آسٹریلیا میں آتشزدگی کلائمیٹ چینج کا شاخسانہ
جنگلات ميں لگی خوفناک آگ سے تقریباً 48 کروڑ سے زائد جانور ہلاک ہوگئے، جن میں کئی نایاب نسل کے جانور بھی شامل ہیں
آسٹريليا کے جنگلات ميں لگی خوفناک آگ سے تقریباً 48 کروڑ سے زائد جانور ہلاک ہوگئے، جن میں کئی نایاب نسل کے جانور بھی شامل ہیں۔ اس آگ نے دو درجن سے زائد انسانی زندگیاں بھی نگل لیں۔ آگ سے آسٹریلیا کے مشرقی ساحل کے ساتھ موجود بے شمار گھر جل کر خاکستر ہوگئے، ہزاروں افراد بے گھر اور سیکڑوں سیاح بھی علاقے میں پھنس گئے تھے، جنھیں بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔ جبکہ آگ کی ہولناکی اور تیزی سے پھیلنے کے باعث ہزاروں مقامی افراد کو گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی بھی کرنی پڑی۔
یونيورسٹی آف سڈنی کے ماہرين ماحوليات کا کہنا ہے کہ خوفناک شعلوں کی لپيٹ ميں آکر اب تک 48 کروڑ چوپائے اور دیگر رینگنے والے جانور اور پرندے ہلاک ہوچکے ہيں۔ کوالا بیئر کی 30 فيصد آبادی ختم ہونے جبکہ کئی جانوروں کی تو نسل ہی معدوم ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
چند روز قبل آگ میں مزید شدت آنے کے بعد آسٹریلیا کے محکمہ موسمیات نے ہیٹ ویو الرٹ بھی جاری کردیا تھا۔ آسٹریلیا کے مختلف شہروں نیو ساؤتھ ویلز اور وکٹوریہ میں 200 سے زائد مقامات پر آگ لگی ہوئی ہے جس پر قابو پانے کےلیے آسٹریلیا کے وزیراعظم نے مزید 4 پانی کا چھڑکاؤ کرنے والے طیارے لیز پر حاصل کرنے کےلیے 20 ملین ڈالر جاری کردیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2 طیارے 7 دن جبکہ 2 پندرہ دن کے اندر مل جائیں گے۔ آگ پر قابو پانے کےلیے ریزرو فورسز کے 15 ہزار رضاکاروں کی خدمات بھی حاصل کرلی گئی تھیں، مگر اتنے بڑے پیمانے پر کی جانے والی ریسکیو کوششیں بھی بارآور ثابت نہ ہوسکیں اور آگ بے قابو ہوتی چلی گئی۔ جس کے بعد مقامی عیسائی اور مسلمان کمیونٹی نے عالمی برادری سے بارش کی دعا کی اپیل کی اور اجتماعی دعاؤں کا اہتمام بھی کیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق کچھ علاقوں میں موسلادھار بارشوں کے بعد آگ کی شدت کم ہوگئی ہے۔ جبکہ دیگر علاقوں میں شدت میں اضافہ ہوا ہے اور نیو ساؤتھ ویلز میں ہی 2000 سے زائد گھر جل کر خاکستر ہوچکے ہیں۔
شدید گرمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آسٹریلیا کے جنگلات میں آگ لگنا اب کوئی نئی بات نہیں رہی، مگر نیو ساؤتھ ویلز میں جو تباہی حالیہ آتشزدگی نے مچائی ہے، وہ اس سے پہلے کبھی نوٹ نہیں کی گئی۔ یہاں تک کے بلیو ماؤنٹین میں واقع نیشنل پارک بھی آگ کے شعلوں سے محفوظ نہیں رہا۔ جس کے بعد آسٹریلیا کے دوسرے بڑے شہر جیسے سڈنی اور میلبورن میں بھی آگ سے تباہیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ سیکڑوں گھروں کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد آگ تیزی سے پھیل رہی ہے اور شہری علاقے گہرے دھوئیں کے بادلوں کی زد میں ہیں۔ اس دھویں کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ماہ قبل دسمبر میں ہوا عمومی مقدار سے 11 گنا زیادہ زہریلی ہوچکی تھی۔
آسٹریلیا میں آگ کس وجہ سے لگتی ہے؟
