بھارت و افغانستان خوش کیوں
حیرت خیز واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ایک کے بعد دوسری اعصاب شکن مصیبت ہمارے خلاف گھات لگائے...
حیرت خیز واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ایک کے بعد دوسری اعصاب شکن مصیبت ہمارے خلاف گھات لگائے بیٹھی نظر آتی ہے۔ افغانستان پر قابض سوویت روس کی شکست، جس میں پاکستان نے مرکزی کردار ادا کیا، کے بعد یہ سوچا گیا تھا کہ اب ہمیں ہوس پرست ''ریچھ'' سے نجات مل گئی ہے لیکن دل کی خواہشیں دل ہی میں رہ گئیں۔ افغانستان کی خانہ جنگی اور افغان وار لارڈز، جو کبھی خود کو فخریہ مجاہدین اسلام کہا کرتے تھے، نے اپنے ہاتھوں اپنا ملک تباہ کر دیا۔ لاریب اس تباہی میں وہ مغربی طاقتیں بھی برابر کی فریق تھیں تاہم ملا محمد عمر کے طالبان کی فاش غلطیوں اور عاقبت نااندیشیوں کی وجہ سے امریکا بھی بدقسمت افغانستان پر حملہ آور ہوا۔
تباہی کی جو کسر روسیوں سے رہ گئی تھی وہ امریکا نے پوری کر دی۔ اس کے انتہائی خوفناک اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے جن کا ہم اب تک بھگتان بھگت رہے ہیں۔ پاکستان نے تو اخوت کے جذبے کے تحت افغانستان کو ہر قسم کی امداد فراہم کی تھی لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ جذبہ اخوت ہی ہمارے لیے عذاب بن جائے گا۔ جب دنیا میں کوئی بھی طالبان حکومت کو کوئی تسلیم نہیں کر رہا تھا، پاکستان ا س کے ساتھ کھڑا تھا۔ گزشتہ تین عشروں سے پاکستان نے افغان حکمرانوں اور افغانوں پر جتنی مہربانیاں کیں، بدقسمتی سے تمام افغان حکمرانوں بشمول طالبان حکومت، سب نے ہمارے احسانات فراموش کر دیے۔ حتیٰ کہ آج کا افغان حکمران، مسٹر کرزئی، جو مدتوں کوئٹہ اور اسلام آباد میں پاکستان کی مہربانی اور میزبانی سے لطف اندوز ہوتا رہا، آج وہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔
افغانستان میں پاکستان کے خلاف بھارتی ''را'' اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں صدر کرزئی کے کھیلنے کا آج بھی سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے پاکستان کے سب سے بڑے دہشت گرد، جس کے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے رکھی گئی ہے، کو افغانستان میں پناہ دے رکھی ہے۔ افغان حکمران اور افغان خفیہ ایجنسی (NDS) اس شخص کی نہ صرف سرپرستی کر رہی ہے بلکہ اسے اور اس کے دہشت گرد ساتھیوں کو ہر قسم کی امداد بھی فراہم کی جا رہی ہے تا کہ وہ پاکستان کی سر زمین، پاکستان آرمی، پاکستانی عوام کے خلاف کارروائیاں کر سکیں۔ اس شخص کا نام ملا فضل اللہ ہے جسے 2009 میں افواج پاکستان نے سوات میں شکست دی تھی اور یہ فرار ہو کر افغانستان جا چھپا تھا۔ جب سے ملا فضل اللہ افغان حکمرانوں، افغان انٹیلی جنس ایجنسی (NDS) اور افغانستان میں بروئے کار بھارتی ایجنسیوں کی سرپرستی میں آیا ہے، پاکستان کے خلاف اس کی کارروائیاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔
اس کی دیدہ دلیری ملاحظہ کیجیے کہ گذشتہ ماہ جب سوات میں متعین جی او سی میجر جنرل ثناء اللہ نیازی اپنے ایک کرنل اور ایک جوان ساتھی سمیت، دیر بالا میں، شہید کیے گئے تو ملا فضل اللہ نے فوری طور پر ویڈیو فلم کے ذریعے ساری دنیا کو بتایا کہ یہ خونی واردات اس نے کروائی ہے۔ بلکہ اس نے واضح الفاظ میں یہ بھی اعلان کیا کہ ہم سپہ سالار پاکستان جنرل کیانی کو بھی اسی طرح ہدف بنائیں گے۔ افغانستان میں حکیم اللہ محسود کے دست راست لطف اللہ محسود نے گرفتاری کے بعد جو حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں، ان سے بھی یہ واضح ہوا ہے کہ جنرل ثناء اللہ نیازی کی شہادت میں کابل اور نئی دہلی کا تعاون بھی شامل تھا۔ افغان حکمران بھارتی ''را'' کے زیر اثر آ چکے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان کی طرف سے افغانستان سے بار بار مطالبہ کیا جاتا ہے کہ فضل اللہ کو ہمارے حوالے کیا جائے تو اس مطالبے پر کان دھرنے سے صاف انکار کر دیا جاتا ہے۔ بھارت خوب جانتا ہے کہ افغان حکمرانوں کو استعمال کر کے پاکستان کو پریشانی میں کیسے مبتلا رکھا جا سکتا ہے۔ اہل پاکستان اس ضمن میں بجا طور پر اس شک کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ ملا فضل اللہ کو پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے میں افغانستان، بھارت اور امریکا ایکا کر چکے ہیں۔ حکیم اللہ محسود کے امریکیوں کے ہاتھوں قتل کے بعد پاکستان میں جو سیاسی جماعتیں اور سیاستدان نیٹو سپلائی بند کرنے کا اعلان کر رہے ہیں، اسے کاؤنٹر کرنے کے لیے امریکا آگے بڑھ کر بھارت اور افغانستان کو استعمال کرنے کی شرارت بھی کر سکتا ہے۔ بھارت اور افغانستان امریکی خوشنودی کی خاطر ملا فضل اللہ ایسے ڈیکلئرڈ دہشت گرد کو پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہی ہے کہ حکیم اللہ محسود کے قتل کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے اسی خونخوار ملا فضل اللہ، جسے کبھی ملا ریڈیو بھی کہا جاتا رہا ہے، کو اپنا امیر منتخب کیا ہے۔ افغانستان اور بھارت ملا فضل اللہ کے تقرر پر یقینا خوش ہیں۔ اس کے کئی ثبوت ہیں۔ مثال کے طور پر فضل اللہ کو امیر مقرر کرنے کے لیے ٹی ٹی پی کی جس سترہ رکنی شوریٰ کا اجلاس ہوا، یہ اجتماع افغانستان میں ہوا ہے۔ فضل اللہ کے تقرر پر بھارت اور افغانستان کیوں خوش ہیں، اس کے لیے ایک مثال اور دی جا سکتی ہے۔ سوات میں افواج پاکستان کے ''راہ راست'' نامی آپریشن کے بعد تحریک طالبان پاکستان اور ملا فضل اللہ کے جو 23 جنگجو ساتھی زخمی حالت میں گرفتار ہوئے، انھوں نے انکشاف کیا تھا کہ سوات میں پاکستان کے خلاف لڑنے کے لیے انھیں بھارتی ''را'' اور افغان ''این ڈی ایس'' کے ذریعے ہر قسم کی امداد ملتی رہتی تھی۔
البتہ اس سلسلے میں ممتاز محقق اخبار نویس اور دو شاندار کتابوں کے مصنف جناب عامر میر کا یہ انکشاف سب کو حیران کر گیا ہے کہ ملا فضل اللہ کے تقرر میں افغان طالبان کے رہنما ملا محمد عمر نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے لیے استدلال دیتے ہوئے عامر میر صاحب کا یہ کہنا ہے کہ حکیم اللہ محسود کے قتل کے بعد شمالی و جنوبی وزیرستان کے دو افراد نے خود کو امیر تحریک طالبان پاکستان بننے کے لیے تیار کر لیا تھا، چنانچہ ٹی ٹی پی کو تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کے لیے ملا عمر نے مداخلت کر کے ایک غیر محسود شخص ملا فضل اللہ کو امیر بنوا دیا اور اس کا نائب بھی غیر وزیرستانی اور غیر محسود ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر ''گڈ طالبان'' کا تصور (جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے حمایتی ہیں) اور ملا عمر کی پاکستان سے دوستی بھی عام پاکستانیوں کے دلوں میں مشکوک بن جائے گی۔
