بُک شیلف
کامیابیوں کی سیڑھیاں سب ہی چڑھنا چاہتے ہیں مگر کامیاب وہی ہوتے ہیں جو ذہانت اور ایمانداری کے ساتھ محنت کو اپناتے ہیں۔
SUKKUR:
انداز بیاں اور
صفحات : 271،ناشر: مشرق و مغرب پبلی کیشنز ، بریڈ فورڈ یوکے
زندگی میں کامیابیوں اور کامرانیوں کی سیڑھیاں سب ہی چڑھنا چاہتے ہیں مگر اس میں کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو ذہانت اور ایمانداری کے ساتھ محنت اور لگن کو اپناتے ہیں ۔ لارڈ نذیر احمد نے سکول کی سطح سے ہی اپنی ذہانت و قابلیت کا لوہا منوا لیا تھا ، کالج کے زمانے میں سٹوڈنٹ پالیٹکس میں قدم رکھا اور سٹوڈنٹ یونین کے صدر منتخب ہو گئے ، اپنی جرات اور بے باکی وجہ سے وہ طالب علموں میں بہت مقبول ہوئے ۔ یوں سیاست میں قدم رکھنے کی ابتدا ہوئی۔ اس کے بعد لیبر پارٹی میں سرگرم اور متحرک کردار ادا کیا اور مختلف مدارج طے کرتے ہوئے برطانیہ کے سب سے بڑے ایوان ہائوس آف لارڈز کے ممبر بنے۔ اس کتاب میں لارڈ نذیر احمد کے انٹرویوز کے علاوہ ان کی اہم تقریریں اور تحریریں مرتب کی گئی ہیں۔لارڈ نذیر نے اپنے ان انٹرویوز ، تقریروں اور تحریروں میں مختلف اہم قومی اور عالمی ایشوز ، معاملات اور تنازعات پر اپنا موقف ٹھوس دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے، دلائل میں مہارت ان کا خاصہ ہے، حقوق سے محروم افراد کے لئے آواز اٹھاکر انھوں نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی ۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنی زندگی کی کہانی بھی سنائی ہے جس سے ان کا عزم و ہمت عیاں ہوتا ہے۔ مجلدکتاب کو خوبصورت رنگین تصاویر سے مزین کیا گیا ہے۔
امریکی دہشت گردی۔ تاریخ اور اثرات
مرتب : میر بابر مشتاق،قیمت:330 روپے،ناشر: عثمان پبلی کیشنز' گلشن اقبال، کراچی
زیر نظر کتاب امریکی ظلم و بربریت اور ریا ستی دہشت گردی اور زیر دست ملکوں پرجابرانہ تسلط اور ان کے معاشی اور سماجی استحصال کے بارے میں چھپنے والے مضامین اور مقالو ں پر مشتمل ہے جن میں امریکی دہشت گردی کی تاریخ، اس کے مختلف انداز' امریکی دہشت گرد تنظیموں'پاکستان، عراق اور افغانستان میں امریکی دہشت گردی و بمباری ' امریکی فوجی خواتین پر جنسی تشددکی تمام تر تفصیلات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سی آئی اے کی مذموم سرگرمیوں اور امریکی سازشوں کے بارے میں چشم کشا واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ بہتر ہوتا اگر کتاب میں شامل تمام مضامین کے ساتھ مستند حوالے بھی دئیے جاتے، اس طرح کتاب کے اعتبار اور قبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا۔ بہرحال اپنے نفس مضمون اور حقائق کے سبب یہ کتاب پسند کی جائے گی۔ پروف کی کچھ خامیاں رہ گئی ہیں۔ کتاب کا پیش لفظ امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے تحریر کیا ہے۔ کتاب کا سرورق دیدہ زیب ہے۔ قیمت کچھ زیادہ ہے اگر قیمت مناسب کردی جائے تو قاری کا بھلا ہوجائے گا۔ مجموعی طور پر یہ ایک عمدہ کا وش ہے بالخصوص تاریخ کے طالب علموں کے لئے۔ مرتب میر بابر مشتاق ایک پرجوش لکھاری ہیں۔ زیرنظرکتاب سے پہلے ان کی دیگر متعدد کتابیں بھی لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہیں۔امید ہے کہ یہ کتاب بھی پسند کی جائے گی۔
گلیوں کے لوگ (ناول)
مصنف: اقبال حسن خان
ناشر: بزمِ تخلیقِ ادب پاکستان، پوسٹ بکس 17667، کراچی
صفحات: 271،قیمت: 400 روپے
