مرثیہ اور جدید تقاضے
مرثیہ اصناف شاعری میں وہ واحد صنف ہے جو تمام اصناف کا مجموعہ کہی جاسکتی ہے بلکہ بعض نثری اصناف کی ...
مرثیہ اصناف شاعری میں وہ واحد صنف ہے جو تمام اصناف کا مجموعہ کہی جاسکتی ہے بلکہ بعض نثری اصناف کی خصوصیات بھی اس میں پائی جاتی ہیں۔ مرثیہ اگرچہ ایک قدیم صنف ادب ہے اور دنیا کی تقریباً ہر زبان میں مرثیہ کسی نہ کسی صورت میں پایا جاتا ہے۔ مرثیے کے لیے اگرچہ کوئی خاص ہیئت مخصوص نہیں یہ ایک مسلسل نظم ہے۔ مرثیہ کا موضوع خاصا وسیع ہے، کسی المناک حادثے، کسی ملک، شہر کی بربادی و تباہی، کسی دور حکومت کے خاتمے، کسی عظیم ہستی کے انتقال، حق و باطل کے درمیان کشمکش، غرض زندگی کے تمام المناک پہلوئوں پر جو اظہار غم و الم کیا جائے گا، وہ مرثیہ کہلائے گا۔ مرثیے کی ایک اہم خصوصیت اس کا پاکیزہ و مقدس موضوع ہے۔ اس میں کسی قسم کے نیچ اور سفلی خیالات پیش کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہ تو ہوا مرثیے کا عمومی جائزہ، اب آتے ہیں اردو مرثیے کی طرف۔ اردو مرثیہ دنیا کی تمام زبانوں کے مرثیوں سے کئی طرح منفرد اور مختلف ہے، برصغیر میں مرثیہ کا موضوع مخصوص ہے جو کہ واقعہ کربلا اور اس کے مختلف پہلوئوں اور کرداروں پر مشتمل ہے۔ اردو میں مرثیہ اس نظم کو کہتے ہیں (عموماً) جس میں سید الشہداء امام حسینؓ اور ان کے رفقاء کے کردار اور کارناموں کو پیش کیا جائے۔ یوں تو اردو ادب میں مرثیے کے عمومی معنوں میں بھی مرثیے ملتے ہیں مثلاً مرثیہ دلی وغیر، مگر جس نظم کو مرثیہ کے نام سے مخصوص کیا گیا ہے وہ واقعات کربلا ہی پر مشتمل ہے۔
مرثیہ اردو شاعری کی عام اصناف کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں غزل کا تغزل، نظم کی روانی، داستان کا تسلسل، حمد و نعت کے مقدس پہلو کے علاوہ رزمیہ کیفیت اور نثر میں ڈرامے کی خصوصیات یا یوں کہہ لیجیے کہ منظوم ڈرامے کی اہم خصوصیت کشمکش کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ یعنی مرثیے میں جذبات نگاری، منظرکشی، مکالمہ، کردار نگاری اور خیر و شر کے درمیان کشمکش کو بڑے موثر اور دلکش انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس صنف سخن نے اردو ادب میں رزمیہ شاعری کی کمی کو نہ صرف پورا کیا بلکہ حد کمال تک پہنچا دیا۔ مرثیہ نگار شعرا میں یوں تو کئی دکنی شعرا کے نام بھی لیے جاتے ہیں لیکن دکن میں مرثیے نے کوئی خاص مقام حاصل نہیں کیا، مرثیہ نے حقیقی ترقی شمالی ہند میں کی، اہم نام ان میں سودا کا ہے۔ مگر اس صنف کو مکمل اوج اور کمال انیس و دبیر کے دور میں حاصل ہوا۔ ہیئت کے اعتبار سے مسدس مرثیے کے لیے سب سے اہم قرار دی گئی۔
اتنے معتبر شعرا نے مرثیہ کو مرحلہ وار اس مقام تک پہنچایا جس کو مزید آگے بڑھانے میں میر ببر علی، انیس اور مرزا دبیر کی کاوشوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ لیکن مرثیے کا آغاز سودا اور دبیر سے قبل ہوچکا تھا کیونکہ سودا ہی نے میاں مسکین مرثیہ گو کا ذکر بھی کیا ہے۔ میر صاحب، میر حسن، میر خلیق کے علاوہ میر ضمیر کے نام مرثیہ نگاری میں اہمیت کے حامل ہیں۔