خدا نہ کرے ایسا ہو ۔ ایسا ہونے سے یہ تصور بھی ابھرے گا کہ فضل اللہ اور ملا عمر ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ فضل اللہ تو ظاہر باہر سے افغانستان اور بھارت کی آشیرواد لیے ہوئے ہے۔ تو کیا ملا عمر بھی؟ نہیں نہیں۔ پاکستان کبھی اپنے اثاثے یوں پانی کی نذر نہیں ہونے دے گا۔ اب یہ بات تیقن سے کہی جا سکتی ہے کہ ملا فضل اللہ کے تقرر اور بھارت و افغان خفیہ اداروں کے باہمی تعاون سے پاکستان، افواج پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے مسائل اور مصائب میں اضافہ ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ فضل اللہ کا تقرر اس امر کا بھی واضح ثبوت ہے کہ پاکستان کے خلاف غیر ملکی مداخلتیں بڑھ گئی ہیں۔ چونکہ ہمارے حکمران اپنے ذاتی معاملات سنوارنے میں مگن ہیں اور سیاسی عدم استحکام بڑ ھ گیا ہے، ایسے میں غیر ممالک کے خفیہ اداروں کو وطن عزیز میں نقب لگانے کے مواقعے بھی آسانی سے دستیاب ہو رہے ہیں۔ دوسرا المیہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے خلاف غیر ملکی مداخلتوں کے بارے میں ہمارے حکمران اور ہمارے میڈیا کا مجموعی رویہ معذرت خواہانہ ہے۔ ہمیں ادراک ہی نہیں ہو رہا کہ ملا فضل اللہ کو امریکا، بھارت اور افغانستان کس کس شکل میں پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ اس گمبھیر صورتحال میں ہمارے حکمرانوں اور ہمارے خفیہ اداروں کی ذمے داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ حکیم اللہ محسود کے امریکیوں کے ہاتھوں قتل کے بعد ، خدا نہ کرے کہ ہم آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک جائیں۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔
تباہی کی جو کسر روسیوں سے رہ گئی تھی وہ امریکا نے پوری کر دی۔ اس کے انتہائی خوفناک اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے جن کا ہم اب تک بھگتان بھگت رہے ہیں۔ پاکستان نے تو اخوت کے جذبے کے تحت افغانستان کو ہر قسم کی امداد فراہم کی تھی لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ جذبہ اخوت ہی ہمارے لیے عذاب بن جائے گا۔ جب دنیا میں کوئی بھی طالبان حکومت کو کوئی تسلیم نہیں کر رہا تھا، پاکستان ا س کے ساتھ کھڑا تھا۔ گزشتہ تین عشروں سے پاکستان نے افغان حکمرانوں اور افغانوں پر جتنی مہربانیاں کیں، بدقسمتی سے تمام افغان حکمرانوں بشمول طالبان حکومت، سب نے ہمارے احسانات فراموش کر دیے۔ حتیٰ کہ آج کا افغان حکمران، مسٹر کرزئی، جو مدتوں کوئٹہ اور اسلام آباد میں پاکستان کی مہربانی اور میزبانی سے لطف اندوز ہوتا رہا، آج وہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔
افغانستان میں پاکستان کے خلاف بھارتی ''را'' اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں صدر کرزئی کے کھیلنے کا آج بھی سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے پاکستان کے سب سے بڑے دہشت گرد، جس کے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے رکھی گئی ہے، کو افغانستان میں پناہ دے رکھی ہے۔ افغان حکمران اور افغان خفیہ ایجنسی (NDS) اس شخص کی نہ صرف سرپرستی کر رہی ہے بلکہ اسے اور اس کے دہشت گرد ساتھیوں کو ہر قسم کی امداد بھی فراہم کی جا رہی ہے تا کہ وہ پاکستان کی سر زمین، پاکستان آرمی، پاکستانی عوام کے خلاف کارروائیاں کر سکیں۔ اس شخص کا نام ملا فضل اللہ ہے جسے 2009 میں افواج پاکستان نے سوات میں شکست دی تھی اور یہ فرار ہو کر افغانستان جا چھپا تھا۔ جب سے ملا فضل اللہ افغان حکمرانوں، افغان انٹیلی جنس ایجنسی (NDS) اور افغانستان میں بروئے کار بھارتی ایجنسیوں کی سرپرستی میں آیا ہے، پاکستان کے خلاف اس کی کارروائیاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔
اس کی دیدہ دلیری ملاحظہ کیجیے کہ گذشتہ ماہ جب سوات میں متعین جی او سی میجر جنرل ثناء اللہ نیازی اپنے ایک کرنل اور ایک جوان ساتھی سمیت، دیر بالا میں، شہید کیے گئے تو ملا فضل اللہ نے فوری طور پر ویڈیو فلم کے ذریعے ساری دنیا کو بتایا کہ یہ خونی واردات اس نے کروائی ہے۔ بلکہ اس نے واضح الفاظ میں یہ بھی اعلان کیا کہ ہم سپہ سالار پاکستان جنرل کیانی کو بھی اسی طرح ہدف بنائیں گے۔ افغانستان میں حکیم اللہ محسود کے دست راست لطف اللہ محسود نے گرفتاری کے بعد جو حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں، ان سے بھی یہ واضح ہوا ہے کہ جنرل ثناء اللہ نیازی کی شہادت میں کابل اور نئی دہلی کا تعاون بھی شامل تھا۔ افغان حکمران بھارتی ''را'' کے زیر اثر آ چکے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان کی طرف سے افغانستان سے بار بار مطالبہ کیا جاتا ہے کہ فضل اللہ کو ہمارے حوالے کیا جائے تو اس مطالبے پر کان دھرنے سے صاف انکار کر دیا جاتا ہے۔ بھارت خوب جانتا ہے کہ افغان حکمرانوں کو استعمال کر کے پاکستان کو پریشانی میں کیسے مبتلا رکھا جا سکتا ہے۔ اہل پاکستان اس ضمن میں بجا طور پر اس شک کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ ملا فضل اللہ کو پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے میں افغانستان، بھارت اور امریکا ایکا کر چکے ہیں۔ حکیم اللہ محسود کے امریکیوں کے ہاتھوں قتل کے بعد پاکستان میں جو سیاسی جماعتیں اور سیاستدان نیٹو سپلائی بند کرنے کا اعلان کر رہے ہیں، اسے کاؤنٹر کرنے کے لیے امریکا آگے بڑھ کر بھارت اور افغانستان کو استعمال کرنے کی شرارت بھی کر سکتا ہے۔ بھارت اور افغانستان امریکی خوشنودی کی خاطر ملا فضل اللہ ایسے ڈیکلئرڈ دہشت گرد کو پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہی ہے کہ حکیم اللہ محسود کے قتل کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے اسی خونخوار ملا فضل اللہ، جسے کبھی ملا ریڈیو بھی کہا جاتا رہا ہے، کو اپنا امیر منتخب کیا ہے۔ افغانستان اور بھارت ملا فضل اللہ کے تقرر پر یقینا خوش ہیں۔ اس کے کئی ثبوت ہیں۔ مثال کے طور پر فضل اللہ کو امیر مقرر کرنے کے لیے ٹی ٹی پی کی جس سترہ رکنی شوریٰ کا اجلاس ہوا، یہ اجتماع افغانستان میں ہوا ہے۔ فضل اللہ کے تقرر پر بھارت اور افغانستان کیوں خوش ہیں، اس کے لیے ایک مثال اور دی جا سکتی ہے۔ سوات میں افواج پاکستان کے ''راہ راست'' نامی آپریشن کے بعد تحریک طالبان پاکستان اور ملا فضل اللہ کے جو 23 جنگجو ساتھی زخمی حالت میں گرفتار ہوئے، انھوں نے انکشاف کیا تھا کہ سوات میں پاکستان کے خلاف لڑنے کے لیے انھیں بھارتی ''را'' اور افغان ''این ڈی ایس'' کے ذریعے ہر قسم کی امداد ملتی رہتی تھی۔