ہر برس خشک موسم اور شدید درجۂ حرارت کے باعث آسٹریلیا کے جنگلات میں آگ لگنا اب معمول کا حصہ ہے۔ مگر یہ امر غور طلب ہے کہ تیزی سے بڑھتی ماحولیاتی تبدیلیوں، گلوبل وارمنگ اور طویل خشک سالی سے باعث اب نا صرف آگ لگنے کے واقعات تسلسل کے ساتھ ہورہے ہیں بلکہ ان میں ماضی کی نسبت شدت بھی آتی جارہی ہے، جس کا واضح ثبوت موجودہ صورتحال ہے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات آگ آسمانی بجلی گرنے سے بھی لگتی ہے اور دسمبر 2019 میں مشرقی وکٹوریا گپز لینڈ میں آگ آسمانی بجلی گرنے ہی سے لگی تھی، جو تیزی سے ساتھ پھیلتی گئی اور ایک ماہ میں بھی اس پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ ماہرین نے اسے آسٹریلوی تاریخ کی بدترین آگ قرار دیا ہے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ماہرینِ ماحولیات اور ارضیات کے مطابق اتنی خوفناک آگ انھوں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی۔ وسیع پیمانے پر آگ بجھانے کی کوششوں کے باوجود یہ آگ آسٹریلیا کے جتنے بڑے رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اس سے خدشہ ہے کہ آسٹریلیا کا قدرتی موسم اور ایکولوجی میں شاید ایسی بڑی تبدیلیاں رونما ہوجائیں جن کے بعد واپس پرانے ایکو سسٹم میں جانا ممکن نہیں رہے گا۔ اگرچہ جنگلات کی آگ آسٹریلیا کے ماحولیاتی سسٹم کا ایک حصہ بن چکی ہیں اور آسٹریلیا کا شمار دنیا کے ان تین اہم علاقوں میں ہوتا ہے جو جنگلات میں آگ کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ یہاں اگنے والے نباتات اورحیوانات اپنے آپ کو اس آگ کے مطابق ڈھال چکے ہیں۔ مثلاً آسٹریلیا میں پائے جانے والے دو اہم پودے اکاشیا اونسی نو کارپا اور یوکلپٹس مینیاتا ہیں، جو خود کو جنگلات کی آگ میں بچانے اور اپنی بقا کےلیے اس ماحول سے مطابقت پیدا کرچکے ہیں۔
مگر 26 ملین ایکڑ (دو کروڑ ساٹھ لاکھ ایکڑ) سے زیادہ رقبے پر پھیلی یہ آگ اب قابو سے باہر ہوچکی ہے۔ ماہرین کے ان خدشوں کی تصدیق آسٹریلوی جنگلات سے موصول ہونے والی تصویریں بھی کررہی ہیں جن میں صدیوں سے ان علاقوں میں آباد مقامی جانور جیسے کینگرو، کوالا وغیرہ میں خوف و ہراس دیدنی ہے۔ اور ان میں سے بہت سی تصویریں ہر درد مند دل کو رلانے کےلیے کافی ہیں۔
کولوراڈو یونیورسٹی کے پروفیسر اور معروف ایکولوجسٹ اسٹیون ریومین کے مطابق کسی علاقے کا ایکو سسٹم چند برسوں یا عشروں میں نہیں بلکہ صدیوں میں وجود میں آتا ہے اور یہاں بسنے والے انسانوں سمیت حیوانات و نباتات اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ مگر چند ماہ یا سال میں ایکو سسٹم میں ہونے والی بڑی تبدیلی پر خود کو ڈھالنا کسی کےلیے بھی ممکن نہیں ہوتا۔ لہٰذا خدشہ ہے کہ اس آگ پر قابو پانے کے بعد آسٹریلیا ہمیشہ کےلیے تبدیل ہوجائے۔ دیگر ماہرین جنگلات کے مطابق یہ صورتحال ہمارے لیے اچھنبے کا باعث ہے۔ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث خشک سالی کے دورانیے طویل اور شدید تر ہوچکے ہیں۔ اسی لیے ماہرین ایک عرصے سے یہ خدشہ ظاہر کرتے رہے ہیں کہ اگر موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر جلد قابو نہ پایا گیا یا ان کی شدت کم کرنے کےلیے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے، تو مستقبل میں خشک سالی میں بھڑکنے والی جنگلات کی آگ کسی بڑے المیے یا قدرتی آفت کا باعث بن سکتی ہے۔ کیونکہ بارشیں نہ ہونے کے باعث جنگلات کی خشک لکڑی تیزی سے بھڑک اٹھتی ہے اور آگ پھیلتی چلی جاتی ہے۔
آسٹریلیا کی تاریخ کی بدترین آگ کون سی ہے؟
