موسم اور محرم
لیجیے اب تو جاڑا سچ مچ آ گیا۔ جو آخری شرط تھی وہ بھی پوری ہو گئی۔ وہ یہ کہ جاڑا جم کر تو اسی وقت آئے گا...
لیجیے اب تو جاڑا سچ مچ آ گیا۔ جو آخری شرط تھی وہ بھی پوری ہو گئی۔ وہ یہ کہ جاڑا جم کر تو اسی وقت آئے گا جب ایک چھینٹا پڑ جائے۔ لیجیے چھینٹا بھی پڑ گیا اور واقعی اس کے بعد تو سردی چمک اٹھی۔ اور جن لوگوں نے ابھی تک اپنے جاڑے کے کپڑے ٹرنک سے نہیں نکالے تھے انھوں نے بھی ہار کر ٹال کا رخ کیا اور لکڑیوں کا ڈھیر تک تلوا کر لے آئے۔ سوچا کہ اب تو چھینٹا بھی پڑ گیا۔ اب سردی کیا بہانہ بنا کر لیت و لعل کرے گی۔ اب تو وہ آوے ہی آوے تو لو لکڑیاں تو گھر میں آ گئیں۔ تھوڑا کوئلہ بھی خرید لیں گے۔ آخر انگیٹھی گھر میں جلے گی یا نہیں جلے گی۔ تو اب بیشک جاڑے جگ جگ آئیں ہم اس کے خیر مقدم کے لیے تیار ہیں۔ بلکہ ہم نے تو نظیرؔ اکبر آبادی کی نظم جاڑے کی بہاریں' کو کلیات سے ٹٹول کر وہاں نشان لگا دیا ہے۔ مگر پہلے ناصر کاظمی کا شعر سن لیجیے ؎
پھر جاڑے کی رت آئی
چھوٹے دن اور لمبی رات
ویسے تو ہم ہر موسم ہی کا کھلے دل سے استقبال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جاڑے' گرمی' برسات' ہر موسم ہی کا استقبال کرتے ہیں۔ شروع میں تو ہر موسم سہانا ہی نظر آتا ہے لیکن جب رفتہ رفتہ اپنا رنگ نکالتا ہے اور ہماری قوت برداشت کو آزمانا شروع کرتا ہے تب ہمیں موسم کے مکر کا اور اپنی اوقات کا پتہ چلتا ہے۔ جتنی یہ بات گرمی اور برسات کے بارے میں درست ہے اتنی ہی جاڑے کے سلسلے میں بھی درست ہے مگر نظیرؔ کے دل کو جاڑا تب ہی بھاتا ہے جب وہ اپنے جوبن پر آتا ہے ؎
جب ماہ اگھن کا ڈھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور ہنس ہنس پوس سنبھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
دن جلدی جلدی چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
پالا بھی برف پگھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
پِالا خم ٹھونک اچھلتا ہو' تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ع
ہر دانت چنے سے دلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
لو ہم تو یہ سن کر ابھی سے تھر تھر کانپنے لگے۔ ایسا جاڑا نظیرؔ ہی کو مبارک ہو۔ آدمی ہو یا موسم جب تک حد اعتدال میں رہے تب تک ہی اچھا لگتا ہے۔ انتہا پسندی جہاں بھی ہو اور کسی بھی معاملہ میں ہو ہمیں نہیں بھاتی۔ ارے پھر وہ موسم تھوڑا ہی ہوتا ہے' موسم کی طرف سے خودکش حملہ ہوتا ہے کیونکہ اس کے بعد تو پھر موسم کے بھی دن گن جاتے ہیں۔ جب موسم اتنا زور دکھاتا ہے تو پھر اس کے بعد اس کا زور ٹوٹنے میں دیر نہیں لگتی۔