اردو زبان میں داستان کی اہمیت سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ ناول آتے آتے یہ روایت نسبتاً کمزور پڑ گئی۔ اہم اردو ناول نگاروں میں چند ہی نام ہیں جو انگلیوں کی پوروں پر یاد رکھے جا سکتے ہیں۔ انہی میں سے ایک اقبال حسن خان ہیں جن کی ناول نگاری میں بہت وسیع امکانات موجود ہیں۔ جب آپ ,,شہزادے کی سرگزشت''،''آخرِ شب'' اور زیر نظر ناول دیکھتے ہیں تو تینوں کی موضوعات میں خاصا تنوع نظر آتا ہے، جو کہانی کی اٹھان اور بعد میں بنت کے ساتھ ساتھ نبھایا گیا ہے۔ جہاں تک اس ناول میں موجود مختلف زبانیں بولنے والے کرداروں اور ان کے محاورے کا تعلق ہے، تو صاحبو! اس پُلِ صراط پر سے ہمیں اقبال صاحب بخوبی گزرتے دکھائی دیتے ہیں، بلکہ یہ کہیں تو بے جا نہ ہو گا کہ ہر کردار ایک جیتا جاگتا، باتیں کرتا ہوا ذی نفس دکھائی دیتا ہے۔
اس ناول کی مجموعی فضا میں آزادیت (مولانا ابوالکلام آزاد کا فلسفہ) جھلکتی نظر آتی ہے، بلکہ کئی مقامات پر تو ان کی جامع مسجد دہلی میں کی گئی تقریر بہت یاد آئی۔ مذہبی اختلافات کو جس طریقے سے اس دور میں ہوا دی گئی اور اس کے نتیجے میں جو مظاہر سامنے آئے، اس ناول نے ان کا بہت خوب صورتی سے احاطہ کیا ہے۔ قاری کا مصنف کی آرا سے اتفاق ہو یا نہ ہو لیکن ناول کا آہنگ اتنا دل کش اور سادہ ہے کہ وہ اسے مکمل پڑھے اور اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں چھوڑے گا۔
''گلیوں کے لوگ'' ہمارے سیاسی، مذہبی اور معاشرتی زوال کی ایک ایسی داستان ہے جو Pluralismسے ہوتے ہوئے ایک متشددانہ اور Intolerent معاشرے کی صورت میں آج ہمیں درپیش ہے۔ ہمیں اس نہج پر پہنچانے والے سارے کردار، ملک سرفراز، مولانا عماد الدین، پتن خان وغیرہ کی صورت میں ہمارے سامنے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں، لیکن اصل میں یہ کہانی شکنتلا، بسم اﷲ جان اور کامریڈ صفدر جیسے گلیوں میں گھومتے پھرتے عام انسانوں کی ہے جن کی حالت زار علامہ اقبال نے اپنے ایک مصرع میں بڑی صراحت سے بیان کر دی ہے کہ
؎اے کُشتۂ سلطانی و مُلائی و پیری
اقبال حسن خان کی کہانی لکھنے کی Baptisچوںکہ ٹیلی ویژن سے ہوئی ہے (وہ متعدد کام یاب ٹی وی ڈرامے اور سیریلز تخلیق کر چکے ہیں) اس لیے وہ کہانی لکھتے وقت لکھاری کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ تبھی تو ''گلیوں کے لوگ'' کا قاری محض قاری نہیں رہتا بلکہ ناظر بھی بن جاتا ہے۔
اس ناول کے پڑھنے کا تجربہ پاکستان کی تاریخ پہ ایک خوبصورت ڈکومینٹری دیکھنے سے کم نہیں ہے اور ڈکومینٹری بھی ایسی کہ جس کی انگریزی میں یوں تعریف کی گئی ہے:
It is a creative interpretation of actualityفرانسیسی مصنف تونگی شغیغ(Henri Charriere)اپنی سوانح عمری (Papilon)میں قید تنہائی کے تجربے کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ قید تنہائی کے دوران آدمی جو سوچتا ہے، اسے دیکھ بھی سکتا ہے۔ اقبال حسن کی Visualizationیہ بتاتی ہے کہ اُنہوں نے زندگی کی 'قید تنہائی' کاٹ رکھی ہے۔ اسی لیے ان کی منظر نگاری، سرسری نہیں (جو کہ اپنے ارد گرد کو محض دیکھنے سے آتی ہے) بلکہ ایسی ہے کہ جو اپنے اطراف کو محسوس کرنے اور برتنے سے انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے ۔
''گلیوں کے لوگ'' پڑھنے کے بعد محسوس ہوا کہ اب ہمارے لیے آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ ہم چھیاسٹھ سال پیچھے جائیں اور اپنی آزادی کا سفر کا کراچی کے اس ریلوے کلرک سے دوبارہ شروع کریں!