اردو مرثیہ نگاری کا مقصد دراصل دینی اخلاقی اقدار کا فروغ ہے، ہم اس کو مختصراً یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مرثیہ اصل میں حق و باطل سے آگاہی کی صنف ہے جس کا موضوع امام حسینؓ اور یزید کے درمیان صحرائے کربلا میں ہونے والی جنگ ہے، جس میں امام حسینؓ کی شہادت کے بعد بظاہر یزید کو فتح ہوئی لیکن حقیقتاً حضرت امام حسینؓ کو فتح دائمی نصیب ہوئی اور یوں ہمیشہ کے لیے حق و باطل کا فرق واضح ہوگیا۔
میر انیس اور مرزا دبیر کے مطالعے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ان دونوں حضرات نے مرثیہ میں انسان کے پاکیزہ جذبات، اعلیٰ اخلاقی اقدار، زندگی اور معاشرت کے تمام اہم پہلوئوں کو دلکش و موثر انداز میں پیش کرکے ایسی شاعرانہ فضا پیدا کی ہے کہ حقیقی اسلامی اقدار اور کردار کے دلکش مرقعے مجسم ہوگئے ہیں۔ معاشرتی زندگی کے تمام پہلو بے حد واضح ہیں، مثلاً بندگیٔ رب اور اطاعت الٰہی، وفاداری، شجاعت و جوانمردی، شرافت، رشتوں کا اقدام، امام عالی مقام کی پیروی، بزرگوں کا ادب، چھوٹے پر شفقت، ناموس رسالتؐ کے مقام سے آگاہی وغیرہ۔ اس کے علاوہ معاشرے میں جہاں صاحب ایمان اور پر خلوص و اطاعت گزار بندے ہوتے ہیں اسی میں ظالم، بدکردار، حرص و ہوس کے غلام اور اﷲ تعالیٰ کے نافرمان بھی موجود ہوتے ہیں، لہٰذا لشکر یزید میں اسی طرح کے کرداروں کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ غرض یہ کہ مرثیہ میں ایسی فضا پیدا کی جاتی ہے کہ معاشرے کے اعلیٰ کردار و اقدار نہ صرف سامنے آتے ہیں بلکہ باطل پرستوں کے چہرے بھی بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ مرثیے کے ذریعے اصلاح معاشرے کی بہترین کوشش کی جاتی ہے۔
اس صنف ادب کے تناظر میں جب ہم آج مسلم ممالک بالخصوص وطن عزیز کی ثقافتی تہذیبی اور اخلاقی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ادب، شعر و شاعری بلکہ تمام فنون لطیفہ سے رو گردانی کرکے ہم نے جو نقصان کیا ہے اس کا ازالہ اسی صورت ممکن ہے کہ ہم تعلیمی اداروں میں اردو کی بگڑتی صورتحال پر فوری توجہ دیں، کیونکہ ادب اور ادیب ہی کسی معاشرے کو متوازن رکھتے ہیں۔ ہمارے درمیان جو حق گوئی و حق پرستی کا فقدان ہے آج ہمارا دین ایمان اخلاق جھوٹ دھوکا، فریب حرص و ہوس، ہمارا خدا دولت ہے، اس کی اصل وجہ ادب کو فضول اور غیر ضروری گرداننا ہے۔ موجودہ حالات میں مرثیہ جیسی صنف ادب کے فروغ کی جتنی ضرورت ہے اتنی شاید پہلے کبھی نہ تھی، بلکہ مرثیہ کہنے والوں کو بھی شاید اس کی اہمیت کا اتنا اندازہ نہ ہوگا۔ مگر آج ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ مرثیے میں جو فضا معاشرتی واخلاقی اقدار کی، اعلیٰ کرداروں کے ذریعے حق گوئی اطاعت الٰہی، اطاعت و عبادت گزاری کی پیدا کی گئی ہے، ایمان و ایقان کی اصل روح، حق و باطل میں تمیز کے جو مظاہرے پیش کیے گئے ہیں وہ ہماری گرتی ہوئی اخلاقی اقدار اور مٹتی ہوئی تہذیب کو نہ صرف سنبھال سکتی ہے بلکہ ہمیں ایک بار پھر زندہ قوم کے طور پر نمایاں کرسکتی ہے۔ اردو نصاب کے ہر درجے میں مرثیہ کو ضرور شامل کرنا چاہیے۔ اساتذہ مرثیہ پڑھاتے ہوئے موضوع اور فضا کو طالب علم کو اچھی طرح ذہن نشین کرانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔
جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ کافی حد تک تشنہ اور نامکمل ہے کیونکہ یہ موضوع ایک کالم کا نہیں بلکہ ایک کتاب کا متقاضی ہے۔ مرثیے کے تمام اجزا و عناصر پر پوری طرح روشنی نہیں ڈالی گئی ہے اور پھر ہر موضوع کے لیے بطور مثال اشعار دیے بغیر بھی نامکمل ہونے کا احساس ہوتا ہے لیکن جگہ کی تنگی کے باعث اس تشنگی کو برداشت کیجیے۔
مرثیہ اردو شاعری کی عام اصناف کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں غزل کا تغزل، نظم کی روانی، داستان کا تسلسل، حمد و نعت کے مقدس پہلو کے علاوہ رزمیہ کیفیت اور نثر میں ڈرامے کی خصوصیات یا یوں کہہ لیجیے کہ منظوم ڈرامے کی اہم خصوصیت کشمکش کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ یعنی مرثیے میں جذبات نگاری، منظرکشی، مکالمہ، کردار نگاری اور خیر و شر کے درمیان کشمکش کو بڑے موثر اور دلکش انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس صنف سخن نے اردو ادب میں رزمیہ شاعری کی کمی کو نہ صرف پورا کیا بلکہ حد کمال تک پہنچا دیا۔ مرثیہ نگار شعرا میں یوں تو کئی دکنی شعرا کے نام بھی لیے جاتے ہیں لیکن دکن میں مرثیے نے کوئی خاص مقام حاصل نہیں کیا، مرثیہ نے حقیقی ترقی شمالی ہند میں کی، اہم نام ان میں سودا کا ہے۔ مگر اس صنف کو مکمل اوج اور کمال انیس و دبیر کے دور میں حاصل ہوا۔ ہیئت کے اعتبار سے مسدس مرثیے کے لیے سب سے اہم قرار دی گئی۔
اتنے معتبر شعرا نے مرثیہ کو مرحلہ وار اس مقام تک پہنچایا جس کو مزید آگے بڑھانے میں میر ببر علی، انیس اور مرزا دبیر کی کاوشوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ لیکن مرثیے کا آغاز سودا اور دبیر سے قبل ہوچکا تھا کیونکہ سودا ہی نے میاں مسکین مرثیہ گو کا ذکر بھی کیا ہے۔ میر صاحب، میر حسن، میر خلیق کے علاوہ میر ضمیر کے نام مرثیہ نگاری میں اہمیت کے حامل ہیں۔
اردو مرثیہ نگاری کا مقصد دراصل دینی اخلاقی اقدار کا فروغ ہے، ہم اس کو مختصراً یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مرثیہ اصل میں حق و باطل سے آگاہی کی صنف ہے جس کا موضوع امام حسینؓ اور یزید کے درمیان صحرائے کربلا میں ہونے والی جنگ ہے، جس میں امام حسینؓ کی شہادت کے بعد بظاہر یزید کو فتح ہوئی لیکن حقیقتاً حضرت امام حسینؓ کو فتح دائمی نصیب ہوئی اور یوں ہمیشہ کے لیے حق و باطل کا فرق واضح ہوگیا۔
