بلدیاتی انتخابات اور سیاسی جماعتیں

پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جاری کر دیے گئے ہیں اور ان سے کاغذات کی ...

صوبائی حکومتیں سپریم کورٹ کی مقرر کردہ تاریخ کے اندر بلدیاتی انتخابات کرانے پر قطعی رضا مند نہیں تھیں۔ فوٹو فائل

پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جاری کر دیے گئے ہیں اور ان سے کاغذات کی وصولی کا کام بھی آج سے شروع کر دیا گیا ہے جب کہ بلوچستان میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ پنجاب میں 7دسمبر کو بلدیاتی انتخابات ہوں گے اور 10دسمبر کو سرکاری نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے بلدیاتی الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بلدیاتی الیکشن مختصر مدت میں کرانے کے لیے رضامند نہ تھیں حتی کہ 7نومبر کو قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن جماعتیں تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر ایک ہو گئیں اور بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے کے لیے متفقہ قرارداد منظور کرا لی۔ قرار داد میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی تاریخوں پر بلدیاتی انتخابات کرانا مشکل ہے' سارا عمل تیزی سے مکمل کیا گیا تو انتخابات غیر شفاف ہوں گے' عجلت کا عمل نتائج پر اثر انداز ہو گا۔

صوبائی حکومتیں سپریم کورٹ کی مقرر کردہ تاریخ کے اندر بلدیاتی انتخابات کرانے پر قطعی رضا مند نہیں تھیں۔ سیاسی جماعتوں نے انتخابات کی تاریخ بڑھانے کے لیے بہتیرا واویلا کیا اور کوشش کی کہ سپریم کورٹ انھیں بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کے لیے مزید وقت دے دے مگر عدالت عظمیٰ نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا جس پرصوبائی حکومتیں مقررہ مدت میں انتخابات کرانے پر مجبور ہو گئیں مگر انھوں نے اس کے انعقاد کے لیے ابھی تک مناسب تیاری نہیںکی اور یہ شور بلند کیا جا رہا ہے کہ اگر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد عجلت میں کیا گیا تو یہ غیر شفاف ہوں گے' انتخابی عمل اور انتخابی نتائج مشکوک ہو جائیں گے۔پنجاب اور سندھ میں انتخابی تیاریوں کا یہ عالم ہے کہ کاغذات نامزدگی جاری تو کر دیے گئے ہیں مگر چھپائی کا عمل مکمل نہ ہونے کے باعث امیدواروں کو عارضی طور پر فارمز کی فوٹو کاپیاں فراہم کی گئی ہیں تاکہ وہ اسے پڑھ کر تفصیلات سمجھ لیں' الیکشن کمیشن سے اپنا اور تجویز کنندہ و تائید کنندہ کے ووٹرز رجسٹریشن سرٹیفکیٹ حاصل کر لیں۔ سندھ میں صورتحال تو بہت خراب رہی اور شیڈول کا پہلا روز شدید بدنظمی کا شکار رہا' کاغذات نامزدگی کی چھپائی ہفتے کو مکمل نہ ہونے کے باعث کسی بھی ضلع میں کاغذات نامزدگی نہ پہنچ سکے اور امیدواروں کو اصل فارم فراہم نہیں کیے جا سکے۔

اخباری خبر کے مطابق پنجاب کے شہر بوریوالہ میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول محض انٹرنیٹ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ انٹرنیٹ ہی پر ریٹرننگ آفیسرز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن اور کاغذات نامزدگی جاری کر دیے گئے مگر دفاتر میں فارم موجود نہیںتھے۔ جب سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر ذمے داری عائد ہوتی تھی کہ وہ جمہوری عمل کے ثمرات گراس روٹ لیول تک پہنچانے کے لیے بلدیاتی انتخابات کی تیاری شروع کر دیتیں مگر اس کے بجائے انھوں نے حتی الامکان کوشش کی کہ بلدیاتی انتخابات کی تاریخ کو جتنا آگے بڑھایا جا سکتا ہے بڑھا دیا جائے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتیں ہی عوام کے بنیادی سطح کے مسائل بلدیاتی ارکان کے ذریعے حل کرانے میں دلچسپی نہیں رکھتیں اور وہ بلدیاتی ارکان کو اختیارات دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں کیونکہ انھیں خطرہ ہے کہ مقامی سطح پر ان کے مدمقابل حکومتیں قائم ہو جائیں گی جس سے ان کے اثر و نفوذ میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔


یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے کے لیے قومی اسمبلی کا فلور تک استعمال کیا مگر ان کی سپریم کورٹ کے حکم کے سامنے پیش نہ چلی۔ اس طرح انھوں نے اچھا خاصا وقت انتخابات کی تیاریوں کے بجائے ان کا التوا کرانے کی کوشش میں ضایع کیا۔ اب جب وفاقی اور صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کرانے پر مجبور ہو گئی ہیں تو انھوں نے بدنظمی اور دھاندلی کا شور مچانا شروع کر دیا ہے۔ یہ انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہو رہے ہیں جس کا واضح مطلب ہے کہ اس میں مسلم لیگ ن' پیپلز پارٹی' تحریک انصاف' ق لیگ' اے این پی' جماعت اسلامی' ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتیں حصہ لیں گی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت وفاق اور پنجاب میں ہے' پیپلز پارٹی کی سندھ میں منتخب حکومت ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان تجربہ کار اور کئی کئی بار انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں۔ اب ایسی تجربہ کار سیاسی جماعتیں انتخابات کے غیر شفاف ہونے کا واویلا کیوں مچا رہی ہیں۔ جب الیکشن انھیں جماعتوں نے لڑنا ہے تو پھر دھاندلی کون کرے گا۔

کیا سرحد پار سے کوئی آ کر جعلی ووٹ بھگتائے گا' کیا طالبان بندوق کی نوک پر بیلٹ بکس تبدیل کر دیں گے؟ آخر دھاندلی کرے گا کون؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوںکو ایک دوسرے پربھروسہ نہیں بلکہ وہ حکومت کے کردار کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں دھاندلی کا شور مچانے کے بجائے انتخابات کا انعقاد شفاف بنانے کے لیے کوشش کریں۔ یہ ان کے امتحان کا وقت ہے وہ ثابت کریں کہ وہ واقعی ملک چلانے کی صلاحیت رکھتی ہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کی ہمیشہ نااہلی اور باہمی چپقلش نے ہی مارشل لا کی راہ ہموار کی ہے۔ حیرت انگیز امر ہے کہ آمرانہ دور میں تو بلدیاتی انتخابات منعقد ہوتے رہے اور انھیں سیاسی جماعتوں کے ارکان ان انتخابات میں حصہ لیتے رہے مگر جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات کرانے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات سول انتظامیہ کی نگرانی میں ہوں گے۔ پنجاب کے 36 اضلاع کے ڈی سی اوز کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے بلدیاتی امیدواروں کے لیے فیس اور انتخابی اخراجات مقرر کر دیے ہیں۔ الیکشن کمیشن انتخابی اخراجات کی حد تو مقرر کر دیتا ہے مگر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ انتخابی امیدوار کبھی اس حد کا خیال نہیں رکھتے اور اپنی جیت ہر صورت یقینی بنانے کے لیے حد سے کئی گنا رقم خرچ کرتے ہیں۔ گوشوارے جمع کراتے وقت بھی اپنی جائیداد اور دولت چھپائی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ انتخابی اخراجات اور گوشواروں کے معاملے پر اپنی مقرر کردہ حدود پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ اب سیاسی جماعتیں انتخابات کے نتائج مشکوک قرار دینے کا واویلا مچانے کے بجائے انھیں منصفانہ بنانے پر اپنی صلاحیتیں صرف کریں کیونکہ انتخابی نتائج کو مشکوک اور غیر شفاف قرار دے کر اسے تسلیم نہ کرنے کی روش سے نت نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ نتیجتاً جمہوری عمل کو نقصان پہنچے گا اور عوام کا سیاسی جماعتوں پر رہا سہا اعتماد بھی اٹھ جائے گا۔
Load Next Story