تاریخی حوالہ جات کے مطابق آسٹریلوی تاریخ کی بدترین آگ 6 فروری 1851 کو لگی تھی، جسے ''بلیک فرائیڈے بش فائر'' کہا جاتا ہے۔ یہ آگ ایک ہی وقت میں کئی مقامات پر بھڑکی تھی، جس کی وجہ شدید گرم ماحول تقریباً 47 سینٹی گریڈ ڈگری میں شدید خشک سالی تھی۔ شمال کی جانب سے چلنے والی تپتی ہوئی گرم ہوا نے اچانک رفتار پکڑی تو خشک گھاس میں آگ بھڑک اٹھی، جو تیزی کے ساتھ پھیلتی چلی گئی۔ اس کے نتیجے میں آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریا میں 50 لاکھ ہیکٹر سے زائد رقبہ آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ 12 افراد اور تقریباً 10 لاکھ مویشی ہلاک ہوئے، جن میں کئی نایاب نسل کے جانور بھی شامل تھے۔
آسٹریلیا میں تباہی پھیلانے والی آگ کی دیگر وجوہات کچھ بھی رہی ہوں، اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا کے مختلف خطوں کے صدیوں پرانے ایکو سسٹم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسدانوں اور محققین نے ''کلائمیٹ چینج'' کو 2020 کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے۔ اگرچہ مغربی ممالک اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھانے پر کمربستہ ہیں، مگر پاکستانی حکومت اور عوام اب بھی ہمیشہ کی طرح خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔
فی الوقت صوبۂ پنجاب اور سندھ کو تاریخ کے شدید ترین موسم سرما کا سامنا ہے اور ماہرین 2020 کے موسم گرما کو پہلے ہی شدید ترین قرار دے چکے ہیں۔ یقیناً ہمارا ملک آسٹریلیا جیسے کسی بڑے ڈیزاسٹر کا متحمل ہرگز نہیں ہوسکتا، جو پہلے ہی اندرونی خلفشار، بیرونی سازشوں اور کمزور ترین حکومت کی وجہ سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ یہی وقت ہے کہ عوام اور ماہرین، حکومت پر اکتفا کرنے کے بجائے لازمی معلومات حاصل کرکے ازخود اقدامات اور حفاظتی تدابیر کا آغاز کریں۔ اس سلسلے میں میڈیا بھی ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ہر وقت سیاست اور شو بزنس کی چٹ پٹی خبریں نشر کرنے کے بجائے الیکٹرانک میڈیا عوام میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کوشش کرے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یونيورسٹی آف سڈنی کے ماہرين ماحوليات کا کہنا ہے کہ خوفناک شعلوں کی لپيٹ ميں آکر اب تک 48 کروڑ چوپائے اور دیگر رینگنے والے جانور اور پرندے ہلاک ہوچکے ہيں۔ کوالا بیئر کی 30 فيصد آبادی ختم ہونے جبکہ کئی جانوروں کی تو نسل ہی معدوم ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
چند روز قبل آگ میں مزید شدت آنے کے بعد آسٹریلیا کے محکمہ موسمیات نے ہیٹ ویو الرٹ بھی جاری کردیا تھا۔ آسٹریلیا کے مختلف شہروں نیو ساؤتھ ویلز اور وکٹوریہ میں 200 سے زائد مقامات پر آگ لگی ہوئی ہے جس پر قابو پانے کےلیے آسٹریلیا کے وزیراعظم نے مزید 4 پانی کا چھڑکاؤ کرنے والے طیارے لیز پر حاصل کرنے کےلیے 20 ملین ڈالر جاری کردیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2 طیارے 7 دن جبکہ 2 پندرہ دن کے اندر مل جائیں گے۔ آگ پر قابو پانے کےلیے ریزرو فورسز کے 15 ہزار رضاکاروں کی خدمات بھی حاصل کرلی گئی تھیں، مگر اتنے بڑے پیمانے پر کی جانے والی ریسکیو کوششیں بھی بارآور ثابت نہ ہوسکیں اور آگ بے قابو ہوتی چلی گئی۔ جس کے بعد مقامی عیسائی اور مسلمان کمیونٹی نے عالمی برادری سے بارش کی دعا کی اپیل کی اور اجتماعی دعاؤں کا اہتمام بھی کیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق کچھ علاقوں میں موسلادھار بارشوں کے بعد آگ کی شدت کم ہوگئی ہے۔ جبکہ دیگر علاقوں میں شدت میں اضافہ ہوا ہے اور نیو ساؤتھ ویلز میں ہی 2000 سے زائد گھر جل کر خاکستر ہوچکے ہیں۔