میر انیس اور مرزا دبیر کے مطالعے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ان دونوں حضرات نے مرثیہ میں انسان کے پاکیزہ جذبات، اعلیٰ اخلاقی اقدار، زندگی اور معاشرت کے تمام اہم پہلوئوں کو دلکش و موثر انداز میں پیش کرکے ایسی شاعرانہ فضا پیدا کی ہے کہ حقیقی اسلامی اقدار اور کردار کے دلکش مرقعے مجسم ہوگئے ہیں۔ معاشرتی زندگی کے تمام پہلو بے حد واضح ہیں، مثلاً بندگیٔ رب اور اطاعت الٰہی، وفاداری، شجاعت و جوانمردی، شرافت، رشتوں کا اقدام، امام عالی مقام کی پیروی، بزرگوں کا ادب، چھوٹے پر شفقت، ناموس رسالتؐ کے مقام سے آگاہی وغیرہ۔ اس کے علاوہ معاشرے میں جہاں صاحب ایمان اور پر خلوص و اطاعت گزار بندے ہوتے ہیں اسی میں ظالم، بدکردار، حرص و ہوس کے غلام اور اﷲ تعالیٰ کے نافرمان بھی موجود ہوتے ہیں، لہٰذا لشکر یزید میں اسی طرح کے کرداروں کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ غرض یہ کہ مرثیہ میں ایسی فضا پیدا کی جاتی ہے کہ معاشرے کے اعلیٰ کردار و اقدار نہ صرف سامنے آتے ہیں بلکہ باطل پرستوں کے چہرے بھی بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ مرثیے کے ذریعے اصلاح معاشرے کی بہترین کوشش کی جاتی ہے۔
اس صنف ادب کے تناظر میں جب ہم آج مسلم ممالک بالخصوص وطن عزیز کی ثقافتی تہذیبی اور اخلاقی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ادب، شعر و شاعری بلکہ تمام فنون لطیفہ سے رو گردانی کرکے ہم نے جو نقصان کیا ہے اس کا ازالہ اسی صورت ممکن ہے کہ ہم تعلیمی اداروں میں اردو کی بگڑتی صورتحال پر فوری توجہ دیں، کیونکہ ادب اور ادیب ہی کسی معاشرے کو متوازن رکھتے ہیں۔ ہمارے درمیان جو حق گوئی و حق پرستی کا فقدان ہے آج ہمارا دین ایمان اخلاق جھوٹ دھوکا، فریب حرص و ہوس، ہمارا خدا دولت ہے، اس کی اصل وجہ ادب کو فضول اور غیر ضروری گرداننا ہے۔ موجودہ حالات میں مرثیہ جیسی صنف ادب کے فروغ کی جتنی ضرورت ہے اتنی شاید پہلے کبھی نہ تھی، بلکہ مرثیہ کہنے والوں کو بھی شاید اس کی اہمیت کا اتنا اندازہ نہ ہوگا۔ مگر آج ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ مرثیے میں جو فضا معاشرتی واخلاقی اقدار کی، اعلیٰ کرداروں کے ذریعے حق گوئی اطاعت الٰہی، اطاعت و عبادت گزاری کی پیدا کی گئی ہے، ایمان و ایقان کی اصل روح، حق و باطل میں تمیز کے جو مظاہرے پیش کیے گئے ہیں وہ ہماری گرتی ہوئی اخلاقی اقدار اور مٹتی ہوئی تہذیب کو نہ صرف سنبھال سکتی ہے بلکہ ہمیں ایک بار پھر زندہ قوم کے طور پر نمایاں کرسکتی ہے۔ اردو نصاب کے ہر درجے میں مرثیہ کو ضرور شامل کرنا چاہیے۔ اساتذہ مرثیہ پڑھاتے ہوئے موضوع اور فضا کو طالب علم کو اچھی طرح ذہن نشین کرانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔
جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ کافی حد تک تشنہ اور نامکمل ہے کیونکہ یہ موضوع ایک کالم کا نہیں بلکہ ایک کتاب کا متقاضی ہے۔ مرثیے کے تمام اجزا و عناصر پر پوری طرح روشنی نہیں ڈالی گئی ہے اور پھر ہر موضوع کے لیے بطور مثال اشعار دیے بغیر بھی نامکمل ہونے کا احساس ہوتا ہے لیکن جگہ کی تنگی کے باعث اس تشنگی کو برداشت کیجیے۔