، اس کے روٹس پرکام کرتے ہیں۔'' ایک آوازگھریلو تشدد''کے خلاف ہمارا کمیونٹی بیس پروگرام ہے۔
میں اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ بات کہتا ہوں کہ اگر میاں ، بیوی کے درمیان خوشگوار اور دوستانہ تعلقات ہونگے تو ایک گھر ، ایک خاندان کا ماحول انتہائی خوشگوار اور پر امن ہوگا، تو بچے ڈسٹرب نہیں ہونگے۔ ہماری شعور بیدارکرنے کی کوششوں کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں، اب اگر کسی خاتون خانہ پر اس کا شوہر ہاتھ اٹھاتا ہے یا مارپیٹ کرتا ہے تو وہ بڑے اعتماد اور بھروسے کے ساتھ پولیس اسٹیشن میں فون کرتی ہے اور ہم فورا کارروائی کرتے ہوئے متعلقہ شخص کو گرفتارکرلیتے ہیں۔
ہیوسٹن میں جرائم پر قابو پانے کے لیے ہم ساؤتھ ایشین شاپنگ سینٹرکے باہر انسانی زنجیر بناتے تھے تاکہ عوام میں تحفظ کا احساس پیدا ہوسکے۔ میں نے سے پوچھاکہ دوران ملازمت آپ نے کون سے ایسے مشکل کیسزحل کیے جوآپ کے لیے یادگار کا درجہ رکھتے ہوں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہاں! ایک اندھے قتل کا کیس تھا، کیس خاصا پیچیدہ تھا، جو میں نے حل کیا، آخر میں بیٹا ہی ماں کا قاتل نکلا۔ یہ کیس یہاں پولیس کے نصاب میں اب پڑھایا بھی جاتا ہے۔ دوسرا آپ یاد ہوگا کہ بھارت کے موجودہ وزیراعظم جب گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو سیکڑوں لوگ فسادات میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
یہاں پر ایک مسجد کے سامنے سات ہندؤں کے گھر جلائے گئے تھے۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ کسی مسلمان نے یہ کارروائی کی ہوگی لیکن جب میں نے تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ مذہبی عنصر اس میں ملوث نہیں تھا بلکہ یہ کارروائی ایک ہندو نے ذاتی حیثیت سے کی تھی۔ بھارت کے معروف ترین فلمی اداکار قادرخان سے میں نے کہا تھا کہ اس واقعے پر فلم بن سکتی ہے لیکن انھوں نے انکارکیا، شاید صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ پاکستانیوں کا امریکا میں مقیم دیگر نسلی اور لسانی گروہوں سے میل جول کیسا ہے؟ تو فورا گویا ہوئے کہ عموما کہا جاتا ہے کہ یہودی خراب لوگ ہوتے ہیں ، وہ بھی ہمارے بارے میں یہی رائے رکھتے ہیں (ہنستے ہوئے)۔ اس ضمن میں ہم نے یہاں ''بلو برج'' پروگرام تشکیل دیا ۔
جس کے تحت ایک کلاس میں پچاس مسلمان اور پچاس ہی یہودی بچے موجود ہوتے تھے۔ ہم نے ان مشترکہ چیزوں کا ذکرکیا جو مسلمانوں اور یہودیوں میں پائی جاتی ہیں۔ اس طرح نہ صرف دونوں کے درمیان غلط فہمیاں دور ہوئیں بلکہ مجھے پورے امریکا سے پانچ سے چھ ہزار خطوط موصول ہوئے، امریکا کی دیگر ریاستیں اس پروگرام کوکاپی کرنا چاہتی تھیں گوکہ یہ پروگرام اب بجٹ کی کمی کے باعث رکا ہوا ہے ۔ میں پولیس کیڈٹس کو مسجد لے کر جاتا ہوں اور ان کو پڑھاتا ہوں کہ مسلمان کیا ہیں؟ میں نے کہا کہ آپ نے امریکن پولیس کے نظام پر خاصی تفصیل سے گفتگوکی ہے یہ بتائیں کہ آپ پاکستان کے اندرکیا کام کر رہے ہیں۔
وہ جوابا گویا ہوئے کہ امریکا میں مقیم پاکستانی چاہتے ہیں کہ ان کے آبائی وطن کا بھی بھلا ہو۔ میری اس ضمن میں ایک تجویز یہ ہے کہ یہاں مقیم افراد کے لیے بیس یا پچاس ڈالر اکٹھا دینا کوئی مشکل بات نہیں تو سب سے پہلے توکراچی میں پولیس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے پولیس اسٹیشنزکوگود لینے کا عمل شروع ہونا چاہیے۔ میں نے ذاتی حیثیت میں یہ آفر دے رکھی ہے کہ کسی بھی شہید پولیس آفیسر کے بیٹے کو یہاں ایجوکیشن دلوانے کے اخراجات میں خود برداشت کروں گا۔ یقینا کراچی پولیس کے حکام اس پر جلد عمل کی تدبیر نکالیں گے۔ کراچی کے علاقوں لانڈھی ،کورنگی اور ملیر میں بھی لوگوں کی فلاح کے لیے کام کر رہا ہوں ۔
یہ سب کچھ اپنی جیب سے کرتا ہوں ،کسی سے چندہ نہیں لیتا۔ میں نے پوچھا کہ آپ پاکستانی ہیں، یہاں کے لوگ آپ سے کتنی محبت کرتے ہیں؟ دنیا کے مختلف ممالک کے یہاں مقیم ہیں ، سب مجھے عزت اور پیار دیتے ہیں یہی میرا صلہ ہے۔ میں نے کہا کہ امریکا کے خلاف پاکستانیوںکے جذبات اور تحفظات بھی تو ہیں؟ تو انھوں نے جوابا کہا کہ جس تھالی میں کھاؤ اس میں چھید نہ کرو کی مثال کو سامنے رکھیں، ہم امریکا سے بھی محبت کرتے ہیں۔ یہاں سب کے لیے ترقی کے یکساں مواقعے موجود ہیں جن سے ہم سب فائدہ اٹھاتے ہیں تو پھر امریکا کے وفادارکیوں نہ ہوں؟ سنا ہے کہ آپ پولیس سے ریٹائرمنٹ کے بعد الیکشن میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ جی ہاں! آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ دراصل اس ملک نے ہمیں سب کچھ دیا ہے۔ ہم قانون کے اندر رہتے ہوئے سب کچھ کرسکتے ہیں ۔ الیکشن میں ری پبلکن کی جانب سے پولیس چیف کا انتخاب لڑرہا ہوں جو نومبر میں منعقد ہونگے مجھے قوی امید ہے کہ تمام رنگ ونسل کے لوگوں کا ووٹ مجھے ملے گا۔
میں نے اپنے اس کالم میں ایکسپریس کے قارئین سے یہ گفتگو اس لیے شیئرکی ہے کہ یہ انتہائی مفید نکات پر مشتمل ہے، مجھے آپ کے فیڈ بیک کا انتظار شدت سے رہے گا۔