دیدہ زیب ٹائٹل اور عمدہ طباعت والی اس کتاب کو بزم تخلیق کراچی نے چھاپا ہے اور یہ بک ہوم کے علاوہ کراچی کے دوسرے اسٹورز پر بھی دست یاب ہے۔
انداز بیاں اور
صفحات : 271،ناشر: مشرق و مغرب پبلی کیشنز ، بریڈ فورڈ یوکے
زندگی میں کامیابیوں اور کامرانیوں کی سیڑھیاں سب ہی چڑھنا چاہتے ہیں مگر اس میں کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو ذہانت اور ایمانداری کے ساتھ محنت اور لگن کو اپناتے ہیں ۔ لارڈ نذیر احمد نے سکول کی سطح سے ہی اپنی ذہانت و قابلیت کا لوہا منوا لیا تھا ، کالج کے زمانے میں سٹوڈنٹ پالیٹکس میں قدم رکھا اور سٹوڈنٹ یونین کے صدر منتخب ہو گئے ، اپنی جرات اور بے باکی وجہ سے وہ طالب علموں میں بہت مقبول ہوئے ۔ یوں سیاست میں قدم رکھنے کی ابتدا ہوئی۔ اس کے بعد لیبر پارٹی میں سرگرم اور متحرک کردار ادا کیا اور مختلف مدارج طے کرتے ہوئے برطانیہ کے سب سے بڑے ایوان ہائوس آف لارڈز کے ممبر بنے۔ اس کتاب میں لارڈ نذیر احمد کے انٹرویوز کے علاوہ ان کی اہم تقریریں اور تحریریں مرتب کی گئی ہیں۔لارڈ نذیر نے اپنے ان انٹرویوز ، تقریروں اور تحریروں میں مختلف اہم قومی اور عالمی ایشوز ، معاملات اور تنازعات پر اپنا موقف ٹھوس دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے، دلائل میں مہارت ان کا خاصہ ہے، حقوق سے محروم افراد کے لئے آواز اٹھاکر انھوں نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی ۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنی زندگی کی کہانی بھی سنائی ہے جس سے ان کا عزم و ہمت عیاں ہوتا ہے۔ مجلدکتاب کو خوبصورت رنگین تصاویر سے مزین کیا گیا ہے۔
امریکی دہشت گردی۔ تاریخ اور اثرات
مرتب : میر بابر مشتاق،قیمت:330 روپے،ناشر: عثمان پبلی کیشنز' گلشن اقبال، کراچی
زیر نظر کتاب امریکی ظلم و بربریت اور ریا ستی دہشت گردی اور زیر دست ملکوں پرجابرانہ تسلط اور ان کے معاشی اور سماجی استحصال کے بارے میں چھپنے والے مضامین اور مقالو ں پر مشتمل ہے جن میں امریکی دہشت گردی کی تاریخ، اس کے مختلف انداز' امریکی دہشت گرد تنظیموں'پاکستان، عراق اور افغانستان میں امریکی دہشت گردی و بمباری ' امریکی فوجی خواتین پر جنسی تشددکی تمام تر تفصیلات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سی آئی اے کی مذموم سرگرمیوں اور امریکی سازشوں کے بارے میں چشم کشا واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ بہتر ہوتا اگر کتاب میں شامل تمام مضامین کے ساتھ مستند حوالے بھی دئیے جاتے، اس طرح کتاب کے اعتبار اور قبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا۔ بہرحال اپنے نفس مضمون اور حقائق کے سبب یہ کتاب پسند کی جائے گی۔ پروف کی کچھ خامیاں رہ گئی ہیں۔ کتاب کا پیش لفظ امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے تحریر کیا ہے۔ کتاب کا سرورق دیدہ زیب ہے۔ قیمت کچھ زیادہ ہے اگر قیمت مناسب کردی جائے تو قاری کا بھلا ہوجائے گا۔ مجموعی طور پر یہ ایک عمدہ کا وش ہے بالخصوص تاریخ کے طالب علموں کے لئے۔ مرتب میر بابر مشتاق ایک پرجوش لکھاری ہیں۔ زیرنظرکتاب سے پہلے ان کی دیگر متعدد کتابیں بھی لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہیں۔امید ہے کہ یہ کتاب بھی پسند کی جائے گی۔
گلیوں کے لوگ (ناول)
مصنف: اقبال حسن خان
ناشر: بزمِ تخلیقِ ادب پاکستان، پوسٹ بکس 17667، کراچی
صفحات: 271،قیمت: 400 روپے