خیر اس وقت تو ذکر جاڑے کے موسم کا ہے اور ہاں یہ بھی عجب ہوا کہ جاڑا اور محرم ساتھ ساتھ شروع ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایک انمل ہے کیونکہ تاریخی اعتبار سے جاڑے اور محرم کا کوئی میل نہیں ہے۔ واقعہ کربلا کیسے موسم میں گزرا تھا یہ میر انیسؔ سے پوچھو۔ بقول شاعر صورت یہ تھی ع
بھن جاتا تھا دانہ بھی جو گرتا تھا زمیں پر
ذرا پورا نقشہ دیکھیے ؎
ٹکراتے تھے جب کوہ تو اڑتے تھے شرارے
چلتے تھے درختوں پہ غم و درد کے آرے
جو کھیت لہکتے تھے وہ مُرجھائے تھے سارے
اور لوٹتی تھیں مچھلیاں دریا کے کنارے
دانے کا نہ تھا ہوش پرندوں کو جہاں میں
چوپائے نہ منہ ڈالتے تھے آب رواں میں
ہمارے بچپن سے ایسے محرم یاد گار ہیں جب وہ سخت گرمیوں کے موسم میں آتے تھے۔ سو جب سبیلیں لگتی تھیں اور بچوں بڑوں کو شربت پلایا جاتا تھا اور عقب میں یہ شعر سرخ سفید یا سیاہ پٹی پر لہراتا نظر آتا تھا کہ ؎
پانی پیو تو یاد کرو پیاس امام کی
پیاسو یہ ہے سبیل شہیدوں کے نام کی
تو واقعی وہ لگتا تھا کہ وہی کربلا والے محرم ہیں اور پھر ٹھنڈے میٹھے شربت سے لبریز کوزہ ہمیں کچھ سے کچھ نظر آنے لگتا تھا۔ اور عاشور کے دن اگر تپتی دوپہر میں لُو چل پڑتی اور گلیوں بازاروں میں خاک اڑنے لگتی تو ہمیں لگتا کہ سچ مچ وہی یوم عاشور ہے اور وہی ویرانی ہے جس نے اس دن کربلا میں ڈیرا کیا تھا۔
ہمارے لڑکپن میں محرم جاڑے کے موسم میں بھی آئے تو تھے مگر ان محرموں کا کوئی منظر ہماری فضائے یاد میں محفوظ نہیں ہے۔ محرم جب جاڑوں میں آتے ہیں تو محرمی فضا آدھی رہ جاتی ہے۔ آدھی جاڑے پالے میں ضم ہو جاتی ہے مگر خیر اس سلسلہ میں سوچنا پڑے گا۔
ہاں ذکر اس جاڑے کا تھا جس نے ابھی ابھی نمود کی ہے اور موسم کے پہلے چھینٹے کے پڑنے پر اپنی چمک دکھائی ہے۔ ہر موسم اپنے میوے' اپنے پھل' اپنی غذائیں ساتھ لے کر آتا ہے لیکن اب تو موسموں کے ساتھ ایک موسم مستقل چل رہا ہے۔ مہنگائی کا موسم۔ سو ہر موسم اپنے پھلوں' میووں' سبزیوں ترکاریوں اور اپنی غذائوں کے ساتھ مہنگائی کا بھی نیا نسخہ لے کر آتا ہے۔ لو اس پر ہمیں پھر نظیرؔ یاد آ گیا اور نظیرؔ کے ساتھ تل کے لڈو؎
رکھ خوانچے کو سر پر پیکار یوں پکارا
بادام بھونا چابو' اور کرکرا چھوہارا
جاڑا لگے تو اس کا کرتا ہوں میں اجارا
جس کا کلیجہ یارو سردی نے ہووے مارا
نو دام کے وہ مجھ سے لے جائے تِل کے لڈو
مگر اب تل کا لڈو عنقا ہے۔ اسے بھول جائیے اور ریوڑی گزک کے ذائقہ کو جانیے اور ہونٹ چاٹئے
اور ہاں سارے موسم باہر ہی تھوڑا ہی ہوتے ہیں۔ آدمی کے اندر بھی موسم اپنا رنگ دکھاتے رہتے ہیں۔ سو بیشک وہ کڑکڑاتے جاڑے ہوں مگر جب شہر میں گلی گلی کوچے کوچے سے یاحسین یاحسین کی صدائے درد ناک بلند ہو رہی ہو اور ایسا ایسا مصرعہ سنائی دے رہا ہوع
پانی پیو تو یاد کرو پیاس امام کی