البتہ اس سلسلے میں ممتاز محقق اخبار نویس اور دو شاندار کتابوں کے مصنف جناب عامر میر کا یہ انکشاف سب کو حیران کر گیا ہے کہ ملا فضل اللہ کے تقرر میں افغان طالبان کے رہنما ملا محمد عمر نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے لیے استدلال دیتے ہوئے عامر میر صاحب کا یہ کہنا ہے کہ حکیم اللہ محسود کے قتل کے بعد شمالی و جنوبی وزیرستان کے دو افراد نے خود کو امیر تحریک طالبان پاکستان بننے کے لیے تیار کر لیا تھا، چنانچہ ٹی ٹی پی کو تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کے لیے ملا عمر نے مداخلت کر کے ایک غیر محسود شخص ملا فضل اللہ کو امیر بنوا دیا اور اس کا نائب بھی غیر وزیرستانی اور غیر محسود ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر ''گڈ طالبان'' کا تصور (جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے حمایتی ہیں) اور ملا عمر کی پاکستان سے دوستی بھی عام پاکستانیوں کے دلوں میں مشکوک بن جائے گی۔
خدا نہ کرے ایسا ہو ۔ ایسا ہونے سے یہ تصور بھی ابھرے گا کہ فضل اللہ اور ملا عمر ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ فضل اللہ تو ظاہر باہر سے افغانستان اور بھارت کی آشیرواد لیے ہوئے ہے۔ تو کیا ملا عمر بھی؟ نہیں نہیں۔ پاکستان کبھی اپنے اثاثے یوں پانی کی نذر نہیں ہونے دے گا۔ اب یہ بات تیقن سے کہی جا سکتی ہے کہ ملا فضل اللہ کے تقرر اور بھارت و افغان خفیہ اداروں کے باہمی تعاون سے پاکستان، افواج پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے مسائل اور مصائب میں اضافہ ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ فضل اللہ کا تقرر اس امر کا بھی واضح ثبوت ہے کہ پاکستان کے خلاف غیر ملکی مداخلتیں بڑھ گئی ہیں۔ چونکہ ہمارے حکمران اپنے ذاتی معاملات سنوارنے میں مگن ہیں اور سیاسی عدم استحکام بڑ ھ گیا ہے، ایسے میں غیر ممالک کے خفیہ اداروں کو وطن عزیز میں نقب لگانے کے مواقعے بھی آسانی سے دستیاب ہو رہے ہیں۔ دوسرا المیہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے خلاف غیر ملکی مداخلتوں کے بارے میں ہمارے حکمران اور ہمارے میڈیا کا مجموعی رویہ معذرت خواہانہ ہے۔ ہمیں ادراک ہی نہیں ہو رہا کہ ملا فضل اللہ کو امریکا، بھارت اور افغانستان کس کس شکل میں پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ اس گمبھیر صورتحال میں ہمارے حکمرانوں اور ہمارے خفیہ اداروں کی ذمے داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ حکیم اللہ محسود کے امریکیوں کے ہاتھوں قتل کے بعد ، خدا نہ کرے کہ ہم آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک جائیں۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