دل تباہ کی روداد

عوام کا آسرا کس پر ہو گا، خدا کے بعد اپنے حکمرانوں پر یا کسی بیرونی طاقت پر؟

h.sethi@hotmail.com

تین دن قبل ہمدم دیرینہ کا ٹیلیفون آیا اور انھوں نے جگر مراد آبادی کے دو شعر سنائے۔ میں نے شعر سن کر کہا دوبارہ پڑھئے کیونکہ میں نے کار سڑک کے کنارے روک لی ہے اور کاغذ قلم نکال کر انھیں لکھنے لگا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ دیکھو بھئی میں غیر سیاسی شخص ہوں، شعر پسند آئے تو سوچا تمہیں بھی سنا دوں، ویسے کل شام آ جائو بہت سے اچھے شعر اپنی ڈائری میں اتار چکا ہوں۔ یوں طے ہو گیا کہ میں آیندہ روز ان کے ہاں مقابلۂ شعر و شاعری کے لیے پہنچوں گا۔ پہلے وہ دو شعر تحریر کرتا ہوں جن کو سن کر نشست طے ہوئی۔

دل تباہ کی روداد اور کیا کہئے
خود اپنے شہر کو فرمانروا نے لوٹ لیا
آپس میں الجھتے ہیں عبث شیخ و برہمن
کعبہ نہ کسی کا ہے نہ بت خانہ کسی کا

دوسرے روز نیت تو لمبی نشست کی تھی لیکن جسٹس ریٹائرڈ سید جمشید علی کے گھر پہنچ کر میں نے کہا کہ صرف دس منٹ بیٹھوں گا، میرا موڈ بے حد آف ہے کیونکہ رستے میں شہزاد میاں کے ہاں رک گیا تو ان کی بیٹی نے' جو کینیڈا میں تعلیم حاصل کر کے واپس آئی ہے' میرے پوچھنے پر جواب دیا کہ وہ واپس چلی جائے گی کیونکہ پاکستان کے حالات اب اس قابل نہیں کہ یہاں رہا جائے۔ میں نے دس منٹ کے بعد یہ کہہ کر اجازت چاہی کہ میں ابھی صدمے سے دوچار ہوں کہ بچی جس کی ایک آنٹی اور ایک کزن ملک کی پارلیمنٹ میں بیٹھی ہوں، ملک کے بارے میں ایسی سوچ رکھتی ہے تو عوام کا آسرا کس پر ہو گا۔ خدا کے بعد اپنے حکمرانوں پر یا کسی بیرونی طاقت پر؟ پاکستان کے تقریباً تمام بااختیار' صاحبان اقتدار افراد اور امرأ کے نہ صرف بھاری اثاثے ملک سے باہر ہیں بلکہ ان کے گھروں کے کئی کئی ممبر مثلاً بچے، بھائی، بھتیجے، سالے اور قریبی رشتہ دار وہاں اپنے ذاتی مکانوں میں رہائش رکھتے ہیں۔ پاکستان سے بیرونی دورے اور Pleasure Trips ان کے لیے ''بھاٹی لوہاری'' بنے ہوئے ہیں۔

کالم یہاں تک تحریر ہوا تھا کہ موضوع کی سپرٹ سے ملتی جلتی واردات کا میں خود شکار ہو گیا۔ شب گزشتہ کا یہ واقعہ سنا دینا بے تکا نہ ہو گا۔ اپنے عزیزوں کی ایک فیملی کو' جو بچوں کے ساتھ اپنے والدین سے ملنے باہر سے آئی ہوئی تھی' رات بارہ بجے ہوائی اڈے پر چھوڑنا میری ذمے داری تھی کہ وہ ایک غیر ملکی ایئرلائن کے جہاز سے واپس جا سکیں۔ میں نے چار گھنٹے قبل جہاز کی روانگی کا وقت کنفرم کرنے کے لیے فون کرنا شروع کیا جس میں تکلیف دہ ناکامی کے بعد رات بارہ بجے اس فیملی کو بھاگم بھاگ ایئرپورٹ لے گیا۔ وہاں معلوم ہوا کہ ایک جہاز کی لینڈنگ سے ایمرجنسی پیدا ہونے کی وجہ سے نہ کوئی بڑا جہاز ایئرپورٹ پر اتر سکتا ہے نہ ٹیک آف کر سکتا ہے۔


بیرون ملک جانے والے مسافروں اور انھیں الوداع کہنے والوں کو گائیڈ کرنے اور یہ بتانے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ جن مہمانوں کو میں چھوڑنے گیا ان کا غیر ملکی ایئرلائن کا جہاز دبئی سے آنا تھا اور بیسیوں فیملیز نے اس پر بیرون ملک روانہ ہونا تھا۔ رات ڈیڑھ بجے بتایا گیا کہ فلائٹ کے آنے اور پھر مسافر لے جانے کے بارے میں کچھ یقینی نہیں' دفتر معلومات سے رابطہ کریں۔ انکوائری ڈیوٹی پر تعینات ملازم بھی تنگ آئے ہوتے ہیں وہ ٹیلیفون کال پر بات کرنے کے بجائے فون بند کر دیتے اور اپنی نیند پوری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اب مقامی مسافر تو اپنے عزیزوں کے ساتھ ان کی کاروں پر واپس گھروں کو جانے لگے لیکن دور دراز سے آنے والوں نے ایئرپورٹ لائونج کے فرش کو بستر بنا لیا اور سامان کو تکیہ بنا کر یا اس پر ٹانگیں رکھ کر یعنی حفاظتی انتظام کر کے وہیں لیٹ گئے۔ واپس گھر آ کر ایئرپورٹ انکوائری کو فون کرنا شروع کیے۔ سوتے جاگتے چار بجے صبح کال مل گئی اور انکوائری نے کہا کہ مسافروں کو لے کر آ جائیں صبح سات بجے جہاز کی روانگی متوقع ہے۔

صبح ساڑھے چار بجے ایئرپورٹ لاہور کے لائونج کا منظر ایک لاری اڈے جیسا تھا جہاں نیم بیہوش مسافر اور ان کے عزیز رشتہ دار فرش پر بیٹھے اور لیٹے ہوئے دیکھے۔ معلوم ہوا کہ گزشتہ روز لینڈ کرتے ہوئے سلپ ہو جانے والے جہاز کے مسافروں کو معمولی چوٹیں آئیں لیکن اب رن وے کلیئر ہو گیا ہے۔

ملک سے باہر اپنے گھروں کو لوٹنے والے مسافر چیک ان ہونے ایئرپورٹ کی عمارت میں چلے گئے لیکن بہت سوں نے آگے Connecting Flights لینا تھیں اب وہ چار پانچ گھنٹے لیٹ ہو گئے تو ان کے لیے اگلے ایئرپورٹس پر نئی مشکلات منتظر ہوں گی۔

اپنے عزیزوں کو رخصت کر کے واپسی پر میری حالت بھی غیر تھی۔ اب مجھے شہزاد میاں کی بیٹی کی بات یاد آئی کہ وہ کیوں واپس چلی جانا چاہتی ہے۔ میں اب سوچ رہا ہوں ہم اپنے واپس جانے والے عزیزوں کو کیسا Send off دیتے ہیں۔ ہم اپنے سسٹم ہی کو ٹھیک کر لیں تو بہت سی آسانیاں پیدا کرسکتے ہیں۔

باقی رہی ہمدم دیرینہ سے ملاقات یا تجدید ملاقات وہ تو پس منظر ہی میں چلی گئی۔
Load Next Story