شدید گرمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آسٹریلیا کے جنگلات میں آگ لگنا اب کوئی نئی بات نہیں رہی، مگر نیو ساؤتھ ویلز میں جو تباہی حالیہ آتشزدگی نے مچائی ہے، وہ اس سے پہلے کبھی نوٹ نہیں کی گئی۔ یہاں تک کے بلیو ماؤنٹین میں واقع نیشنل پارک بھی آگ کے شعلوں سے محفوظ نہیں رہا۔ جس کے بعد آسٹریلیا کے دوسرے بڑے شہر جیسے سڈنی اور میلبورن میں بھی آگ سے تباہیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ سیکڑوں گھروں کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد آگ تیزی سے پھیل رہی ہے اور شہری علاقے گہرے دھوئیں کے بادلوں کی زد میں ہیں۔ اس دھویں کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ماہ قبل دسمبر میں ہوا عمومی مقدار سے 11 گنا زیادہ زہریلی ہوچکی تھی۔
آسٹریلیا میں آگ کس وجہ سے لگتی ہے؟
ہر برس خشک موسم اور شدید درجۂ حرارت کے باعث آسٹریلیا کے جنگلات میں آگ لگنا اب معمول کا حصہ ہے۔ مگر یہ امر غور طلب ہے کہ تیزی سے بڑھتی ماحولیاتی تبدیلیوں، گلوبل وارمنگ اور طویل خشک سالی سے باعث اب نا صرف آگ لگنے کے واقعات تسلسل کے ساتھ ہورہے ہیں بلکہ ان میں ماضی کی نسبت شدت بھی آتی جارہی ہے، جس کا واضح ثبوت موجودہ صورتحال ہے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات آگ آسمانی بجلی گرنے سے بھی لگتی ہے اور دسمبر 2019 میں مشرقی وکٹوریا گپز لینڈ میں آگ آسمانی بجلی گرنے ہی سے لگی تھی، جو تیزی سے ساتھ پھیلتی گئی اور ایک ماہ میں بھی اس پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ ماہرین نے اسے آسٹریلوی تاریخ کی بدترین آگ قرار دیا ہے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ماہرینِ ماحولیات اور ارضیات کے مطابق اتنی خوفناک آگ انھوں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی۔ وسیع پیمانے پر آگ بجھانے کی کوششوں کے باوجود یہ آگ آسٹریلیا کے جتنے بڑے رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اس سے خدشہ ہے کہ آسٹریلیا کا قدرتی موسم اور ایکولوجی میں شاید ایسی بڑی تبدیلیاں رونما ہوجائیں جن کے بعد واپس پرانے ایکو سسٹم میں جانا ممکن نہیں رہے گا۔ اگرچہ جنگلات کی آگ آسٹریلیا کے ماحولیاتی سسٹم کا ایک حصہ بن چکی ہیں اور آسٹریلیا کا شمار دنیا کے ان تین اہم علاقوں میں ہوتا ہے جو جنگلات میں آگ کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ یہاں اگنے والے نباتات اورحیوانات اپنے آپ کو اس آگ کے مطابق ڈھال چکے ہیں۔ مثلاً آسٹریلیا میں پائے جانے والے دو اہم پودے اکاشیا اونسی نو کارپا اور یوکلپٹس مینیاتا ہیں، جو خود کو جنگلات کی آگ میں بچانے اور اپنی بقا کےلیے اس ماحول سے مطابقت پیدا کرچکے ہیں۔
مگر 26 ملین ایکڑ (دو کروڑ ساٹھ لاکھ ایکڑ) سے زیادہ رقبے پر پھیلی یہ آگ اب قابو سے باہر ہوچکی ہے۔ ماہرین کے ان خدشوں کی تصدیق آسٹریلوی جنگلات سے موصول ہونے والی تصویریں بھی کررہی ہیں جن میں صدیوں سے ان علاقوں میں آباد مقامی جانور جیسے کینگرو، کوالا وغیرہ میں خوف و ہراس دیدنی ہے۔ اور ان میں سے بہت سی تصویریں ہر درد مند دل کو رلانے کےلیے کافی ہیں۔
