کراچی میں ماہی گیروں نے 40 لاکھ روپے مالیت کی دو قیمتی مچھلیاں پکڑلیں
دو قیمتی سوا مچھلیاں جال میں آئیں جن میں سے ہر ایک کی قیمت 20 لاکھ روپے بتائی جارہی ہے
شہر قائد میں ابراہیم حیدر کے ماہی گیروں نے 40 لاکھ روپے مالیت کی دو قیمتی ترین مچھلیاں پکڑلیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری کے ماہی گیروں کی قسمت کھل گئی، مہنگی ترین تصور کی جانے والی ''سوا'' مچھلی سمندر میں شکار کے دوران ماہی گیروں کے جال میں پھنس گئی، جال میں پھنسنے والی ہیرا مچھلی کے علاوہ دو عدد ''سُوا'' مچھلیاں بھی شامل ہیں جن کی فی کس قیمت 20 لاکھ روپے سے زائد بتائی جاتی ہے۔
کوسٹل میڈیا سینٹر ابراہیم حیدری کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ماہی گیرقیمتی آبی حیات کے شکار پر خوشی کے عالم میں محورقص ہیں۔
واضح رہے کہ مقامی زبان میں سوا نامی مچھلی خود کو پانی پر تیرانے کے لیے ایک اچھال (بایونسی) جھلی اپنے جسم میں رکھتی ہے۔ اس جھلی کو مقامی ماہی گیر پھوٹی کہتے ہیں۔
ماحولیاتی قلم کار اور شجرکاری کو فروغ دینے والے سلیمان عبداللہ نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مچھلی کے مہنگا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بالغ سوا کی جھلی سے سرجری کے دھاگے (ٹانکے) بنتے ہیں اور یہ دھاگے جسم کی اندرونی جراحی میں استعمال ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ سوا مچھلی کی اندرونی جھلی سے بننے والے ریشے قدرتی طور پر بایو ڈگریڈیبل ہوتے ہیں اور جسم کے اندر جاکر کچھ عرصے بعد از خود گھل کر ختم ہوجاتے ہیں۔
سلیمان عبداللہ نے کہا کہ یہ مچھلی اگر سمندر میں مرجائے تو سطح آپ پر تیرنے لگتی ہے۔ اب سے کوئی دس سال قبل ایک مچھلی کسی بچے کو ملی تھی جو مقامی تاجر نے فوراً پانچ ہزار روپے میں خریدلی تھی۔
سوا مچھلی کو بلوچستان میں ''کیر'' کہا جاتا ہے اور اپنے طبی استعمال کی وجہ سے ایک مچھلی لاکھوں روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ کراچی سے پکڑی جانے والی ایک مچھلی کی قیمت کا اندازہ 20 لاکھ روپے لگایا گیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری کے ماہی گیروں کی قسمت کھل گئی، مہنگی ترین تصور کی جانے والی ''سوا'' مچھلی سمندر میں شکار کے دوران ماہی گیروں کے جال میں پھنس گئی، جال میں پھنسنے والی ہیرا مچھلی کے علاوہ دو عدد ''سُوا'' مچھلیاں بھی شامل ہیں جن کی فی کس قیمت 20 لاکھ روپے سے زائد بتائی جاتی ہے۔
کوسٹل میڈیا سینٹر ابراہیم حیدری کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ماہی گیرقیمتی آبی حیات کے شکار پر خوشی کے عالم میں محورقص ہیں۔
واضح رہے کہ مقامی زبان میں سوا نامی مچھلی خود کو پانی پر تیرانے کے لیے ایک اچھال (بایونسی) جھلی اپنے جسم میں رکھتی ہے۔ اس جھلی کو مقامی ماہی گیر پھوٹی کہتے ہیں۔
ماحولیاتی قلم کار اور شجرکاری کو فروغ دینے والے سلیمان عبداللہ نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مچھلی کے مہنگا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بالغ سوا کی جھلی سے سرجری کے دھاگے (ٹانکے) بنتے ہیں اور یہ دھاگے جسم کی اندرونی جراحی میں استعمال ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ سوا مچھلی کی اندرونی جھلی سے بننے والے ریشے قدرتی طور پر بایو ڈگریڈیبل ہوتے ہیں اور جسم کے اندر جاکر کچھ عرصے بعد از خود گھل کر ختم ہوجاتے ہیں۔
سلیمان عبداللہ نے کہا کہ یہ مچھلی اگر سمندر میں مرجائے تو سطح آپ پر تیرنے لگتی ہے۔ اب سے کوئی دس سال قبل ایک مچھلی کسی بچے کو ملی تھی جو مقامی تاجر نے فوراً پانچ ہزار روپے میں خریدلی تھی۔
سوا مچھلی کو بلوچستان میں ''کیر'' کہا جاتا ہے اور اپنے طبی استعمال کی وجہ سے ایک مچھلی لاکھوں روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ کراچی سے پکڑی جانے والی ایک مچھلی کی قیمت کا اندازہ 20 لاکھ روپے لگایا گیا ہے۔