تو جاڑے میں گرمی کے موسم کا سماں بندھ جاتا ہے اور یہ سارا سماں سوگواروں کے اندر اتر کر انھیں کربلا کی گرمی کے تجربے سے دوچار کر دیتا ہے؎
وہ لو وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ سے دن کا مثال شب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
مطلب یہ کہ محرم تو محرم ہی رہے گا گرمی ہو' جاڑے ہوں' برسات ہو۔ محرم اپنا موسم ساتھ لے کر آتا ہے۔ وہ باہر کے موسموں کا مرہون منت نہیں۔ باہر کا موسم اس سے ہم آہنگ ہو تو سبحان اللہ ورنہ محرم کا اپنا موسم تو ہے ہی۔
پھر جاڑے کی رت آئی
چھوٹے دن اور لمبی رات
ویسے تو ہم ہر موسم ہی کا کھلے دل سے استقبال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جاڑے' گرمی' برسات' ہر موسم ہی کا استقبال کرتے ہیں۔ شروع میں تو ہر موسم سہانا ہی نظر آتا ہے لیکن جب رفتہ رفتہ اپنا رنگ نکالتا ہے اور ہماری قوت برداشت کو آزمانا شروع کرتا ہے تب ہمیں موسم کے مکر کا اور اپنی اوقات کا پتہ چلتا ہے۔ جتنی یہ بات گرمی اور برسات کے بارے میں درست ہے اتنی ہی جاڑے کے سلسلے میں بھی درست ہے مگر نظیرؔ کے دل کو جاڑا تب ہی بھاتا ہے جب وہ اپنے جوبن پر آتا ہے ؎
جب ماہ اگھن کا ڈھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور ہنس ہنس پوس سنبھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
دن جلدی جلدی چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
پالا بھی برف پگھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
پِالا خم ٹھونک اچھلتا ہو' تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ع
ہر دانت چنے سے دلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
لو ہم تو یہ سن کر ابھی سے تھر تھر کانپنے لگے۔ ایسا جاڑا نظیرؔ ہی کو مبارک ہو۔ آدمی ہو یا موسم جب تک حد اعتدال میں رہے تب تک ہی اچھا لگتا ہے۔ انتہا پسندی جہاں بھی ہو اور کسی بھی معاملہ میں ہو ہمیں نہیں بھاتی۔ ارے پھر وہ موسم تھوڑا ہی ہوتا ہے' موسم کی طرف سے خودکش حملہ ہوتا ہے کیونکہ اس کے بعد تو پھر موسم کے بھی دن گن جاتے ہیں۔ جب موسم اتنا زور دکھاتا ہے تو پھر اس کے بعد اس کا زور ٹوٹنے میں دیر نہیں لگتی۔
خیر اس وقت تو ذکر جاڑے کے موسم کا ہے اور ہاں یہ بھی عجب ہوا کہ جاڑا اور محرم ساتھ ساتھ شروع ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایک انمل ہے کیونکہ تاریخی اعتبار سے جاڑے اور محرم کا کوئی میل نہیں ہے۔ واقعہ کربلا کیسے موسم میں گزرا تھا یہ میر انیسؔ سے پوچھو۔ بقول شاعر صورت یہ تھی ع
بھن جاتا تھا دانہ بھی جو گرتا تھا زمیں پر
ذرا پورا نقشہ دیکھیے ؎
ٹکراتے تھے جب کوہ تو اڑتے تھے شرارے
چلتے تھے درختوں پہ غم و درد کے آرے
جو کھیت لہکتے تھے وہ مُرجھائے تھے سارے
اور لوٹتی تھیں مچھلیاں دریا کے کنارے