کولوراڈو یونیورسٹی کے پروفیسر اور معروف ایکولوجسٹ اسٹیون ریومین کے مطابق کسی علاقے کا ایکو سسٹم چند برسوں یا عشروں میں نہیں بلکہ صدیوں میں وجود میں آتا ہے اور یہاں بسنے والے انسانوں سمیت حیوانات و نباتات اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ مگر چند ماہ یا سال میں ایکو سسٹم میں ہونے والی بڑی تبدیلی پر خود کو ڈھالنا کسی کےلیے بھی ممکن نہیں ہوتا۔ لہٰذا خدشہ ہے کہ اس آگ پر قابو پانے کے بعد آسٹریلیا ہمیشہ کےلیے تبدیل ہوجائے۔ دیگر ماہرین جنگلات کے مطابق یہ صورتحال ہمارے لیے اچھنبے کا باعث ہے۔ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث خشک سالی کے دورانیے طویل اور شدید تر ہوچکے ہیں۔ اسی لیے ماہرین ایک عرصے سے یہ خدشہ ظاہر کرتے رہے ہیں کہ اگر موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر جلد قابو نہ پایا گیا یا ان کی شدت کم کرنے کےلیے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے، تو مستقبل میں خشک سالی میں بھڑکنے والی جنگلات کی آگ کسی بڑے المیے یا قدرتی آفت کا باعث بن سکتی ہے۔ کیونکہ بارشیں نہ ہونے کے باعث جنگلات کی خشک لکڑی تیزی سے بھڑک اٹھتی ہے اور آگ پھیلتی چلی جاتی ہے۔
آسٹریلیا کی تاریخ کی بدترین آگ کون سی ہے؟
تاریخی حوالہ جات کے مطابق آسٹریلوی تاریخ کی بدترین آگ 6 فروری 1851 کو لگی تھی، جسے ''بلیک فرائیڈے بش فائر'' کہا جاتا ہے۔ یہ آگ ایک ہی وقت میں کئی مقامات پر بھڑکی تھی، جس کی وجہ شدید گرم ماحول تقریباً 47 سینٹی گریڈ ڈگری میں شدید خشک سالی تھی۔ شمال کی جانب سے چلنے والی تپتی ہوئی گرم ہوا نے اچانک رفتار پکڑی تو خشک گھاس میں آگ بھڑک اٹھی، جو تیزی کے ساتھ پھیلتی چلی گئی۔ اس کے نتیجے میں آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریا میں 50 لاکھ ہیکٹر سے زائد رقبہ آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ 12 افراد اور تقریباً 10 لاکھ مویشی ہلاک ہوئے، جن میں کئی نایاب نسل کے جانور بھی شامل تھے۔
آسٹریلیا میں تباہی پھیلانے والی آگ کی دیگر وجوہات کچھ بھی رہی ہوں، اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا کے مختلف خطوں کے صدیوں پرانے ایکو سسٹم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسدانوں اور محققین نے ''کلائمیٹ چینج'' کو 2020 کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے۔ اگرچہ مغربی ممالک اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھانے پر کمربستہ ہیں، مگر پاکستانی حکومت اور عوام اب بھی ہمیشہ کی طرح خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔
فی الوقت صوبۂ پنجاب اور سندھ کو تاریخ کے شدید ترین موسم سرما کا سامنا ہے اور ماہرین 2020 کے موسم گرما کو پہلے ہی شدید ترین قرار دے چکے ہیں۔ یقیناً ہمارا ملک آسٹریلیا جیسے کسی بڑے ڈیزاسٹر کا متحمل ہرگز نہیں ہوسکتا، جو پہلے ہی اندرونی خلفشار، بیرونی سازشوں اور کمزور ترین حکومت کی وجہ سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ یہی وقت ہے کہ عوام اور ماہرین، حکومت پر اکتفا کرنے کے بجائے لازمی معلومات حاصل کرکے ازخود اقدامات اور حفاظتی تدابیر کا آغاز کریں۔ اس سلسلے میں میڈیا بھی ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ہر وقت سیاست اور شو بزنس کی چٹ پٹی خبریں نشر کرنے کے بجائے الیکٹرانک میڈیا عوام میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کوشش کرے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