اردو زبان میں داستان کی اہمیت سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ ناول آتے آتے یہ روایت نسبتاً کمزور پڑ گئی۔ اہم اردو ناول نگاروں میں چند ہی نام ہیں جو انگلیوں کی پوروں پر یاد رکھے جا سکتے ہیں۔ انہی میں سے ایک اقبال حسن خان ہیں جن کی ناول نگاری میں بہت وسیع امکانات موجود ہیں۔ جب آپ ,,شہزادے کی سرگزشت''،''آخرِ شب'' اور زیر نظر ناول دیکھتے ہیں تو تینوں کی موضوعات میں خاصا تنوع نظر آتا ہے، جو کہانی کی اٹھان اور بعد میں بنت کے ساتھ ساتھ نبھایا گیا ہے۔ جہاں تک اس ناول میں موجود مختلف زبانیں بولنے والے کرداروں اور ان کے محاورے کا تعلق ہے، تو صاحبو! اس پُلِ صراط پر سے ہمیں اقبال صاحب بخوبی گزرتے دکھائی دیتے ہیں، بلکہ یہ کہیں تو بے جا نہ ہو گا کہ ہر کردار ایک جیتا جاگتا، باتیں کرتا ہوا ذی نفس دکھائی دیتا ہے۔
اس ناول کی مجموعی فضا میں آزادیت (مولانا ابوالکلام آزاد کا فلسفہ) جھلکتی نظر آتی ہے، بلکہ کئی مقامات پر تو ان کی جامع مسجد دہلی میں کی گئی تقریر بہت یاد آئی۔ مذہبی اختلافات کو جس طریقے سے اس دور میں ہوا دی گئی اور اس کے نتیجے میں جو مظاہر سامنے آئے، اس ناول نے ان کا بہت خوب صورتی سے احاطہ کیا ہے۔ قاری کا مصنف کی آرا سے اتفاق ہو یا نہ ہو لیکن ناول کا آہنگ اتنا دل کش اور سادہ ہے کہ وہ اسے مکمل پڑھے اور اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں چھوڑے گا۔
''گلیوں کے لوگ'' ہمارے سیاسی، مذہبی اور معاشرتی زوال کی ایک ایسی داستان ہے جو Pluralismسے ہوتے ہوئے ایک متشددانہ اور Intolerent معاشرے کی صورت میں آج ہمیں درپیش ہے۔ ہمیں اس نہج پر پہنچانے والے سارے کردار، ملک سرفراز، مولانا عماد الدین، پتن خان وغیرہ کی صورت میں ہمارے سامنے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں، لیکن اصل میں یہ کہانی شکنتلا، بسم اﷲ جان اور کامریڈ صفدر جیسے گلیوں میں گھومتے پھرتے عام انسانوں کی ہے جن کی حالت زار علامہ اقبال نے اپنے ایک مصرع میں بڑی صراحت سے بیان کر دی ہے کہ
؎اے کُشتۂ سلطانی و مُلائی و پیری
اقبال حسن خان کی کہانی لکھنے کی Baptisچوںکہ ٹیلی ویژن سے ہوئی ہے (وہ متعدد کام یاب ٹی وی ڈرامے اور سیریلز تخلیق کر چکے ہیں) اس لیے وہ کہانی لکھتے وقت لکھاری کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ تبھی تو ''گلیوں کے لوگ'' کا قاری محض قاری نہیں رہتا بلکہ ناظر بھی بن جاتا ہے۔
اس ناول کے پڑھنے کا تجربہ پاکستان کی تاریخ پہ ایک خوبصورت ڈکومینٹری دیکھنے سے کم نہیں ہے اور ڈکومینٹری بھی ایسی کہ جس کی انگریزی میں یوں تعریف کی گئی ہے:
It is a creative interpretation of actualityفرانسیسی مصنف تونگی شغیغ(Henri Charriere)اپنی سوانح عمری (Papilon)میں قید تنہائی کے تجربے کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ قید تنہائی کے دوران آدمی جو سوچتا ہے، اسے دیکھ بھی سکتا ہے۔ اقبال حسن کی Visualizationیہ بتاتی ہے کہ اُنہوں نے زندگی کی 'قید تنہائی' کاٹ رکھی ہے۔ اسی لیے ان کی منظر نگاری، سرسری نہیں (جو کہ اپنے ارد گرد کو محض دیکھنے سے آتی ہے) بلکہ ایسی ہے کہ جو اپنے اطراف کو محسوس کرنے اور برتنے سے انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے ۔
''گلیوں کے لوگ'' پڑھنے کے بعد محسوس ہوا کہ اب ہمارے لیے آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ ہم چھیاسٹھ سال پیچھے جائیں اور اپنی آزادی کا سفر کا کراچی کے اس ریلوے کلرک سے دوبارہ شروع کریں!
دیدہ زیب ٹائٹل اور عمدہ طباعت والی اس کتاب کو بزم تخلیق کراچی نے چھاپا ہے اور یہ بک ہوم کے علاوہ کراچی کے دوسرے اسٹورز پر بھی دست یاب ہے۔