دانے کا نہ تھا ہوش پرندوں کو جہاں میں
چوپائے نہ منہ ڈالتے تھے آب رواں میں
ہمارے بچپن سے ایسے محرم یاد گار ہیں جب وہ سخت گرمیوں کے موسم میں آتے تھے۔ سو جب سبیلیں لگتی تھیں اور بچوں بڑوں کو شربت پلایا جاتا تھا اور عقب میں یہ شعر سرخ سفید یا سیاہ پٹی پر لہراتا نظر آتا تھا کہ ؎
پانی پیو تو یاد کرو پیاس امام کی
پیاسو یہ ہے سبیل شہیدوں کے نام کی
تو واقعی وہ لگتا تھا کہ وہی کربلا والے محرم ہیں اور پھر ٹھنڈے میٹھے شربت سے لبریز کوزہ ہمیں کچھ سے کچھ نظر آنے لگتا تھا۔ اور عاشور کے دن اگر تپتی دوپہر میں لُو چل پڑتی اور گلیوں بازاروں میں خاک اڑنے لگتی تو ہمیں لگتا کہ سچ مچ وہی یوم عاشور ہے اور وہی ویرانی ہے جس نے اس دن کربلا میں ڈیرا کیا تھا۔
ہمارے لڑکپن میں محرم جاڑے کے موسم میں بھی آئے تو تھے مگر ان محرموں کا کوئی منظر ہماری فضائے یاد میں محفوظ نہیں ہے۔ محرم جب جاڑوں میں آتے ہیں تو محرمی فضا آدھی رہ جاتی ہے۔ آدھی جاڑے پالے میں ضم ہو جاتی ہے مگر خیر اس سلسلہ میں سوچنا پڑے گا۔
ہاں ذکر اس جاڑے کا تھا جس نے ابھی ابھی نمود کی ہے اور موسم کے پہلے چھینٹے کے پڑنے پر اپنی چمک دکھائی ہے۔ ہر موسم اپنے میوے' اپنے پھل' اپنی غذائیں ساتھ لے کر آتا ہے لیکن اب تو موسموں کے ساتھ ایک موسم مستقل چل رہا ہے۔ مہنگائی کا موسم۔ سو ہر موسم اپنے پھلوں' میووں' سبزیوں ترکاریوں اور اپنی غذائوں کے ساتھ مہنگائی کا بھی نیا نسخہ لے کر آتا ہے۔ لو اس پر ہمیں پھر نظیرؔ یاد آ گیا اور نظیرؔ کے ساتھ تل کے لڈو؎
رکھ خوانچے کو سر پر پیکار یوں پکارا
بادام بھونا چابو' اور کرکرا چھوہارا
جاڑا لگے تو اس کا کرتا ہوں میں اجارا
جس کا کلیجہ یارو سردی نے ہووے مارا
نو دام کے وہ مجھ سے لے جائے تِل کے لڈو
مگر اب تل کا لڈو عنقا ہے۔ اسے بھول جائیے اور ریوڑی گزک کے ذائقہ کو جانیے اور ہونٹ چاٹئے
اور ہاں سارے موسم باہر ہی تھوڑا ہی ہوتے ہیں۔ آدمی کے اندر بھی موسم اپنا رنگ دکھاتے رہتے ہیں۔ سو بیشک وہ کڑکڑاتے جاڑے ہوں مگر جب شہر میں گلی گلی کوچے کوچے سے یاحسین یاحسین کی صدائے درد ناک بلند ہو رہی ہو اور ایسا ایسا مصرعہ سنائی دے رہا ہوع
پانی پیو تو یاد کرو پیاس امام کی
تو جاڑے میں گرمی کے موسم کا سماں بندھ جاتا ہے اور یہ سارا سماں سوگواروں کے اندر اتر کر انھیں کربلا کی گرمی کے تجربے سے دوچار کر دیتا ہے؎
وہ لو وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ سے دن کا مثال شب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
مطلب یہ کہ محرم تو محرم ہی رہے گا گرمی ہو' جاڑے ہوں' برسات ہو۔ محرم اپنا موسم ساتھ لے کر آتا ہے۔ وہ باہر کے موسموں کا مرہون منت نہیں۔ باہر کا موسم اس سے ہم آہنگ ہو تو سبحان اللہ ورنہ محرم کا اپنا موسم تو ہے ہی۔